https://bachonkiweb.com - bachon ki web - بچوں کی ویب

شہیدِ پاکستان حکیم محمد سعید شہید

9جنوری : یوم پیدائش حکیم محمد سعید شہیدؒ کے حوالے سے ایک مفصل تحریر

تحریر: عاطف فاروق

یوں تو دنیا میں ہر روز کئی انسان پیدا ہوتے ہیں اور وفات پاتے ہیں لیکن کبھی کبھار کوئی ایسا شخص بھی دنیا سے اٹھ جاتا ہے ، جس کی باتوں کی خوشبو، سوچ کا نور اور اقوال کی سچائی رہتی دنیا تک باقی رہتی ہے ۔
حکیم محمد سعید شہیدؒ بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ایک تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں بے شمار خوبیوںاور صفات سے نوازا تھا۔ حکیم محمد سعیدؒ اخلاق کے آسمان پر آج بھی روشن ستارے کی حیثیت سے چمک رہے ہیں۔
حکیم محمد سعید شہیدؒ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ ہمدردی ، عاجزی و انکساری اور رحم دلی آپ کی فطرت کا خاصہ تھی۔ آپ ؒنے پاکستان اور پاکستان کی عوام کے لئے جو بے مثال خدمات سرانجام دی ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں ۔
آپؒ کا شمار اُن لوگوں میں ہوتا ہے جو پاکستان کو عظیم سے عظیم بنانا چاہتے تھے اوراس کے لئے آپؒ نے دن رات محنت کی۔ آپؒ پاکستان میں ایک ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتے تھے جس کے رہنے والے خدمتِ خلق کے جذبہ سے سرشار ہوں۔ آپؒ کا ماٹو تھا ’’پاکستان سے محبت کرو، پاکستان کی تعمیر کرو۔‘‘ آپ ؒساری عمر محبت ، دوستی ، بھائی چارے اور امن کا درس دیتے رہے ۔ آپؒ بہت دوراندیش اور بہادر انسان تھے ۔ جذبۂ خدمت خلق آپؒ میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہواتھا ۔ آپؒ کام ، کام اور صرف کام کے قائل تھے۔ آپؒ کو آرام کی خواہش تھی اور نہ ہی آپؒدولت اور شہرت کے خواہش مند تھے بلکہ آپؒ کو صرف پاکستان ، پاکستانی عوام اور بچوں سے محبت تھی ۔ آپؒ پاکستان اور اس کی عوام کی خدمت بغیر کسی غرض اور لالچ کے کرتے تھے ۔ آپؒ اکثر کہتے تھے :
’’ جو شخص اللہ تعالیٰ کے بندوں سے پیار کرتا ہے اور ان کی خدمت بغیر کسی غرض اور لالچ کے کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ اسے عزت سے نوازتے ہیں ۔‘‘
حکیم محمد سعید شہیدؒ 9 جنوری 1920 ء کو بھارت کے مشہور شہر دہلی میں پیدا ہوئے۔ دہلی ایک عظیم اور تاریخی شہر ہے۔ یہ عظیم شہر صدیوں تک مسلمان حکمرانوں کا دارالخلافہ رہا تھا ۔ آپؒ کے والد محترم کا نام حکیم حافظ عبدالمجید اور والدہ کا نام رابعہ بیگم ہے ۔ جناب حکیم محمد سعیدؒ کے علاوہ چار بہن بھائی تھے۔ آپؒ کے والد محترم حکیم حافظ عبدالمجید 1922 ء کو خالق حقیقی سے جاملے ۔ اس وقت آپؒ کی عمر صرف اڑھائی سال تھی ۔
آپؒ نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی جس میں عربی اور فارسی کے درس بھی شامل تھے ۔ آپؒ نے پانچ برس کی عمر میں قرآن پاک ناظرہ ختم کرلیا ۔ پھر نو سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا ۔ حکیم محمد سعیدؒ نے اپنا بچپن دہلی میں ہی گزارا۔ پندرہ سال کی عمر میں آپؒ اردو پر خوب، انگریزی اچھی اور بڑی حد تک عربی اور فارسی پر قادر ہوگئے۔ آپؒ صحافی بننا چاہتے تھے۔ کھیلوں کے بارے میں آپؒ کہتے تھے کہ وہ کون سا کھیل ہے جو میں نے نہیں کھیلا۔ آپؒ کا پسندیدہ کھیل فٹ بال تھا جس میں آپ ؒ بڑی مہارت رکھتے تھے۔ اس کے علاوہ پہلوانی ، میڈمنٹن، سطرنج، گلی ڈنڈا، کبڈی ، کوہ پیمائی ، تاش اور پتنگ بازی بھی آپؒ کے پسندیدہ کھیل تھے۔ علاوہ ازیں آپؒ نے ایک مرتبہ موت کے گولے میں موٹر سائیکل بھی چلائی ۔
آپؒ کبوتر بازی اور گھڑسواری میں بھی کافی دلچسپی رکھتے تھے ۔ آپؒ نے 1936ء میں حکیم محمد اجمل خان کے طبیہ کالج میں داخلہ لیا۔ 1939 ء میں طبیہ کالج دہلی سے حکمت کی سند حاصل کی۔ 1939ء میں حکمت سے فارغ التحصیل ہوکر انگریزی کے ممتاز استاذ ممتاز حسین سے انگریزی زبان سیکھی۔ آپؒ کے بڑے بھائی حکیم عبدالمجید آپؒ سے بہت زیادہ پیار کرتے تھے۔ ان کا دہلی میں اپنا مطب تھا۔ اس کے علاوہ انہوں نے طب و حکمت پر ایک رسالہ ’’ہمدردِ صحت‘‘ بھی جاری کررکھا تھا جو 1932ء سے شائع ہورہاتھا۔
1940ء میں حکیم محمد سعیدؒ نے ’’ہمدردِ صحت‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ حکیم محمد سعیدؒ اپنے بڑے بھائی کے مطب میں اکثر جاتے رہتے تھے ۔ جوان ہوئے تو ان کے مطب میں آپؒ کی دلچسپی اور بھی بڑھ گئی ۔ مطب میں بیٹھے تو آپ نے تھوڑے ہی عرصے میں نسخہ نویسی اور دواسازی میں مہارت حاصل کرلی۔
1943ء میں آپؒ کی شادی آپ کی خالہ زاد نعمت بیگم سے ہوئی ۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان قائم ہوگیا۔ آپؒ کو پاکستان سے بہت محبت تھی۔ آپؒ کی بھی یہی خواہش تھی کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ ملک ہونا چاہیے جہاں وہ آزادی سے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزار سکیں ۔ پاکستان بننے کے بعد آپؒ نے فیصلہ کرلیا کہ پاکستان جاکر ہی زندگی بسر کریں گے۔
آپؒ اپنی تقدیر خود لکھنا چاہتے تھے۔ آپؒ پاکستان کی تعمیر میں اپنی توانائیاں صرف کرنا چاہتے تھے جس کے حصول کے لئے برصغیر کے مسلمان اور خود ان کے بزرگ جدوجہد کرتے رہے تھے۔ جب آپؒ نے پاکستان جانے کا فیصلہ کیا تو آپ کے بڑے بھائی حکیم عبدالمجید کو آپؒ کے اس فیصلے پر بہت تکلیف ہوئی کیونکہ وہ آپؒ سے ازحد محبت کرتے تھے ۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا:
’’ حکیم محمد سعیدؒ کا یہ فیصلہ میرے لئے بہت تکلیف دہ تھا لیکن میں اپنے بھائی پر فخر کرتا ہوں کہ اگر وہ یہ فیصلہ نہ کرتے تو آج اس بلند اور عظیم مرتبے پر فائز نہ ہوتے ۔‘‘
جناب حکیم محمد سعیدؒ 9 جنوری 1948ء کو ہجرت کرکے پاکستان پہنچے۔ آپؒ کی پاکستان سے محبت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب آپؒ پاکستان پہنچے تو بے سروسامانی کے عالم میں تھے جب کہ دہلی میں آپؒ کو ہر طرح کی سہولت میسر تھی ۔ وہاں آپؒ کا ادارہ ’’ہمدرد‘‘ بہت خوشحال اور مستحکم تھا۔ دہلی میں آپؒ شہزادوں جیسی زندگی بسرکررہے تھے ۔ لیکن پاکستان کے لئے آپؒ نے اپنا آرام ، آسائش اور سہولتیں سب کچھ قربان کردیا۔
آپؒ بھارت سے ہجرت کرکے کراچی پہنچے ۔ اس وقت کراچی پاکستان کا دارالخلافہ تھا۔ آپؒ نے کراچی پہنچتے ہی ایک کمرہ کرائے پر لیا اور اپنی بیوی کے زیورات بیچ کر ’’ادارہ ہمدرد‘‘ کی بنیاد رکھی۔ بعد ازاں آپؒ نے کراچی میں ’’ہمدرد‘‘ اور پھر ’’ہمدرد فائونڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ علاوہ ازیں کراچی میں ہی 1958ء میں ’’ہمدرد طبیہ کالج‘‘ قائم کیا ۔ اس کالج کا افتتاح مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے کیا تھا۔ جناب حکیم محمد سعیدؒ کے قائم کردہ یہ ادارے علم و ادب ، حکمت و طبابت ، اخلاقیات و دین کی جو خدمت کررہے ہیں، اس سے ہر کوئی اچھی طرح واقف ہے۔
آپؒ مشین کی طرح دن رات کام کرتے تھے ۔ علم و ادب اور حکمت کے فروغ کے لئے آپؒ نے بہت سے رسائل و جرائد کئے ۔ 1955ء میں ’’جریدہ ء ہمدرد‘‘ اور ’’خبرنامہ ہمدرد‘‘ جاری کئے ۔ جب کہ بعد میں ’’میڈیکل ٹائمز‘‘ سہ ماہی ’’ہمدرد میڈیکس‘‘ اور سہ ماہی ’’ہمدرد اسلامکس‘‘ بھی جاری کئے ۔ بالخصوص وطنِ عزیز کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت کے لئے کراچی سے آپؒ نے ایک خوبصورت رسالہ ’’ہمدردنونہال‘‘ جاری کیا ۔ ’’ہمدردِ نونہال‘‘ آپؒ کا روشن کیا ہوا چراغ اور بچوں سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اس کے علاوہ آپؒ نے بچوں کے لئے بیسیوں سفرنامے اور کتابیں بھی تحریر کیں ۔
آپؒ نے طب و صحت ، دین اسلام ، اسلامی ثقافت اور علم و ادب اور مختلف موضوعات پر قریباً ایک سو کتب تحریر کیں جبکہ مختلف موضوعات پر پانچ سو کے قریب مضامین لکھے۔ جو ملکی اور بین الاقوامی رسائل و جرائد میں شائع ہوئے ۔ جناب حکیم محمد سعیدؒ کا سب سے بڑا کارنامہ ’’مدینۃ الحکمت‘‘ کا قیام ہے ۔ جو اس زمین پر قائم کیا گیا ہے جہاں محمد بن قاسم خیمہ زن ہوئے تھے ۔ ’’مدینۃ الحکمت‘‘ قائم کرنے کے بعد آپؒ نے اگست 1983 میں 620 ایکڑ زمین خریدی ۔ بعد ازاں ’’مدینۃ الحکمت‘‘ میں ایک بہت لائبریری قائم کی گئی جس میں چار لاکھ سے زائد کتب رکھی گئیں ۔ یہ لائبریری دنیا کی عظیم لائبریریوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کے بعد ’’ہمدرد یونیورسٹی‘‘ کا چارٹر منظور ہوا۔ ہمدرد یونیورسٹی قائم ہونے کے بعد بہت زیادہ مشہور ہوگئی ۔ اس کو بھی اتنی ہی شہرت حاصل ہوئی جتنی کہ ’’مدینۃ الحکمت‘‘ کو حاصل ہوئی تھی۔ ورلڈ بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا :
’’ہمدرد یونیورسٹی ایک مکمل یونیورسٹی ہے ، یہاں ایک بچہ اگر پہلی جماعت میں داخلہ لیتا ہے تو وہ پی ایچ ڈی کرکے نکل سکتا ہے ۔‘‘
آٹھ سالوں میں ہمدرد یونیورسٹی سے تقریباً پانچ ہزار طالب علم فارغ ہوئے ۔
حکیم محمد سعیدؒ نے علم و ادب کے فروغ کے لئے جو خدمات انجام دیں ان کے عوض ملکی اور غیر ملکی حکومتوں نے آپ کو بہت سے اعزازات سے نوازا۔ آپ کو کئی ملک کے سربراہوں نے اپنے ملک آنے کی دعوت دی ۔ عظیم عہدے اور رُتبے سے نوازنے کی پیش کش کی لیکن آپؒ نے کسی ایسی پیشکش کو قبول نہ کیا ۔ آپؒ برملا فرمایا کرتے تھے : ’’ میں آج جو کچھ بھی ہوں پاکستان کی وجہ سے ہوں ، میں پاکستانیوں کی خدمت کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘
حکیم محمد سعیدؒ نے پاکستان کے لئے بہت کچھ کیا اور بہت کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن پاکستان میں وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے بحرانوں نے آپؒ کو بہت تنگ کررکھا تھا ۔ آپؒ ان بحرانوں کا ذمہ دار جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور منشیات فروشوں کو جانتے تھے ۔ آپؒ چاہتے تھے کہ حکومت ایسے لوگوں کے خلاف کاروائی کرے کیونکہ یہ ملکی دولت سمیٹ رہے تھے اور معاشرے کو تباہ و برباد کررہے تھے ۔ زندگی کے آخری ایام میں آپؒ نے ان لوگوں کے خلاف تقاریر بھی کیں۔ اس کے علاوہ آپؒ ان لوگوں کے بھی خلاف تھے جو اپنی دولت غیر ملکی بینکوں میں جمع کرواتے تھے ۔ ان تمام لوگوں کو آپؒ ملک کا دشمن قراردیتے تھے ۔
زندگی کی تمام سہولیات و آسائشات ہونے کے باوجود آپؒ نے زندگی بہت سادگی سے گزاری۔ اگر آپؒ چاہتے تو عیش و عشرت والی زندگی بھی گزارسکتے تھے لیکن آپؒ کی حالت یہ تھی کہ روزانہ صبح چار بجے اٹھ جاتے۔ صبح کے ناشتے میں سادہ پانی میں لیموں نچوڑ کر پیتے۔ چائے زندگی بھر نہ پی تھی ۔ دوپہر کے کھانے کے وقت دو مالٹے یا سنگترے کھاتے یا دو گلاس دودھ یا پھر کبھی صرف ایک انڈے پر ہی اکتفا کرتے تھے ۔ درمیان میں رات کے کھانے تک کچھ نہ کھاتے ۔ البتہ رات کو باقاعدہ کھانا کھاتے تھے ۔ مگر وہ بھی اعتدال کے ساتھ۔ آپ روزانہ اٹھارہ بیس گھنٹے کام کرنے کے عادی تھے ۔
حکیم محمد سعیدؒ بجا طور پر سمجھتے تھے کہ پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لانے کے لئے بچوں اور نوجوانوں کی صحیح معنوں میں تعلیم و تربیت کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ مستقبل میں انہوں نے ہی وطن کی باگ دوڑ سنبھالنی ہے اور آپؒ سمجھتے تھے کہ وطن کی صحیح معنوں میں خدمت وہی کرسکتا ہے جو تعلیم یافتہ اور باشعور ہو ۔ آپؒ اکثر یہ کہتے تھے کہ علم کے بغیر انسان ترقی نہیں کرسکتا، علم قومی اور روحانی ترقی کے لئے بھی ضروری ہے اور مادی ترقی کے لئے بھی ۔ وہی انسان اور وہی قومیں دنیا میں کامیاب اور خوشحال ہوئی ہیں جنہوں نے علم حاصل کیا اور اسے پھیلایا ۔
آپؒ کی آخری خواہش بھی یہی تھی : ’’ میں ایسے حال میں فرشتہ ء موت کا استقبال کرنا چاہتا ہوں کہ میری نظروں کے سامنے ’’ہمدرد سکول‘‘ اور ’’الفرقان‘‘ میں پانچ ہزار طالب علم زیور علم سے آراستہ ہورہے ہوں اور ’’ہمدرد یونیورسٹی‘‘ پورے امتیازات کے ساتھ ہزاروں نوجوانوں کو انسانِ کامل بنارہی ہو اور یہ نوجوان دنیا بھر میں مل کر آوازِ حق بلند کرنے کے لئے کمر باندھ رہے ہوں۔‘‘
بچوں اور بڑوں کے ہمدرد اورانسانیت کے اس محسن کو دہشت گردوں نے 17 اکتوبر1998ء کی صبح چھ بج کر تین منٹ پر ان کے آرام باغ کے مطب کے باہر گولیاں مار کر شہید کردیا؎
جو فصل لالہ و گل اپنے خون سے بوتے ہیں
ہمارے دیس میں ایسے ہی انساں قتل ہوتے ہیں
ہماری بدنصیبی کے سوا اور پھر یہ کیا ہے
جو ایسے نیک انسانوں کو پاتے اور کھوتے ہیں
حکیم محمد سعید شہیدؒ ایک سچے مسلمان اور عظیم پاکستانی تھے ۔ خدا آپؒ کو خلدِ بریں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہمیں آپؒ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار اداکرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔

اپنا تبصرہ لکھیں