اس عجیب و غریب ٹیسٹ نے طلبہ کو پریشان کردیا تھا۔ سوالیہ پرچے کے عین وسط میں ایک واضح سیاہ نقطہ لگا تھا اور آخر میں ہدایت درج تھی کہ سوالیہ پرچے میں آپ کو جو نظر آرہا ہے اس کے متعلق جوابی کاپی میں لکھیئے۔ ٹیسٹ کا مقررہ وقت ختم ہوا اور استاد صاحب نے جوابی پرچے وصول کرکے پڑھنا شروع کردئیے۔ تمام جوابی پرچے پڑھنے کے بعد وہ مسکرائے اور چشمہ اتارتے ہوئے بولے :
’’ اس ٹیسٹ کا مقصد آپ کو نمبرز یا گریڈ دینا نہیں بلکہ اسکے ذریعے میں آپکو ایک سوچ دینا چاہتا ہوں۔ سبھی طلبہ نے جوابی کاپی میں سیاہ نقطہ لکھا ہے لیکن جس بڑے سے سفید کاغذ پر یہ سیاہ نقطہ لگا ہوا ہے ، کسی نے اس کا ذکر تک نہیں کیا ۔ ہماری روزمرہ زندگی میں بھی ایسا ہی ہے جہاں ہم کسی شخص کی شخصیت کے مثبت پہلوئوں اور اچھائیوں یعنی سفید کاغذ کو نظر انداز کرکے اسی کی چند برائیوں یعنی سیاہ نقطوںکو اپنا مرکزومحور بنالیتے ہیں۔آئیے! آج سے اپنی سوچ کا محور وانداز بدلیں اور ہر کسی کی شخصیت کے سیاہ نقطے یعنی برائیاں و خامیاں نظر انداز کرکے اس کی شخصیت کے مثبت پہلوئوں اور اس کی اچھائیوں کو مرکزِ نگاہ بنائیں، دیکھ لیجئے گا ایسا کرنے سے آپ کی زندگی کتنی جلدی خوبصورت اور حسین ہوجائیگی۔‘‘