https://bachonkiweb.com - bachon ki web - بچوں کی ویب

اہم کام

تحریر: اُم افنان

پروفیسر جعفر حسین بڑے غصے سے اسکول میں داخل ہوئے اور سیدھے پرنسپل صاحب کے دفتر میں تشریف لے گئے ، ’’آپ مجھے اس بات کا جواب دیجئے کہ سب اساتذہ کو تنخواہ مل رہی ہے یا نہیں ؟ ‘‘
’’ مل رہی ہے۔‘‘ پرنسپل صاحب نے جواب دیا ۔
’’ بلائیں دوسرے اساتذہ کو بھی ۔‘‘ پروفیسر صاحب کے اصرار پر تمام اساتذہ کو پرنسپل کے دفتر میں بلالیا گیا ۔
’’ جی آپ سب سے بھی میرا ایک سوال ہے کہ کیا تم کو تنخواہ مل رہی ہے یا نہیں ؟‘‘ پروفیسر صاحب نے تمام اساتذہ سے دریافت کیا۔
’’ جی مل رہی ہے۔‘‘ سب نے یک زبان ہوکر جواب دیا ۔
’’ تو پھر کیا وجہ ہے کہ پوری تنخواہ ملنے پر بھی تمام اساتذہ اپنا کام پورا نہیں کررہے ۔‘‘ پروفیسر صاحب نے پرنسپل صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا ۔
’’سر ! تمام اساتذہ پوری توجہ سے بچوں کو پڑھا رہے ہیں اس لئے تو ہمارے سکول کا رزلٹ ہر بار اچھا آتا ہے۔‘‘ پرنسپل صاحب نے تمام اساتذہ کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا ۔
ضیاء ماڈل سکول شہر کا مشہور ترین اسکول تھا، اس اسکول کا نتیجہ ہر سال سو فیصد آتا تھا ، اکثر والدین اپنے بچوں کو اس اسکول میں داخل کرانے کی کوشش کرتے تھے مگر جگہ اور اسٹاف کی قلت کی وجہ سے کم تعداد میں داخلہ ممکن ہوتا تھا۔
اس اسکول کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ یہاں پر بچوں کو روز نبی اکرم ﷺ کی سنتوں کے بارے میں تاکید کی جاتی تھی، کچھ دنوں سے اساتذہ اس کام میں بہت سستی کررہے تھے جس کی وجہ سے پروفیسر صاحب غصے میں آکر سب اساتذہ سے مخاطب تھے ۔
’’ نہیں ، ہمارے اسکول کا سب سے اہم کام آپ لوگوں سے چھوٹ رہا ہے اگر یہ کام رہ گیا تو ہم کامیاب نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ہمارے اسکول میں پڑھنے والے بچے، اس لئے تو مجھے شکایات موصول ہورہی ہیں۔‘‘ پروفیسر صاحب نے سختی سے کہا ۔
’’ کیس شکایات سر ؟‘‘ پرنسپل صاحب سے استفسار کیا ۔
’’ یہی کہ اساتذہ کی سستی کی وجہ سے تمام بچے بھی سستی کا مظاہرہ کررہے ہیں ؟‘‘
’’ میرے خیال میں تو اساتذہ اور طلبہ اپنے کام پوری دلچسپی اور لگن سے کررہے ہیں ۔‘‘ پرنسپل صاحب نے صفائی دیتے ہوئے کہا ۔
’’ پرنسپل صاحب ! آپ ذرا باہر نظر دوڑائیے ، آپ کو سستی صاف نظر آجائے گی ۔‘‘ پروفیسر صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے پرنسپل صاحب کو باہر کا منظر دیکھنے کا اشارہ کیا جہاں بچے کھڑے ہوکر پانی پی رہے تھے ۔
’’ آپ نے درست نشاندہی کی ہے پروفیسر صاحب ! ، واقعی ہم انجانے میں بہت بڑی غلطی کررہے ہیں ۔‘‘ پرنسپل صاحب نے شرمندہ ہوتے ہوئے جواب دیا ۔
’’ اب تو یقینا آپ سب بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ سستی کہاں ہورہی ہے۔‘‘ اس بار پروفیسر صاحب نے اساتذہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔
’’ پروفیسر صاحب ! ہم معذرت خواہ ہیں ، ہم بھول گئے تھے کہ اساتذہ کا کام بچے کی تعلیم ہی نہیں بلکہ تربیت بھی ہے اور ہم آج سے عہد کرتے ہیں کہ ہم بچوں کی تعلیم و تربیت دونوں پر خصوصی توجہ دیں گے، ہم تقریباً دو ماہ سے بچوں کو اسمبلی یں کچھ نہیں بتارہے تھے اس لئے یہ بچے کھڑے ہوکر پانی پی رہے ہیں ، آپ ٹھیک کہتے ہیں ہم بھول گئے تھے ، پہلے ہر روز بچوں کو نبی اکرم ﷺ کی سنتوں کے بارے میں بتایا جاتا تھا کہ پانی بیٹھ کر پینا چاہیے، تین سانس میں پینا چاہیے، بسم اللہ پڑھ کر پینا چاہیے، پانی دیکھ کر پینا چاہیے اور پینے کے بعد الحمد للہ کہنا چاہیے ۔ پانچ وقت کی نمازوں کی پابندی کرنا ، صاف ستھرا رہنا ، ہر کام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا ، کپڑے پہنتے وقت کی دعا پڑھنا ، کھانا کھانے سے پہلے اور اختتام پر دعا پڑھنا اور اس کے علاوہ بہت سی باتیں جو ہمارے پیارے نبی اکرم ﷺ نے ہمیں سکھائی ہیں ، وہ سب بچوں کو اسمبلی میں بتائی جاتیں تھیں اور پھر باقاعدہ دوسرے دن بچوں سے سوال کیا جاتا تھا کہ کس کس بچے نے ان باتوں پر عمل کیا ہے۔‘‘
یہی وہ اہم کام تھے جس کی وجہ سے پروفیسر صاحب سکول انتظامیہ پر غصہ ہورہے تھے ۔ تاہم اب سکول انتظامیہ کو احساس ہوچکا تھا اور وہ ارادہ کرچکے تھے کہ وہ آئندہ یہ اہم کام کبھی بھی نہیں بھولیں گے ۔

Tags:-
moral stories for kids in urdu
educational stories for kindergarten
moral stories for kids in urdu pdf
short moral stories for children-urdu 22
educational stories for toddlers
اہم کام - اُم افنان
بچوں کی ویب - bachon ki web
اپنا تبصرہ لکھیں