بھولا ہوا سبق

بھولا ہوا سبق

تحریر: صداقت حسین ساجد

پہلے وقاص کی آمدنی بس اتنی تھی کہ اس کا گزارا ہو رہا تھا ۔ وہ پریشان رہا کرتا تھا کہ اتنی کوشش کے باوجود وہ کوئی بچت کیوں نہیں کر پا رہا ۔ اکثر وہ اس حوالے سے سوچتا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے ، لیکن اسے اس کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی ۔
وقاص کے دو بیٹے تھے … کامران اور فہد ۔وقاص کی بیوی نورین تعلیم یافتہ خاتون تھی ۔ وہ بھی اپنے شوہر کا ساتھ دینے کی کوشش کرتی اور گھریلو اخراجات کو محدود کرنے کی کوشش کرتی ۔ وہ اپنی اس کوشش میں کسی حد تک کامیاب تھی ، اسی لیے تو ان کے گھر کا نظام جیسے تیسے چل رہا تھا ۔ نورین نے کہیں ملازمت حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی تھی اور نہ وہ اس میں دل چسپی رکھتی تھی ۔ وہ تو بس اپنے گھر سنبھالنے کو ترجیح دیتی تھی ۔ نورین ذرا سخت مزاج کی خاتون تھی ، اس لیے اکثر وقاص پر وہ اپنی مرضی مسلط کرنے میں کامیاب ہو جاتی تھی ۔
وقاص کے ساتھ اس کے والد بھی رہا کرتے تھے ۔ ان کی عمر کافی ہو چکی تھی اور اپنے زیادہ تر کاموں کے لیے انھیں دوسروں کی مدد کی ضرورت پڑتی تھی ۔ اس وقت تو وقاص اپنے باپ کا خیال رکھتا تھا ۔ کامران اور فہد بھی اپنے دادا ابو کا کام بھاگ بھاگ کر کرتے تھے ۔ وہ اپنے دادا ابو سے بہت پیار کرتے تھے ۔ نورین اپنے سسر سے بہت تنگ تھی ۔وہ اسے اپنے آپ پر بوجھ سمجھتی تھی ۔ لیکن وقاص اسے سمجھاتا رہتا تھا کہ والدین تو اولاد کے لیے بہت بڑی نعمت ہوتے ہیں ۔ ان کی خدمت کرنی چاہیے تاکہ اللہ تعالیٰ خوش ہو اور اپنی رحمتیں نازل کرے ، لیکن وہ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتی تھی ۔ اسے یہ بات بھی پسند نہیں تھی کہ کامران اور فہد اپنے دادا ابو کے پاس کیوں گھسے رہتے ہیں ۔ وہ اکثر انھیں منع کرتی رہتی تھی ، لیکن بچے تو من کے سچے ہوتے ہیں ۔ وہ ادھر زیادہ جاتے ہیں ، جہاں سے انھیں پیار ملتا ہے ۔
وقاص تنگی کے باوجود محنت کرتا رہا ، کیوں کہ اسے محنت پر یقین تھا ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حالات میں بہتری آتی گئی ۔ جس گھر میں وہ رہتے تھے ، وہ اس کے والد کا تھا ۔ وہ گھر کافی بڑا تھا ۔ وقاص نے اپنے والد صاحب سے مشورہ کیا اور وہ گھر بیچ دیا ۔ وہ گھر خریدار کو بہت پسند آیا اور اس نے کسی بحث مباحثے کے بغیر انھیں ان کی مطلوبہ رقم فراہم کر دی ۔ وقاص کو اس کی توقع سے زیادہ رقم مل گئی ۔ پھر اس نے اس رقم سے ایک اچھے سے علاقے میں جگہ خرید کر جدید گھر بنوایا ۔
نیا گھر انھوں نے ایک نئے نئے آباد ہونے والی کالونی میں لیا تھا ۔ اس کالونی میں ہر سہولت دستیاب تھی ۔ انھوں نے اپنے نئے گھر کو بڑے زبردست طریقے سے سجایا ۔ یہاں ہر جدید سہولت میسر تھی ۔ گھر میں قالین بھی بچھ گیا تھا ۔ فرنیچر نیا آ گیا تھا ۔ پردے لگ گئے ۔ یوں سب کچھ نیا نیا آ گیا تھا ۔ نورین کی نظر میں اگر اس گھر میں کچھ پرانا تھا ، تو وہ وقاص کے والد تھے ۔ وہ اس کوشش میں تھی کہ کسی طرح سے ان سے جان چھوٹ جائے ۔
ایک دن نورین نے وقاص سے کہا ۔
’’میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتی ہوں ۔ ‘‘
’’ ہاں ! بولو ۔ ‘‘
یہ سن کر وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی ۔
’’ میری بات کا برا نہ منانا … اگر آپ ابو جی کو اوپر والے کمرے میں لے جائیں ، تو ہم انھیں کھانا وہیں پہنچا دیا کریں گے … ‘‘
یہ سن کر وقاص چونک پڑا ۔
’’ یہ … یہ کیا کہہ رہی ہو ؟؟؟؟ ‘‘
’’ دیکھیں جی ! وہ اب بوڑھے ہو چکے ہیں اور انھیں کچھ پتا نہیں چلتا کہ وہ کہاں بیٹھے ہیں اور کیا کر رہے ہیں … وہ ہر وقت کھانستے رہتے ہیں اور بلغم تھوکتے رہتے ہیں ۔ مجھے ڈر ہے کہ ہمارے بچے بیمار نہ ہو جائیں ۔ ‘‘
’’ نورین ! اس عمر میں ایسے مسائل تو بن ہی جاتے ہیں ۔ باقی بچے ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں ، یہ اچھی بات ہے ۔ ابو جی ان کی اچھی تربیت کر رہے ہیں ۔ ‘‘
’’ وہ تو ٹھیک ہے ، لیکن ہمارے ہاں اکثر مہمان آتے رہتے ہیں ۔ ان کے سامنے مجھے بہت شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے ۔ وہ ابو جی کو کھانستے اور بلغم تھوکتے ہوئے دیکھتے ہیں ، تو عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھتے ہیں ۔ ایک اور بات بھی ہے … ‘‘
نورین نے بات ادھوری چھوڑی ، تو وقاص چونک کر بولا ۔
’’ وہ کیا … ؟ ‘‘
’’ آپ دیکھیں کہ میں اس گھر کی بھلائی کے لیے کچھ بھی کروں ، ابو جی کو اعتراض ہوتا ہے کہ یہ فضول خرچی ہے ۔ ایسا نہ کرو ، ویسا نہ کرو ۔ ان کی اس روک ٹوک سے مجھے اکثر شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے ۔ ‘‘
یہ سن کر وقاص اسے پر خیال انداز میں دیکھنے لگا ۔ اصل میں وقاص ایک ادارے میں ملازمت کرتا تھا ۔ آج کا دور تو مقابلے کا دور ہے ، اس لیے وہ اضافی وقت لگا رہا تھا تاکہ مالکان خوش ہو کر اسے ترقی دے دیں ۔ ویسے بھی وہ اس بات کا حق دار تھا ، لیکن جانے کیوں ابھی تک اسے ترقی نہیں ملی تھی ۔ اس کے پاس اب وقت ہی نہیں ہوتا تھا کہ کچھ دیر کے لیے اپنے باپ کے پاس جا کر بیٹھ جائے ۔ اسے کئی کئی دن گزر جاتے تھے اور وہ اپنے والد کو نظر نہیں آتا تھا ۔
اسے خاموش دیکھ کر اس کی بیوی نے پوچھا ۔
’’ پھر کیا سوچا آپ نے ؟ ‘‘
بیوی کی بات سن کر وہ کہنے لگا ۔
’’جیسا کرنا چاہو ، کر لو ۔ ‘‘
یہ سن کر اس کی بیوی خوش ہوگئی ۔ اس کی تو جیسے دلی مراد پوری ہوگئی تھی ۔
اس نے اسی دن اپنے سسر کو اس کے بستر سمیت اوپر والے کمرے میں پہنچا دیا ۔ پھر کچھ دنوں کے بعد اس نے ان کے برتن الگ کر دیے ، تا کہ ان کے دوسرے برتن گندے نہ ہوں ۔
ابھی بھی اس کا دل نہیں بھرا تھا ۔ کچھ ہی دن گزرے تھے کہ وہ اوپر چڑھنے اور نیچے اترنے سے تھک گئی اور بے زار ہو کر اپنے شوہر سے کہنے لگی ۔
’’میں اور میرے بچے ابو جی کے لیے کھانا لے جانے اور واپس آنے میں تھک گئے ہیں … ‘‘
’’ اچھا ! پھر کیا کیا جائے ؟ ‘‘ وقاص کو بھی اپنی بیوی اور بچوں کا احساس ہو رہا تھا ۔
’’ میرا خیال ہے کہ آپ انھیں نیچے لے آئیں اور اسٹور والا کمرہ انھیں دے دیں ۔ ‘‘
یہ سن کر وقاص بولا ۔
’’ٹھیک ہے … جیسے تمھاری مرضی ۔ ‘‘
اجازت ملنے کی دیر تھی کہ اس نے سسر کو نیچے اتارا اور انھیں اسٹور میں پہنچا دیا ۔ پھر ان کے کپڑے اور ضرورت کی چیزیں ان کے پاس رکھ دیں ۔ ساتھ ہی کھانے پینے کے برتن بھی رکھ دیے ۔
یوں ہی کئی دن گزر گئے ۔
ایک دن وہ سب دوپہر کا کھانا کھانے بیٹھے ۔ اس دن اتوار تھی ، اس لیے وقاص بھی گھر میں موجود تھا ۔ اچانک فہد بولا ۔
’’ابا جان ! جب ابا جان فوت ہوجائیں گے ، تو میں ان کے برتن سنبھال کر رکھوں گا ۔ ‘‘
اس کی بات سن کر وقاص حیرت سے بولا ۔
’’ بیٹا ! تم ان کا کیا کرو گے ؟ ‘‘
’’ جب آپ ابا جان کی طرح کے ہو جائیں گے ، تو میں آپ کے لیے اس میں کھانا رکھا کروں گا ۔ ‘‘
یہ سن کر وقاص نے جو لقمہ میں ڈالا تھا ، وہ اس کے حلق میں اٹک گیا اور اس کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ اسی وقت اسے اللہ تعالیٰ کا ایک فرمان یاد آ گیا کہ اپنے والدین کے ساتھ احسان کرو ۔
اسے ایک حدیث ِ مبارکہ بھی یاد آگئی ، جو اس نے کہیں پڑھی تھی ۔
’’ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ نبی ِ مکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔
’ باپ کی خوشی میں اللہ تعالیٰ کی خوشی اور باپ کی ناراضی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی ہے ۔ ‘
( ترمذی شریف … ۱۸۲۱۔ ) ‘‘
وقاص کو فوراً ہی احساس ہو گیا کہ جب وہ بچہ تھا اور اپنا کوئی کام کرنے کے قابل نہیں تھا ، تو اس وقت تو اس کے والدین نے اس سے منہ نہیں موڑا تھا اور آج جب اس کے
والد پر بڑھاپے کی وجہ سے وہ وقت آیا تھا اور اسے وقاص کی اشد ضرورت تھی ، تو اس نے اپنی بیوی کی باتوں میں آ کر اپنے والد کو اپنے آپ سے دور اسٹور میں منتقل کر دیا تھا ۔ اس کے والدین نے تو اپنا فرض خوش دلی سے پورا کر دیا تھا اور جب وقت آیا تھا کہ وقاص اپنا فرض ادا کرے ، تو وہ والدین کے حقوق بھول بیٹھا تھا ۔ وہ فیصلہ کن لہجے میں بولا ۔
’’سنو ! ابھی سے میں کھانا اور چائے ان کے ساتھ ہی کھایا پیا کروں گا … ‘‘
اس کی بیوی ہکا بکا ہو کر اسے دیکھنے لگی ۔
وقاص اٹھ ہی رہا تھا کہ اسے ایک اور خیال آیا اور پھر بیٹھ گیا ۔ پھر بولا ۔
’’ بلکہ ایسا کرتے ہیں کہ ہم سب مل کر ان کے ساتھ کھانا کھاتے ہیں ۔ ‘‘
اس کا لہجہ ایسا تھا کہ بیوی کو کچھ بولنے کی ہمت نہ ہوئی ۔
اپنے ابو کی بات سنتے ہی کامران بھاگ کر گیا اور اپنے دادا ابو کو بلا لایا ۔ پھر ان سب نے مل کر کھانا کھایا ۔ کافی عرصے کے بعد وہ وقاص اپنے ابو کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہا تھا ۔ کھانا کھانے کے بعد وہ اپنے والد کو اپنے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں لے آیا ۔ ان کے برتن پھینک دیے ۔
پھر تو جب وہ سب کھانا کھانے بیٹھتے ، تو وقاص ایک لقمہ اپنے ابو کے منہ میں رکھتا ، تو دوسرا لقمہ اپنے میں ڈالتا تھا ۔ پھر وہ جب تک زندہ رہے ، وقاص ان کی دل و جان سے خدمت کرتا رہا اور ان کے حقوق ادا کرنے میں کبھی کوتاہی نہ کی ۔
یہی وجہ ہے کہ جس ادارے میں وہ ملازمت کرتا تھا ، اس میں کئی سال سے اس کی ترقی رکی ہوئی تھی ۔ اب جو اس نے والد کی خدمت کی ، تو اس کی قسمت جاگ اٹھی اور وہ جلد ہی اس ادارے کے اعلیٰ عہدے پر جا پہنچا اور اسے ہر طرح سے خوش حالی حاصل ہو گئی ۔ اب اسے یقین ہوگیا تھا کہ پہلے اس سے اس کا باپ ناراض تھا ، تو وہ ناکام تھا ۔ اب باپ راضی ہوا تھا ، تو اللہ نے بھی خوش ہو کر اسے کامیاب انسان بنا دیا تھا ۔
وہ اپنے چھوٹے بیٹے کا شکر گزار تھا کہ اس نے اسے اس کا بھولا ہوا فرض یاد دلا دیا تھا ۔ ورنہ ! وہ جو آج اپنے باپ کے ساتھ کر رہا تھا ، ویسے ہی اس کے ساتھ کل ہونا تھا ۔

Tags:
اردو کہانیاں
بچوں کی کہانیاں
بھولا ہوا سبق - صداقت حسین ساجد 
short urdu stories for children's
urdu stories for children's reading
islamic stories for childrens in urdu pdf
Bhoola howa Sabaq by Sadaqat Hussain Sajid
اپنا تبصرہ لکھیں