آج کا بچہ کل کا شہری ، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کسی خاندان قوم اور ملک کے روشن مستقبل کا انحصار بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت پر ہوتاہے۔ بچے کی عمدہ ذہنی تربیت اور شخصیت کی ہمہ جہت و متوازن نشوونما میں ادب ایک موثر وسیلہ ثابت ہواہے۔ بچوں کا ادب پیدا کرنا بچوں کاکھیل نہیں بڑے آدمی کا بچوں کی ذہنی سطح تک اتر آنا ایک مشکل بات ہے اپنے آپ کو بچہ تصور کرتے ہوئے سوچنا سمجھنا لکھنا اور پڑھنابڑی مہارت کا کام ہے ۔ ایسے ادب کے ذریعہ بچوں میں حیرت مسرت کے جذبات پیدا کرنا بچوں کی آنکھوں میں چمک اور ان کے چہروں پر جذبات کی لہروں سے سرخی کے ڈورے ڈالنابڑے ادیب یا آرٹسٹ کاکمال ہے ۔
بچوں کا ادب پیدا کرنے کے لئے ادیب یا شاعر کو بچوں کی نفسیات کا ماہر ہونا ضروری ہے ۔ انہیں بچوں کی طلب اور ان کی علمی و ادبی ضروریات کا شدید احساس بھی ہو۔ وہ ان کی سادہ زبان میں لکھنے کی قدرت رکھتا ہو،تب ہی وہ بچوں کا تخلیق کرسکتاہے۔
ملک کی حقیقی دولت اور سرمایہ بچے ہی ہوتے ہیں بچپن میں انہیں جس قسم کی تربیت و نشوونما ملتی ہے اس پر ملک کے مستقبل کا انحصار ہوتاہے ۔ اتنی ہی ان کی ذہنی اور جذباتی اٹھان کی بھی اہمیت ہے ۔ بچوں کی ذہنی ترقی اور مکمل اٹھان کیلئے نصابی تعلیم کے ساتھ جو چیز سب سے زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے وہ ان کے مادری زبان میں اچھے ادب کی فراہمی ہے یہ ادب محض بچوں کی درس تدریس کے لئے نہیں ہوتا بلکہ ان کی تفریح طبع اور ان کی فطری رحجانات کی نشوونما کے لئے بھی ہوتاہے۔ بچوں کے ادب کو ان اقدار اورخصوصیات کا حامل بھی ہوناچاہئے۔ جو کسی زبان کی نظم و نثر کو ادب کا درجہ بخشی ہے ان میں خیال کی رفعت جذبہ کی صداقت زبان کی لطافت اور بیان کا حسن شامل ہے ۔ کوئی بھی تحریر جو دل کو چھولینے والی کیفیت اور تاثیر سے محروم ہو وہ ادب میں شامل نہیں ہوسکتی۔ بچوں کے جمالیاتی حسن کی تسکین ان کی تربیت اور نشوونما ان کا بنیادی مقصد ہوناچاہئے۔
اردو زبان میں بچوں کا ادب کی روپ رنگوں میں موجود ہے اس کا سلسلہ خالق باری جیسی کتابوں سے شروع ہوتا ہے جس میں اخلاق و ادب کی جگہ لغت اور ذخیرہ الفاظ زبان و بیان سکھانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد بچوں کے ادب کی جھلکیاں ہمیں غالب کے قادر نامے اور نظیر اکبر آبادی کی شاعری میں نظر آتی ہے اور اس ادب کا اصل آغاز 1857ء کی ناکامی اور سرسید احمدخاں کی اصلاحی تحریک سے شروع ہوا۔
ادب اطفال کا ایک بڑا ذخیرہ ہماری درسی کتب میں موجود ہے درسی کتب اور ادب اطفال کا فرق واضح کیا جاچکا ہے لیکن یہ کہاجائے تو بے جانہ ہوگا کہ اردو میں بچوں کے ادب کی ابتداء ہی درس کتب سے ہوتی ہے حالانکہ ادب اطفال کی کتابوں کی تدوین میں بہت سی خامیاں نظر آتی ہیں۔ کتب کی تدوین کاری اور ترتیب کے فن کو وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کی وہ مستحق تھی بچے جامد تختی نہیں بلکہ وہ متحرک شئے ہے بچے سیماب صفت ہوتے ہیں وہ خاموش نہیں بیٹھ سکتے چلبلاپن ان کی فطرت ہے اسی لئے ان کو ایسا ادب فراہم کیاجائے جس کے پڑھنے سے ان کے تخیل میں وسعت پیدا ہوذہنی ا ور جسمانی رد عمل ہو۔ ان میں مطالعے کی عادت شوق عمر کے لحاظ سے بڑھتا ہے وہ جنوں بھوتوں پریوں شہزادوں کی داستان ان کے لئے بڑے شوق اور دلچسپی کی چیز ہوتی ہے ۔ بچوں کیلئے اخلاقی تاریخی کہانیاں لکھنا بہت ہی مشکل کام ہے ۔چنانچہ تاریخی کہانیوں کو دلچسپ اور پرکشش مفید بنانے کیلئے مصنف کے اسلوب اور طرز تحریر کی بڑی اہمیت ہے ۔ کیونکہ تاریخی واقعات کو جوں کا توں بیان نہیں کیاجاسکتا بلکہ قاری کو اس دور کی جھلک بھی دکھانا ہوتاہے۔
اگر ہم بچوں کے ادب کے مدارج دیکھیں توپتہ چلے گا کہ بچوں کے ادب کی ترقی کا سلسلہ انیسویں صدی سے شروع ہوا اور بیسویں صدی میں تو اس میں ایک زبردست انقلاب آیا اس صدی میں بچوں کا ادب عروج کی منزلوں پر پہنچ گیا۔
مشرقی ملکوں میں بچوں کے ادب میں زندگی کے مادی پہلوؤں مذہب اخلاق پر خاص طور سے توجہ دی گئی جیسے سچے تنتر میں دلچسپ کہانیوں کے ذریعہ اخلاق و حکمت کی تعلیم دی گئی۔ بچے کاکائنات سے اولین رابطہ کہانیوں کے ذریعہ ہی ہوتاہے۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے یعنی طوطے، مینا، پریوں، پرندوں، راجاؤں، پھولوں کی کہانیوں کے ذریعہ وہ اردگرد کی چیزوں سے واقفیت حاصل کرتاہے۔ کہانیوں کے کردار اس کے اردگرد گھومنے لگتے ہیں۔ اور وہ خود کو ان چیزوں کا ایک حصہ سمجھنے لگتا ہے ۔ ان کہانیوں کے ذریعہ وہ ان چیزوں کو اپنانے اور رد کرنے کا عمل سیکھتا ہے۔ ڈرامے کی دنیا بچوں کی اپنی دنیا ہوتی ہے ۔ جہاں پر وہ خود کو وہ کردار ادا کرتے دیکھتا ہے ۔ جس کو وہ کتابوں میں پڑھتا ہے اسی لئے بچے ڈرامے بھی بڑے شوق سے پڑھتے ہیں۔ بچوں کے ڈرامے بہت سادہ ہوتے ہیں۔ اس لئے وہ اس کو بڑے شوق سے اپناتے ہیں تصویر بھی بچے کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے ۔ تصویر کا تعلق راست دل اور نظر سے ہوتا ہے ۔ یہ بچوں کی قوت متخیلہ بڑھاتی ہے تصویر کی مدد سے وہ تمام چیزوں سے واقف ہوتاہے۔ اس کی مدد سے پڑھنے کی کوشش کرتاہے ۔ بچوں کے ادب کی اہم خصوصیت اس کا حیرت او استخعاب ہے اس کی وجہ سے بچوں میں کیوں، کیا اور کیسے کب جیسے سوالا ت اٹھتے ہیں۔چونکہ بچہ کی فطرت متجسس ہوتی ہے اس لئے بچوں کے ادب میں بھی حیرت اور تجسس کا عنصر ہونا بھی ضروری ہے ۔ کبھی وہ جانور کی شکل تو کبھی دیو اور بھوت تو کبھی پری کی شکل اختیار کرتاہے۔ اسی لئے پنچ تنتر میں جانوروں کی بولی کی وجہ سے وہ اتنی دلچسپ اور انوکھی چیز بن گئی کہ صدیوں کے بعد بھی اس ادب کا مزہ تروتازہ ہے ۔ اس کے علاوہ بچوں کے ادب میں نظمیں کہانیاں ایسی ہوں جن میں صحت و صفائی میں ان چیزوں کو اپنالے۔ اس کے علاوہ بچوں کے ادب کی زبان جو سادہ عام فہم اور مزہ دار ہو جو روز مرہ کے الفاظ پر مشتمل ہوں۔ جن کو پڑھ کر بچے نہ صرف لطف اندوز ہوں بلکہ وہ کہانی کی چاشنی کو محسوس کریں اس کے بعد بچوں کی سیرت کی تعمیر ہو مذہبی عقائد کے قصے بزرگوں کی کہانیاں ان کی سیرت بہادروں کے کارنامے، خدا کا خوف، سیرت سے واقفیت بھی ادب اطفال کے ادیبوں کی اہم ذمہ داری ہے ۔ ادب اطفال کی سب سے اہم ذمہ داری یکجہتی ،بھائی چارگی، حب الوطنی، آپسی میل ملاپ کا بڑھاوا ہو۔ ان کی تربیت میں نفرت، عداوت ،جلن جیسی رزیل چیزوں کی ان کی سیرتوں سے پرے رکھنا بھی ادیب کی اہم ذمہ داری ہے۔ اس کے علاوہ ان کے موضوعات ایسے ہوں جن میں ہمیشہ نیاپن ہو کیونکہ وہ ایک جیسی چیزوں سے اکتاجاتے ہیں۔
بالک بندر ایک سمان کے مطابق ان کی چلبلی طبیعت کے پیش نظر کچھ نہ کچھ کرنے کی عادت کی بناء پر اسے موضوعات پر لکھاجائے جو ان کی فطرت کو سیراب کرسکے۔ مافوق الفطرت کردار اور واقعات سے وہ بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پریوں کی کہانیوں کی بدولت وہ چاند پر پہنچ جاتے ہیں۔ جس کی ان کی قوت متخیلہ کو جلا ملتی ہے اور بچے کہانیاں اور واقعات بچے کی سیرت کی تعمیر کرتے ہیں۔
بچوں کے لئے بین الاقوامی ادب کی شدید ضرورت ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ دوسرے ملک کا بچہ کس طرح کے ماحول میں پرورش پاتاہے۔ اس کے علاوہ اس میں عالمی علوم وفنون کی دلچسپی پیدا ہو، قدیم طلسماتی کہانیاں جادو پری ،جادو کی چھڑی وغیرہ کہانیاں آج کے دور کے بچے کو متاثر نہیں کرتی آج کا بچہ ہر چیز کو حقیقت کے رنگ میں دیکھ رہا ہے ۔ رہی سہی کسر ٹیلی ویژن کے ذریعہ پوری ہورہی ہے ۔ آج کا دور سائنس کا دور ہے فاصلے سمٹ کر محدود ہوگئے پہلے تو یہ دنیا Global villageبنی اور آج الکٹرانک میڈیا کے بدولت یہ مزید سمٹ کر Global Roomبن چکی ہے۔
ادب کے ذریعہ بچوں کو تنگ نظری تعصب جیسی برائیوں سے دور رہنے کا درس فراہم کرنا چاہئے۔ انہیں ایسی باتیں بتائی جائیں جن سے ان کے ذہن میں وسیع النظری کوفروغ ملے اور محبت کی فضاء قائم رہ سکے ان کے ہاتھ میں پیار محبت کا پرچم دیں ان میں اخلاق بھائی چارگی خداپرستی کے جذبات ابھاریں اپنی خوشیاں چلو بانٹ آئیں۔