بچوں کے ادب میں مجموعی طور پر درج ذیل خوبیاں ہونا چاہئیں:
1۔ بچوں کے ادب کی سب سے بڑی خوبی حیرت و استعجاب ہے ۔ بچے کے ذہن میں کیا، کیوں، کیسے اور کب جیسے سوالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور وہ دنیا کی ہر شئے کو حیرت و تجسس سے دیکھتا ہے، نیز اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ تجسس بچے کی فطرت میں شامل ہے اس لئے ادب اطفال میں بچوں کی فطرت کے مطابق موضوع اور طرز تحریر کا انتخاب کرنا چاہئے۔
2۔ ادب اطفال کی بنیاد علم اور اخلاق پر ہو ور اس کے مقاصد اچھی تعلیم اور تربیت پر مبنی ہوں ، جو بچوں کے ادب میں بچوں کی فطری صلاحیتوں کو ابھار سکیں۔
3۔ بچوں کی قوت متخیلہ بڑی زبردست ہوتی ہے ۔ خصوصاً عمر کی پہلی اور دوسری منزل میں۔ یہ ان کی خوشیوں کا موجب ہوتی ہے، اس لئے ایسی نظمیں اور مضامین جو بچوں کے تخیل کی نشو و نما میں معاون ثابت ہوں ، کامیاب تصور کی جاتی ہیں۔
4۔ بچوں کے لئے ایسے عنوانات پر مشتمل نظمیں، کہانیاں، اور مضامین مناسب ہوتے ہیں، جن میں صحت ، صفائی، تفریح، ورزش اور محنت و مشقت کی طرف انہیں توجہ دلائی جائے۔ مختلف کھیلوں کا تذکرہ بھی ضروری ہے ۔
5۔ بچوں کے ادب کی زبان نہایت آسان ہونی چاہئے۔ بچے کی اپنی زبان ہو۔ اس کی روز مرہ زندگی میں مستعمل الفاظ ہوں، عمر کی مختلف منازل کی مناسبت سے زبان سہل اور دشوار ہو۔ طرز ادا اور اسلوب بیان ایسا ہو کہ بچے بخوشی ان مضامین کو پڑھیں۔ ان میں دلچسپی لیں۔ ان کو پڑھ کر مسرت محسوس کریں۔ کہانیوں میں مختلف دلچسپ واقعات کی شمولیت سے بچوں کی دلچسپی کو بڑھایا جا سکے ۔
6۔ بچوں کی سیرت میں مذہبی عقائد بہت اہمیت رکھتے ہیں ان کے عقائد کے اعتبار سے خدا کے وجود اور اس کے جمال و جلال اور دوسری صفات کا نقش، عہد طفلی میں ہی بچوں کے ذہن پر مرتسم کرنا بھی ادب اطفال کا فریضہ ہے ، جس کے تحت بچے کے کردار میں بنیادی خوبیاں خود بخود پیدا ہو جائیں گی۔
7۔ بچوں کے لئے جو کہانیاں ،قصے یا نظمیں لکھی جائیں ان میں کسی حد تک مبالغہ آرائی اور رنگ آمیزی سے اس کی دلچسپی کو دوبالا کیا جا سکتا ہے اس طرح بچے کے ذہن اور تخیل کی پرواز بلند سے بلند تر ہو سکتی ہے۔
8۔ بچوں کے ادب میں حب الوطنی ، باہمی اتحاد اور قومی یک جہتی کا عکس پایا جانا بھی اس کی ایک بڑی خوبی ہے ۔ اخلاقی مضامین اس طرح کے ہوں کہ بچہ شروع ہی سے اپنے اقربا و اعزا دوست شناسا، ہمسائے اور ہم وطنوں سے وابستہ رہے اور کوئی ایسا کام نہ کرے جس سے دوسرے لوگوں کی عافیت، آزادی خیال و عمل سے تصادم کا خطرہ لاحق ہو ، بچوں میں باہمی نفاق نفرت عداوت تعصب اور تنگ دلی کو دور کرنا بھی اچھے ادب کا فرض ہے۔ ایسے خیالات کو موضوع بنانا چاہئے جو بچوں کے ذہن میں انسانی وحدت اور محبت کی فضا قائم کرنے میں معاون ثابت ہوں۔
9۔ بچوں کو بین اقوامی شہریت کی تعلیم دینا بھی بے حد ضروری ہے۔ آج سائنس نے تمام دنیا کو ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے بچوں کو عالمی علوم و فنون میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے تعمیری ادب پیش کرنا ہوگا۔
10۔ ادب اطفال بچے کے ذہن کو زیادہ سے زیادہ متاثر کرے اور اس کے مطالعے سے بچے کو سچی خوشی اور ذہنی تسکین ہو۔
11۔ بچوں کے ادب میں تنوع ہونا چاہئے ۔بچہ ایک ہی نوع کی چیز ایک ہی انداز میں باربار پڑھنا پسند نہیں کرتا۔ لہٰذا بچوں کے ادب میں موضوعات کی رنگا رنگی ہوناچاہئے ۔ان موضوعات کی پیش کش نئے نئے اسالیب اور انوکھی تکنیک میں ہونا چاہئے۔
پال ہارزڈ بچوں کی کتابوں کے بارے میں لکھتا ہے:
“بچوں کے لئے وہ کتابیں اچھی کتابیں ہیں جوبچوں کی روحوں میں اپنے جذبات اور تاثرات پیدا کر سکیں۔ جو ان کی زندگی میں مستقل اثرات چھوڑ جائیں جو ان کے کھیلوں اور مہماتی کارناموں میں بچوں کی ہمت افزائی کر سکیں، بچوں کی کتابوں میں سنجیدہ اور اخلاقی باتیں ہوتی ہیں جو بچوں میں سچائی اور انصاف کا جذبہ جگاتی ہیں۔ بچوں کے لئے کتابیں لکھنابہت نازک کام ہے۔ بچوں کی کتابوں میں اخلاقی قدریں ، روحانیت اور زبان و اسلوب کی لطیف آمیزش ہونا چاہئے”۔
پال ہازرڈ نے بچوں کی کتب کی خصوصیات کا ذکر کیا ہے، وہ آج کے ادب میں خال خال نظر آتی ہیں۔ ہمارے ادب میں ایسی کتابوں کا فقدان ہے جو بچے کی شخصیت کی تعمیر میں معاون ثابت ہوں۔ اور اگر ایسی کتابیں ہیں بھی تو وہ بچوں کے ہاتھوں تک نہیں پہنچ پاتیں ، ادب اطفال کا سب سے بڑاالمیہ یہ رہا ہے کہ اس موضوع پر جس سنجیدگی اور غور و فکر کی ضرورت تھی ، جتنی اس موضوع کو اہمیت ملنا چاہئے تھی وہ اس کو نہیں دی گئی۔ بچوں کا ادب لکھنے والے شعراء اور ادباء کو ادب میں کوئی مقام نہیں مل پاتا ۔ جبکہ غیرممالک میں بچوں کے ادیب اور شاعر کو ادب اور سماج دونوں میں امتیازی حیثیت حاصل ہے۔ ہمارے ناقدین اور مبصرین نے ہمیشہ ادب اطفال کو نظر انداز کیا ہے کسی بھی تاریخ ادب اردو ، اور تنقیدی یا نثری ادب میں ادب اطفال کا ذکر خال خال بھی نظر نہیں آتا ۔جب کہ بچوں کا اچھا ادب ہر دور میں لکھا جاتا رہا ہے ۔ اتنا ضرور ہے کہ قدیم لکھنے والوں اور دور جدید کے مصنفین کے مقاصد اور موضوعات میں بڑا فرق رہا ہے اور اس فرق نے اردو ادب اطفال کوبڑا نقصان پہنچایا ہے۔
پرانے اہل قلم میں میر تقی میر، غالب، محمد حسین آزاد، حالی، نذیر احمد، اسماعیل میرٹھی، اقبال، منشی پریم چند ، تلوک چند محروم اور حامد اللہ افسر ، جیسے شعراء اور ادباء جب بچوں کے لئے لکھتے تھے تو ایک مقصد سامنے ہوتا تھا ۔
وہ نئی نسل کو زندگی کی صحت مند قدروں کا احساس دلانا چاہتے تھے ۔اس نسل کو بتانا چاہتے تھے کہ اچھی زندگی کیا ہوتی ہے؟ کس طرح گزاری جاتی ہے ؟ برے کاموں کے کیا نتائج ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ براہ راست پند و نصیحت کرنے سے ان کی کہانی بے مزہ نصیحت نامہ بن کر رہ جاتی تھی ، لیکن وہ اس خامی کو حسن بیان سے دور کر دیتے تھے ۔ وہ بچوں کی نفسیات اور ذہنی استعداد کو کبھی نظر انداز نہیں کرتے تھے۔
ان لوگوں کے بعد پھول گروپ اور جامعہ گروپ نے پند و نصائح کے ساتھ بچوں کی نفسیات ، ذہنی پیچیدگیوں، ان کی ضروریات اور مسائل کا خیال رکھتے ہوئے ان کے لئے تفریحات اور دلچسپیوں کا سامان بھی فراہم کیا۔ ایسے لوگوں میں امتیاز علی تاج، حفیظ جالندھری ، حامد اللہ افسر ، شفیع الدین نیر ،کوثر چاند پوری ،مسعود حسین خاں، آل احمد سرور کے نام لائق ذکر ہیں۔ ان حضرات کے برعکس ہمارے بعض موجودہ مصنفین چاہتے ہیں کہ وہ اپنی تحریروں میں تحیر، جاسوسی، سراغ رسانی انتہائی مبالغہ آمیز مہمات سے ہی واسطہ رکھیں تاکہ بچے انہیں شوق سے پڑھیں۔ ان کی کتابیں زیادہ سے زیادہ مالی فائدہ پہنچا سکیں ۔
انہیں اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ ایسی کتابیں بچوں کی ذہنی نشو و نما اور دماغی و روحانی تربیت میں کوئی حصہ لیتی ہیں یا نہیں؟ ایسی کتابیں بچوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرتی ہیں۔ آج بچوں میں جاسوسی، طلسماتی اور قتل و غارت گری کی کہانیاں زیادہ مقبول ہو رہی ہیں ، یہ صورت حال اچھی نہیں ۔ اس کے ذمہ دار کون ہیں؟ ایسا کیوں ہے؟ مصنفین کے اپنے کیا مسائل ہیں؟ آج کے دورمیں بچوں کا ادب کیا ہونا چاہئے؟ اس سلسلے میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔
بچے کی دماغی قوت اخذ کرنے اور محسوس کرنے کا جذبہ یہ سب لامحدود ہوتے ہیں، بچہ اپنے تخیل کی مدد سے ہر شے سے لطف اندوز ہوتا ہے ۔اس میں تجسس کا وافر مادہ ہوتا ہے ۔ وہ ہرچیز کے بارے میں مکمل اور مفصل معلومات چاہتا ہے ۔ یہ تمام باتیں بچوں کے مصنفین کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مصنفین کے سامنے مسئلہ ہوتا ہے کہ وہ بچوں کے لئے کیا لکھیں؟ مختلف عمروں کے بچوں کے لئے لکھنا ہو تو مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جس میں سب سے بڑا پریشان کن مرحلہ زبان کا ہے ۔ یہ ملحوظ رکھنا لازمی ہے کہ بچہ کس عمر میں کتنی زبان جانتا ہے۔ بچوں کے ادیب کے لئے ضروری ہے کہ وہ مختلف ممالک ، اشخاص ، مقامات پرندوں، جانوروں، فطرت انسانی،مناظر قدرت اور بچوں کی نفسیات کے بارے میں مکمل معلومات رکھتا ہو، اس بات کابھی لحاظ رکھنا ضروری ہے کہ بچہ براہ راست نصیحت خشک باتیں اور مذہبی وعظ و پند پسند نہیں کرتا ۔
مصنف کو یہ بھی محسوس کرنا ہوگا کہ وہ جو کچھ لکھ رہا ہے۔بچے کے لئے ہے۔ موجودہ تفریح کے سامان جیسے ریڈیو ، سنیما، ٹیلی ویژن، وی سی آر نے بچے کی نفسیات پر برا اثر ڈالا ہے ۔ جس کے سببب چوں کے لئے ایک خاص قسم کے لٹریچر کی کمی محسوس کی جا سکتی ہے۔
بچوں میں پڑھنے کی عادت اور شوق ان کی عمر کے اعتبار سے بڑھتا ہے، چھ سے آٹھ برس کی عمر تک بچے الفاظ ملا کر پڑھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ تصویر کی مدد سے وہ خود پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض الفاظ کو سمجھنے کے لئے وہ اپنے بڑوں سے مدد چاہتے ہیں۔ بچے کے تجربات کا دائرہ آہستہ آہستہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جاتا ہے ۔ وہ پہیلیاں ، بہادروں کی کہانیاں پڑھ کر اور بڑوں سے پوچھ پوچھ کر اپنی معلومات میں اضافہ کرتا رہتا ہے ۔ آہستہ آہستہ بچے کو پڑھنے کا چسکا سا لگ جاتا ہے۔ اس کے ہاتھ میں جو بھی کتاب آتی ہے۔ اس کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے ، کلاس روم میں درسی کتاب کے اندر کہانی یا کامکس چھپا کر پڑھنے میں اس کو بہادری کا احساس ہوتا ہے ۔
مزاح کی حس بچے میں عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے۔ بچے ہنسی مذاق، چھیڑ چھاڑ سے بہت خوش ہوتے ہیں۔ مزاحیہ نظمیں، مضامین اور کہانیاں بچوں کوبے حد پسند آتی ہیں۔ جنوں، بھوتوں، دیوؤں، پریوں، بادشاہوں اور شہزادیوں کی کہانیاں اب بھی ہر پڑھنے والے بچے کے لئے کشش انگیز اور دلچسپی کاباعث ہیں اور اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ان کرداروں پر ہی تکیہ کیا جاتا رہا ہے اور ان کے متبادل کردار تخلیق کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ یہ درست ہے کہ بچوں کے لئے لکھنے والے حضرات موجودہ صورتحال میں بھی چاہتے تو جنوں، بھوتوں، بادشاہوں اور شہزادوں کے کرداروں کو مناسب فضا اورماحول کے حوالے سے مفید اور بامقصد کرداروں میں ڈھال سکتے ہیں۔ لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
یہ دور سائنس کا دور ہے ،حقیقت پسندی کا دور ہے ۔ جسمیں مافوق الفطرت واقعات اور بے بنیاد باتوں کی گنجائش نہیں ۔ لیکن ہمارے یہاں ماضی سے لے کر آج تک بچوں کے لئے جو ادب بالعموم تخلیق کیا گیا ہے ۔اسے فوری طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ ایک عبوری مدت کے لیے نئے نئے کرداروں کے ساتھ جنوں بھوتوں اور پریوں کے کرداروں کوبھی استعمال کیاجاسکتا ہے ۔
“الٹا درخت” (کرشن چندر) ، ستاروں کے قیدی (ظفر پیامی)، خوفناک جزیرہ (سراج انور) اور جن حسن عبدالرحمن (قرۃ العین حیدر) جیسے ناول اس کی بہترین مثال ہیں۔ ہم پریوں اور تخیلی کہانیوں کو یکسر رد نہیں کر سکتے ، ان کہانیوں سے بچوں کی قوت متخیلہ تیز ہوتی ہے۔ بچہ ان کرداروں میں آج بھی دلچسپی لیتا ہے۔ ماحول کی کثافت آلودگی جیسے اہم موضوعات پر بچوں کے لئے امتیازی ادب تیار کرنا ہوگا۔
لوک کتھائیں راجہ رانی کی کہانیاں اور روایتی کہانیاں بچوں کو ہمیشہ پسند آتی ہیں۔ یہ کہانیاں سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہی ہیں۔ دنیا کے ہر ملک اور ہندوستان کے ہر صوبے کی بیشتر لوک کتھائیں کتابی شکل میں دستیاب ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان کہانیوں کا ہندوستان کی ہر زبان میں ترجمہ کیاجائے اور جو کہانیاں، ابھی تک قلم بند نہیں کی گئی ہیں انہیں قلم بند کیاجائے ۔ ورنہ اندیشہ ہے کہ لوگ انہیں بھلا دیں گے ۔ لوک کتھاؤں کی طرح بچوں کی لوریوں ، پہیلیوں اور کھیل کھیل میں گائے جانے والے گیتوں کو بھی کتابی شکل میں محفوظ کر لیا جائے ۔ کیونکہ رفتہ رفتہ ان کا رواج کم ہوتا جا رہا ہے۔
بچوں کی دلچسپی کہانیوں، نظموں اور گیتوں تک ہی محدود کرنا درست نہیں معلوماتی مضامین کی طرف بھی بچوں کی توجہ دلانی ضروری ہے ۔ معلوماتی کتابوں کی کمی کے نتیجہ میں ہندوستانی بچوں اور نوجونوں کی معلومات عامہ میں ناواقفیت قابل افسوس ہے ۔ اردو ادب اطفال میں انسائیکلو پیڈیا کی زبردست کمی ہے اردو میں ایسی کوئی کتاب نہیں ملتی جو دنیا کے تمام علوم و فنون کی بنیادی معلومات بچوں کو فراہم کر سکے ۔
بچوں کو کچھ نہ کچھ جمع کرنے کا شو ق ہوتا ہے ، اگر ہم بچوں کی جیبوں اور بستوں کی تلاشی لیں تو ان کا خزانہ دیکھ کر حیرت ہوگی۔ بچے کیا جمع کریں، کیسے جمع کریں؟ اور جمع کی ہوئی چیزوں کو کیسے رکھیں؟ یہ تمام باتیں بچوں کو سکھانی چاہئیں جن کا تعلق فرصت کے مشغلے سے ہے۔
انگریزی میں کیسے جمع کریں HOW TO COLLECT کے عنوان سے مختلف چیزیں جمع کرنے کے لئے نہایت مفید کتابیں دستیاب ہیں ۔ انگریزی میں ہی بچوں کے لئے کیسے بنائیں HOW TO MAKE کے نام سے بھی مختلف چیزیں بنانے کے بارے میں درجنوں کتابیں ہیں اردو میں ایسی کتابوں کی زبردست کمی ہے ۔ کھیل کھیل میں یا جادو کے کھیل کے عنوان کوبچوں کو سائنس کے بارے میں مفیدمطلب کی معلومات فراہم کی جاسکتی ہے ۔
بچوں کو باتصویر کتابیں بے حد پسند آتی ہیں، لیکن بچوں کے لئے لکھنے ولوں کے سامنے تصاویرکا بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے۔مصنف آرٹسٹ نہیں ہوتا۔ با تصویر کہانیوں میں اس بات کا لحاظ رکھنا بہت ضروری ہے کہ تصویر موضوع سے متعلق دلکش اور رنگین ہو ۔ اگر چھ سات سال کے بچے کے لئے کتاب لکھی گئی ہو تو تصاویر کے رنگ شوخ ہوں۔ تصاویر میں باریکیاں کم ہوں ۔ اگر بچہ نو دس سال یا اس سے زائد کا ہو تو رنگ نسبتاً ہلکے اور باریکیاں زیادہ ہوسکتی ہیں ، ہندوستان میں مصنف اور مصور یا دو تین مصنفین کے مل کر کتاب لکھنے کا رواج بہت کم ہے ۔ جب کہ بچوں کے لئے کتابیں لکھنا دراصل جماعتی کام ہے ۔ اگر کئی اشخاص مل کر اپنی اپنی صلاحیتوں کا استعمال کریں تو یقینا ہر لحاظ سے بچوں کے لئے خوبصورت اور معیاری کتابیں تیار ہوسکتی ہیں ۔ یہ کام ہندوستان کی مختلف اردو اکادمیاں کرسکتی ہیں۔ اور بعض کر رہی ہیں۔
بچے کی پہلی کتاب اس کی درسی کتاب ہے لیکن بچہ درسی کتاب میں کم دلچسپی لیتا ہے کیونکہ درسی کتب ترتیب دیتے وقت بچوں کی زبان ، ان کی عمروں اور دلچسپیوں کا لحاظ نہیں رکھاجاتا ۔ جب بچے کی عمر زبان سیکھنے کی ہوتی ہے تو اسے اسٹائل سکھانا ٹھیک نہیں۔ اس بناوٹ میں بچوں کو اپنا ماحول نہیں ملتا۔ ان کتابوں کی غیر فطری زبان کے سبب بچوں کا دل اچاٹ ہوجاتا ہے ۔ اگر زبان آسان اور متاثر کرنے والی ہو تو پڑھنے میں بچے کی دلچسپی برقرار رہتی ہے ۔ زبان کے ساتھ ہی درسی کتب میں اسلوب کی اہمیت ہے ۔ اسلوب ایسا ہونا چاہئے کہ بچے کی دلچسپی کا سبب بنے اور اس کے ذہن کو گرفت میں لے لے ۔ درسی کتب کی ترتیب اور تدوین کے لئے ایسے اساتذہ اور مصنفین کا انتخاب ضروری ہے جو بچوں کی نفسیات سے واقفیت رکھتے ہوں اور بچوں کی دلچسپیوں اور رجحانات کا گہرا مطالعہ کرچکے ہوں ، درسی کتب کی تدوین کاری میں اردو اکادمیاں اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔ ان کے پاس اساتذہ بھی ہیں اور مصنفین و شعراء بھی۔
بچوں کے ادب میں رسائل اہم مقام رکھتے ہیں۔ ادب اطفال کا تین چوتھائی ذخیرہ ان رسائل میں محفوظ ہے۔ ایک رسالے میں بچوں کو بہت سی کہانیاں ، نظمیں، معلوماتی مضامین چٹکلے اور پہیلیاں وغیرہ سب ہی کچھ یکجا طور پر کم قیمت میں مل جاتا ہے ۔ رسالہ مصنف اور قارئین کے درمیان رابطہ بنائے رکھتا ہے ۔آج اردو ادب اطفال میں جو خلا دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ وہ ننھے قاری اور تخلیق کار کا کوئی رابطہ نہ ہونے کے سبب ہے۔ کتابوں کی قیمت زیادہ ہوتی ہے اور وہ زیادہ قارئین تک نہیں پہنچ پاتیں۔ جب کہ رسالہ دور دور تک پہنچ کر ننھے قاری کو اپنے پسندیدہ ادیب کے قریب رکھتا ہے ۔ بچوں کے اچھے رسائل اردو اکادمیاں باآسانی نکال سکتی ہیں۔ ان کے وسائل ہیں ۔ وہ اسکولوں اور لائبریویوں کے ذریعہ ۔۔۔ تک پہنچوا سکتی ہیں۔
بچوں کے ادب سے تعلق اور بچوں کے لئے ہندوستان کی ہر زبان میں اب تک جو کتابیں شائع ہوئی ہیں ، ان کی مکمل کتابیات تیار کرنا مفید ہوگا ۔ یہ فہرست تمام اسکولوں کی لائبریویوں ، اکادمیوں اور ناشران کتب کو بھیجی جائے۔
بچے میں خود پڑھنے کی عادت ڈالنے اور کتابوں کا انتخاب کرنے میں لائبریری بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔ بچے کومختلف موضوعات اور عنوانات پر بھرپور مواد لائبریری میں مل جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ذوق مطالعہ کے لئے جماعت کا کمرہ نہیں بلکہ لائبریری یا دارالمطالعہ زیادہ موثر ثابت ہوتا ہے۔ بچوں کے لئے اچھی لائبریری بے حد ضروری ہے ۔ اچھی لائبریری اچھی کتابوں ہی سے بنتی ہے ۔ اچھے رسائل ، اخبارات اور کتب کے انتخاب سے بچوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ بچوں کو لائبریری کا استعمال بتانا چاہئے ، لائبریری سے کتاب کس طرح لے سکتے ہیں، مختلف کتابوں اور رسالوںمیں بچوں کو اپنے درسی مضامین سے متعلق مواد کس طرح مل سکتا ہے؟
ادب اطفال کے فروغ کے لئے ضروری ہے کہ بچوں کے مصنفین اور شعراء کو ادبی مقام ملنا چاہئے ۔ ان کی تخلیقات پر انہیں انعامات سے نوازکر ان کی ہمت افزائی ضروری ہے ۔ بچوں کے لئے ایسی کتابیں بھی مفید ثابت ہوں گی جن میں بچوں کے ادیبوں اور شاعروں کی سوانح حیات ان کے ادبی کارنامے تصنیفات اور خدمات کا جائزہ لیاگیا ہو ۔ یہ کام دلکش زبان اور موثر اندازمیں کرنا ہوگا ۔
بچوں کے لئے کتابیں چھاپنے والے اور ان کتابوں کو قارئین تک پہنچانے والے اداروں کی راہ نمائی کرنا ان کو مالی معاونت دینا سرکار کا فرض ہے اس کے لئے سرکاری اور غیر سرکاری طور پر بچوں کے ادب پر سیمینار اور نمائش وقتاً فوقتاً ہونا چاہئیں۔ جن میں بچوں کو بھی شمولیت کا موقع ملنا چاہئے لیکن یہ سیمینار اور نمائش محض نشستند، گفتند اور برخواستند تک ہی محدود نہ رہے بلکہ تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کو اس پر نہ صرف سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا بلکہ جتنی جلد ممکن ہو اس کی سفارات کو عملی جامہ پہنانا ہوگا۔