بچوں کی تعلیم و تربیت اور ذہنی نشوونما

بچوں کی تعلیم و تربیت اور ذہنی نشوونما

عام طور پر یہی دیکھا جاتا ہے کہ مائیں اپنے ان بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال کا بہت زیادہ خیال رکھتی ہیں جو پیدائش کے بعد زیادہ سے زیادہ دو سال تک ماں کی خاص توجہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ یہ اسی پرورش اور دیکھ بھال کا نتیجہ ہے کہ وہی بچہ جو پیدائش کے بعد نہایت کمزور اور بے بس نظر آتا تھا اب مکان کے صحن میں دوڑتا دکھائی دیتا ہے۔ پہلے جب اُسے بھوک لگتی تھی تو وہ رونا شروع کردیتا تھا تاکہ ماں اسے اپنا یا بوتل کا دودھ پلائے۔ لیکن اب وہ نہ صرف ماں سے ہر چیز خود مانگ لیتا ہے بلکہ جب بھوک لگی ہوئی ہو اور ماں موجود نہ ہو تو باورچی خانے سے اپنے مطلب کی چیز نکال لیتا ہے۔

بچوں کی تعلیم و تربیت
پہلے ماں یا دادی اماں اسے گود میں لے کر اُس سے باتیں کرتی تھی ۔ وہ یہ باتیں سنتا تھا لیکن جواب نہیں دے سکتا تھا لیکن اب وہ ایسی پیاری باتیں کرتا ہے کہ سننے والے اس سے لطف اٹھاتے ہیں۔ ماں کو اپنی دو سال کی محنت کا پھل اس شکل میں مل گیا ہے کہ اب وہ بچے کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمہ داری کے بار کو ہلکا محسوس کرتی ہے اور اس میں شک نہیں کہ بظاہر یہ بار ہلکا معلوم ہوتا ہے ۔
لیکن جب بچے کی تربیت کے زاویہء نگاہ سے ماں کی ذمہ داری پر غور کیا جائے تو ہم بہت جلد اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ دو سے چھ سال کی درمیانی عمر کے بچے نہ صرف ماں بلکہ باپ کی خاص توجہ کے اس طرح مستحق ہیں جس طرح دو سال سے کم عمر کے بچوں کی پروروش اور نشوونما کیلئے ماں کی خاص توجہ کی ضرورت ایک لازمی امر ہے۔ تجربہ اور مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ جب بچہ اپنی عمر کے دو سال ختم کرلیتا ہے تو اپنی دو سالہ زندگی کے تجربات کی بناء پر اپنے گردوپیش کی چیزوں کو غائر نظر سے دیکھنے اور ان سے کام لینے کی طرف مائل ہوتا ہے۔ روزمرہ کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات کے متعلق اس کی معلومات کا دائرہ زیادہ وسیع ہوجاتا ہے۔ مثلاً قدرت اسے بتادیتی ہے کہ چاقو تیز ہوتا ہے ۔ شیشہ ٹوٹ جاتا ہے۔ آگ گرم ہوتی ہے اور اگر بلی کے بچے کی دُم کو زور سے کھینچا جائے گا یا اس کی آنکھوں میں انگلیاں ڈالی جائیں گی تو وہ اپنے ناخنوں سے اس کا جسم چھیلے گی۔ اسے معلوم ہوگیا ہے کہ یہ چیزیں اسے نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ اس لئے وہ احتیاط سے کام لیتا ہے۔ وہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے مکان کے باہر اپنی عمر کے بچوں سے ملتا ہے اور اپنے سے بہت زیادہ عمر کے لوگوں کو محنت سے کام کرتے دیکھتا ہے تو اس میل ملاپ اور آنکھوں دیکھے واقعات کا اس کے دل و دماغ پر ایک گہرا اثر پڑتا ہے۔ یہی اثر اس کی ذہنی نشوونما میں ممدومعاون ثابت ہوتا ہے۔

بچوں کی تربیت کے رہنما اصول
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو اور چھ سال کی درمیانی عمر کے بچے جب اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ گلی میں گزارتے ہیں تو پھر وہ کون سے ذرائع ہیں جن سے انھیں گندے اور ناشائستہ الفاظ سننے اور استعمال کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس کی وجہ یہی معلوم ہوتی ہے کہ جب گلی کے نوجوان لڑکے کسی چھوٹی سی بات پر آپس میں جھگڑتے ہیں اور ان کے اس جھگڑے کی نوبت گالی گلوچ تک پہنچ جاتی ہے تو وہ ایک دوسرے کو نہ صرف ماں بہن کی گالیاں دیتے ہیں بلکہ ایک دوسرے کی ناک پر گھونسہ جمانے میں بھی دیر نہیں کرتے ، انھیں کوئی روکنے یا سمجھانے والا نہیں ۔ اور انھیں روکے اور سمجھائے بھی کون؟ جبکہ روکنے اور سمجھانے والے یعنی والدین خود گندے اور ناپاک الفاظ استعمال کرنے کے اخلاقی مرض میں مبتلا ہیں۔ کئی کے کم سن بچے یہ گالیاں سنتے ہیں اور چونکہ ان کا حافظہ اب نسبتاً زیادہ قوی ہے اس لئے یہ گلی کے بڑے لڑکوں کی گندی اور ناشائستہ باتین یاد رکھتے ہیں اور بعض اوقات گھروں میں معصومانہ طور پر اپنے والدین کو بتادیتے ہیں۔ اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس عمر کے بچے ان باتوں کا اثر وہ خوشگوار ہو یا ناگوار بہت جلد قبول کرتے ہیں۔
اسلامی تہذیب اور اسلامی شائستگی کے اعلیٰ معیار کے مطابق اگر مذکورہ بالا عمر کے بچوں کی تربیت کا خیال رکھا جائیے تو ماں اور باپ دونوں پر شدید ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ شدید اس لحاظ سے کہ اگر اس عمر میں بچوں کی تربیت پر توجہ نہ کی گئی تو بچے یقینی طور پر بگڑ جائیں گے۔ اور پھر ان کے سدھرنے میں بڑی دقت پیش آئے گی۔ والدین کو یہ خیال دل سے نکال دینا چاہیے کہ مدرسے یا سکول میں داخل کراتے ہی وہاں کی تعلیم سے یہ بالکل ٹھیک ہوجائیں گے۔ والدین کو اسی عمر میں بچوں کے عادات و اطوار کی کڑی نگرانی رکھنی چاہیے۔ بُری عادتیں جب راسخ ہوجاتی ہیں تو بچوں کو ان کے چھوڑنے میں بڑی دشواری پیش آتی ہے۔

ٹیگ:
بچوں کی تعلیم و تربیت اور ذہنی نشوونما
بچوں کی ذہنی نشوونما
بچوں کی تربیت کے رہنما اصول
بچوں کی ذہنی تربیت
بچوں کی تربیت کے اصول

bachon ki taleem o tarbiat in urdu

bachon ki taleem o tarbiat in urdu speech

bachon ki taleem aur tarbiyat

bachon ki taleem o tarbiat

education and mental development of children

بچوں کی تعلیم و تربیت اور ذہنی نشوونما“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں