مسجد سے نکلتے ہوئے میری نظر ایک لڑکے پر پڑی جو نابینا تھا اور کاسہ لئے مسجد کے مرکزی دروازے پر بیٹھا تھا ۔ اس نے گود میں ایک تختی رکھی ہوئی تھی جس پر لکھا تھا کہ وہ اندھا ہے اس لئے اس کی مدد کی جائے ۔ میں نے پرس نکالا اور کچھ روپے نکال کر اس کے کاسے میں ڈال دئیے۔ میرے دئیے جانیوالے پیسوں کے علاوہ کاسے میں صرف بیس روپے تھے ۔ میں افسوس کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگا لیکن پھر ایک خیال نے مجھے پلٹنے پر مجبور کردیا اور میں واپس آکر اس کی تختی پر کچھ لکھنے لگا۔ اس کے بعدمیں اس نابینا لڑکے سے تھوڑا دور کھڑا ہوکر مشاہدہ کرنے لگا ۔ میری ترکیب کام کرگئی ، اب جو بھی اس لڑکے کے پاس سے گزرتا اس کے کاسے میں چند روپے ضرور ڈال دیتا ۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کا کاسہ پیسوں سے بھرگیا ۔ تب میں دوبارہ اس نابینا لڑکے کے پاس پہنچا تو اس لڑکے نے میرے پیروں کی آہٹ پہچانتے ہوئے مجھ سے پوچھا :
’’ بھیا! آپ نے میری تختی پر ایسا کیا لکھا کہ میرا کاسہ بھرگیا؟‘‘
میں نے جواب دیا : ’’ آج کا دن بہت خوبصورت ہے لیکن میں اسے دیکھ نہیں سکتا۔‘‘
میری بات سن کر اس کی آنکھیں بھیگ گئیں شاید اسکا احساسِ محرومی تازہ ہوگیا تھا ۔ بہرحال مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ میری تھوڑی سی محنت سے اس لڑکے کی امداد قدرے بہتر ہوگئی ۔ فرق صرف اتنا تھا کہ تختی کی تحریر پہلے صرف یہی بتارہی تھی کہ وہ لڑکا نابینا ہے لہذا اس کی مدد کی جائے جبکہ میں نے تحریر میں جو تبدیلی کی اس سے ہر پڑھنے والے کو احساس ہوا کہ وہ کتنا خوش قسمت ہے جو آج کے خوبصورت دن کو دیکھ سکتا ہے جبکہ یہ لڑکا اس نعمت سے محروم ہے ، اس وجہ سے لوگوں نے اس نابینا لڑکے کی مدد زیادہ کی ۔