سرکس کے سٹینڈ میں بندھے ہاتھیوں کو دیکھ میری حیرانی کی انتہا نہ رہی کہ قدرت کی اتنی بڑی تخلیق محض ایک چھوٹی سی رسی سے بندھی ہوئی ہے ۔ نہ لوہے کے پائیدار سنگل، نہ مضبوط پنجرے۔ ایک چھوٹی سی رسی کا ٹکرا جو سامنے والے پائوں سے بندھا ہوا ہے جسے وہ چاہے تو ایک معمولی سے جھٹکے سے بھی توڑسکتا ہے لیکن وہ ایسا کرتا نہیں ہے۔
اس بات کا جواب پانے کیلئے میں ہاتھیوں کے تربیت کار (ٹرینر) کے پاس جاپہنچا ۔ میری بات سن کر اس نے ایک قہقہہ لگایا اور بولا :
’’جب یہ ہاتھی بہت چھوٹے تھے تو ہم ان کو اسی چھوٹی سی رسی سے باندھتے تھے جو اس وقت ان کیلئے توڑنا ممکن نہیں ہوتا تھا۔ گو کہ اب یہ ہاتھی بڑے ہوگئے ہیں لیکن یہ ابھی بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ وہ یہ رسی نہیں توڑ سکتے اور یہی یقین انھیں اس کی کوشش بھی نہیں کرنے دیتا۔‘‘
تربیت کار کی بات سن کر میں بھی سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ ہم انسانوں میں بھی کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جو اس یقین کی خاطر کچھ نہیں کرپاتے کہ وہ یہ کام کرہی نہیں سکتے۔ ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ ناکامی بھی سیکھنے کے عمل کا ایک حصہ ہے اور ہمیں چاہیے کہ زندگی کی جدوجہد میں کبھی ہار نہ مانیں۔