Asal Pakistan by Ali Akmal Tasawar

اصل پاکستان ۔ علی اکمل تصور

وقت پر اٹھنے کے لئے لوگ الارم لگاتے ہیں لیکن اسے کسی الارم کی ضرورت نہیں تھی۔منہ اندھیرے خود بخود اس کی آنکھ کھل جایا کرتی تھی۔نماز فجر گھر پہ ہی ادا کرنے کے بعد وہ باہر نکلتا۔سردی ہو یا گرمی،بارش ہویا پھر طوفان۔۔۔اسے گھر سے نکلنا ہی ہوتا تھا۔وہ بھی ایک ایسی ہی صبح تھی۔وہ موسم شرما اپنے شباب پر تھا۔دھند کی وجہ سے اندھیرا اجالے پر غالب آرہا تھا۔سردی کی شدت کی وجہ سے وہ گرم اونی چادر اپنے گرد لپیٹ رہا تھا۔ایسے میں ساجدہ بولی:”ابو جان میرا دل گھبرا رہا ہے،آج آپ مت جائیں “ساجدہ کی بات سن کر وہ ہنس پڑا۔”میری پیاری بیٹی،میں رک نہیں سکتا مجھے جانا ہوگا۔”میں جانتی ہوں آپ رک نہیں سکتے لیکن تاخیر سے بھی تو جاسکتے ہیں ناں “،”ہاں تاخیر سے جاسکتا ہوں مگر تاخیر سے جانے کا مطلب سمجھتی ہو ناں تم۔۔۔روزی روٹی کا معاملہ ہے اگر بے چینی بڑھ رہی ہے تو دعا کرو”،”جی ابو جان”
اس نے پیار سے بیٹی کے سر پہ ہاتھ پھیرا اور گھر سے نکل آیا۔سرد ہوا کے تھپیڑوں نے اس کا استقبال کیا۔وہ گلی میں سے ہوتا ہوا بازار میں آیا۔چاروں طرف سناٹا تھا۔بازار میں کوئی راہ گیر بھی نظر نہیں آرہا تھا۔چلتے چلتے اس نے سرسراہٹ کی آواز سنی،کوئی تھا جو اس کے قدموں پر قدم رکھتا چلا آرہا تھا۔ایک لمحے کے لئے اسے خوف کا احساس ہوا مگر پھر اس نے سر جھٹک دیا۔یہ اس کا وہم بھی تو ہوسکتا تھا۔کیونکہ اگلے ہی لمحے کسی نے اسے عقب سے دبوچ لیا۔پھر موسم سے زیادہ سرد آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی:”خبردار، ورنہ جان سے جاؤ گے۔۔۔”وہ شور مچانا چاہتا تھا۔کسی کو مدد کے لئے بلانا چاہتا تھا۔مگر اس کی آواز گلے میں ہی گھٹ کر رہ گئی،اسے محسوس ہوا کہ ریوالور کی نال اس کے گلے میں چبھ رہی تھی۔لٹیرے کو ہر حال میں اسے لوٹنا تھا،وہ مال کا دشمن تھا۔اگر وہ مال بچانے کی کوشش کرتا تو جان سے جاتا۔مال تو پھر بھی لٹیرے نے لوٹ ہی لینا تھا۔اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس نے سارا مال لٹیرے کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرلیا۔اب لٹیرا سامنے آچکا تھا۔اس نے کپڑے کی وجہ سے اپنا چہرہ ڈھانپ رکھا تھا۔”نقد رقم میرے حوالے کردو”لٹیر اپھنکارا۔اس نے اپنی جیب سے دس ہزار روپیہ نکالا اور لٹیرے کے حوالے کردیا،لٹیرے نے فوراََ رقم دبوچ لی۔پھر جیسے بجلی سی کوندی ہو،لٹیرے نے اپنے ہاتھ میں موجود ریوالور کا دستہ اس کے سر پہ مارا۔وہ بے سدھ ہوکر گرگیا۔اس واردات میں لٹیرے نے کامیابی حاصل کی تھی۔تھوڑی دیر بعد اس کے معطل حواس بحال ہوگئے۔وہ کراھتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اس کا سر پھٹ چکا تھا۔خون کی ایک باریک سی لکیر اس کے رخسار پر بہہ رہی تھی۔درد اب برداشت کی حد میں تھا۔اس نے ادھر ادھر دیکھا کوئی بھی پاس موجود نہ تھا۔اب وہ اٹھ کھڑا ہوا اسے چکر آیا تھا۔مگر اس نے خود کو سنبھال لیا۔وہ پھر سے چل پڑا۔پانچ منٹ کی مسافت کے بعد اس نے ایک مسجددیکھی،یہاں پانی کی مدد سے اس نے اپنا زخم دھویا اور اپنے پاس موجود رومال سر پر باندھ لیا،پھر وہ مسجد سے باہر نکلا اور اور سڑک پر چلا آیا۔اب تاریکی پر روشنی غالب آرہی تھی۔مگر دھند نے ماحول کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔سڑک پہ اکا دکا رکشے موجود تھے۔وہ ایک رکشے میں آبیٹھا۔”پھل منڈی لے چلو بھائی”،اس کی آواز میں نقاہت تھی۔رکشے والے نے رکشہ آگے بڑھا دیا۔”راستے میں سواریاں بٹھا لینا کرائے میں بچت ہوجائے گی”اس نے رکشے والے کو مشورہ دیا۔
منڈی پہنچ کر اس نے خفیہ جیب سے کرایہ نکال کر دیا اور منڈی میں داخل ہوگیا۔حبیب آڑھتی اس کا دوست تھا۔وہ اپنے ٹھیلے پر پھل فروخت کرنے کے لئے ہمیشہ حبیب سے لیتا تھا۔وہ جب حبیب کے پاس پہنچا تو حبیب نے اس کی حالت بھانپ لی۔
“کیا ہوا قاسم،آج تو کچھ گڑبڑ ہے”،”ہاں راستے میں ایک ڈاکو نے گھیر لیا اس نے رقم بھی چھین لی اور زخم کا تحفہ بھی دے دیا۔”قاسم کی بات سن کر حبیب پریشان ہوگیا۔”خدا ان ظالموں سے سمجھے”حبیب نے بددعا دی۔”تم پریشان مت ہو،جتنا جی چاہے پھل لے جاؤ۔حساب کتاب بعد میں ہوتا رہے گا۔”،”تم میری فطرت سے آگاہ ہو حبیب،میں ادھار نہیں لیتا۔میں نے تین ہزار روپے اپنی خفیہ جیب میں ڈال رکھے تھے انہیں سے کام چلاؤں گا۔امید ہے اللہ برکت ڈالے گا۔”قاسم ٹھوس لہجے میں بولا۔
اس نے رقم حبیب کو ادا کی،روزانہ وہ پندرہ سے زائد پیٹیاں لیا کرتا تھا لیکن آج وہ چار پیٹیاں ہی حاصل کرپایا۔وہ پیٹیاں اس نے رکشے میں ڈالیں اور ملت چوک چلا آیا جہاں وہ پھلوں کا ٹھیلا لگاتا تھا۔ٹوٹا پھوٹاٹھیلا ایک کونے میں موجود تھا۔قاسم پانی بھر کر لایا اور ٹھیلے کو دھویا۔آس پاس کی جگہ کو سیراب کیا اورکام کا اگلا مرحلہ شروع کیا۔اس نے گتے کی پیٹی پر موجود ٹیپ کاٹ دی،پیٹی کھلی تو چمکتے دمکتے خوشبودار سیب اس کی آنکھوں کے سامنے تھے۔وہ ایک ایک سیب اٹھا کر ترتیب سے ٹھیلے پر سجانے لگا۔ایک تہہ ختم ہوئی تو دوسری تہہ کی باری آئی۔لیکن جونہی اس نے دوسری تہہ میں سے پہلا سیب اٹھا یا اسے ایک زوردار جھٹکا لگا۔وہ سیب گلا سڑا ہوا تھا۔اس نے تیزی سے دوسرے سیب اٹھا کر دیکھنے شروع کئے ان کی بھی وہی حالت تھی۔جنونی انداز میں اس نے ساری پیٹیاں کھولیں،پہلی دوسری اور تیسری۔۔۔ہرپیٹی ایک ہی کہانی سنا رہی تھی۔قاسم سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔اسے ڈاکو سے لٹنے کی تکلیف سے زیادہ یہ بے ایمانی کی تکلیف درد دے رہی تھی۔ایک وہ ڈاکو تھا جس نے سامنے آکر اسے لوٹا تھا۔اور ایک یہ ڈاکو تھا۔لٹنے والے کو خبر نہیں تھی کہ اسے کس نے لوٹا ہے۔یہ سب سے خطرناک ڈاکہ تھا،ایک غریب پھل فروش نے ایک غریب پھلوں کی پیٹی لگانے والے نے لوٹ لیا تھا۔اوپر والی طے صاف شفاف سیبوں کی تھی۔تونیچے داغوں والا مال بھرا ہوا تھا۔قاسم کی آنکھوں کے سامنے موجود منظر دھندلا گیا تھا۔آنسوؤں نے لپک کر اس کی آنکھوں میں بسیرا کرلیا تھا۔پھر ضبط کا بند ٹوٹ گیا۔وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔اسے روتا دیکھ کر راہ چلتے لوگ رک گئے۔”کیا ہوا قاسم،ہوش کر “قاسم کاایک پڑوسی دکاندار اس کے پاس چلا آیا۔”کیسے ہوش کروں،کیسے صبر کروں۔ظالموں نے مجھ سے میرے بچوں کی روزی چھین لی۔”قاسم سسک کر بولا۔قاسم کے ساتھی نے ٹھیلے کی طرف دیکھااور پھر وہ ساری بات سمجھ گیا۔
“یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے”وہ سرد آہ بھر کر بولا،”کیوں سب چلتا ہے؟”
پاکستان تو اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا۔یہاں تو اسلامی حکومت ہونا چاہیے تھی۔اس ملک کو چوروں اور ڈاکوؤں سے پاک ہونا چاہئے تھا۔لوگوں کو ایماندار ہونا چاہئے تھا۔عزت،جان اور مال محفوظ ہونا چاہئے تھا۔اگر ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا تو عزتوں،جان اور مال کی قربانی دینے کی بھلا کیا ضرورت تھی۔انگریزوں اور ہندوؤں کی غلامی میں بھی تو یہی کچھ ہوتا تھا۔قاسم کا شکوہ سن کر سب لوگوں کے سر جھک گئے۔کسی کے پاس قاسم کے سوالوں کے جوابات نہیں تھے۔قاسم سے ہمدردی کا اظہار کرنے کے بعد سب وہاں سے چلے گئے۔اب قاسم دکھتے دل کے ساتھ اپنا ٹھیلا سجانے لگا۔ایک کونے میں صاف شفاف سیب تھے تو دوسرے کونے میں داغ دار سیب۔۔۔اب گاہک کی مرضی پر منحصر تھا کہ وہ اپنے لئے کیا پسند کرتا ہے۔سورج سر پر پہنچ چکا تھا۔جب قاسم نے حبیب کو آتے دیکھا۔حبیب کا گھر اس سمت میں تھا،وہ روزانہ قاسم سے ملنے کے بعد گھر جاتا تھا۔قاسم کے چہرے پر غم کے تاثرات دیکھ کر حبیب بولا:”کیا ہوا قاسم؟”،”خود ہی دیکھ لو”قاسم نے ٹھیلے کی طرف اشارہ کیا۔داغ لگے سیب دیکھ کر حبیب افسوس کرتے ہوئے بولا:اس میں میرا کوئی قصور نہیں،مال دوسرے شہروں سے آتا ہے میں تو بس منڈی میں فروخت کرتا ہوں۔
اس کی بات سن کر قاسم بے دلی سے مسکرایا۔”میں نے آپ کو کب قصوروار کہا مگر میرا دل سوگوار ہے،آج ایک ہی روزمیں دو با رلٹ چکا ہوں ”
میرے پاس ایک ترتیب ہے اس پر عمل کرنے سے تم نقصان سے بچ جاؤ گے۔حبیب بولا
“غور سے سنو،سب سیب الگ الگ نہ رکھو،انہیں ملا دو اور داغ والا حصہ نیچے کردو۔اور ہاتھ کی صفائی سے کام لو۔”
“آپ کے کہنے کا مطلب ہے کہ میرے ساتھ دھوکا ہوا ہے تو میں گاہکوں کے ساتھ دھوکا کروں “قاسم حبیب کی ترکیب سن کر چونک پڑا۔”ہاں اس میں حرج کیا ہے،یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے”
“مگر میں ایسا نہیں کرسکتا۔۔۔”قاسم ٹھوس لہجے میں بولا۔”کیوں؟”حبیب کا لہجہ سوالیہ تھا۔”کیونکہ میں ایک پاکستانی ہوں۔”قاسم اطمینان سے بولا۔حبیب کا سرجھک گیا۔وہ جھکے کندھوں کے ساتھ اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔قاسم کے چہرے پر عزم تھا۔نور تھااور وہ یہ بات جانتا تھا کہ انفرادی طور پرپاکستانی بن کر ہی اصل پاکستان بنایا جاسکتا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں