کسی جنگل میں کیکر کے ایک پرانے درخت پر کووں کا ایک جوڑا اپنے ننھے بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ ایک روز کوے نے اپنی بیوی کو بتایا:’’سنا ہے ہمارے جنگل میں ایک زہریلا سانپ آگیا ہے جس نے پلک جھپکتے میں سب کو ہلاک کرنا شروع کردیا ہے اور اب خالہ چیل کے بچوں کو بھی اس ظالم نے ڈس لیا ہے۔‘‘
کوے کی چیخ و پکار سن کر اس کی مادہ نے کہا:’’اب ہمارا کیا ہوگا ؟ ہم کہاں جائیں گئے ؟ وہ تو ہمارے گھونسلے تک بھی پہنچ جائے گا!‘‘
’’سوچتے ہیں کہ کیا کریں۔‘‘ کوے نے اپنی بیوی کی ہمت بندھائی۔
وہیں سے ایک عقاب گزرا تو اس نے کہا:’’مجھے بتائو کیا مسئلہ ہے۔ تم لوگ کیوں پریشان ہو؟‘‘
یہ سن کر کوے نے اسے پوری کہانی سنادی اور کہا:’’اس مشکل وقت میں کون ہماری مدد کرے گا؟‘‘
عقاب نے کہا:’’مایوسی کی کوئی بات نہیں، اللہ ہماری مدد ضرور کرے گا۔ ہمیں اسی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔‘‘ یہ کہہ کر عقاب وہاں سے چلا گیا۔
وہ ساری رات کوے کی مادہ نے اپنے بچوں کی خاطر جاگ کر گزاری۔ ابھی نیند آئی ہی تھی کہ نیلی چڑیا کی آواز سنی جو اسے اپنے پاس بلا رہی تھی۔
مادہ پریشان دل سے اس کی طرف بڑھی۔ جنگل کے سب جانور ادھر جمع تھے۔ جب وہ کچھ قریب گئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ زمین پر ایک بڑا سا سانپ پڑا ہے جس کے جسم سے ڈھیروں چونٹیاں چمٹی ہوئی ہیں۔ وہ مر چکا تھا۔
ایک بھوری چیونٹی عقاب کے پاس آئی اور کہا:’’میں چیونٹیوں کی ملکہ ہوں، کل رات جب تم کوے اور اس کی بیوی سے باتیں کر رہے تھے تو میں نے تمہاری ساری بات سن لی تھی، تمہارا اللہ پہ یقین مجھے اس قدر پسند آیا کہ میں نے خود سے وعدہ کیا کہ تم سب کی اس مصیبت میں ضرور مدد کروں گی اور پھر میری چیونٹیوں کی فوج نے اس کوشش میں میرا ساتھ دیا۔ خود دیکھ لو کہ اس ظالم کا کیا حال ہوا ہے!‘‘
بھوری چیونٹی کی بات سن کر سب بہت خوش ہوئے۔ آخر اللہ نے ان کی دعا سن لی تھی اور ننھی چیونٹی کو وسیلہ بنا کر بھیج دیا تھا۔ پھرعقاب کے ساتھ سب نے اس کا شکریہ ادا کیا جن کی مشترکہ کوششوں سے یہ سب محفوط ہوگئے تھے۔ اس کے بعد وہ سب سکون و اطمینان سے اپنے اپنے گھونسلوں میں رہنے لگے ۔
٭…٭…٭