chacha bhulakkar ne biryani pakai

چچا بھلکڑ نے بریانی پکائی ۔ عاطر شاہین

چچا بھلکڑ بائیں ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ پکڑے گھر میں داخل ہوئے اور اپنی بیگم حمیرا کو آوازیں دینا شروع کر دیں۔
’’بیگم… بیگم…‘‘
حمیرا باورچی خانے میں رات کا کھانا بنانے میں مصروف تھی چچا بھلکڑ کی آواز سن کر چونک پڑی۔
’’اللہ خیر کرے، آج تو شاد صاحب جلدی گھر آ گئے ہیں۔‘‘ حمیرا نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور باورچی خانے سے باہر نکل آئی۔ اس نے جب چچا بھلکڑ کے ہاتھ میں مٹھائی کا ڈبہ دیکھا تو وہ حیران رہ گئی۔
’’شاد صاحب! یہ مٹھائی کس لئے لائے ہیں اور آج آپ دفتر سے بھی جلدی آ گئے ہیں۔‘‘ حمیرا نے چچا بھلکڑ کو سلام کرتے ہوئے کہا تو چچا بھلکڑ کے چہرے پر مسکراہٹ ابھر آئی۔
’’بیگم! تم بوجھو میں یہ مٹھائی کس لئے لایا ہوں؟‘‘ چچا بھلکڑ نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ بدستور موجود تھی۔
’’شاید آپ کی ترقی ہو گئی ہے۔‘‘
’’نہیں…‘‘ چچا بھلکڑ نے انکار میں سر ہلایا۔
’’پھر آپ کے بھولنے کی عادت ختم ہو گئی ہو گی۔‘‘
’’نہیں، یہ بھی نہیں۔‘‘ چچا بھلکڑ نے ایک بار پھر انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ ’’ویسے میرے بھولنے کی عادت کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔‘‘
’’پھر…‘‘ حمیرا سوچنے لگی۔ ’’پھر آپ کی تنخواہ بڑھ گئی ہو گی۔‘‘
’’اب تم نے صحیح بوجھا ہے۔‘‘ چچا بھلکڑ نے مسکراتے ہوئے کہا تو حمیرا خوش ہو گئی۔
’’کیا آپ صحیح کہہ رہے ہیں آپ کی تنخواہ بڑھ گئی ہے۔‘‘ حمیرا نے بے یقینی سے کہا۔
’’ہاں بیگم۔ میری تنخواہ بڑھ گئی ہے۔‘‘ چچا بھلکڑ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوے کہا۔ ’’اور اسی خوشی میں، میں تمہارے لئے مٹھائی لایا ہوں۔ یہ لو اور پیٹ بھر کر مٹھائی کھائو۔‘‘
پھر چچا بھلکڑ نے مٹھائی کا ڈبہ حمیرا کو دے دیا تو حمیرا نے ڈبہ کھول کر دیکھا تو اس میں مٹھائی کے تمام لوازمات موجود تھے جو مٹھائی کا خاصا ہوتے ہیں۔
’’پہلے آپ مٹھائی کھائیں۔‘‘ حمیرا نے ڈبہ چچا بھلکڑ کے سامنے کرتے ہوئے کہا تو چچا بھلکڑ نے ایک گلاب جامن اٹھا کر منہ میں ڈالا اور کھانے لگے جبکہ حمیرا نے برفی کھائی کیونکہ اسے برفی بے حد پسند تھی۔
’’تنخواہ کتنی بڑھی ہے۔‘‘ حمیرا نے پوچھا۔
’’بیگم! میری تنخواہ پہلے آٹھ ہزار بھی اب دس ہزار ہو گئی ہے۔‘‘ چچا بھلکڑ نے جواب دیا تو حمیرا کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ وہ اللہ کا شکر ادا کرنے لگی۔
’’اچھا سنو بیگم!‘‘ چچا بھلکڑ نے گلاب جامن کھانے کے بعد کہا۔ ’’میری تنخواہ بڑھنے کی خوشی میں میرے دوستوں نے مجھے دعوت کھلانے کا کہا ہے۔ چونکہ کل اتوار ہے اس لئے میں نے اپنے دوستوں کو کل بریانی کھلانے کی دعوت دی ہے۔ اور ہاں بریانی میں خود پکائوں گا۔ تم مجھے بریانی کا سامان لکھوا دینا۔‘‘
’’کیا آپ کو بریانی پکانی آتی ہے؟‘‘ حمیرا نے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’ہاں! مجھے بہت اچھی اور مزے دار بریانی پکانی آتی ہے۔ تم ایک بار کھائو گی تو اپنی انگلیاں چاٹتی رہ جائو گی۔‘‘ چچا بھلکڑ نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’بلکہ ہو سکتا ہے کہ آئندہ تم مجھ سے ہی بریانی پکوائو۔‘‘
چچا بھلکڑ کی بات پر حمیرا کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ پھر اس نے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ آپ ہی بریانی پکائیے گا۔‘‘
’’تم مجھے سامان لکھوا دینا میں صبح بازار جا کر لے آئوں گا۔‘‘ چچا بھلکڑ نے کہا۔
’’چائے پیئیں گے؟‘‘
’’ہاں۔ بنا دو۔‘‘ چچا بھلکڑ نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا تو حمیرا مٹھائی کا ڈبہ لئے باورچی خانے میں چلی گئی جبکہ چچا بھلکڑ برآمدے میں ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ حمیرا نے ڈبہ فریج میں رکھا اور چائے بنانے لگی۔‘‘
رات کا کھانا کھانے کے بعد حمیرا نے چچا بھلکڑ کر بریانی کا سامان لکھوا دیا۔ چچا بھلکڑ نے کاغذ تہہ کر کے اپنے بستر کے قریب پڑی میز پر رکھ دیا کہ وہ صبح بازار جاتے ہوئے کاغذ اٹھاتے جائیں گے۔
صبح ناشتہ کرنے کے بعد سات بجے چچا بھلکڑ نے لباس کے اوپر شیروانی پہنی اور گھر سے نکل کر بازار میں ایک کریانے کی دکان پر پہنچ گئے۔ کریانے والے کا نام رحیم بخش تھا اور وہ ادھیڑ عمر تھے۔ ان کو نظر کی عینک لگی ہوئی تھی۔ چونکہ چچا بھلکڑ گھر کا سودا سلف اسی کریانے سے خریدتے تھے اس لئے ان کی رحیم بخش سے اچھی خاصی دعا سلام تھی اس لئے چچا بھلکڑ جب دکان پر پہنچے تو رحیم بخش نے ان کا خوش دلی سے استقبال کیا۔
’’ارے شاد میاں۔ کافی دنوں کے بعد آئے ہو۔ کہاں تھے اتنے دن؟‘‘ رحیم بخش نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’بس رحیم بھائی! مصروفیت اتنی تھی کہ تمہاری طرف آنا ہی نہیں ہوا۔‘‘ چچا بھلکڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’کیا چاہئے شاد میاں؟‘‘ رحیم بخش نے پوچھا۔
’’رحیم بھائی! میں بریانی کا سامان لینے آیا ہوں۔ میں تمہیں کاغذ دیتا ہوں اس پر سارا سامان لکھا ہوا ہے تم مجھے وہ دے دو۔‘‘ چچا بھلکڑ نے شیروانی کی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا۔ دوسرے ہی لمحے وہ یوں اچھل پڑے جیسے بچھو نے ان کے پائوں پر ڈنک مار دیا ہو۔
’’اوہ… اوہ…‘‘
’’کیا ہوا شاد میاں؟‘‘ رحیم بخش نے چونک کر پوچھا۔
چچا بھلکڑ نے شیروانی کی جیب سے ہاتھ باہر نکالا تو ان کا ہاتھ خالی تھا۔ چچا بھلکڑکے چہرے پر پریشانی کی لہریں دوڑ رہی تھیں اور وہ شرمندہ شرمندہ سی نظروں سے اپنے خالی ہاتھ کو گھور رہے تھے۔ انہیں یاد آ گیا تھا کہ گھر سے نکلتے وقت انہوں نے میز پر پڑا کاغذ اٹھا کر شیروانی میں نہیں ڈالا تھا۔
’’رحیم بھائی! میں وہ کاغذ گھر ہی بھول آیا ہوں جس پر بریانی کا سامان لکھا ہوا تھا۔‘‘ چچا بھلکڑ نے کھسیانے انداز میں کہا۔ ’’میں ابھی کاغذ لے آتا ہوں۔‘‘
چچا بھلکڑ مڑ کر جانے لگے تو رحیم بخش نے انہیں آواز دی۔
’’ارے شاد میاں۔ بات سنو۔‘‘
چچا بھلکڑ رکے اور مڑ کر استفہامیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھنے لگے۔
’’شاد میاں۔ مجھے پتہ ہے کہ بریانی میں کیا کیا چیزیں ڈالی جاتی ہیں۔ میں تمہیں سامان پیک کر دیتا ہوں۔‘‘ رحیم بخش نے کہا تو چچا بھلکڑ کے چہرے پر خوشی کے تاثرات ابھر آئے۔
’’تو پھر ٹھیک ہے۔ پیک کر دو سامان۔‘‘ چچا بھلکڑ نے کہا۔
’’یہ بتائو۔ بریانی کتنی پکانی ہے۔ ایک کلو یا دو کلو۔‘‘ رحیم بخش نے پوچھا۔
’’یہ تو مجھے یاد ہی نہیں ہے۔‘‘ چچا بھلکڑ نے متفکر لہجے میں کہا۔ ’’میری بیگم کو پتہ ہے۔ دراصل میں نے کل اپنے دوستوں کی بریانی کھلانے کی دعوت دی ہے اس لئے میری بیگم نے ایک کاغذ پر سامان لکھوا دیا تھا۔ ارے ہاں یاد آیا۔ ڈیڑھ کلو چاول لکھوائے تھے بیگم نے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ اب مجھے اندازہ ہو گیا ہے۔‘‘ رحیم بخش نے مسکراتے ہوئے کہا اور پھر وہ بریانی کا سامان پیک کرنے لگے۔ تھوڑی دیر کے بعد انہوںنے سارا سامان ایک شاپر میں ڈال کر چچا بھلکڑ کو دے دیا۔
’’ارے رحیم بھائی! تم نے مرغی کا گوشت نہیں ڈالا۔‘‘ چچا بھلکڑ شاپر میں جھانکتے ہوئے بولے۔
’’شاد میاں! مرغی کا گوشت تو مرغی فروش والی دکان سے ملے گا۔ میں تو صرف کریانے کا سامان ہی فروخت کرتا ہوں۔‘‘ رحیم بخش نے جواب دیا تو چچا بھلکڑ شرمندہ ہو گئے۔
’’ارے ہاں یہ تو میں بھول ہی گیا تھا۔‘‘ چچا بھلکڑ نے کہا۔ ’’اچھا کتنے پیسے بن گئے؟‘‘
’’تین سو روپے۔‘‘
چچا بھلکڑ نے قمیص کی جیب سے تین سو روپے نکال کر رحیم بخش کو دئیے اور پھر اسے سلام کر کے مرغی فروش کی دکان کی طرف بڑھ گئے۔ اب انہیں یہ یاد نہیں تھا کہ حمیرا نے انہیں مرغی ایک کلو لکھوائی تھی یا دو کلو۔ یہی سوچتے ہوئے وہ مرغی فروش کی دکان پر پہنچ گئے۔ چونکہ صبح کا وقت تھا اس لئے مرغی فروش کی دکان پر رش نہ تھا۔ چچا بھلکڑ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ مرغی کا گوشت کتنا بنوائیں۔ وہ اسی ادھیڑ بن میں مبتلا تھے کہ مرغی فروش نے چچا بھلکڑ کو سوچوں سے باہر نکال دیا۔
’’چچا! مرغی کا گوشت کتنا بنا دوں؟‘‘
چچا بھلکڑ کشمکش میں مبتلا ہو رہے تھے کہ وہ مرغی فروش کو کیا جواب دیں۔ پھر انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ وہ دو کلو گوشت بنوا لیتے ہیں۔ اگر کم پڑ گیا تو وہ دوبارہ بازار آ کر لے جائیں گے چنانچہ انہوں نے مرغی فروش کو دو کلو گوشت بنانے کاکہہ دیا۔ مرغی فروش نے پانچ منٹ میں دو کلو گوشت بنا کر انہیں دے دیا تو چچا بھلکڑ گوشت اور بریانی کا سامان لئے گھر پہنچ گئے۔ حمیرا پریشانی کے عالم میں برآمدے میں بیٹھی تھی کیونکہ اس نے دیکھ لیا تھا کہ چچا بھلکڑ بریانی کے سامان والی پرچی گھر بھول گئے ہیں۔ چچا بھلکڑ کے ہاتھ میں شاپر دیکھ کر وہ حیران رہ گئی۔
’’لو بیگم! میں بریانی کا سارا سامان لے آیا ہوں۔‘‘ چچا بھلکڑ نے دونوں شاپر چارپائی پر رکھتے ہوئے کہا۔
’’آپ بریانی کے سامان والی پرچی تو گھر بھول گئے تھے۔ پھر آپ نے یہ سامان کیسے خرید لیا‘‘۔ حمیرا نے سامان دیکھتے ہوئے کہا تو چچا بھلکڑ نے ساری بات اسے بتا دی۔ حمیرا کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی حالانکہ وہ قہقہہ مار کر ہنسنا چاہتی تھی مگر وہ ایسا نہ کر سکی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ اس کے ہنسنے سے چچا بھلکڑ ناراض ہو جائیں گے۔
’’اگر گوشت کم ہے تو مجھے بتا دو میں بازار سے جاکر لے آتا ہوں۔‘‘ آخر میں چچا بھلکڑ نے کہا۔
’’نہیں۔ ڈیڑھ کلو بریانی میں ڈیڑھ کلو گوشت ہی ڈلے گا۔ باقی پائو گوشت میں فریج میں رکھ لوں گی۔ کل شام کو پکا لوں گی۔‘‘ حمیرا نے جواب دیتے ہوئے کہا تو چچا بھلکڑ اثبات میں سر ہلاتے ہوئے چارپائی پر بیٹھ گئے۔
’’بریانی کا باقی سامان پورا ہے؟‘‘
’’ہاں۔‘‘ حمیرا نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’ٹھیک ہے۔ تم مجھے گوشت صاف کر دو میں بریانی پکانا شروع کروں۔ میرے دوستوںنے دوپہر ڈیڑھ بجے تک آ جانا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ جب وہ آئیں تو بریانی تیار نہ ہوئی ہو۔‘‘ چچا بھلکڑ نے حمیرا سے کہا تو وہ گوشت اور بریانی کے سامان کا شاپر لئے باورچی خانے میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد حمیرا نے گوشت کو اچھی طرح دھو لیا تو اس نے چچا بھلکڑ کو بتا دیا اور چچا بھلکڑ باورچی خانے میں پہنچ گئے۔ چچا بھلکڑ چاہتے تھے کہ وہ اپنے دوستوں کے آنے سے پہلے ہی بریانی پکا کر فارغ ہو جائیں اس لئے وہ جلدی جلدی کام کرنے لگے۔ سب سے پہلے وہ انہوں نے پیاز چھیلنے اور کاٹنے شروع کر دئیے۔ چچا بھلکڑ نے ابھی آدھا پیاز ہی کاٹا تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو نکلنے شروع ہو گئے۔ حمیرا نے چچا بھلکڑ کی یہ حالت دیکھی تو اسے ان پر ترس آ گیا۔
’’شاد میاں! لائیے میں پیاز کاٹ دیتی ہوں۔‘‘
’’نہیں بیگم! میں نے اپنے دوستوں سے وعدہ کیا ہے کہ میں بریانی اپنے ہاتھوں سے ہی پکائوں گا اس لئے پیاز بھی میں خود ہی کاٹ لوں گا۔‘‘ چچا بھلکڑ نے عینک اتار کر آستین سے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا تو حمیرا خاموش ہو گئی۔ چچا بھلکڑ نے عینک دوبارہ آنکھوں پر لگائی اور دوبارہ پیاز کاٹنے میں مگن ہو گئے۔
پیاز کاٹنے کے بعد چچا بھلکڑ نے انہیں پتیلے میں گھی ڈال کر سنہری کرنا شروع کر دیا۔ جب پیاز سنہری ہو گئے تو چچا بھلکڑ نے پسا ہوا لہسن، ٹماٹر اور تمام مصالحے ڈال کر بھوننا شروع کر دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد انہوں نے اس میں گوشت بھی ڈال دیا۔ ایک چولہے پر وہ گوشت بھون رہے تھے جبکہ دوسرے چولہے پر انہوں نے پتیلے میں چاول ابالنے کے لئے رکھ دئیے۔ چچا بھلکڑ نے بریانی پکانے کا طریقہ ایک رسالے میں پڑھا تھا۔ شادی سے پہلے دو تین بار انہوں نے اپنے لئے بریانی پکائی تھی اس کے بعد آج موقع ملا تھا۔
گوشت کو اچھی طرح گلانے کے بعد انہوں نے دو چمچ نمک کے بھی ڈال دئیے۔ حمیرا گھر کے کام کاج میںمصروف ہو گئی تھی۔ چچا بھلکڑ کو بھولنے کی عادت تھی اس لئے وہ یہ بھول گئے تھے کہ انہوں نے مرغی کا گوشت بھوننے کے دوران دو چمچ نمک ڈال دیا تھا۔ وہ اچانک چونک پڑے۔
’’افوہ! میں تو نمک ڈالنا ہی بھول گیا ہوں۔ خیر کوئی بات نہیں۔ اب نمک ڈال دیتا ہوں۔‘‘ چچا بھلکڑ نے خود کلامی کرتے ہوئے کہا پھر انہوں نے تین چمچ نمک مزید گوشت میںڈال دئیے اور اچھی طرح گوشت میں مکس کرنے کے بعد پتیلے اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد چاول بھی بوائل ہو گئے تو چچا بھلکڑ نے اخبار میں لکھے ہوئے طریقے کے مطابق ایک اور پتیلے میں تھوڑے سے چاول اور ان کے اوپر بھنے ہوئے گوشت کی تہہ لگائی۔ اسی طرح انہوں نے بریانی تیاری کر لی اور باورچی خانے سے نکل کر صحن میں کرسی پر آ کر بیٹھ گئے۔ اس وقت دوپہر کا ایک بج رہا تھا۔ چچا بھلکڑ کے دوستوں نے ڈیڑھ بجے آنا تھا اس لئے چچا بھلکڑ کے چہرے پر اطمینان کے تاثرات ابھر آئے تھے۔
’’بریانی بنا لی؟‘‘ اسی لمحے حمیرا نے چچا بھلکڑ کر اطمنان سے کرسی پر بیٹھے دیکھا تو پوچھا۔
’’ہاں بیگم! اب دوستوں کا انتظار کر رہا ہوں۔‘‘ چچا بھلکڑ نے جواب دیا۔
’’مصالحہ اور نمک تو چیک کر لیا تھا نا۔‘‘
’’ہاں بیگم!‘‘
تھوڑی دیر کے بعد چچا بھلکڑ کے دوست اقبال، منظور، کامران اور نیاز ایک ساتھ آ گئے۔ وہ چاروں چچا بھلکڑ کے ہم عمر تھے اور ان کے ساتھ دفتر میں کام کرتے تھے۔ چچا بھلکڑ نے انہیں بیٹھک میں بٹھایا اور پتیلے لا کر ان کے سامنے چٹائی پر رکھ دی۔ پھر وہ پلیٹیں اور چمچ بھی لے آئے۔
’’لو دوستو! میں نے اپنے ہاتھوں سے بریانی پکائی ہے۔ تم ایک بار کھائو گے تو بار بار کھائو گے۔‘‘ چچا بھلکڑ نے فخریہ لہجے میں کہا تو ان کے دوستوں کے چہروں پر مسکراہٹ ابھر آئی۔
’’ابھی پتہ چل جائے گا شاد میاں کہ تمہارے ہاتھوں میں کتنا ذائقہ ہے۔‘‘ کامران نے کہا۔
’’تم بریانی کھائو میں پانی لے کر آتا ہوں۔‘‘ چچا بھلکڑ نے کہا اور پھر وہ ایک جگ پانی اور چار گلاس لئے بیٹھک میں پہنچ گئے۔ ان کے دوست فارغ بیٹھے تھے البتہ ان کے سامنے پلیٹوں میں بریانی پڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے دوستوں کو فارغ بیٹھے دیکھا تو وہ بھونچکے رہ گئے۔
’’ارے کیا ہوا دوستو! کیا بریانی پسند نہیں آئی؟‘‘ چچا بھلکڑ نے جگ اور گلاس چٹائی پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’ہم نے بریانی ابھی چکھی ہے۔ بریانی واقعی بے حد شاندار پکائی ہے تم نے شاد میاں۔‘‘ ان کے دوست نیاز نے جواب دیتے ہوئے کہا تو چچا بھلکڑ خوش ہو گئے۔
’’کیا واقعی میں نے اتنی اچھی بریانی پکائی ہے لیکن تم لوگ کھا کیوں نہیں رہے۔‘‘ چچا بھلکڑ نے کہا۔
’’ہم چاہتے ہیں کہ پہلے تم اپنے ہاتھ کی پکی ہوئی بریانی چکھو۔‘‘ کامران نے کہا۔
’’یار! یہ آداب میزبانی کے خلاف ہے۔ پہلے مہمان کھاتے ہیں اس کے بعد میزبان۔‘‘ چچا بھلکڑ نے جواب دیا۔
’’شاد میاں! ہم مہمان نہیں تمہارے دوست ہیں۔‘‘ اقبال نے کہا۔
’’لیکن…‘‘ چچا بھلکڑ نے کہنا چاہا تو منظور نے اس کی بات کاٹ دی۔
’’لیکن ویکن کچھ نہیں یار۔ تم بریانی چکھو تاکہ ہم بھی کھانا شروع کریں کیونکہ بھوک سے ہمارے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں اس لئے دیر مت کرو۔‘‘
’’اچھا یار! اگر تم لوگ اتنا اصرار کرتے ہو تو ٹھیک ہے میں ہی بریانی کھانے کی شروعات کرتا ہوں۔‘‘ چچا بھلکڑ نے کہا اور پھر انہوں نے ایک خالی پلیٹ میں اپنے لئے پتیلے سے بریانی نکالی اور پھر جیسے ہی چمچ بھر کر منہ میں ڈالا تو انہیں کڑواہٹ سی محسوس ہوئی۔
’’کیسی لگی تمہاری پکائی ہوئی بریانی۔‘‘ نیاز نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’افوہ! لگتا ہے نمک زیادہ ڈال دیا ہے میں نے۔‘‘ چچا بھلکڑ نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا۔
’’لاحول ولا قوۃ۔‘‘ کامران نے کہا۔ ’’زیادہ نہیں بلکہ بہت زیادہ۔ آج تم نے ہمیں اتنی مزے دار بریانی کھلائی ہے کہ ہم کبھی بھول نہیں سکیں گے۔‘‘
چچا بھلکڑ اپنے دوستوں سامنے بے حد شرمندہ ہو رہے تھے۔ ان کے دوست تو بریانی کھائے بغیر ہی چلے گئے مگر چچا بھلکڑ کو اپنے بھولنے کی عادت پر بے حد غصہ آ رہا تھا۔ اسی بھولنے کی عادت کی وجہ سے ہی وہ بریانی میں دو بار نمک ڈال گئے تھے جس کی وجہ سے انہیں اپنے دوستوں کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑی تھی۔ وہ پتیلا اٹھائے بیٹھک سے نکل کر باورچی خانے میں آئے تو حمیرا بے احتیار چونک پڑی۔
’’شاد میاں! کیا آپ کے دوستوں نے بریانی کھا لی ہے؟‘‘ حمیرا نے پوچھا۔
’’نہیں۔ وہ بریانی کھائے بغیر ہی چلے گئے ہیں۔‘‘ چچا بھلکڑ نے جواب دیا۔
’’کیوں؟‘‘
’’تم بریانی چکھ لو تمہیں پتہ چل جائے گا۔‘‘ چچا بھلکڑ نے کہا اور پھر وہ چمچ، جگ، گلاس اور پلیٹیں لینے بیٹھک کی طرف بڑھ گئے۔ حمیرا نے بریانی چکھی تو اس نے اپنا سر پکڑ لیا۔

چچا بھلکڑ نے بریانی پکائی ۔ عاطر شاہین“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں