https://bachonkiweb.com بچوں کی ویب

عہد – حامد علی مسلم

’’اوئے جلدی کرلے پھر گاہک آجائیں گے اور ان کے سامنے کچھ نہیں ہوسکے گا۔‘‘
’’لیکن صاب جی ! یہ تو ملاوٹ ہے اور ملاوٹ کرنا گناہ ہے۔‘‘
’’زیادہ لیکچر دینے کی ضرورت نہیں ، نوکر ہو تو نوکر ہی رہو، زیادہ اصول پسند نہ بنو ورنہ چھٹی کرادوں گا تمہاری ، سمجھے …… ؟‘‘
’’جی صاب جی ۔‘‘
یہ بحث اکرم دکاندار اور اس کے ملازم کے درمیان ہورہی تھی ۔ اکرم کی کریانہ کی دکان تھی اور شریف حسین اس کا ملازم تھا۔
اکرم کی دکان سڑک پر ہونے کی وجہ سے زیادہ گاہک اسی کے پاس آتے تھے۔ لیکن اکرم ایک لالچی آدمی تھا اور بہت سی چیزوں میں ملاوٹ کرکے بیچتا تھا جبکہ شریف حسین ایک بوڑھا مگر دیانت دار شخص تھا جو بے ایمانی کے اس کاروبار سے بچنا چاہتا تھا لیکن اپنے مالک کے ڈر سے ایسا کرنے پر مجبور تھا۔
٭٭٭
’’سلامت اٹھ جائو ! نماز کا وقت ہورہا ہے نماز پڑھ لو پھر سپلائی کے لئے بھی جانا ہے۔‘‘ فیاض اپنے ملازم کو نماز کے لئے بیدار کرتے ہوئے بولا ۔
’’ جی استاد جی ! میں ابھی وضو کرکے آتا ہوں۔‘‘
دونوں نے نماز ادا کی اور پھر گاڑی میں سامان لادکر دوکانوں پر سپلائی کے لئے روانہ ہوگئے ۔
فیاض ایک عبادت گزار اور دیانت دار آدمی تھا اور اس کے اچھے اخلاق اور تربیت کی وجہ سے اس کا ملازم بھی نیک سیرت اور ایمان دار تھا۔ ان دونوں کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کی وجہ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے ان کے اچھے اخلاق اور نیک سیرت کی وجہ سے عام لوگ اور دکاندار بھی اس سے بہت خوش تھے جن کو وہ سامان خوردونوش فراہم کرتے تھے ۔
٭٭٭
آج اکرم کے گھر خوشی کے شادیانے بج رہے تھے شادی کے گیارہ سال بعد اللہ تعالیٰ نے اسے اولاد جیسی نعمت سے نوازا تھا۔ وہ اور اس کی بیوی اتنے سال دعائیں مانگتے رہے اور آج گیارہ سال بعد اللہ نے ان کی سن لی تھی ، ان کے گھر چاند جیسا بیٹا پیدا ہوا تھا، اکرم کی خوشی کی تو انتہا نہ تھی وہ جھومتا پھررہا تھا۔ سارے محلے میں مٹھائی تقسیم کی گئی اور سارے خاندان کی شاندار دعوت کی گئی ۔
’’کیا نام رکھنا ہے منے کا ؟‘‘سارے گھر میںا یک ہی سوال تھا سب اپنی اپنی پسند کے مطابق نام بتارہے تھے اور بچوں کو تو گویا کھیلنے کے لئے کھلونا مل گیا تھا۔ پھر اکرم کی بیوی کی پسند سے بچے کا نام احمد رکھا گیا ۔
وقت گزرتا رہا اور جونہی احمد نے اپنے پائوں پر چلنا شروع کیا اکرم کی خواہشات بھی بڑی ہوتی گئیں وہ احمد کو بڑا آفیسر دیکھنا چاہتا تھا ۔ اکرم رات دن اسی فکر میں رہتا کہ اس کے بیٹے کی کوئی خواہش ادھوری نہ رہ جائے اور اس کام کے لئے اس نے جائز ، ناجائز کی تمام حدیں پھلانگ دیں۔
’’ابو آج میرا میٹرک کا رزلٹ ہے آپ آج ہمارے سکول ضرور آئیں۔‘‘ احمد نے ناشتے کی میز پر ابو سے کہا ۔
’’ جی بیٹا ! کیوں نہیں میں ضرور آئوں گا آپ کے سکول ۔‘‘
٭٭٭
’’شریف ! میں ذرا سکول جارہا ہوں۔ احمد کا رزلٹ سننے۔ دھیان سے سارا سامان اتروالینا اور جو طریقہ میں نے سمجھایا ہوا ہے اسی کے مطابق تیار کرکے گاہکوں کے سامنے رکھنا ۔‘‘
’’ٹھیک ہے جی ۔‘‘ شریف حسین نے روکھے سے انداز میں جواب دیا۔
اکرم کے جاتے ہی فیاض اپنی گاڑی پر سپلائی کا سامان لوڈ کئے ہوئے آپہنچا اس نے تقریباً دس ہزار کا کھانے پینے کا سامان شریف حسین کے حوالے کیا اور جاتے ہوئے کہہ گیا کہ جب اکرم آئے تو اسے بتادینا ۔ ہم تین دن بعد آئیں گے اور حساب کرکے پیسے لے جائیں گے ۔‘‘
’’ ٹھیک ہے جناب ۔‘‘ شریف حسین نے جواب دیا ۔
٭٭٭
’’ ہم پورے دس ہزار روپے کا سامان اتار کر گئے تھے۔‘‘ فیاض نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا اس کے چہرے پر غصہ نمایاں تھا۔
’’ تم جھوٹ بول رہے ہو، تم یہاں کوئی سامان نہیں دے گئے ۔‘‘ تیسرے دن اکرم اور فیاض کی گرما گرم بحث ہورہی تھی ۔
’’ اگر تم نے سامان دیا ہوتا تو مجھے دوکان پر موجود پاتے اور پیسے لے کر جاتے۔ میں کہیں چلا تو نہیں گیا تھا نا ؟‘‘
’’ دیکھو اکرم! تم حد سے زیادہ بڑھ رہے ہو ایک تو پیسے نہیں دے رہے ہو، اوپر سے مجھے جھوٹا بول رہے ہو ۔ تم اس دن اپنے بیٹے کا رزلٹ سننے سکول گئے ہوئے تھے اس لئے تم دوکان پر نہیں تھے ۔ ہم نے سامان تمہارے ملازم کے حوالے کیا تھا ۔‘‘
’’ تو کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں ؟‘‘ اکرم اپنی روایتی دھوکہ دہی پر اُتر آیا اور مصنوعی غصہ دکھاتے ہوئے بولا ۔
دس ہزار روپے کی وجہ سے اس کا دل بے ایمان ہوچکا تھا اور وہ کسی قیمت پر ماننے کے لئے تیار نہیں تھا ۔
’’ تم اپنے ملازم سے پوچھ لو ۔‘‘ فیاض نے اپنے حق میں دلیل دیتے ہوئے کہا ۔
جب بات ملازم کو پہنچی تو اکرم ڈرگیا کہ کہیں شریف حسین سچ ہی نہ بول دے۔ وہ دوڑتا ہوا اندر گیا اور بولا ابھی فیصلہ ہوجاتا ہے۔
لوگوں نے جب اکرم کو دیکھا تو سب کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔
’’ یہ کیا ۔۔۔؟‘‘ فیاض حیرانگی سے بولا ۔
’’ یہ قرآن ہے ، یہ فیصلہ کرے گا ، کیا اس پر ایمان رکھتے ہو ؟‘‘ اکرم نے پوچھا۔
’’ ہاں ! رکھتا ہوں ۔۔۔‘‘ فیاض بے بس ہوگیا ۔
’’ سنو میں قرآن کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ تم نے مجھے مال نہیں دیا اس لئے میں تمھیں پیسے نہیں دوں گا۔‘‘
یہ سننا تھا کہ فیاض اور اس کا ملازم اور پاس کھڑے تمام لوگ ہکا بکا رہ گئے ۔ فیاض کو تو ایسی چپ لگی جیسے وہ گونگا ہوگیا ہو ۔ جیسے اسے کسی پہاڑ تلے دبا دیا گیا ہو ۔
’’ اکرم ! سوچ لو ، کیا یہ وعدہ جو تم اس قرآن کو گواہ بناکر کررہے ہو ، کیا یہ سچ اور کیا یہ تمھیں منظور ہے ؟‘‘
اگرم پر تو گویا شیطان سوار تھا۔ فوراً بولا : ’’ ہاں ، ہاں مجھے یہ منظور ہے، میں سچ کہ رہا ہوں اور میں ہی اس کا ذمہ دار ہوں گا۔ تم اپنے کام سے کام رکھو ۔‘‘
’’ ٹھیک ہے پھر میرا اور تمہارا فیصلہ اللہ تعالیٰ کریں گے ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے فیاض اور اس کا ملازم وہاں سے چل دئیے ۔
٭٭٭
اس واقعہ کے بعد فیاض نے اکرم کو سامان دینا بند کردیا۔ وہ روزانہ اسی سڑک سے گزرتا، کبھی کبھار اس کی نظر اکرم کی دوکان پر بھی پڑجاتی، ایک دن وہ حسبِ معمول وہاں سے گزررہا تھا کہ اس کے پائوں اچانک گاڑی کی بریک پر پڑے اور اس نے نہ چاہتے ہوئے بھی گاڑی روک لی ۔
اکرم کے گھر کے باہر لوگوں کا مجمع لگا ہوا تھا فیاض لوگوں کو ہٹاتے ہوئے جونہی گھر کے دروازے تک پہنچا سامنے اکرم کھڑا تھا۔ اس کا رو رو کے برا حال ہوچکا تھا۔ فیاض کو دیکھتے ہی وہ چیختے ہوئے بولا : ’’ فیاض میں تمہارا مجرم ہوں ، مجھے معاف کردو۔ تمہارا سامان میری دوکان پر آیا تھا لیکن میں نے تمہاری رقم نہیں دی اور قرآن پر جھوٹی قسم دے دی ۔ آج مجھے اس کی سزا مل گئی ہے۔‘‘
فیاض نے جب اصل معاملہ جاننے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ آج صبح سکول جاتے ہوئے اکرم کے بیٹے احمد کی کار سے ٹکر ہوگئی وہ وہ موقع پر چل بسا ۔ اکرم اور اس کی بیوی آج پھر تنہا رہ گئے ۔
فیاض کو اللہ تعالیٰ کے اس انصاف پر یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اکرم نے اپنے ساتھ ظلم کیا اس نے اللہ سے پختہ عہد توڑ دیا ، اس نے قرآن کی جھوٹی قسم کھائی جس کی سزا اسے فوراً مل گئی ۔
٭٭٭
استاد محترم جب کلاس میں یہ کہانی سنا رہے تھے تو بچے سوچوں میں گم ہوچکے تھے جیسے کوئی خواب دیکھ رہے ہوں ۔
’’ کیوں بچو! آج کی کہانی سے کوئی سبق سیکھا یا نہیں ؟‘‘
’’ بالکل سر ! آج کی کہانی بہت سبق آموز تھی۔‘‘ تمام بچے یک زبان ہوکر بولے۔
’’ اس لئے پیارے بچو! ہمارا دین اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ جب ہم اللہ سے کوئی عہد کریں تو پھر سختی سے اس عہد کی حفاظت کریں۔ ورنہ آخرت میں اس کی سزا ملنی ہی ہے لیکن دنیا میں بھی ہم اس گناہ کی سزا سے نہیں بچ سکتے ۔‘‘
’’ اور سنو ! یہ معاملہ صرف ایک فرد کا ہی نہیں ہے بلکہ جب کوئی قوم اور جماعت اللہ سے عہد باندھے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کی حفاظت کرے، کیونکہ حدیث مبارکہ میں آیا ہے کہ :’’ جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے وعدہ کرے توڑدے گی اور غداری کرے گی تو اللہ ان کے اوپر غیر مسلم دشمن مسلط کردے گااور ان سے بہت سی چیزیں چھین لے گا۔(جو پہلے ان کے پاس موجود تھیں)۔‘‘ (روایت ابن ماجہ ، بیہقی )
پیارے بچو! ذرا سوچ کر بتائیے کہ اس وطن کو بناتے وقت ہم نے بھی اللہ تعالیٰ سے کوئی وعدہ کیا تھا ، کوئی عہد باندھا تھا؟
’’ جی ہاں ! ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم ایسا وطن بنائیں گے جو پوری دنیا میں اسلام کا قلعہ بنے گا جہاں ہم اسلامی قوانین نافذ کریں گے جہاں ہر ایک کو انصاف ملے گا اور یہ ملک ساری دنیا کے لئے ایک مثالی ریاست ہوگا ۔‘‘ علی نے فخریہ انداز میں جواب دیا ۔
’’ لیکن ہم نے یہ عہد توڑا تو کیا ہمیں اس کی سزا نہیں ملی ؟‘‘
’’ ضرور ملی ہے۔ ہمارے دشمنوں کی سازشوں کی وجہ سے ہمارے ملک کا مشرقی حسہ ہم سے کٹ کر جدا ہوگیا اور اس اس سانحے سے سبق سیکھنے کی بجائے ابھی بھی غفلت میں پڑے سورہے ہیں ۔ ہماری اسی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارا دشمن آئے روز ہمارے خلاف سازشیں بنا رہا ہے۔ اس لئے بچو! ہمیں چاہیے کہ ہم پھر سے وہ عہد کریں جو پاکستان بناتے وقت ہم نے بحیثیت قوم اللہ سے کیا تھا ۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی زندگی کو اسلام کے مطابق گزارے اور اس وقت کو عظیم تر بنانے میں اپنا کردار ادا کرے ۔ اس عہد کو نبھاتے ہوئے ہم آخرت کی رسوائی سے بھی بچیں گے اور دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ ہمیں سربلندی عطا فرمائے گا۔‘‘
’’ انشاء اللہ ۔۔۔۔‘‘ تمام بچوں نے باآواز بلند جواب دیا ۔

اپنا تبصرہ لکھیں