اس کے قدم تیزی سے بس سٹاپ کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ اس کی تیوری چڑھی ہوئی اور آنکھیں غصے سے لال پڑرہی تھیں۔ غصے مین نہ جانے وہ کیا بڑبڑا ئے جارہا تھا۔ بہرحال بس سٹاپ پر پہنچا تو وہاں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر کسی سے وجہ دریافت کی ، معلوم پڑا کہ آج سی این جی کی لوڈ شیڈنگ ہونے کی وجہ سے گاڑیاں شارٹ ہیں اس لئے مسافر کافی دیر سے بس کا انتظار کررہے ہیں ۔ یہ سن کر اس کا غصہ اور بڑھ گیا اور وہ ایک بار پھر ملک کو کوسنے لگ گیا ۔ اتنے میں کہیں سے بس کے آنے کی صدا بلند ہوئی جس کے ساتھ ہی سکون سے بیٹھے مسافروں میں بے چینی کی رمق پیدا ہوئی اور سب کی نظریں سامنے سے خراماں خراماں آتی ہوئی بس پر گڑ گئیں ۔ بس کے رکتے ہی حسب روایت دھینگا مشتی شروع ہوگئی البتہ وہ لوگوں کو دھکیلتے ہوئے بس میں سوار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ بس کے اندر کی صورتِ احوال اس کے خون کو جلانے کا باعث بنی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے مسافروں کو بھیڑ بکریوں کی مانند ٹھونسا گیا ہو۔ جب ڈرائیور کو محسوس ہوا کہ اب بس میں کسی بھی جگہ مسافر کے کھڑے ہونے کی جگہ باقی نہیں رہی تو اس نے گاڑی چلادی ۔ وہ ابھی اپنی جگہ پر ٹھیک سے کھڑا بھی نہ ہوپایا تھا کہ کنڈکٹر آدھمکا اور کرایہ طلب کرنے لگا ۔ اس نے بغیر کچھ بولے بیس روپے کا نوٹ نکال کر کنڈکٹر کو تھما دیا ۔
’’پانچ روپے اور لائیے صاحب !‘‘، کنڈکٹر نے اسے مخاطب کیا ۔
’’وہ کس بات کے بھئی … کرایہ تو بیس روپے ہے ؟ ‘‘، اس نے چونک کر کہا ۔
’’ارے صاحب ! کس دنیا میں رہتے ہو؟ آج سی این جی بند ہے اور ڈیزل کا ریٹ بھی تو کل سے بڑھ گیا ہے اس لئے کرایہ بھی پانچ روپے بڑھا دیا ہے بس سروس والوں نے …!‘‘، کنڈکٹر نے جواب دیا ۔
’’تم لوگوں کو کوئی پوچھنے والا ہے ؟ جب جی چاہتا ہے کرایہ بڑھا دیتے ہو ، غریب آدمی کیا کرے بیچارہ … کہاں جائے ‘‘، یہ کہہ کر وہ سائیڈ کی جیب ٹٹولنے لگا ۔ جلد ہی اسے پانچ کا سکہ مل گیا اور اس نے نکال کر کنڈکٹر کے ہاتھ میں تھما دیا ۔ اضافی کرایہ دینا اس کے لئے ازحد تکلیف دہ ثابت ہوا اور وہ سارے راستے اسی موضوع پر حکومتی ناقص انتظامات پر تقریر کرتا رہا ۔ دریں اثناء ڈرائیور نے ایک زبردست بریک لگائی تو سب کے ساتھ ساتھ اسے بھی اپنی پڑگئی ۔
’’ارے اندھے ہوگئے ہو کیا …؟ ‘‘، وہ سنبھلتے ہوئے چلانے لگا لیکن جونہی اس کی نظر ونڈ سکرین سے باہر پڑی وہ لرز سا اٹھا ۔ بس کے سامنے ایک نوجوان موٹر سائیکل کے ساتھ گرا پڑا تھا اور اس کی گردن سے خون لگاتار بہے جارہا تھا ۔ تھوڑی ہی دیر میں وہاں لوگوں کا ہجوم بن گیا ۔ دراصل ہوا یوں تھا کہ موٹر سائیکل سوار کے گلے پر ڈور پھر گئی تھی اور وہ موٹر سائیکل سمیت گر گیا ۔ کچھ ہی دیر میں ریسکیو کی گاڑی آگئی اور نوجوان کو طبی امداد کے لئے لے گئی ۔ دوسرے مسافروں کے ساتھ وہ بھی بس میں واپس آگیا۔ بس دوبارہ رختِ سفر ہوئی ۔ کچھ ہی دیر بعد اگلا سٹاپ آگیا ۔ اس نے شیشے سے باہر دیکھا تو یہاں بھی اک عجیب قیامت بپا تھی ۔ ایک عورت اپنے بچے کو پکڑے مسلسل چیخے چلائے جارہی تھی، اس کا معصوم بارہ سالہ بچہ درد سے مسلسل کراہ رہا تھا اور اس کی ٹانگ سے خون رس رہا تھا ۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ بچہ ابھی ابھی پتنگ لوٹنے کی کوشش میں چھت سے گرگیا ہے اور اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے ۔ یہ دونوں واقعات اس کے لئے معنی نہیں رکھتے تھے کیونکہ اس کے نزدیک یہ روز کا معمول بن چکے تھے ۔ بہرحال آدھے گھنٹے کا سفر ایک گھنٹہ اور بیس منٹ میں طے کرنے کے بعد وہ اپنی منزل مقصود اپنی چھوٹی سی دکان پر پہنچ گیا ۔
دکان پر پہنچتے ہی اس نے ڈوریں اور پتنگیں بنانے کا سامان ایک طرف رکھا اور نئے پتنگ بنانے کے لئے گُڈی کاغذ کاٹنے میں مشغول ہوگیا ۔ اس کا نام رشید احمد تھا ۔ وہ عرصہ دراز سے پتنگ بازی کا سامان بنانے کا کام کررہا تھا ۔ پہلے پہل تو اس کام میں کافی کمائی تھی لیکن جب سے حکومت نے اس کاروبار پر پابندی عائد کی تھی نہ تو پہلے جیسی کمائی رہی تھی اور نہ ہی کاروبار میں آزادی ۔
’’استاد… استاد… غضب ہوگیا …!!!‘‘، ابھی اس نے گُڈی کاغذ کاٹنا شروع ہی کیا تھا کہ اس کا شاگرد آٹپکا ۔
’’کیا ہوا … اتنے گھبرائے ہوئے کیوں ہو؟ ‘‘، شاگرد کو گھبرایا ہوا دیکھ کر اس نے استفسار کیا ۔
’’استاد… آج صبح ہی پولیس نے یہاں چھاپہ مارا تھا ، آپ کی دکان بند تھی لیکن پرویز کی دکان کھلی تھی … پولیس والے اسے گرفتار کرکے چلے گئے ہیں اور اس کا سارا کا سارا سامان بھی ساتھ ہی لے گئے ہیں ‘‘، شاگرد کی خبر سنتے ہی اس کے پیروں کے تلے سے جیسے زمین ہی نکل گئی ۔ پولیس کا نام سن کر وہ بوکھلا گیا اور اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے منڈلانے لگے ۔
’’ یا خدا ! یہ کیسے ملک میں پیدا کردیا ہے تونے مجھے ….. یہاں نہ گیس ہے نہ پانی ، نہ بجلی ہے نہ آٹا اور اب توکاروباروں پر بھی پابندیاں عائد کی جانے لگی ہیں ‘‘، اس کی شکل رونے والی ہوچکی تھی ۔
’’ استاد پولیس بھی تو ٹھیک ہی کررہی ہے نا … پچھلے سال بھی بسنت پر پتنگ بازی کی وجہ سے بائیس کے قریب آدمی ہلاک ہوگئے تھے اور واپڈا کا مالی نقصان بھی کافی ہوا تھا ‘‘، ننھے شاگرد نے کہا ۔
’’ ابے بڑے آئے …. لوگ مرتے بھی اپنی ہی بے وقوفی کی وجہ سے ہیں نا… ہمارا کیا قصور ہے ، اب تم ہی بتائو اگر ہم یہ کام نہ کریں تو پھر کیا کریں کہاں سے کمائیں روٹی پانی اور کہاں سے چلائیں اپنے گھر بار کا خرچہ وغیرہ ‘‘، وہ غصے سے بپھر چکا تھا ۔
’’ استاد میں تو کہتا ہوں کوئی اور کام کرتے ہیں ، بھلا یہ بھی کوئی کام ہے … ایسا کام کیوں کریں جس سے دوسروں کیا جان و مال کو نقصان ہو ‘‘، ننھے شاگرد نے اسے صلاح دی ۔
’’بھاگ جا یہاں سے … ورنہ دوں گا تجھے ایک اس نے ہاتھ میں ڈنڈا اٹھاتے ہوئے کہا ، بڑا آیا مجھے سمجھانے والا ‘‘۔
’’کوئی بات نہیں ….. اللہ خیر کرے گا ، مجھے امید ہے انشاء اللہ یہ پابندی ہٹ جائے گی اور میرا کاروبار ایک بار پھر سے چل پڑے گا ‘‘، وہ اپنے آپ کو دلاسے دینے لگا ۔
وہ ابھی اسی سوچ و بچار میں گم تھا کہ اس کے موبائل فون کی گھنٹی بجی ۔ اس نے چشمہ لگا کر موبائل کی سکرین پر نمبر دیکھا تو جھٹ سے سبز بٹن دبا دیا اور فون کان سے لگا لیا ۔ اس کے گھر سے اس کی بیگم کا فون تھا ۔ جوں جوں وہ فون سنتا جارہا تھا اس کے رنگ پھیکے پڑتے جارہے تھے ‘ فون بند ہوتے ہی وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگ پڑا ۔ گھر سے اطلاع ملی تھی کہ اس کا آٹھ سالہ بیٹا طلال تانبے کی ڈور کے ساتھ پتنگ بازی کررہا تھا کہ پتنگ بجلی کے تار کے ساتھ ٹکرا گئی اور اسے کرنٹ لگ گیا ۔ یہ خبر اس کے لئے ایک بہت بڑا حادثہ تھی ۔ طلال اس کا اکلوتا بیٹا تھا ۔ اس نے جلدی سے دکان بند کی اور ہسپتال کی طرف دوڑ پڑا ۔
ہسپتال پہنچا تو اس کی بیوی جو پہلے ہی صدمے سے نڈھال ہوچکی تھی اسے دیکھ کر اور پھوٹ پڑی ۔ وہ خود بے حد شرمندہ تھا اور اس حادثہ کا ذمہ دار خود کو قرار دے رہا تھا ۔ اسے رہ رہ کر صبح کا واقعہ یاد آرہا تھا جب اس نے خود ننھے طلال کو تانبے کی ڈور اور ایک بہت خوبصورت پتنگ دیا تھا ۔ اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ رہے تھے ۔ وہ پتنگ بازی کی بدولت ہونے والے ان گنت واقعات کو روزانہ اخبار میں پڑھ کر نظر انداز کردیا کرتا تھا لیکن آج جب وہ خود اس مکروہ کاروبار کی تباہ کاری کا نشانہ بن چکا تھا وہ اپنی ہی نظروں میں اس اور اس جیسے کئی واقعات کا قصور وار بن چکا تھا ۔ بروقت طبی امدا د کی وجہ سے طلال کی جان تو بچ گئی تھی لیکن اس حادثہ نے رشید احمد کی زندگی کو یکسر بدل کررکھ دیا تھا اور اس نے فی الفور پتنگ بازی کا کاروبار ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔