https://bachonkiweb.com - bachon ki web - بچوں کی ویب

خبردار… یہ بم ہے

تحریر: عاطف فاروق

’’ بھوووم … ‘‘ دھماکے کی گرجدار آواز نے مجھے جگادیا اور میں بستر سے اٹھ کر کھڑکی سے باہر کا جائزہ لینے لگا۔ دھماکے کی شدت سے اندازہ ہورہا تھا کہ دھماکہ کہیں آس پاس ہی ہوا ہے ۔ دھماکہ ہوئے ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ فضا میں جنگی طیارے پرواز کرتے نظر آنے لگے اور ساتھ ہی مزید بمباری اور گولیوں کی تڑتڑاہٹ کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ۔
’’ ذولقرنین بیٹا ! کھڑکی سے دور ہٹ جائو ۔‘‘ یہ امی کی آواز تھی جو اس وقت باورچی خانے میں مصروف تھیں ۔
’’ کیوں امی جان !‘‘ میں دور اٹھتے ہوئے دھوئیں کے بادلوں کو دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
’’ میں جیسا کہہ رہی ہوں بس ویسا کرو ۔‘‘ اس بار امی کا لہجہ قدرے کرخت تھا ۔
میں نے کھڑکی بند کی اور ہال میں آکر بیٹھ گیا ۔ میں ساتویں جماعت کا طالب علم تھا اور میرے لئے یہ سمجھنا دشوار ہورہا تھا کہ آخر یہ سب کیا ہورہا ہے ؟ جوں جوں وقت گزرتا جارہا تھا دھماکوں اور گولیوں کی آواز بڑھتی ہی چلی جارہی تھی ۔ باورچی خانے سے فارغ ہوکر امی بھی ہال میں آگئیں اور ابو جان کو فون کرنے لگیں۔ وہ ابو جان کی وجہ سے پریشان ہورہی تھیں کیونکہ ابو جان سودا سلف لانے کیلئے بازار گئے تھے ۔ میری چھوٹی بہن سدرہ بھی ان کے ساتھ ہی گئی تھی ۔ بار بار نمبر ملانے کے باوجود بھی رابطہ نہیں ہوپارہا تھا ۔
اسی اثناء میں گھر کے مرکزی دروازے پر دستک ہوئی تو امی نے مجھے دیکھنے کا کہا ۔ میں نے بھاگ کر دروازہ کھولا تو دوسری طرف ابو جان کھڑے تھے ۔ ان کے چہرے سے خوف اور بوکھلاہٹ صاف عیاں ہورہے تھے جبکہ سدرہ لگاتار روئے ہی جارہی تھی ۔ شاید وہ دھماکوں کی گرجدار آوازوں سے ڈر چکی تھی ۔ ابو جان آنن فانن گھر کے اندر داخل ہوئے اور فوراً دروازہ بند کردیا ۔ ابو جان اور سدرہ کو صحیح سلامت دیکھ کر میری اور امی جان کی سانس میں سانس میں آئی ۔ ابو نے بتایا کہ بھارت نے پاکستان پر حملہ کردیا ہے اور دونوں ملکوں کے مابین جنگ چھڑ چکی ہے ۔
ہم جس گائوں میں رہتے تھے وہ بھارتی سرحد کے قریب تھا ، اس لئے یہاں حملے کی شدت دور والے علاقوں سے زیادہ تھی ۔ ہر آدھے گھنٹے بعد بھارتی طیارے پاکستانی سرحد میں داخل ہوکر بمباری کرتے اور جب پاکستانی شاہین ان کا پیچھا کرتے تو وہ دم دبا کر بھاگ جاتے تھے ۔ مزید آگاہی کے لئے ابو جان نے ٹیلی ویژن آن کیا تو اس پر بھی بتایا جارہا تھا کہ بھارت نے جنگی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رات کے اندھیرے میں بغیر اطلاع کئے پاکستان پر دھاوا بول دیا ہے تاہم پاکستانی افواج ہر محاذ پر دشمن کو اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہے ہیں ۔
جیسے ہی بمباری ہوتی فضا میں بارود اور کیمیکلز کی بدبو پھیل جاتی جس سے سانس لینا بھی دشوار ہورہا تھا ۔ حالات بہت کشیدہ ہوچکے تھے ۔ کئی دھماکوں کی آواز بہت قریب سے آئی تھی ۔ میں بھی خوف وہراس سے سہما ہوا تھا اور سوچ رہا تھا کہ نجانے ہمارا کیا بنے گا ؟ ابو اور امی بار بار اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعائیں کررہے تھے کہ وہ ملک پاکستان اور ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھے ۔
کچھ ہی دیر بعد فضا میں سائرن کی آواز گونجنے لگی ۔ سائرن کی آواز سول ڈیفنس کی بلڈنگ سے آرہی تھی جو ہمارے گھر سے زیادہ دور نہیں تھی ۔ اس سائرن کا مطلب یہ تھا کہ دشمن کی طرف سے فضائی حملہ ہونے والا ہے لہذا عوام کسی محفوظ مقام پر منتقل ہوجائیں ۔ سائرن کی آواز سنتے ہی ابو جان کے چہرے پر پریشانی کے آثار میں مزید اضافہ ہوگیا۔
’’ بیگم ! اب ہمیں یہاں سے نکلنا ہوگا ۔‘‘
’’ لیکن ہم جائیں گے کہاں ؟ ‘‘ امی جان نے پریشانی کے عالم میں استفسار کیا ۔
’’ یوسف خان کی حویلی میں خفیہ تہہ خانہ ہے ….. میرے خیال میں ہمیں وہاں جانا چاہیے کیونکہ اس سے محفوظ جگہ کوئی نہیں ہے یہاں ۔‘‘ ابو جان بولے اور ساتھ ہی انہوں نے موبائل فون نکال کر یوسف خان کا نمبر ڈال کرڈالا ۔ یوسف خان ہمارا ہمسایہ تھا ، وہ بہت بھلا مانس اور شریف النفس آدمی تھا ۔ وہ ابو جان کا گہرا دوست تھا اور اس ناطے سے اس کے ساتھ ہمارے تعلقات بہت بہتر تھے ۔ رابطہ ہونے پر یوسف خان نے بتایا کہ وہ ضروری اشیاء تہہ خانے میں شفٹ کررہا ہے اس لئے آپ لوگ جلدا ز جلد آجائیں ۔ بس پھر کیا تھا ہم نے بھی ضروری اشیاء سمیٹیں اور اپنا بڑا سا صحن عبور کرتے ہوئے یوسف خان کی حویلی کے باہر پہنچ گئے ۔ یوسف خان وہاں پہلے ہی ہمارا منتظر تھا ۔ حویلی میں داخل ہوتے ہی ہم نے تمام کھڑکیاں اور دروازے اچھے طریقے سے لاک کئے اور خفیہ تہہ خانے میں چلے گئے ۔
جنگ سترہ دن جاری رہی اور ہمیں یہ سترہ دن ایسے ہی گزارنے پڑے ۔ جسمانی لحاظ سے ہم میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں تھا جو محاذ پر جاکر پاک افواج کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرتا اس لئے جنگ کے ایام میں ہم صرف ملکی بقاء کے لئے دعائیں ہی کرتے رہے ۔ ریڈیو کے ذریعے ہمیں جنگی حالات سے آگاہی حاصل ہوتی رہی اور اپنی پاک افواج کی ہر کامیابی پر ہم نعرہ ء تکبیر لگاتے رہے ۔ سات لاکھ بھارتی فوجیوں کے مقابلے میں دو لاکھ ساٹھ ہزار فوجیوں پر مشتمل جذبہ ء ایمانی سے سرشار پاکستانی جانبازوں نے بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوادئیے ۔ ان کے 8200 سپاہیوں کو واصل جہنم کردیا گیا ، بھارت کے 500 ٹینک جبکہ 113 طیارے بھی تباہ کردئیے گئے اور 2575 کلو میٹر علاقے کو بھی فتح کرلیا گیا ۔
جنگ ختم ہوتے ہی ہم سب نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور تہہ خانے سے باہر نکل آئے ۔ جنگ کے دوران گزرنے والے ایام ہمارے لئے تکلیف دہ ضرور تھے لیکن ہمیں اس بات کی خوشی تھی کہ پاکستانی افواج نے دشمن کو پچھاڑ کر رکھ دیا اور آئندہ دشمن پاک سرزمین کو میلی نظر سے دیکھنے کی جسارت نہیں کرے گا۔
جنگ بندی ہوتے ہی ہم بھی اپنے گھر واپس آنے لگے ۔ گھر واپسی پر ہم سب خوش تھے ، خوش کیوں نہ ہوتے اپنا آنگن تو سبھی کو پیارا ہوتا ہے ۔ ابو جان نے جیسے ہی دروازہ کھولا ، میں نے سب سے پہلے گھر کی دہلیز میں قدم رکھا اور دوڑتے ہوئے صحن میں جاپہنچا ۔ صحن میں ایک عجیب و غریب چیز نے مجھے حیران کردیا ۔ یہ سرخ رنگ کی سلنڈر نما چیز تھی جس کی لمبائی ایک میٹر کے قریب تھی اور اس پر انگریزی زبان میں کچھ تحریر اور نمبرز درج تھے ۔
’’ اس کو ہاتھ مت لگانا … یہ بم ہے ۔‘‘ ابھی میں اس سلنڈر نما چیز کو چھونے ہی والا تھا کہ ابو جان نے مجھے دور سے خبردار کردیا ۔ بم کا نام سنتے ہی میرے اوسان خطا ہوگئے اور میں فوراً کئی قدم پیچھے ہٹ گیا ۔ ابو جان نے فوراً بم ڈسپوزل سکواڈ کا نمبر ملایا تو کچھ ہی لمحوں بعد ان کی ٹیم بھی یہاں پہنچ گئی ۔
ٹیم کے افراد نے بم کا تفصیلی مشاہدہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ بم بھارتی ساختہ ہے جو فضائی بمباری کے دوران گرایا گیا تھا لیکن خوش قسمتی سے پھٹ نہ سکا اور ناکارہ ہوگیا ۔
بم کی ہیئت دیکھ کر ہم سب پر وحشت طاری تھی لیکن ہماری زبانیں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کررہی تھیں کہ جس نے بم کو ناکارہ کردیا اور ہم بڑے نقصان سے محفوظ رہے ۔

Tags:-
اردو کہانیاں
مختصر اردو کہانیاں
بچوں کی کہانیاں
یوم دفاع بچوں کی کہانی
short urdu stories for children's
urdu stories for children's reading
urdu moral stories
خبردار وہ بم ہے - عاطف فاروق
بچوں کی ویب - Bachon ki Web
اپنا تبصرہ لکھیں