تحریر: حیدر علی
’’بابا ! میں پاس ہوگیا ، میں پاس ہوگیا!!‘‘ علی خوشی سے جھومتا ہوا اپنے والد کے گلے لگ گیا ۔
’’ بیٹا ! بہت بہت مبارک ہو ۔‘‘
’’ آج میں بہت خوش ہوں، آپ کو پتا ہے میں پورے سکول میں فسٹ آیا ہوں۔‘‘
’’ارے ! یہ تو دو دو خوشخبریاں ہیں ۔‘‘ کریم بخش (علی کے والد) نے خوشی سے کہا ۔
’’ اب میں شہر جاکر پڑھوں گا ، ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ مجھے وہاں کسی بھی اچھے کالج میں آرام سے داخلہ مل جائے گا ۔‘‘
’’اور پڑھ لکھ کر کیا کرے گا ۔ میں نے یہاں تیرے لئے نوکری کی بات کررکھی ہے۔ اللہ نے چاہا تو ترقی بھی ہوتی رہے گی ۔‘‘ کریم بخش کا چہرہ نارمل ہوچکا تھا ۔
’’ مگر میں ابھی اور پڑھنا چاہتا ہوں۔ بھائی کو آپ نے پڑھنے نہیں دیا تھا وہ چار سال سے ہی سپاہی ہے۔ اگر وہ پڑھا لکھا ہوتا ، اس کے پاس اعلیٰ ڈگری ہوتی تو آج وہ افسر ہوتا ۔‘‘
’’بیٹا ! یہ افسر کی نوکری ہم غریبوں کی قسمت میں کہاں ہوتی ہے ۔ یہ تو بس بڑے لوگوں کا کام ہے۔‘‘
’’ نہیں بابا ! ایسا نہیں ہے۔ میرے استاد کہتے ہیں کہ انسان اپنی قسمت خود بناتا ہے ، میں بھی محنت کروں گا اور ایک دن ضرور بڑا آدمی بنوں گا۔‘‘ علی نے پراعتماد ہوکر کہا ۔
’’ کریم بخش ! تمھیں انسپکٹر صاحب نے بلایا ہے۔‘‘ ایک سپاہی نے اطلاع دی تو کریم بخش ٹوپی صحیح کرتے ہوئے فوراً چل دیا ۔
علی ایک ہونہار اور لائق طالب علم تھا وہ ایک پسماندہ گائوں سے تعلق رکھتا تھا ۔ والد اور بھائی پولیس میں معمولی نوکری کرتے تھے۔ تاہم گھر کا گزارا آرام سے ہوجاتا ۔ اس کے علاوہ ان کی زمین بھی تھی جو کبھی کاشت کرلیتے تو کبھی رہن دے دیتے ۔ علی کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا جب کہ گائوں میں کالج نہ تھا اور اعلیٰ تعلیم کے لئے شہر جانے کا رواج بھی اتنا عام نہ تھا ۔
٭…٭…٭
’’آج انسپکٹر صاحب نے بھی مبارک باد دی ہے۔‘‘ کریم بخش رات کے کھانے پر علی سے مخاطب ہوا ۔
’’ ان کو کس نے بتایا ؟ ‘‘ علی نے سوالیہ نظروں سے پوچھا ۔
’’ میں نے بتایا تھا۔ میں نے انھیں تمہارے بارے میں سب کچھ بتایا ہوا ہے۔ وہ بہت خوش ہوئے تھے ۔ کہہ رہے تھے کہ کل تمھیں ان سے ضرور ملائوں۔‘‘
’’ میں کیا کروں گا انھیں مل کر۔‘‘ علی نے حیرانگی سے پوچھا ۔
’’ ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ وہ بڑے اچھے انسان ہیں ۔‘‘ اگلے دن علی ، اپنے والد کے ساتھ چلا گیا ۔ جیسے ہی وہ دفتر میں داخل ہوئے کریم بخش نے ایک زوردار سیلوٹ کیا اور علی کا تعارف کروایا۔
’’ بھئی بہت بہت مبارک ہو ۔‘‘
’’شکریہ سر !‘‘ علی نے ادب سے جواب دیا ۔
’’ آگے کیا ارادے ہیں ؟‘‘
’’ مجھے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے شہر جانا ہے ، مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے مگر ۔۔۔‘‘ علی کہتے کہتے رک گیا ۔
’’ مگر کیا ؟ ‘‘
’’ مگر بابا مجھے شہر بھیجنے پر راضی نہیں ۔ ‘‘
’’ تعلیم حاصل کرنا یقیناً بہت اچھی بات ہے۔‘‘ انسپکٹر صاحب نے علی کو مسکراتے ہوئے کہا اور پھر کریم بخش سے مخاطب ہوئے : ’’ اس بات کو میرا حکم نہیں بلکہ مشورہ سمجھنا ۔ تم اسے شہر پڑھنے کے لئے ضرور بھیجو میں اس میں علم کے لئے سچی لگن دیکھ رہا ہوں۔ باقی کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو ۔۔۔۔‘‘
’’ نہیں سر ! اس کی ضرورت نہیں ۔ آپ نے کہہ دیا بس ایسا ہی ہوگا ۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور بیٹے کی ایک خواہش بھی پوری نہ کی تو کیا فائدہ !‘‘
’’ ویسے بیٹا ! آپ بننا کیا چاہتے ہو ؟ ‘‘ انسپکٹر صاحب دوبارہ علی کی طرف متوجہ ہوئے ۔
’’ میں !… میں آپ جیسا ہی بنوں گا جسے دوسرے سیلوٹ کرتے ہیں ۔‘‘ علی نے کچھ سوچتے ہوئے جواب دیا ۔
’’ ہاہاہاہا ۔۔۔زبردست ! میں تم سے واقعی متاثر ہوا ہوں ۔ میری دعائیں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں ۔‘‘ انسپکٹر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
آج کریم بخش کو اپنے بیٹے پر واقعی فخر محسوس ہورہا تھا ۔ علیکو بھی اپنا خواب پورا ہوتے ہوئے نظر آنے لگا تھا اور پھرا یسا ہی ہوا ۔ وہ تمام گھر والوں کی دعائیں سمیٹ کر شہر پڑھنے چلا گیا ۔ بہترین کارکردگیوں نے اسے سکالر شپ پر تعلیم جاری رکھنے میں مدد دی ۔ چار سال کے گریجویشن کے بعد علی نے مقابلے کے امتحان کی تیاری پورے زور شور سے کرنا شروع کردی ۔ خدا کسی کی محنت کو رائیگاں نہیں جانے دیتا ۔ علی نے بھی شاندار کامیابی حاصل کی اور پھر ٹریننگ کے لئے چلا گیا ۔
٭…٭…٭
’’ کریم بخش ! یہ کیا پڑھ رہے ہو ؟‘‘ ایک دوست سے مسکراتے ہوئے پوچھا ۔
’’ بیٹے کا خط ہے۔‘‘
’’ مگر تم مسکرا کیوں رہے ہو ، کل سے کوئی بیس بار تم یہ خط پڑھ چکے ہو، ایسا کیا لکھا ہے اس میں ؟‘‘
’’ کوئی خاص بات نہیں ۔ ٹریننگ پوری کرکے اسی جگہ اس کی پوسٹنگ ہے۔ باقی دعا کے لئے لکھا ہے ۔‘‘ کریم بخش نے سرسری بتایا۔
’’ اللہ اسے کامیاب کرے تم بڑے خوش نصیب ہو جو اللہ نے تمھیں اتنا محنتی اور قابل بیٹا دیا ہے ۔‘‘
’’ یہ علم بھی کیا چیز ہے۔ انسان کو کیا سے کیا بنادیتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ بڑے بیٹے کو بھی پڑھا لکھا دیا ہوتا تو میرے دونوں بیٹے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوتے ۔‘‘ کریم بخش نے ایک گہری آہ بھری۔
’’ کہتا تو تو بالکل ٹھیک ہے مگر کیا تیرا خیال گائوں کے دوسرے بچوں کی طرف نہیں جاتا جن کے پڑھنے کی خواہش صرف اس لئے ان کے دلوں میں دب کر رہ جاتی ہے کہ گائوں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے کوئی ادارہ موجود نہیں ہے ۔‘‘
’’ہاں یار ! کہتا تو بالکل ٹھیک ہے۔ اگر گائوں کے تمام بچے پڑھ لکھ جائیں تو اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔‘‘ کریم بخش نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ۔
’’ باتیں کرنا تو بہت آسان ہوتا ہے مگر ان پر عمل کا کوئی نہیں سوچتا۔‘‘ یہ کہہ کر کریم بخش کا دوست آگے بڑھ گیا جب کہ کریم بخش گہری سوچ میں کھو کر رہ گیا ۔
٭…٭…٭
’’ سنا ہے آج تمہارا بیٹا ٹریننگ مکمل کرکے آرہا ہے ۔‘‘
’’ سر ! یہ آپ ہی کی کرم نوازی ہے۔ میں تو اسے میٹرک کے بعد کبھی نہ پڑھنے بھیجتا۔‘‘
’’ میں نے کچھ نہیں کیا ۔ اب تم دیکھنا علم کے جس نور کو اس نے سمیٹا ہوا ہے وہ کیسے ترقی کی منازل طے کراتا ہے۔ تمھیں تو فخر ہونا چاہیے ۔‘‘
’’ سر! مجھے اس بات کی بھی بہت خوشی ہے کہ اس کی پوسٹنگ یہیں ہوئئی ہے۔ آپ کے تحت اس کی تربیت اچھی ہوگی اور میں بھی پریشان نہ ہوں گا۔ ‘‘ کریم بخش نے خوشی سے کہا ۔
’’ میں نے سنا ہے کہ تم نے اپنی زمین گائوں میں کالج بنانے کے لئے وقف کردی ہے ۔ کیا یہ ٹھیک ہے ؟ ‘‘
’’ جی سر ! اب میری یہی خواہش ہے کہ علم کی روشنی ہر گھر کا حصہ بنے ۔ میرا بیٹا بھی بہت خوش ہے اور اس بات کو میری طرف سے اپنے لئے ایک تحفے کے طور پر تسلیم کیا ہے ۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے ۔ تم جاسکتے ہو ۔ ‘‘
آج کریم بخش کی بے چینی عروج پر تھی ۔ اسے اپنے بیٹے کی آمد کا شدت سے انتظار تھا ۔ تمام دوست اسے مبارک باد دے چکے تھے ۔ آخر انتظار کی گھڑیاں ختم ہوئیں ۔ کریم بخش اپنے بڑے بیٹے کے ہمراہ گاڑی کے قریب آئے ۔ علی باوردی گاڑی سے اترا اور اپنے والد کے گلے لگ گیا ۔
’’ یااللہ ! تیرا شکر ہے۔‘‘ کریم بخش نے علی کو خود سے الگ کیا ۔
’’ تیری خواہش تھی کہ تجھے سیلوٹ کیا جائے۔ آج میں تجھے پہلا سیلوٹ کرتا ہوں۔‘‘ اتنا کہہ کر کریم بخش نے ایک بھرپور سیلوٹ کیا ۔
قریب کھڑے تمام سپاہی حیرت سے کریم بخش اور علی کی جانب تک رہے تھے ۔
Tags: interesting stories for kids in urdu examples of children's short stories interesting urdu stories interesting stories in urdu for reading stories for kids in urdu pdf pehla salute kids story by Haider Ali پہلا سیلوٹ - حیدر علی بچوں کی ویب - bachon ki web