’’ابو۔۔!میں نے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔۔۔‘‘
جوں ہی جاوید گھرمیں داخل ہوا توفیضان نے ان سے کہا۔جاویدایک مزدورتھا۔وہ ابھی مزدوری کرکے گھر لوٹاتھا۔وہ دن بھرمحنت مزدوری کرنے کی وجہ سے بری طرح تھک چکاتھا۔اس نے بیٹے سے کہا:
’’بیٹا۔۔!میں ابھی بہت تھکاہواہوں۔رات کھانے کے بعدمیں آرام سے تمہاری بات سنوں گا۔۔۔‘‘
یہ سن کرفیضان خاموش ہوگیا۔آج اسے رات کے کھانے کابڑی بے چینی سے انتظارتھا۔آخراس کی انتظارکی گھڑیاں تب ا ختتام کے قریب پہنچیں جب وہ دسترخوان پر امی ابو کے ساتھ مل کرکھاناکھارہاتھا۔اس کاجی چاہاکہ وہ ابھی دسترخوان پرہی ابوسے بات کرلے،لیکن پھراس نے کھانے کے بعدہی ابوسے بات کرنامناسب سمجھا۔جب کھانے کے بعد ابوکواس نے اپنے کمرے میں فارغ بیٹھادیکھاتو ان کی طرف چل پڑا۔جاوید نے فیضان کواپنی طرف بڑھتادیکھاتواس کویادآگیاکہ آج فیضان نے اس سے کوئی بات کرنی تھی۔ اس لیے سلام کے بعد اس نے خودہی پوچھ لیا:
’’ بیٹا۔۔!اب بتائیں۔۔۔آپ مجھ سے کیا بات کرناچاہ رہے تھے۔۔؟‘‘
’’ابو۔۔! آپ میراجیب خرچ بڑھادیںنا ،کیوں کہ جتنا جیب خرچ آپ مجھے دیتے ہیں اس میں میراگزارانہیں ہوتا ‘‘
’’کیوںبیٹا۔۔!تمہارے کیااخر اجات بڑھ گئے ہیں،جن کی وجہ سے اب تمہیں اپناجیب خرچ کم محسوس ہورہاہے۔۔؟
’’اسکول میں بچے مجھ سے زیادہ جیب خرچ لاتے ہیںاوروہ مہنگی مہنگی اورزیادہ چیزیں خریدکرکھاتے ہیں۔مجھے کم جیب خرچ کی وجہ سے سستی اورتھوڑی چیزوں پرگزاراکرنا پڑتاہے۔۔۔‘‘
’’بیٹا۔۔!میں اپنی آمدنی کے حساب سے تمہیں بہت مناسب جیب خرچ دیتاہوں۔ جن چیزوں کے لیے تم اپناجیب خرچ بڑھانے کی فر مائش کررہے ہووہ چیزیں تو صحت کے لیے مفید بھی نہیں ہیں۔ اگرتم ضرورت کے مطابق خرچ کروتویہ جیب خرچ تمہارے لیے کافی ہے ۔اللہ تعالی نے ہمیں جتنادیاہے،ہمیں اس پرشکراداکرناچاہیے۔۔۔‘‘
فیضان اپنے والدین کااکلوتابیٹاتھا۔ وہ ساتویں جماعت میں پڑھتاتھا۔ وہ ذہین ہونے کی وجہ سے ہرجماعت میں نمایاں نمبرلے کرپاس ہوتاتھا۔باپ غر بت کے باوجود اس کو شہرکے سب سے اچھے اسکول میں پڑھارہاتھا۔ اس اسکول میں اکثرامیرگھرانوں کے بچے پڑھتے تھے۔ جب باپ اس کوسمجھارہاتھا اس وقت بھی اس کی آنکھوں کے سامنے ان امیربچوں کا جیب خرچ اوران کی مہنگی مہنگی اشیاء گھوم رہی تھیں۔وہ ذرابھی باپ کی باتوں کااثرنہیں لے رہاتھا۔جب اس کے ابونے بات مکمل کی تووہ خاموشی سے چہرے پرناراضی کے تاثرات سجائے کمرے سے نکل گیا۔جاویدنے بھی بیٹے کے چہرے کے تاثرات پڑھ لیے تھے،لیکن وہ اسے قناعت کے درس کے سواکچھ اورنہیں دے سکتاتھا۔اس نے تمام اخراجات اپنی آمدنی کے مطابق طے کررکھے تھے۔
اگلی رات فیضان پھر اپنامطالبہ ابوکے سامنے دہرارہاتھا۔وہ جیب خرچ میں معمولی اضافہ کے لیے قائل تھے،لیکن فیضان بہت زیادہ اضافہ چاہتاتھا۔وہ ان کے پیا رسے سمجھانے کے باوجود اپنی بات سے ہٹنے کوتیارنہیںتھا۔ماںبھی اسے سمجھاسمجھا کرعاجزآچکی تھی اوروہ کسی طرح مان نہیں رہا تھا۔
آہستہ آہستہ فیضان نے جیب خرچ سے بھی آگئے بڑھتے ہوئے موبائل اورسائیکل وغیرہ جیسی چیزوں کی فرمائش کردی۔جب اسے اپنی فرمائشیں ادھوری نظرآنے لگیں تو اس نے بغاوت کی صورت اختیارکرتے ہوئے خودکمائی کرنے کافیصلہ کرلیا۔اس نے ماں کوآگاہ کیاکہ وہ اسکول چھوڑکرخودکام کرکے کمائے گا۔ماں یہ سن کرسرپکڑکربیٹھ گئیں۔ باپ نے شدیدغصہ کیا اوراسے خوب ڈانٹا،لیکن وہ کسی بات کالحاظ کیے بغیراپنی ضدپرقائم تھا۔
اگلی صبح وہ اسکول جانے کے بجائے کام کی تلاش میںنکل پڑا۔سارادن وہ بازاروںکی خاک چھانتارہا،لیکن اسے کوئی کام نہ ملا۔ اِدھرماں باپ اس سے خفاتھااُدھر اس کوکوئی کام بھی نہیں ملاتھا۔اس وجہ سے وہ شدید پریشان تھا،لیکن اپنی ضدچھوڑنے کے لیے تیارنہیں ہورہاتھا وہ دوسرے دن بھی کام کی تلاش میںرہا آخر شام کوجب اس نے ایک ریسٹورنٹ میں جا کر وہاں کے مالک سے پوچھاکہ یہاں کوئی کام ہے تومالک نے کہا:
’’یہاں تمھیں بر تن دھونے کاکام مل سکتاہے، ا گرکرسکتے ہوتوکل آجانا۔‘‘
گھرآکراس نے ماں کوبرتن دھوتے ہوئے غورسے دیکھناشروع کردیا۔کافی دیردیکھنے کے بعداس کولگاکہ یہ کام زیادہ مشکل نہیںوہ یہ کام کرسکے گا۔اس نے یہ کام کرنے کاپکا ارادہ کرلیا۔صبح وہ سیدھااسی ریسٹورنٹ میں پہنچ گیا۔
یہ شہرکاکافی بڑا اورمشہور ریسٹورنٹ تھا۔یہاں اکثر لوگوں کاہجوم رہتاتھا۔ریسٹورنٹ کے مالک نے اس کے ذمے برتن دھونے کاکام لگایااور اس کوجلدی سے برتن دھونے والی جگہ پرپہنچادیاگیا۔اس کے پاس سالن اورچائے سے آلودہ برتن لائے جانے لگے۔اس نے برتنوں کودھوناشروع کردیا۔آج سے پہلے اس نے کبھی ایسا کام نہیں کیاتھا۔ باپ خودمحنت مزدوری کرتاتھااور بیٹے کو پڑھائی کرنے کے لیے ہرکام سے فارغ کررکھاتھا۔وہ بیٹے کی تمام اہم ضروریات کواچھی طرح پوری کررہاتھا،جب کہ بیٹا ہرطرح کی خواہشات کی تکمیل چاہتاتھا۔جب ہرخواہش پوری نہ ہوئی تووہ والدین کاباغی ونافرمان بن کرخودروپے کمانے نکل چکاتھا۔وہ خودروپے کماکران سے اپنی ہرطرح کی خواہش کوپوراکرناچاہتاتھا۔
فیضان نے ابھی چندبرتن دھوکررکھے ہی تھے کہ ایک بیرا آیااوراس کے دھلے ہوئے برتن اٹھاکرلے گیا۔جلدہی وہ بیراواپس لوٹاتواس کے ساتھ ریسٹورنٹ کامالک بھی تھا۔ بیرے کے ہاتھ میں فیضان کے دھلے ہوئے وہ تمام برتن موجودتھے،جووہ ابھی اٹھاکرلے کرگیاتھا۔مالک نے برتنوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’یہ برتن تم نے کس طرح دھوئے ہیں۔۔۔پلیٹوں کے ساتھ سالن اورپیالیو ں کے ساتھ پتی اورملائی کے ذرات موجودہیں۔۔؟‘‘
’’صاحب۔۔!مجھے ایک مہلت دے دیں۔۔۔پھرآپ کومیںشکایت کاموقع نہیں دوں گا۔۔۔‘‘ فیضان نے التجائی اندازمیں کہاتومالک غصے سے اسے گھورتاہواخاموشی سے واپس باہرچلاگیا۔
فیضان اب ہربرتن کوتوجہ سے اچھی طرح دھونے لگا۔تھوڑی دیربعدبیراآیاتوحیرت کے مارے دورہی کھڑاہوگیا۔ایک نظراس نے برتنوں پرڈالی اورمالک کے پاس چلاگیا اورکہا:’’صاحب۔۔! صاف برتن ختم ہوچکے ہیںاوراس نے اتنی دیرمیں دوچارہی برتن دھوئے ہیں۔۔۔‘‘
اوہ۔۔۔میں نے کس الوکوکام پررکھ لیا۔۔۔ابھی اس کی جاکرخبرلیتاہوں۔۔۔یہ کہتے ہوئے مالک شدیدغصے میںسیدھااس کے پاس آیا۔
’’تیزتیزہاتھ چلاؤ۔۔۔ورنہ نکلویہاں سے۔۔۔یہ برتن تمھیں کھیلنے کے لیے نہیں دیئے ۔۔۔‘‘
مالک کی ڈانٹ سنتے ہی اس کے ہاتھ بجلی کی سی تیزی سے چلنے لگے۔ وہ خوب پھرتی سے کام کررہاتھا۔اب اس کا جسم پسینے سے شرابور ہورہاتھا،لیکن اب بیرے کودھلے ہوئے برتن ڈھیر سارے مل رہے تھے۔چوں کہ وہ کام کرنے کا عادی نہیںتھا ،اس لیے وہ جلدہی برتن دھودھوکرتھک چکاگیا۔اس کے ہاتھ سن ہوچکے تھے۔اتنے میں ایک پیغام اس کے لیے ذرادیرکی راحت لے کرآیا۔اس کوکھاناکھانے کے لیے نصف گھنٹہ دے دیاگیاتھا۔ہاتھوں میںدردکی وجہ سے آج اس سے لقمے تھوڑنے بھی مشکل ہورہے تھے ۔جوں ہی نصف گھنٹہ مکمل ہواوہ پھرسے اپنی جگہ سنبھال چکاتھا۔اب پھر وہ تھااوربرتن تھے۔اس نے چند لمحوںکے اندر ایک بڑی ٹرے میںصاف برتنوں کاڈھیر لگاناتھا۔اس لیے اس کے ہاتھ بڑی تیزی سے حرکت کررہے تھے۔جوں ہی درد اورتھکن کی وجہ سے ہاتھ سست پڑتے تواس کومالک کی ڈانٹ اورغصہ یادآجاتاتووہ پھرسے رفتارپکڑلیتے۔بیرے کوبھی اب ٹرے برتنوںسے بھری مل رہی تھے۔فیضان کے ہاتھ کب تک اس کاساتھ دیتے۔وہ درد کی شدت کے باعث سست پڑرہے تھے۔بیرے نے ایک دوباربرتن کم ملنے پراسے تنبیہ کی،لیکن اس کی ہمت جواب دے چکی تھی۔ادھرصاف برتن ختم ہوئے ،ادھرمالک نے بیرے سے جلدصاف برتن لانے کوکہا۔بیرے نے کہا:
’’صاحب۔۔ ! اب اس سے اوربرتن نہیں دھل رہے۔۔۔وہ شدیدتھک چکاہے۔۔۔‘‘
’’ارے ۔۔۔اتناہی نازک ہے ،توکام پر کیوں آیاہے۔۔؟اب کام توکرکے دیناپڑے گا۔۔۔‘‘
یہ کہتے ہوئے مالک غصے سے اس کی طرف لپکا۔اس کو ہاتھ پرہاتھ دھرابیٹھا دیکھ کرمالک کاہاتھ فضامیں بلندہوااوراس کے ایک گال کوسرخ کرگیا۔فیضان نے جو آنسوؤں بڑی دیرسے ضبط کررکھے تھے، وہ اب رم جھم برس رہے تھے۔اس کاوجوددردوغم کی زدمیں تھا۔اس کوکچھ سمجھ نہیں آرہاتھاکہ مالک اورکیاکچھ کہہ رہاہے۔اس کے ہاتھ ایک بارپھرچلنے لگے تھے۔اب برتنوں کوپانی کے ساتھ ساتھ آنسوؤں سے بھی دھویا جارہاتھا۔جواس کی آنکھوں میں آنسوں دیکھ کرتڑپ اٹھتے تھے وہ اب اس کوبری طرح یادآرہے تھے۔یہ اب کسی طرح اڑکر جلدی سے ان کے پاس پہنچ جاناچاہتاتھا۔چندلمحوں بعداس کے ہاتھ میںتھوڑی سی رقم تھماکررخصت دے دی گئی۔وہ رقم جیب میں ڈال کرگھرکی طرف روانہ ہوپڑا۔آج اس کواپنی جیب میںموجود رقم کے پیچھے اٹھائی جانے والی مشقت اور درد کسی طرح نہیں بھول رہی تھی۔آج اس کو باپ کی مشقت اوردردسے کمائے ہوئے ایک ایک روپے کااحساس ہورہاتھا۔
جب اس نے اپنے گھرکے دروازے پردستک دی توماں نے دروازے کھولا۔وہ ان سے ابوکا پوچھنے ہی والاتھاکہ اس کی نگاہ سامنے صحن میں سوچوں میںگم صم کھڑے باپ پر پڑگئی۔ وہ بھاگتاہواسیدھاباپ کے قدموں میں جاکرگرا ۔وہ بلک بلک کررورہاتھا۔ اس نے اپنی کمائی باپ کے قدموں میں ڈال دی تھی۔وہ اپنی حرکتوں پرباپ سے معافی مانگ رہاتھا ۔باپ نے جلدی سے اس کو بازوں سے پکڑکر اپنے قد موں سے اوپرا ٹھاکرسینے سے لگالیا۔باپ پیارسے اس کے بالوںمیں ہاتھ پھیررہاتھااور اس کوباپ کے سینے سے لگ کرراحت ہی راحت مل چکی تھی۔
فلک سے روز اترتے ہیں روشنی کے خطوط
مگر نہ چمکے مقدر غریب خانوں کے