https://bachonkiweb.com

سیاہ دن – عاطف فاروق

احمد اور عبداللہ جوں ہی سکول سے واپس لوٹے سیدھا باورچی خانے میں گھس گئے جہاں ان کی امی جان سبزی کاٹنے میں مصروف تھیں۔
’’ السلام علیکم امی جان!‘‘ دونوں نے یک زبان ہوکر انھیں سلام کیا ۔
’’وعلیکم السلام !‘‘ انہوں نے مسکرا کر سلام کا جواب دیا ۔
’’ امی جان! آج ہم آپ سے کچھ پوچھنا چاہتے ہیں ؟‘‘ احمد نے کہا ۔
’’ ہاں ہاں …پوچھو میرے بچو !‘‘
’’ امی جان ! ہماری ٹیچر نے ہمیں بتایا ہے کہ بنگلہ دیش کسی وقت میں پاکستان کا حصہ تھا اور اسے مشرقی پاکستان کہتے تھے ، پھر 16 دسمبر 1971 ء کو سقوطِ ڈھاکہ ہوا اور مشرقی پاکستان الگ ہوکر بنگلہ دیش کے نام سے ایک الگ ملک بن گیا ۔‘‘ عبداللہ نے کہا ۔
’’ بالکل میرے بچو! آپ کی ٹیچر نے درست ہی تو بتایا ہے ۔‘‘ امی جان تائید کرتے ہوئے بولیں۔
’’لیکن امی جان ! ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ بنگلہ دیش آخر کیوں پاکستان سے الگ ہوا ؟ اس سانحہ کے محرکات کیا تھے اور اس کے ذمہ داران کون تھے ؟‘‘
احمد کے سوالات سن کر ان کی امی ہنسنے لگیں اور چُھری ایک طرف رکھتے ہوئے بولیں : ’’ ہائے اللہ … اتنے مشکل سوال !!! … نہ بابا نہ … مجھے کچھ بھی نہیں پتا …!!!‘‘
’’ امی جان ! بتائیں نا پلیز !…ہمارے سکول میں کل سقوطِ ڈھاکہ کے موضوع پر مقابلہ مضمون نویسی منعقد ہورہا ہے اور ہم اس میں حصہ لینا چاہتے ہیں … اور ایک اچھا مضمون لکھنے کیلئے ان سوالوں کے جواب ات جاننا بہت ضروری ہیں … آپ بتائیں نا !!!‘‘ عبداللہ ضد کرنے لگا ۔
’’ اوہ ہو… عبداللہ ! میں نے کہا نا… مجھے اس بارے میں کچھ نہیں پتا… شام کو ابو آئیں گے تو ان سے ہی پوچھ لینا … اب جائو جاکر کپڑے بدل لو اور مجھے میرا کام کرنے دو ۔‘‘
٭…٭…٭
’’ ابو جان ! ہمیں سقوطِ ڈھاکہ کے بارے میں کچھ بتائیں ۔‘‘ رات کے کھانے کے بعد ابو ٹی وی لان میں بیٹھے خبریں سن رہے تھے کہ احمد اور عبداللہ نے انھیں آن گھیرا۔
’’ سقوطِ ڈھاکہ کے متعلق مجھے کچھ خاص معلومات نہیں ہیںالبتہ آپ کے دادا ابو آپ لوگوںکو اس کے بارے میں ضرور بتاسکتے ہیں ۔‘‘
ابو جان کا جواب سن کر دونوں بھائی مایوسی سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔ دونوں اس بات پر ششدر تھے کہ ان کے والدین اتنے بڑے قومی سانحے سے متعلق انجان کیسے ہوسکتے ہیں؟ وقت ضائع کئے بغیر دونوں دادا ابو کے کمرے میں پہنچ گئے ۔ رسمی علیک سلیک کے بعد دونوں نے اپنا مدعا دادا ابو کے سامنے رکھا تو دادا ابو نے دونوں کو پیار کرتے ہوئے اپنے پاس بٹھا لیا ۔
’’ بچو! ہمارے لئے یہ ستم کی ظریفی کی بات ہے کہ بہت سارے پاکستانی سقوطِ ڈھاکہ کے واقعے اور تاریخ کو یا تو فراموش کرچکے ہیں یا بھولتے جارہے ہیں۔‘‘ دادا ابو نے اپنی بات کا آغاز کیا تو دونوں بھائی ان کی باتیں ہمہ تن گوش ہوکر سننے لگے ۔
’’ دادا ابو !16 دسمبر 1971 ء پاکستان کی تاریخ میں کیا اہمیت رکھتا ہے ؟‘‘ احمد نے سوال میں پہل کی ۔
’’بیٹا! 16 دسمبر 1971 ء پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا ۔ اس دن سقوطِ ڈھاکہ کا واقعہ پیش آیا یعنی پاکستان کے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کردیا گیا۔‘‘ دادا جان نے احمد کے سوال کا جواب دیا ۔
’’ دادا ابو ! سقوطِ ڈھاکہ کے محرکات قومیت ، رنگ یا نسل کا الگ ہونا تو نہیں تھے ؟‘‘ عبداللہ نے دوسرا سوال کیا ۔
’’ نہیں نہیں میرے بچو! ایسا ہرگز نہیں تھا بلکہ ہمارے پیارے قائد محمد علی جناحؒ کا یہ خواب تھا کہ سرزمینِ خدادادپاکستان میں تمام قومیتوں، رنگ ،نسل ، مذاہب کے لوگ آپس میں مل جل کر رہیں لیکن چند ناعاقبت پسند حکمرانوںنے اقتدار کی ہوس میں قائد اعظمؒ کا یہ خواب پورا نہ ہونے دیا ۔‘‘
’’ سقوطِ ڈھاکہ میں ہمارے ازلی و ابدی دشمن بھارت کا کیا کردار تھا ؟‘‘ احمد نے ایک اور سوال کیا ۔
’’ بچو! سقوطِ ڈھاکہ دراصل بھارت اور مشرقی پاکستان کے اندرونی غداروں کی ملی بھگت ہی تھی کہ پاکستانی فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ بھارت تو پہلے ہی پاکستان کے وجود سے خار کھائے بیٹھا تھا، اس نے بہت پہلے سے ہی پاکستان کو توڑنے کی منصوبہ بندی کررکھی تھی اور اپنی فوج ’مکتی باہنی‘ کے روپ میں مشرقی پاکستان میں تعینات کی ہوئی تھی۔ مکتی باہنی ارو بھارتی تنظیم ’را‘ نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو مغربی پاکستان یعنی موجودہ پاکستان کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا اور جو لوگ پاکستان سے محبت کو ختم کرنے پر راضی نہیں تھے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے ۔‘‘
دادا ابو سوالوں کے جواب دئیے جارہے تھے اور عبداللہ اہم نکات کو اپنی نوٹ بک میں ساتھ ساتھ درج کرتا جارہا تھا ۔
’’ دادا ابو ! سقوطِ ڈھاکہ کے ذمہ داران کون کون تھے ؟‘‘ عبداللہ نے اہم سوال کیا تو دادا ابو نے اسے داد دی اور بولے : ’’ بچو! آج بنگلہ دیش کو ہم سے الگ ہوئے 45 سال گزرچکے ہیں لیکن علیحدگی کا یہ زخم آج بھی تازہ ہے ۔ سقوطِ ڈھاکہ کی ذمہ داری شیخ مجیب الرحمٰن، ذوالفقار علی بھٹو یا پاک فوج پر ڈال دینا بالکل غلط ہے ، بحیثیت قوم ہم سب اس سانحے کے ذمہ دار ہیں ۔‘‘
’’ وہ کیسے دادا ابو ؟‘‘ احمد ‘دادا ابو کے جواب پر چونکتے ہوئے بولا ۔’’ ہم سب اس سانحہ کے ذمہ دار کیسے ہوسکتے ہیں ؟ میں آپ کی بات کو سمجھ نہیں سکا ۔‘‘
’’ میں ابھی آپ کو سمجھائے دیتا ہوں احمد بیٹا !‘‘ دادا ابو احمد کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے ۔ ’’ بیٹا ! تحریک آزادی کے دوران ہمارے پیارے قائد محمد علی جناحؒ نے ایک موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں لندن میں امیرانہ زندگی بسر کررہا تھا ، اب میں اسے چھوڑ کر انڈیا اس لئے آیا ہوں کہ یہاں لاالہ الا اللہ کی مملکت کے قیام کیلئے کوشش کروں ، اگر میں لندن میں رہ کر سرمایہ داری کی حمایت کرنا پسند کرتا تو سلطنت برطانیہ جو دنیا کی عظیم ترین سلطنت ہے ، مجھے اعلیٰ سے اعلیٰ مناصب اور مراعات سے نوازتی ، اگر میں روس چلا جائوں یا کہیں اور بیٹھ کر سوشلزم، مارکسزم اور کمیونزم کی حمایت شروع کروں تو مجھے بڑے سے اعزاز بھی مل سکتا ہے اور دولت بھی ، لیکن علامہ اقبالؒ کی دعوت پر میں نے منصب اور دولت دونوں کو پرے دھکیل کر محدود آمدنی کی دشوار زندگی بسر کرنا پسند کیا ہے ، تاکہ مسلمانوں کیلئے ایک اسلامی سلطنت وجود میں آئے اور اس میں قوانین کا بول بالا ہو ، کیونکہ انسانیت کی نجات اسلامی قوانین ہی میں ہے ، صرف اسلام کے علمی ، عملی اور قانونی دائروں میں آپ کو عدل ، مساوات ، اخوت ، محبت، سکون اور امن دستیاب ہوسکتا ہے۔ پھر پوری اقوامِ عالم نے دیکھا کہ عظیم قائد ؒ کی قیادت میں مسلمانانِ برصغیر نے پاکستان کے نام سے الگ مملکت کا قیام ممکن بنایا تاہم محبوب قائدؒ کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد ہم نے لاالہ الا اللہ کے نام پر حاصل ہونے والی اس مملکت خداداد پاکستان میں اسلامی نظام رائج کرنے کی بجائے ملک کا سیاسی ، انتظامی ، عدالتی ، معاشرتی ، اقتصادی، تعلیمی اور عسکری ڈھانچہ اور اس کی بنیادیں مغرب کے باطل افکار و نظریات پر قائم کیں ، ریاست اور معاشرے کے کسی شعبہ میں بھی اسلام اور اسلامی تعلیمات کو داخل نہ کیا گیا ۔ حالانکہ لاالہ الا اللہ کے نام پر حاصل کئے جانے والے ملک کیلئے تقاضا تو یہ تھا کہ مکمل اسلامی نظام حیات تشکیل دیتے ہوئے ریاست کے تمام محکموں اور زندگی کے تمام شعبوں میں اسلامی احکام و قوانین کو نافذ کیا جاتا لیکن ایسا کرنے کی بجائے یہاں باطل مغربی نظام جمہوریت کو نافذ کیا گیا ۔ اسلامی مملکت میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے احکامات نافذ کرنے کی بجائے ہم نے بیرونی آقائوں کے اشاروں پر کام کرنا شروع کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک قوم کا کہا تھا اور ہم مختلف قومیتوں میں بٹ کر رہ گئے ۔ درحقیقت سانحہ سقوط ڈھاکہ ہماری وعدہ خلافی کی سزا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں دی ہے ۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد دادا ابو کی آواز بھرگئی اور آنکھوں سے اشک جاری ہوگئے ۔ دونوں بھائی دادا ابو کو دیکھ رہے تھے مگر گم سم تھے ۔
دادا ابو نے بڑے ضبط و تحمل کے ساتھ اپنی سسکیوں کو روکا اور دوبارہ بولے : ’’ میرے بچو! یاد رکھو … تمھیں ہر کوئی یہ ہی بتائے گا کہ سقوط ڈھاکہ کے ذمہ دار شیخ مجیب الرحمٰن تھے …یا ذوالفقار علی بھٹو تھے …یا جنرل یحییٰ خان تھے … مگر سچ یہ ہے کہ اس سانحہ کے حقیقی ذمہ دار ہم سب ہیں ۔ بنگلہ دیش کا پاکستان سے الگ ہونا ہماری وعدہ خلافی کی سزا ہے ۔‘‘
دادا ابو رومال سے آنکھیں صاف کرنے لگے مگر احمد اور عبداللہ ابھی بھی گم سم کی سی کیفیت میں ادھر ہی بیٹھے تھے اور دادا ابو کی بتائی ہوئی باتوں پر غور کررہے تھے ۔

اپنا تبصرہ لکھیں