رات کافی گزرچُکی تھی۔ ہر طرف خاموشی اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔ لیمپ کی مدہم روشنی میں ایک چھوٹا سا بچہ میز پر کُہنیاں ٹکائے پڑھنے میں مشغول تھا۔ ایک خاتون کمرے میں داخل ہوئیں اور قریب آکر کہا : ’’ بس بیٹا! اب سوجائو اتنی رات ہوچکی ہے ، زیادہ جاگنے سے صحت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔‘‘ بچہ سراُٹھاتا ہے اور آہستہ سے جواب دیتا ہے : ’’بڑاآدمی بننے کے لئے رات گئے تک پڑھنا ضروری ہے، کیا آپ نہیں چاہتیں کہ میں بڑا آدمی بنوں ؟‘‘
بچپن میں رات تک گئے تک جاگنے اور تعلیم میں گہری دلچسپی لینے والا یہ بچہ جب بڑا ہوا تو واقعی وہ بہت بڑا انسان بن چُکا تھا۔ اتنا بڑا کہ اس نے اپنی قوم کے لئے علیحدہ وطن حاصل کیا۔ قوم نے پاکستان بنانے والے اس رہنما کو قائد اعظمؒ کا خطاب دیا۔ ویسے تو قائد اعظمؒ کو پاکستان کے ہر باسی سے پیار تھا لیکن آپؒ طلبہ سے حد درجہ پیار کرتے تھے ۔ آپؒ انھیں پاکستان کا ہراول دستہ کہتے تھے ۔ آپؒ طلبہ کے مسائل حل کرتے اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ۔ آپؒ جب بھی طلبہ سے ملتے انھیں تعلیم جاری رکھنے کا مشورہ دیتے۔ آپؒ نے اپنی زندگی میں طلبہ کے لئے بہت سے پیغامات چھوڑے ہیں جن میں چند درج ذیل ہیں ۔
معیاری تعلیم
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کے مستقبل کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہے اور ہونا چاہیے کہ اپنے بچوں کو کس قسم کی تعلیم دیتے ہیں اور آئندہ شہری بنانے کیلئے ان کی تربیت کس ڈھنگ سے کرتے ہیں ۔ تعلیم کا مفہوم صرف درسی تعلیم نہیں ۔ وقت کی بہت اہم اور فوری ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو سائنس اور فنی علوم کی تعلیم دیں تاکہ وہ آئندہ معاشی زندگی کی تعمیر کرسکیں۔ ہمیں اس کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ ہمارے لوگ سائنس ، تجارت ، بیوپار اور خاص طور پر باطریقہ منصوبہ بندی کے شعبوں کو اپنائیں۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ ہمارا ملک ایک ایسی دنیا سے ہے جو ان میدانوں میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں آئندہ نسلوں کے کردار کی تعمیر بھی کرنی ہے ۔ ہمیں نہایت موزوں قسم کی کی تعلیم سے ان کی عزت نفس اور وفاداری اور قوم کی بے لوث خدمت کے جذبات بھی پیدا کرنے ہیں ۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ بہرطور مشتاق اور ذی استعداد ہوں اور قومی زندگی کے مختلف شعبوں میں اس خوبی سے کام کریں کہ پاکستان کا نام روشن ہو۔‘‘
(کل پاکستان تعلیمی کانفرنس سے خطاب ….. 26 نومبر 1947ئ)
کالجوں کا نصب العین
’’ہمارے کالجوں کا یہ نصب العین ہونا چاہیے کہ زراعت ، علم الحیوانات ، علم نباتات، طب ، انجینئرنگ اور دیگر خصوصی مضامین کے اول درجے کے ماہر تیار کریں ۔ معیارِ زندگی اونچا کرنے ، خصوصاً عام آدمیوں کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے اس وقت ہم انہی مسائل سے دوچار ہیں ۔ ان سے عہدہ برآ ہونے کی صرف یہی ایک صورت ہے۔‘‘
(ایڈورڈ کالج پشاور میں تقریر ….. 18 اپریل 1948ئ)
حقیقی معیار
’’میرے نوجوان دوستو! میں تمہاری طرف سے اس توقع سے دیکھتا ہوں کہ تم پاکستان کے حقیقی معمار ہو۔ دوسروں کے آلہ کار مت بنو اور ان کے بہکاوے میں مت آئو۔ اپنے اندر مکمل اتحاد اور جمعیت پیدا کرئو۔ اس کی مثال قائم کردو کہ نوجوان کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ اور اگر اب تم اپنی قوتوں کو غلط کاموں میں لگائو گے تو بعد میں ہمیشہ افسوس کروگے۔ جب تم یونیورسٹیوں اور کالجوں سے فارغ التحصیل ہوجائو تو پھر تم اپنی اور مملکت دونوں کی خدمت کرسکتے ہو۔‘‘
(ڈھاکہ میں جلسہء عام سے خطاب….. 21 مارچ1948ئ)
بہت زیادہ علم
’’اپنے آپ سے انصاف ، والدین سے انصاف بلکہ مملکت سے بھی انصاف اسی میں ہے کہ تمہاری اہم ترین مصروفیات تمام تر تحصیل علم ہی سے مخصوص رہے۔ صرف اس طرح تم خود کو زندگی کی اس جنگ کے لئے تیار کرسکتے ہو جو آگے چل کر پیش آنے والی ہے ۔ صرف اس طریقے ہی سے تم اپنی مملکت کے لئے اہم اثاثہ اور طاقت و فخر کا اہم سرچشمہ بن سکتے ہو ۔ صرف اسی طرح تم ان عظیم معاشرتی مسائل کو حل کرنے میں مدد کرسکتے ہو جو اس راہ میں درپیش ہوں۔‘‘
(ڈھاکہ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد کیک موقع پر طلبہ سے خطاب… 24مارچ 1948ئ)
پاکستان کی طاقت
’’کم از کم تین بڑی بنیادی باتیں ہیں جو کسی قوم کو علاقہ کے مالک ہونے اور حکومت چلانے کا اہل بناتی ہیں ۔ ان میں سے ایک تعلیم ہے جس کے بغیر آپ کا بعینہ وہی حال ہوگا جو کل اس پنڈال میں اندھیرا چھانے پر ہوا تھا ۔ اس کے برعکس اگر آپ تعلیم سے بہرہ ورہوں گے تو وہی عالم ہوگا جو روز روشن میں ہے ۔ دوسرا یہ کہ کوئی قوم یا ملت اس وقت تک بڑا کام نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ کاروبار، تجارت اور صنعت میں اقتصادی حیثیت سے طاقتور نہ ہو۔ تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ جب آپ تعلیم کے ذریعے علم کی روشنی حاصل کرلیں اور خود کو اقتصادی اور صنعتی حیثیت سے طاقتور بنالیں تو پھر آپ کو اپنے تحفظ کی تیاری کرنی چاہیے ۔‘‘
(خطبہ صدارت، پنجاب مسلم سٹوڈنٹس کانفرنس….. 2 مارچ 1941ئ)
بہترین سپاہی
’’ہمارے سامنے داخلی حفاظت اور خارجہ حملوں کے دفاع کے مسائل پیش ہوں گے۔ چرخے چلانے سے آزادی نہیں رکھی جاسکتی ۔ میں اپیل کرتا ہوں کہ آپ اپنے آپ کو ناگہانی ضرورت کے لئے تیار رکھو۔ علی گڑھ مسلم ہندوستان کا اسلحہ خانہ ہے۔ اور تم اس کے بہترین سپاہی ہو۔ تم دیہاتوں میں پھیل جائو ، ہمارے لوگوں کو تعلیم دو۔ انھیں سدھارو انھیں ہمارا مقصد سمجھائو۔ بہت سے لوگ انھیں بہکانے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھیں ایک مرتبہ سمجھ لینے دو تو پھر وہ خود اپنی منزلِ مقصود کی طرف چل پڑیں گے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تم ایک تعمیری لائحہ ء عمل کے لئے اپنے آپ کو وقف کردو۔ تم اپنی چھٹیوں کو تعمیری کاموں پر خرچ کردو۔ اپنے آدمیوں میں تعلیم کی اشاعت اور معاشرے کی اصلاح کرو۔‘‘
(مسلم یونیورسٹی کی سٹوڈنٹ یونین سے خطاب….. 10 مارچ 1941ئ)
تعمیری تنقید
’’تم سے جن فرائض کی توقع ہے وہ یہ ہیں کہ ضبط کا اعلیٰ احساس ، کردار اقدام اور ٹھوس علمی پسِ منظر پیدا کرئو۔ خود کو تحصیل علم کے لئے وقف کردو کیونکہ یہ پہلا فرض ہے جو تمہارے ذمہ ہے ۔ نیز حکومت پر تنقید کرتے ہوئے تمہارا رویہ تعمیری ہونا چاہیے۔ حکومت ایسی تعمیری تنقید کو پسند کرتی ہے۔‘‘
(اسلامیہ کالج پشاور کے سپاس نامہ کے جواب میں ….. 12 اپریل 1948ئ)