چنگیز خان کی تاریخ

چنگیز خان کی تاریخ کا مختصر جائزہ

چنگیز خان کا نام خونخوار اور ظلم و بربریت کا استعارہ بن چکا ہے۔ اس نے کسی بھی دوسرے فاتح سے دگنا علاقہ فتح کیا۔ وہ  صحرائے گوبی کے خانہ بدوشوں کو دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کا مالک بنادیا۔

وہ ذہانت ، عیاری ، چالاکی اور سفاکی کے ساتھ ساتھ انتظامی صلاحیتوں میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ چنگیز جہاں سے گزرتا بستیاں ویرانوں ، گلشن بیابانوں اور آبادیاں قبرستانوں میں بدل جاتیں۔

چنگیز خان کی موت

بحرالکاہل سے لے کر بحیرہ ءروم تک اس کی مملکت میں آج کے 30 خودمختار ممالک موجود ہیں۔ وہ دنیا کا ماہر ترین گھڑ سوار ہونے کے باوجود گھوڑے سے گر کر مرا۔ آج تک اس کی قبر کا نشان بھی کسی کو نہیں معلوم۔

” زندگی کا مزہ اسی میں ہے کہ لڑتے ہوئے دشمنوں کو مار ڈالو۔ بھاگتے ہوﺅں کا تعاقب کرکے ان کا مال لوٹ لو۔ ان کے رشتے داروں کو آنسو بہانے پر مجبور کردو اور ان کی عورتوں کو اپنے حرم میں داخل کرلو۔“

یہ الفاظ چنگیز خان کے ہیں اور اس کے حالات زندگی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ اپنے نظریات پر پورا یقین رکھتا اور ان عمل کرتا تھا۔ اس کی یہی سختی اور سنگدلی ہے کہ دنیا بھر میں اس کا نام ظلم و ستم اور جبر کی علامت سمجھا جاتا ہے۔

کسی بھی ظالم کے ظلم کو چنگیزیت کا نام دیا جاتا ہے۔ چنگیز خان دنیا کا سب سے ظالم بادشاہ ہی نہیں بلکہ سب سے بڑا فاتح بھی تھا۔ اس نے 50 لاکھ مربع میل کا علاقہ طاقت کے زور پر فتح کیا جو کسی بھی فاتح سے زیادہ ہے۔

مرتے وقت اس کی سلطنت مشرق میں بحرالکاہل سے لے کر مغرب میں بحیرہ ءروم تک وسیع تھی اور وہ بلاشرکت غیرے اس کا حکمران تھا۔
چنگیز خان کے جانشینوں نے حکومت پر مخالفوں کے قبضے کے خوف سے اس کی موت کی خبر دبادی ۔ ایک روایت کے مطابق لشکر کی نظروں سے اوجھل ہی اسے دفن کردیا گیا ۔ اس کی قبر پر گھوڑا گاڑیاں دوڑائی گئیں تاکہ اس کا نام و نشان تک مٹ جائے۔

بعد ازاں وہاں سپاہیوں کے ایک گروہ کا پہرہ لگادیا گیا اور جب اس کی جگہ پر درخت اُگ آئے تو یہ پہرہ ہٹایا گیا ۔

چنگیز خان

چنگیز خان مغول

چنگیز خان 1162ءمیں صحرائے گوبی کے ایک منگول قبیلے میں پیدا ہوا ۔ اس کا نام ”تموجن“ تھا۔ تموجن (چنگیز خان)  کا باپ خانہ بدوشوں کا سردار تھا۔ اس کا بپچن صحرائی علاقوں میں بھوک پیاس اور شدید موسم کی صعوبتیں برداشت کرتے گزرا۔

وہ بخلستان میں بھیڑیں بکریاں چرایا کرتا تھا۔ خانہ بدوشوں کی روایت کے مطابق لڑائی جھگڑے، اغواء، قتل ، غلامی یہ اس کے لئے نئی چیزیں نہیں تھیں ۔ اپنے بچاﺅ کے لیے تدبیر کرنا تو ہر انسان کی طفرت میں ہوتا ہے لیکن چنگیز خان کو تربیت ہی اس چیز کی ملی۔

تموجن کی عمر 19 سال تھی جب اس کا باپ دشمن تاتاریوں کے ایک حملے میں مارا گیا۔ اس کی ماں اور وہ قبیلے سے باہر نکال دئیے گئے تاکہ صحرا کی وسعتوں میں موت کا نشانہ بن جائیں ۔ اسی لمحے تموجن نے اپنے باپ کے قاتلوں سے انتقام لینے کا فیصلہ کیا اور یہیں سے اس کی قوت میں اضافہ ہونا شروع ہوا ۔

اس نے اپنے دشمنوں کے مخالفین کے ساتھ اتحاد کرلیا اور باپ کے قاتلوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا ۔ قبیلے کی سرداری کی جنگ میں اس نے اپنے سوتیلے بھائی کو بھی قتل کیا ۔

چنگیز خان کا اصول تھا کہ جب بھی شہر کو فتح کرتا تو اس کی عمارتیں جلادیتا اور قتل عام کا حکم دیتا ۔ بعض اوقات وہ سر تسلیم خم کرنے والوں کو معاف کردیتا ، لیکن کسی بھی بادشاہ یا سردار کو زندہ چھوڑ دینا اس کے اصول کے خلاف تھا۔

تاریخ چنگیز خان

اس بارے میں اُس کا موقف یہ تھا کہ کسی بھی بادشاہ یا سردار کو زندگی چھوڑ دینے سے اس کے اندر حکومت کی خواہش دوبارہ پیدا ہوسکتی ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ان کو ختم کردیا جائے اور ان لوگوں کو زندہ رکھا جائے تو اطاعت کرنے کے عادی ہوں۔

چنگیز خان نے اپنے قبیلے کی سرداری کے بعد دیگر قبائل کو اپنا محکوم بنانے کے لئے باقاعدہ مہم کا آغاز کیا اور جلد ہی تمام منگول قبائل کا سردار بنا۔ 1188ءمیں اسے چنگیز خان کا لقب ملا۔

کئی قبیلوں نے اس کی سرداری کے خلاف بغاوت بھی کی لیکن 1204ءتک اس نے تمام بغاوتوں کو کچل کر اپنی بادشاہی مستحکم کرلی ۔ 1206ءمیں اس نے خاقانِ اعظم کا لقب اختیار کیا جس کا مطلب ہے ”دنیا کے تمام خیمہ نشینوں کا سردار“۔

اس کے دور میں منگولوں کی تعداد دس لاکھ سے زائد تھی جن میں سے اس نے ایک لاکھ افراد پر مشتمل تربیت یافتہ فوج تیار کی ۔ یہ فوج اپنی تنظیم اور اعلیٰ تربیت کی بدولت دنیا کی بہترین فوج بن گئی ۔

اپنی فوج کے ساتھ اس نے چین کو فتح کرنے کی مہم کا آغاز کیا لیکن اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی ۔ وہ چین کے چند علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب رہا تاہم بعض علاقے اس کے تسلط سے محفوظ رہے ۔

اس کی فتوحات میں وسطی ایشیا، روس، مشرق وسطیٰ اور یورپ کے کئی علاقے شامل ہیں۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ چنگیز خان کی سلطنت ایک کروڑ 20 لاکھ مربع میل سے زیادہ رقبے پر پھیلی ہوئی تھی ۔

چنگیز خان اردو

سلطنت کی تقسیم

1227ءمیں چنگیز خان کی موت کے بعد اس کی سلطنت چار بیٹوں میں تقسیم ہوگئی ۔ اس خاندان نے اگلے دو سو سال تک عروج کا دور دیکھا۔ بعد ازاں زوال آنا شروع ہوگیا اور اس عظیم سلطنت کے ٹڑے ہونے شروع ہوگئے ۔

اس خاندان کا آخری حکمران 1920ءمیں بخارا کی حکومت سے محروم کیا گیا ۔ چنگیز خان فوج لے کر جہاں سے گزرتا تباہی و بربادی اس طرف کا رخ کرلیتی۔ اس کے عزم و حوصلے کا یہ عالم تھا کہ اس نے ایک دریا کا رخ موڑ دیا۔

اس کا نام سنتے ہی وحشت و بربریت کا جو تصور ذہن میں آتا ہے ۔ اس نے چنگیز خان کی بعض خوبیوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ وہ انتہائی باصلاحیت منتظم تھا۔ اس نے چند برسوں میں منگولیا کے صدیوں سے منتشر قبائل کو متحد کیا ۔ اس نے 25 برسوں میں جو فتوحات کیں وہ رومیوں کی 400 سالہ فتوحات سے بھی زیادہ تھیں ۔

چنگیز خان کی تجارتی پالیسی و مذہبی مداخلت

چنگیز خان سے قبل یورپ اور چین میں کوئی رابطہ نہ تھا ۔ ان خطوں کے باسیوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تک نہ تھا۔ اس اعتبار سے کہا جاسکتا ہے کہ وہ دو خطوں کے درمیان رابطہ کی وجہ ثابت ہوا ۔ اس کی وسیع و عریض مملکت میں تمام تجارتی راستے آزاد اور محفوظ تھے۔

چنگیز خان پہلا غیر مسلم حکمران تھا جس نے سفیروں اور ایلچیوں کے لئے امان دینے کا اعلان کیا۔ اس نے کبھی کسی سفیر کو قتل نہیں کروایا ۔ غیر مسلم اقوام اس اعتبار سے چنگیز خان کی تعریف کرتی ہیں کہ اس نے مسلمانوں کے علاوہ کسی بھی دوسرے مذہب کے لوگوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہیں کی تھی ۔ وہ ہر فرقے کے لوگوں کو مذہبی آزادی دیتا تھا۔

مسلمانوں نے چونکہ اس کی زبردست مزاحمت کی تھی اس لئے اس نے عالم اسلام کو شدید نقصان پہنچایا ۔ اس کے پوتے ہلاکو خان نے بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی ۔ جنگی اعتبار سے چنگیز خان بہت ماہر تھا اور اس نے گھڑ سواروں کو آگ برسانے والے تیر نشانے پر لگانے کی تربیت دی تھی۔

ٹیگ:

چنگیز خان
چنگیز خان کی تاریخ
چنگیز خان اردو
چنگیز خان مغول
چنگیز خان کی موت
تاریخ چنگیز خان
changez khan history in urdu
history of changez khan in urdu pdf
who was changez khan in urdu
changez khan in urdu
Back to Home Page

اپنا تبصرہ لکھیں