ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر اردو مضمون

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سوانح حیات

ایک قابل فخر پاکستانی ہیرو کی کہانی – (dr abdul qadeer khan essay in urdu)

تحریر: رابعہ شاہین

بھارت کی پاکستان دشمنی اور 1971ءکا سانحہ

بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے۔ تحریک پاکستان سے ہی ہر قدم پر اس نے خودمختار اسلامی مملکت کے قیام کی راہ میں روڑے اٹکائے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی بھارت کا پاکستان کے ساتھ رویہ جارحانہ رہا ہے۔ تقسیم کے 78سال کے عرصے میں دونوں ممالک کے مابین کئی جنگیں ہوچکی ہیں اور کئی بار حالات جنگ کے دھانے لے گئے ۔

1971 ءمیں بنگال کی علیحدگی بھارت کی پاکستان دشمنی کی انتہا تھی۔ اس کے بعد 1974ءمیں بھارت کی جانب سے کیا جانے والا ایٹمی دھماکہ پاکستان کی سلامتی کے لئے خطرے کا آلارم تھا۔ پاکستان کی حکومت اپنے دیگر معاملات اور مسائل ایک طرف رکھ کر مملکت خداداد کے تحفظ کے بارے میں سوچنے لگی ۔ اس بات کی شدت سے ضرورت تھی کہ پاکستان بھی اپنے دفاع کے لئے ایٹمی پروگرام شروع کرے۔

پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور ایک قوم پرست سائنسدان کا کردار

اس مشکل گھڑی میں قوم کا ایک ہونہار سپوت لبیک کہتا ہوا آگے بڑھا۔ اس قابل فخر سپوت کا نام ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان 1935ءمیں بھارت کی ریاست بھوپال میں ایک پٹھان اور مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بھوپال کی ریاست ان دنوں علم و ادب کا گہوارہ تھی۔ علم کی محبت آپ کو ورثے میں ملی تھی۔ آپ اپنی عمر کے طالب علموں کی نسبت زیادہ ذہین و فطین تھے۔ گھریلو ماحول مذہبی ہونے کی بدولت اسلام سے محبت آپ کے دل پر نقش تھی۔

پاکستان ہجرت اور تعلیم کا سفر

حمیدیہ ہائی سکول بھوپال سے آپ نے میٹرک کیا۔ 1952ءمیں آپ ہجرت کرکے پاکستان تشریف لے آئے تھے۔ اس کے بعد کراچی یونیورسٹی سے انجیئنرنگ کرکے مزید تعلیم کے لئے مغربی جرمنی ، بیلجیئم اور ہالینڈ گئے۔ 1972ءمیں کیتھولک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اسی سال آپ ہالینڈ کی فزیکل ریسرچ لیبارٹری سے منسلک ہوگئے۔ اس دوران آپ کو اپنا بھوپال سے پاکستان ہجرت کرنے کا مقصد نہیں بھولا تھا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سوانح حیات

وطن کی پکار پر سب کچھ قربان کردیا

1971ءمیں پاکستان دولخت ہوگیا اور بھارت کی ایٹمی توانائی کے کھلم کھلا اعلان کے بعد تو پاکستان کا وجود خطرے میں پڑگیا تھا۔ ایسی صورتحال میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان چین سے کیسے بیٹھ سکتے تھے۔ وہ فوراً ہالینڈ میں اپنی اعلیٰ ملازمت دولت اور پرآسائش زندگی چھوڑ چھاڑ کر پاکستان چلے آئے اور اپنی تمام تر لیاقت اور خدمات پاکستان کیلئے وقف کردیں۔

کہوٹہ لیبارٹری کا قیام اور سخت جدوجہد

1976ءمیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے جب کہوٹہ میں ایک انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹری کی بنیاد رکھی تو انھیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بہرحال ایک طویل جدوجہد کا آغاز ہوچکا تھا۔ حکومت کی سرپرستی اور عوام کی دعائیں آپ کے ساتھ تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان نے بہت جلد یورینیم کو افزودہ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلی۔

عالمی دباﺅ اور پاکستان کا عزم

سامراجی قوتوں کیلئے یہ قابل قبول نہ تھا کہ ایک اسلامی ملک جوہری توانائی حاصل کرلے۔ انہوں نے پاکستان پر دباﺅ ڈالنا شروع کردیا کہ وہ اپنا جوہری توانائی کے حصول کا پروگرام بند کردے لیکن اس معاملے میں پاکستان اپنے موقف پر ڈٹا رہا ۔ نوے کی دہائی میں ایک بار پھر بھارت کے جارحانہ رویے میں شدت آگئی اور دونوں ممالک جنگ کے دھانے پر پہنچ گئے۔

مئی 1998ءمیں بھارت نے ایٹمی دھماکے کرکے خطے میں طاقت کا توازن بگاڑ دیا۔ پاکستان کی سلامتی ایک بار پھر خطرے میں پڑگئی۔ پاکستان کے لئے بہت ضروری ہوگیا تھا کہ وہ بھی اپنی جوہری توانائی کا اعلان کردے۔

28 مئی 1998ء: ایٹمی قوت بننے کا تاریخی دن

28 مئی 1998ءوہ تاریخ ساز دن تھا جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی محنت شاقہ رنگ لائی۔ ایک دیرینہ خواب کی تکمیل ہوگئی۔ ایک طویل جدوجہد ثمر آور ہوئی۔ پاکستان نے چاغی میں آزمائشی ایٹمی دھماکے کرکے خطے میں طاقت کا توازن بحال کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کو یہ باور کرایا کہ پاکستانی قوم اپنے دفاع سے قطی غافل نہیں ہے۔ اپنے دشمن کے دانت کھٹے کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔

پاکستان ایٹمی قوت کی حامل پہلی اسلامی مملکت بن گیا۔ پوری دنیا میں صرف پاکستان کا وقار بلند ہوا بلکہ جنوبی ایشیا کے خطے میں بھی پاکستان کی حیثیت مستحکم ہوگئی۔

قومی ہیرو کا اعتراف اور بین الاقوامی ردعمل

اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عبدالقدیر خان قومی ہیرو بن کے ابھرے۔ عوامی اور حکومتی سطح پر آپ کی خدمات کو سراہا گیا۔ اس وقت کے صدر محمد رفیق تارڑ نے آپ کو گولڈ میڈل دیا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے 150 سے زائد سائنسی تحقیقاتی مضامین بھی لکھے ۔ آپ کی قابلیت ، ذہانت اور ملکی خدمات کے پیش نظر آپ کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ 1993ءمیں کراچی یونیورسٹی نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ڈاکٹر آف سائنس کی اعزازی سند سے نوازا۔ 14 اگست 1996ءمیں صدر پاکستان فاروق لغاری نے آپ کو پاکستان کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان امتیاز دیا جبکہ 1989ءمیں ہلال امتیاز کا تمغہ بھی ان کو دیا گیا ۔

الزامات اور قربانی

اتنی کامیابی اور پذیرائی صیہونی طاقتوں سے بھلا کہاں برداشت ہونے والی تھی۔ اقوام متحدہ نے فوری طور پر بھارت اورپاکستان پر پابندیاں عائد کردیں۔ امریکہ ، برطانیہ سمیت غیر مسلم ریاستوں پاکستان پر تنقید کی بوچھاڑ کردی۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ذات کو بھی زد پر رکھ لیا گیا ۔ ان کی قابلیت اور صلاحیت نے یہودیوں اور عیسائیوں کو خوف میں مبتلا کردیا ۔

سازشوں کے وہ جال بچھائے کہ 2001ءمیں حکومت پاکستان نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اے کیو لیبارٹری سے علیحدہ کردیا اور انھیں صدر پاکستان کا وزیر خاص برائے سائنسی امور مقرر کردیا۔

اس کے باوجود بیرونی نام نہاد عالمی طاقتوں کا حکومت پاکستان پر دباﺅ بدستور رہا۔ پاکستان پر الزام تھا کہ وہ ایٹمی ٹیکنالوجی ایران ، لیبیا اور جنوبی کوریا کو فروخت کررہا ہے۔ اس الزام کے بعد ممکن تھا کہ یہ نام نہاد عالمی طاقتیں ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کی طاقت کے نشے میں چور پاکستان پر چڑھ دوڑتی۔ درحقیقت وہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ذہانت ، قابلیت اور لیاقت سے شدید خوفزدہ تھے۔

پاکستان کی سلامتی خطرے سے دوچار تھی۔ ایسے کڑے وقت میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک بار پھر محب وطن، مجاہد صفت پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا۔ تمام الزامات اپنے سر لیتے ہوئے مملکت خداداد کو مغربی صیہونی طاقتوں کی دشمنی سے بچالیا۔ اس کے بعد آپ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوگئے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر اردو مضمون

قوم کا عظیم محسن رخصت ہوگیا

10 اکتوبر 2021ءکو صبح 6 بجے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو پھیپڑوں کے مرض کے سبب کے آر ایل ہسپتال لایا گیا ، جہاں ان کی طبیعت مزید خراب ہوگئی ۔ ڈاکٹروں اور طبی ماہرین نے ان کو بچانے کی بھرپور کوشش کی تاہم 10 اکتوبر 2021ءکو صبح 7 بج کر 4 منٹ پر وہ پاکستانی قوم کو سوگوار چھوڑ کر دارفانی کو الوداع کہہ گئے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وصیت کے مطابق ان کی نماز جنادہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی ۔

ٹیگ

ڈاکٹر عبدالقدیر خان
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی سوانح حیات
ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر اردو مضمون
ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر مضمون
dr abdul qadeer khan essay
dr abdul qadeer khan essay in urdu
autobiography of dr abdul qadeer khan
Home Page
اپنا تبصرہ لکھیں