https://bachonkiweb.com بچوں کی ویب bachon ki web

حضرت مالک بن دینار ؒ – محمد اسلم لودھی

حضرت مالک بن دینارؒ کاشمار نہایت متقی اور پرہیز گارتابعین میں ہوتا ہے۔ آپؒ اور حسن بصریؒ ہمعصر ہیں ۔ آپ کا شمار بھی دینی پیشوائوں اور سالکین رہنمائوں میں ہوتا ہے۔ آپؒ کی پیدائش اپنے والد کے دورِ غلامی میں ہوئی ،ان کا نام دینار تھا۔ ظاہری اعتبار سے گو آپؒ غلام زادے تھے لیکن باطنی طور پر فیوض و برکات کا سرچشمہ تھے اور بااعتبار کرامات و ریاضت آپؒ کا درجہ بہت بلند ہے۔ ایک مرتبہ آپؒ کشتی میں سفر کررہے تھے اور منجدھار میں پہنچ کر جب ملاح نے کرایہ طلب کیا تو فرمایا کہ میرے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے۔ یہ سن کر ملاح نے آپؒ سے بدکلامی کی اور آپؒ کو اتنا زدوکوب کیا کہ آپؒ کو غش آگیا اور جب غشی دور ہوئی تو ملاح نے دوبارہ آپؒ سے کرایہ طلب کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے کرایہ ادا نہ کیا تو تمھیں پانی میں پھینک دوں گا۔ اسی وقت اچانک کچھ مچھلیاں منہ میں ایک ایک دینار دبائے پانی کے اوپر کشتی کے پاس آئیںاور آپؒ نے ایک مچھلی کے منہ سے دینار لے کر کرایہ ادا کیا ۔ ملاح یہ حال دیکھ کر آپؒ کے قدموںمیں گرپڑا اور آپؒ کشتی سے دریا پر اتر گئے اور پانی میں چلتے ہوئے نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔ اسی وجہ سے لفظ دینار آپؒ کے نام کا حصہ بن گیا ۔ آپؒ کو شراب نوشی کی پرانی عادت تھی پھر ایسے تائب ہوئے کہ دوبارہ شراب کو ہاتھ تک نہ لگایا اور پوری زندگی اللہ کی عبادت میں گزار دی۔ کسی نے آپ ؒسے اچانک توبہ کا سبب پوچھا۔ تو آ پ ؒ نے فرمایا میری چھوٹی سی بچی تھی جب میں اس کے سامنے شراب پینے لگتا تو میرے سامنے ہی شراب کی بوتل کو انڈیل دیتی تھی وہ دو سال کی ہوئی تو فوت ہوگئی۔ مجھے اس کے انتقال کا بہت صدمہ تھا اور میں اسے اکثر یاد کرتا۔ شعبان المعظم کی پندرھویں رات آئی تو میں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت قائم ہوگئی ہے ایک بڑا اڑدھا ( سانپ) منہ کھولے میرے پیچھے نگلنے کے لیے بھاگ رہا ہے اس سے جان بچانے کے لیے میں نے بھاگنا شروع کردیا۔ راستے میں ایک بزرگ نظر آئے جن سے بہت عمدہ خوشبو آرہی تھی میںنے ان سے کہا کہ خدا کے لیے مجھے اس سانپ سے بچائیے۔ میری پکار سن کر وہ بزرگ رو پڑے اور کہنے لگے میں بہت کمزور اور ضعیف ہوں تمہیں نہیں بچا سکتا۔لیکن تم آگے جائوشاید اللہ تعالیٰ تیری نجات کا کوئی اور ذریعہ بنا دے۔ فرماتے ہیں کہ میں بھاگتے بھاگتے دوزخ کے کنارے پر جاپہنچا۔ پھر مجھے آواز آئی کہ واپس پلٹو۔ میں واپس ہوا تو وہی سانپ پھر میرے تعاقب میں نظر آیا۔ میں پھر اس بزرگ کے پاس سے گزرا اور اس سے پناہ مانگی۔اس نے پھر کہا میں بہت کمزور ہوں تیری مدد نہیں کرسکتا۔ البتہ تو اس پہاڑ کی طرف چلا جا اس میں مسلمانوں کی امانتیں ہیں ممکن ہے تمہاری امانت بھی کوئی ان میں شامل ہو اور وہ تیری مدد کرسکے۔
میں چلتے چلتے اس پہاڑ کے قریب پہنچا تو ایک فرشتے نے آواز دی کہ دروازہ کھول دو۔ شاید اس کی تمہارے پاس کوئی امانت ہو تو وہ اس کو دشمن سے بچالے۔ دروازہ کھلا تو وہاں مجھے وہاں اپنی مرحوم بیٹی نظر آئی اس نے دائیں ہاتھ سے مجھے پکڑا اور بائیں ہاتھ سے اڑدھا (سانپ) کو ایسا ڈانٹا کہ وہ پلک جھپکتے میں نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ اژدھا کے غائب ہونے کے بعد بیٹی مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگی ابا جان! کیا ابھی ایمان والوں کے لیے وقت نہیں آیا کہ توبہ کریں ان کے دل اللہ تعالیٰ کے لیے نرم ہوجائیں اور ایمان کی چاشنی ان کے دلوں میں بھرجائے۔
بچی نے کہا۔ ابا جان! کیا ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ آپ شراب نوشی سے توبہ کرلیں۔ حضرت مالک بن دینار ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب کی حالت میں ہی اپنی بیٹی سے سوال کیاکہ اے بیٹی! کیا تو قرآن پاک کو پڑھنا جانتی ہے تو اس نے کہا ہاں۔ پھر میں نے بیٹی سے اس سانپ کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگی کہ ابا جان! یہ سانپ آپ کے عمل بد تھے اور وہ بزرگ آپ کے نیک عمل تھے جو بہت کم تعداد میں ہونے کی بنا پر کمزور تھے اور آپ کی ان بداعمالیوں سے نہ بچاسکے۔حضرت مالک بن دینار ؒ فرماتے ہیں جب میں نے اتنی بات سنی تو میری آنکھ کھل گئی اور میں بیدار ہوگیا اس لمحے مجھ پر خوف کا سخت غلبہ طاری تھا میں نے فورا شراب نوشی سے توبہ کی اور عہد کیا کہ آئندہ میں شراب اور گناہوں کے قریب تک نہ جائوں گا۔حضرت مالک بن دینار ؒ نے 131 ھجری میں وصال فرمایا۔ یہ واقعہ دور حاضر کے ہر مسلمان کے لیے ایک مثال کی حیثیت رکھتاہے جو گناہوں میں ایسے مشغول ہیں کہ انہیں نیکی کی توفیق ہی نہیں ملتی اور وہ یہ تصور کرتے ہیں کہ زندگی اسی طرح جار ی و ساری رہے گی۔ لیکن نیک عمل کم ہونے کی بنا پر کمزور اور بد اعمالیوں زیادہ ہونے کی بنا پر سانپ کی صورت دھار کر موت کاانتظار کررہی ہیں۔ حضرت مالک بن دینار ؒ تو خواب دیکھ کر ایسے تائب ہوئے کہ دوبارہ شراب نوشی اور گناہ کی جانب رغبت نہیں کی لیکن اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو کتنی ہی مرتبہ ہم توبہ کرتے ہیں اور کتنی ہی مرتبہ اس توبہ کو پھر عمل بد سے توڑ بیٹھتے ہیں۔ کبھی ہم نے کسی نابالغ بچی کی نماز جنازہ پڑھی ہے پڑھی تو یقینا ہوگی لیکن نماز جنازہ کے ترجمے پر ہم نے کبھی غور نہیں کیاہوگا۔جو ذیل میں درج ہے۔
الٰہی! اس لڑکی کو ہمارے لیے آگے پہنچ کر سامان کرنے والی بنا دے اور اس کو ہمارے لیے اجر کا موجب بنا دے اور وقت پر کام آنے والی بنا دے اور اس کو ہمارے لیے سفارش کرنے والی بنا دے جس کی سفارش تیرے ہاں منظور ہوجائے۔ حضرت مالک بن دینار ؒ کی مرحوم بیٹی نے کس طرح اپنے والد کو اعمال بد کے شر سے محفوظ کیا۔گویا اللہ تعالٰی اپنے بندوں کی بخشش کے لیے بہانے تلاش کرتا ہے اور نابالغ حالت میں مرنے والے بچوں کو بھی والدین کے لیے بخشش کا سامان بنا دیتا ہے۔
٭…٭…٭

اپنا تبصرہ لکھیں