پیارے نبی کا پیارا بچپن پیارے نبی کا بچپن پیارے نبی کی سیرت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن آپ کا بچپن پیارے نبی کے واقعات pyare nabi ka pyara bachpan hamare nabi ka bachpan apne nabi ka bachpan nabi ke bachpan ka byan childhood of prophet muhammad childhood of prophet muhammad for kids childhood of prophet muhammad in urdu childhood of prophet muhammad pdf early childhood of prophet muhammad childhood of prophet muhammad saw

پیارے نبی ﷺ کا پیارا بچپن

پروفیسر محمد مشتاق کلوٹا

پیارے نبی ﷺ کا پیارا بچپن

پیارے بچو!
پیر کی صبح صادق 12 ربیع الاول کا مبارک دن، بمطابق 22 اپریل 571 عیسوی، تقریباً 4 بج کر 20 منٹ کا وقت ہے، اصحابِ فیل کے واقعے کو 50 دن ہوچکے ہیں، موسمِ بہار ہے اور ہمارے پیارے نبی ﷺ اس دنیا میں تشریف لے آئے ہیں۔
سیدہ آمنہؓ فرماتی ہیں:
”پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کی ولادت کے وقت میں نے محسوس کیا کہ ایک نور مجھ سے خارج ہوا ہے جس سے ملک شام کے محلات اتنے روشن ہوگئے کہ آپ ﷺ کی والدہ ماجدہ نے انھیں دیکھا۔“
وہ مزید فرماتی ہیں:
”میں نے تین جھنڈے دیکھے، ایک جھنڈا مشرق میں نصب تھا، ایک مغرب میں اور ایک کعبے کی چھت پر لہرا رہا تھا۔“

بادل کا ٹکڑا

حضرت آمنہؓ فرماتی ہیں کہ بادل کا ایک ٹکڑا نمودار ہوا جس کے باعث حضور ﷺ آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ میں نے آواز سنی کہ حضور ﷺ کو تمام عالم کی سیر کرائی جائے تاکہ تمام مخلوق آپﷺ کی صفات، آپ ﷺ کی صورت اور اسم گرامی سے آشنا ہوجائے۔
پیارے نبی ﷺ کی ولادت سے قبل ہی ہر طرف اعلان ہورہے ہیں کہ آخری نبی آرہے ہیں۔ قرآن میں فرمایا گیا:
”من انفسکم“ انسانوں ہی میں سے، قبیلہ قریش سے اور سب سے اعلیٰ خاندان بنی ہاشم سے آرہے ہیں۔
آپ ﷺ کے پاس اس وقت شفابنت اسودؓ (حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی والدہ) بطور دائیہ حضرت آمنہؓ کے ساتھ تھیں۔
شفا بنت اسودؓ بیان کرتی ہیں کہ پیارے نبی ﷺ کی ولادت کی مقدس شب، مشرق و مغرب کے درمیان ہر چیز روشن ہوگئی اور میں نے اس وقت شام کے محلات دیکھے، کیونکہ شام رسول اللہ ﷺ کا پسندیدہ ملک ہے اور شام کی فضیلت میں بکثرت حدیثیں موجود ہیں۔ شفاؓ بیان کرتی ہیں کہ میں ڈری اور مجھ پر لرزہ طاری ہوگیا۔ اس کے بعد ایک نورداہنی جانب سے ظاہر ہوا، کسی کہنے والے نے کہا، انہیں کہاں لے گئے؟ دوسرے نے جواب دیا مغرب کی جانب تمام مقامات متبرکہ میں لے گیا۔ پھر بائیں جانب سے بھی ایک نور ظاہر ہوا۔ اس پر بھی کسی کہنے والے نے کہا، انھیں کہاں لے گئے۔ دوسرے نے جواب دیا انھیں مشرق کی جانب تمام مقامات متبرکہ میں لے گیا اور حضرت ابراہیمؑ کے سامنے پیش کیا۔ انہوں نے انھیں سینے سے لگایا اور خیر و برکت کی دعا مانگی۔ شفاؓ بیان کرتی ہیں یہ بات میرے دل میں ہمیشہ یاد رہی یہاں تک کہ پیارے نبی ﷺ نے دعوت دینا شروع کی تو میں اسلام لائی اور سابقون الاولون (یعنی سب سے پہلے ایمان لانے والوں) میں سے ہوئی۔
صبح صادق کے وقت، آپ ﷺ پیدا ہوئے تو سارا کمرہ خوشبو سے بھرگیا۔ حضرت شفا بنت اسودؓ حیران ہوکر دیکھ رہی تھیں کہ جب آپ ﷺ دنیا میں تشریف لائے، تو آپ ﷺ کے جسم پر کسی قسم کا کوئی نشان نہیں تھا۔ آپ ﷺ بالکل صاف ستھرے تشریف لائے۔ آپ ﷺ پاک و صاف پیدا ہوئے۔ انہوں نے حضرت آمنہ ؓ کو دکھایا تو وہ بھی حیران ہوئیں۔
سیدہ آمنہ ؓ فرماتی ہیں جب حضور ﷺ پیدا ہوئے تو آپ سجدے میں چلے گئے اور دونوں انگلیاں آسمان کی طرف اٹھائے ہوئے تھے۔
آپ ﷺ نے سجدے میں جانے کے بعد انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر فصیح زبان میں فرمایا:
”لا الہ الا اللہ، انی رسول اللہ“
(اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی اللہ نہیں اور بے شک میں اللہ کا رسول ہوں)
اس جہاں میں تشریف لاکر آپ ﷺ نے زمین و آسمان کو خوشیوں اور برکتوں سے بھردیا۔

تاروں سے کہہ دو کوچ کریں، خورشید منور آتے ہیں
قوموں کے پیمبر آتو چکے، اب سب کے پیمبر آتے ہیں

پیارے نبی کا پیارا بچپن

پیارے نبی ﷺ کا پیارا گھر

آپ ﷺ کے والدین مکہ مکرمہ کے شریف اور نہایت معزز خاندان قریش کی سب سے محترم شاخ بنوہاشم سے تعلق رکھتے تھے۔ مکہ مکرمہ میں پیارے نبی ﷺ جس جگہ پیدا ہوئے وہ ایک معروف مکان ہے، جو کعبہ کے قریب ”سوق اللیل“ میں واقع ہے۔ اب اس جگہ پر عوامی لائبریری ”مکتبہ مکۃ المکرمہ“ کے نام سے موجود ہے۔ یہ مکان وراثت میں پیارے نبی ﷺ کو ملا تھا، پھر پیارے نبی ﷺ نے ہجرت کے وقت حضرت عقیل بن ابی طالب کو پیش کردیا تھا۔ جب ہارون الرشید کی زوجہ محترمہ زبیدہ خاتون مکہ آئیں تو انہوں نے نئے سرے سے مولد النبی ﷺ پر مسجد تعمیر کروائی۔

یہودی راہب اور پیارے نبی ﷺ کی آمد کی بشارت

ایک یہودی راہب ”عیصی“ ملک شام سے آکر ”مرالظہران“ میں آباد ہوگیا تھا، وہ آسمانی کتابوں کا عالم تھا اور کہا کرتا تھا:
”اے اہل مکہ! عنقریب، تمہارے ہاں ایک بچہ پیدا ہوگا، عالم عرب اس کی اطاعت کرے گا اور عجم پر اسے غلبہ عطا ہوگا۔ اس کے ظہور کا زمانہ قریب ہے، جو اسے پالے گا اور اس کی اطاعت کرے گا وہ کامیاب ہوگا اور جو مخالفت کرے گا وہ ناکام ہوگا۔“
حضرت عبدالمطلب بھی اس کی باتوں سے بڑے متاثر تھے، جب پیارے نبی ﷺ کی دنیا میں آمد پر غیر معمولی واقعات ظاہر ہوئے تو آپ اسی صبح اس راہب کے پاس تشریف لے گئے، وہ اپنے گرجے سے نمودار ہوا اور خود ہی بولا:
”جس عظیم بچے کی آمد کے تذکرے میں تم سے کیا کرتا تھا وہ پیدا ہوگیا ہے اور گزشتہ رات اس کی پیدائش کی اطلاع دینے والا ستارہ بھی طلوع ہوچکا ہے۔ اے عبدالمطلب! اپنی زبان بند رکھو، اسے حاسدوں کے حسد سے بچاؤ، اس کے بڑے دشمن پیدا ہوں گے اور اتنی مخالفت ہوگی جتنی آج تک کسی کی نہیں ہوئی۔“
حضرت عبدالمطلبؓ پریشان ہوگئے۔ کسی انجانے خوف نے انھیں بے قرار کردیا، بے ساختہ دل کی بات زبان پر آگئی:
”اس کی عمر کتنی ہوگی؟“
”اے عبدالمطلب! پریشانی کی ضرورت نہیں، ان کی عمر 60 سے 70 کے درمیان ہوگی۔“

حضرت اُم ایمنؓ، پیارے نبی ﷺ کی آیا

جن خوش بخت خواتین کو پیارے نبی ﷺ کی آیا بننے اور پیارے نبی ﷺ کی خدمت اور دیکھ بھال کرنے کی سعادت حاصل ہے، اُن میں سب سے پہلی خاتون حضرت اُم ایمنؓ ہیں۔ حضرت اُم ایمنؓ نے اللہ کے نبی ﷺ کی خدمت کی۔ حضور انور ﷺ ان کو بھی اُمی بعد اُمی فرمایا کرتے تھے کہ یہ میری ماں کے بعد میری ماں ہیں۔ پیارے نبی ﷺ کے والد نے جو میراث چھوڑی، ان میں حضرت اُم ایمنؓ بھی تھیں۔ وفا کی پیکر ام ایمنؓ کو پیارے نبی ﷺ نے بعد میں آزاد کردیا تھا۔ پیارے نبی ﷺ کی والدہ کے انتقال کے وقت، ابوا کے مقام پر یہ آپ ﷺ کے ساتھ موجود تھیں۔ اُم ایمنؓ کا اصل نام ”برکہ“ تھا۔ ان کا پہلا نکاح ”عبید الحبشی“ سے ہوا تھا۔ اس سے ایمن پیدا ہوا۔ دوسرا نکاح زید بن حارثہ سے ہوا، ان سے حضرت اُسامہؓ پیدا ہوئے۔ خلیفہ اول و خلیفہ دوم بھی اپنی خلافت میں ام ایمنؓ کی زیارت کے لئے ان کے گھر جایا کرتے تھے۔

نبی کریم ﷺ کے چچاؤں کے نام

پیارے نبی ﷺ کے گیارہ (11) چچا (جناب عبدالمطلب کے بیٹے) تھے اور آپ ﷺ کے والد بارہویں بھائی تھے۔
حارث بن عبدالمطلب، ابو طالب (جن کا نام عبدمناف تھا)، زبیر بن عبدالمطلب، حمزہ بن عبدالمطلب، ابو لہب (جس کا نام عبدالعز تھا)، غیداق بن عبدالمطلب (جن کا نام مصعب تھا)، مقوم بن عبدالمطلب یا عبدالکعبہ بن عبدالمطلب، ضرار بن عبدالمطلب، عباس بن عبدالمطلب، قثم بن عبدالمطلب، حجل بن عبدالمطلب یا حجل (جن کا نام مغیرہ تھا)۔
اُ ن میں سے صرف حضرت حمزہؓ اور حضرت عباسؓ نے اسلام قبول کیا۔ حضرت حمزہؓ بہت ہی طاقتور اور بہادر تھے۔ انھیں حضور اقدس ﷺ نے اسداللہ و اسد الرسول (اللہ اور رسول کا شیر) کے معزز و ممتاز لقب سے سرفراز فرمایا۔ یہ 3 ہجری میں جنگ اُحد کے اندر شہید ہوکر سید الشہداء کے لقب سے مشہور ہوئے اور مدینہ منورہ سے تین میل دور خاص جنگ اُحد کے میدان میں آپؓ کا مزار پُرانوار زیارت گاہ عالم اسلام ہے۔
حضرت عباسؓ کے فضائل میں بھی بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ حضور اقدس ﷺ نے ان کے اور ان کی اولاد کے بارے میں بہت سی بشارتیں دیں اور اچھی اچھی دعائیں بھی فرمائی ہیں۔ 23 یا 33 ہجری میں ستاسی یا اٹھاسی برس کی عمر میں وفات پائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔

پیارے نبی ﷺ کا اپنے چچاؤں کو تیر اٹھا اٹھا کر دینا

مکہ معظمہ میں قبیلہ کنانہ کے کسی عیاش نوجوان ”براض“ نے قبیلہ عامر کے ایک فرد ”عروہ“ کو دھوکے سے قتل کردیا تھا۔ اس قاتل نے قتل کے بعد خیبر کے قلعے میں پناہ لے رکھی تھی۔ اس بات پر غیرت کے نام پر آپس میں جنگ چھڑ گئی۔ پس جس قبیلے کا آدمی مارا گیا تھا، انہوں نے کنانہ پر حملہ کردیا۔ قاتل کا تعلق اسی قبیلے سے تھا۔ قریش چونکہ کنانیوں کے اتحادی تھے، انھیں بھی مجبوراً ان کا ساتھ دینا پڑا۔ اسے ”حرب فجار“ کا نام دیا گیا تھا۔ بالآخر صلح پر جنگ کا خاتمہ ہوا۔
اُس زمانے میں خاندان بنو ہاشم کے سربراہ زبیر تھے، جو ابو طالب کی طرح آپ ﷺ کے والد کے سگے بھائی تھے۔ زبیر اور ابو طالب اپنے پیارے بھتیجے کو ساتھ لے کر اس جھڑپ میں گئے۔ انھیں اس بات کا اچھی طرح احساس تھا کہ وہ یعنی محمد ﷺ لڑائی کے لئے بہت کم عمر ہیں۔ پھر بھی بابرکت بھتیجے سے اس طور مدد لی گئی کہ وہ ایسے تمام تیر جو دشمن کی طرف سے آئیں اور بغیر نشانہ لگے وہاں گرے پڑے تھے۔ انھیں اکٹھا کرکے اپنے چچاؤں کے حوالے کریں تاکہ انھیں دوبارہ استعمال میں لایا جاسکے۔ اس جنگ میں حضور ﷺ قتل و غارت گری سے محفوظ رہے۔ آپ ﷺ ہر گناہ سے بچتے اور بت پرستی اور لوگوں کو تکلیف دینے سے دور رہتے تھے۔
یہ جنگ چار دنوں تک جاری رہی۔ ان چاروں دنوں میں جتنے وقت تک حضرت محمد کریم ﷺ ان کے ساتھ موجود ہوتے، اوس وقت تک اہل مکہ کا پلڑا بھاری رہتا اور جب آپ ﷺ وہاں سے تشریف لے آتے وہ کمزور ہونا شروع ہوجاتے تھے۔ ہمیشہ کی طرح قریشیوں نے اس برکت کو محسوس کیا اور گزارش کی:
”پیارے محمد ﷺ! یوں ہمیں چھوڑ کر نہ جایا کرو۔“
چاروں جنگوں کا نام ”حرب فجار“ اس لئے رکھا گیا کہ حرمت والے مہینوں میں یہ لڑائیاں ہوئیں۔ اس کے بعد حلف الفضول ہوئی۔

رساف نامی بت کو ہاتھ نہ لگانا

ایک بت کا نام رساف تھا۔ مکہ کے مشرک جب خانہ کعبہ کا طواف کرتے تھے تو اس بت کو چھوتے تھے۔ ایک دن نبی کریم ﷺ نے خانہ کعبہ کا طواف کیا تو زید بن حارثہؓ نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ طواف کیا اور مشرکوں کے طریقے کے مطابق رساف کو ہاتھ لگانے لگے تو آپ ﷺ نے انھیں آواز دی:
”اسے ہاتھ نہ لگانا۔“
حضرت زیدؓ فرماتے ہیں: ”میں نے پھر طواف کیا اور دل میں کہا میں تو رساف کو ہاتھ لگاؤں گا۔“
طواف کے بعد میں اسے چھونے لگا، آپ ﷺ نے پھر فرمایا: ”کیا تجھے روکا نہیں گیا۔“
حضرت زیدؓ کہتے ہیں:”میں رُک گیا اور اللہ کی قسم! اس کے بعد میں نے کسی بت کو کبھی بھی ہاتھ نہیں لگایا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نبوت عطا فرمادی۔“
پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کے چچا، حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ اساف نامی بت، جو کہ خانہ کعبہ کے پاس تھا، کی طرف گئے، پھر نظر اٹھاکر تھوڑی دیر خانہ کعبہ کو دیکھتے رہے اور واپس آگئے، تو ان بھائیوں نے کہا: ”آپ کو کیا ہوگیا، کہ آپ واپس ہورے ہیں۔“
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
”مجھے اس بت کے پاس ٹھہرنے سے منع کیا گیا ہے۔“
ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ بچپن سے ہی شرک و بت پرستی سے نفرت فرماتے تھے اور اللہ کی وحدانیت پر مکمل یقین رکھتے تھے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن
آپ کا بچپن
پیارے نبی کے واقعات

میری بکریوں کا خیال رکھنا

مکہ کے لوگ رات کے وقت ایک دوسرے کو کہانیاں سناتے تھے۔ کہانی سنانے والے کے گرد لوگ جمع ہوجاتے تھے۔ سننے والوں میں ہر عمر کے افراد ہوتے تھے، ایک روز ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنے ساتھی لڑکے سے کہا:
”تم ذرا میری بکریوں کا خیال رکھنا، آج رات میں مکہ جاکر کہانیاں سنوں گا۔“
ہمارے پیارے نبی ﷺ اس زمانے میں مکہ کے قریبی علاقے میں بکریاں چرایا کرتے تھے۔ یہ لڑکا بھی آپ ﷺ کے ساتھ اپنی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ اس نے جوا ب میں کہا: ”ٹھیک ہے۔“
آپ ﷺ اس ارادے سے چل پڑے، جب آپ ﷺ مکہ کے گھروں میں سے ایک گھر کے قریب پہنچے، تو اس میں سے گانے بجانے کی آواز آرہی تھی، آپ ﷺ نے قریب موجود ایک شخص سے پوچھا: ”یہ یہاں کیا ہورہا ہے؟“
اس نے بتایا: ”ایک صاحب نے شادی کی ہے، اسی خوشی میں گانا بجانا ہورہا ہے۔“
آپ ﷺ نے جونہی گانے کی طرف توجہ دی، آپ ﷺ کو اچانک نیند آگئی اور آپ ﷺ سوگئے۔
صبح سورج نکلنے پر آپ ﷺ بیدار ہوئے اور اٹھ کر اپنے ساتھی لڑکے کے پاس چلے گئے، اس نے جب رات کی تفصیل پوچھی تو آپ ﷺ نے اسے بتادیا کہ کیا ہوا تھا۔
اسی طرح ایک اور دن آپ ﷺ نے اس سے فرمایا:
”تم آج رات میری بکریوں کا خیال رکھنا، میں مکہ جاکر کہانیاں سنوں گا۔“
اس نے کہا: ”ٹھیک ہے۔“
آپ ﷺ مکہ کی طرف روانہ ہوئے، پہلی رات کی طرح آپ ﷺ کو پھر ایک گھر سے گانے بجانے کی آوازیں آئیں لیکن جیسے ہی آپ ﷺ نے اس طرف کان لگانے چاہے اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ پر نیند طاری کردی اور صبح سورج نکلنے پر آپ ﷺ کی آنکھ کھلی، آپ ﷺ فرماتے ہیں:
”اللہ کی قسم! پھر مجھے دھوپ ہی نے اٹھایا۔“
اس کے بعد کبھی بھی کسی جاہلیت والے عمل کا آپ ﷺ نے ارادہ نہیں فرمایا، یہاں تک کہ آپ ﷺ کو نبوت عطاکردی گئی۔
پیارے نبی ﷺ اپنے ساتھی کے پاس لوٹ آئے، اس نے پھر رات کی کیفیت کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے ساری بات بتادی۔
”اللہ کی قسم! اس کے بعد نہ میں نے کبھی ایسا ارادہ کیا، نہ میں اس طرح کے کسی کام کے لئے دوبارہ گیا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نبوت کا اعزاز بخشا۔“
جی ہاں بچو! ہمارے پیارے نبی ﷺ، عرب و عجم کے سردار، سرور کائنات، رحمت دوجہاں، سرکار دو عالم ﷺ کی پاکیزہ زندگی کی پہلی منزل ہی اعلیٰ اخلاق اور عمدہ اوصاف سے بھرپور تھی۔ آپ ﷺ نے کبھی بھی بے ہودہ کھیلوں میں حصہ نہیں لیا۔ مشرکوں کے میلوں میں قدم نہیں رکھا، نہ کبھی شراب کو منہ لگایا اور نہ بتوں کے نام پر ذبح کئے ہوئے جانوروں کا گوشت کھایا۔ بچپن میں رسول اللہ ﷺ نہ روتے اور نہ فضول کام کرتے۔ اپنے سے چھوٹوں پر شفقت فرماتے اور محبت سے پیش آتے۔ کسی کی کوئی چیز بغیر پوچھے نہ لیتے، برے کاموں سے ہمیشہ بچتے، گھر کے کاموں میں جو کام آپ ﷺ کے کرنے کا ہوتا تو آپ ﷺ فوراً کرتے اور اپنے ہمسایوں کا کام بھی کردیتے۔

بچپن میں بچوں کے ساتھ کھیل، تیراکی اور سواری

جب پیارے نبی ﷺ چھ سال کی عمر میں مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو وہاں بچے آپ ﷺ کی ذات میں غیر معمولی دلچسپی لیتے۔ یہاں آپ ﷺ کے ماموؤں کی (ملاحظہ ہو کہ حضور اکرم ﷺ کا ننھیال مکہ میں ہی تھا، یہاں مراد حضور ﷺ کے دادا حضور عبدالمطلب کے ماموں ہیں، کیوں کہ مدینہ منورہ میں حضورﷺ کے دادا جان عبدالمطلب کا ننھیال تھا) اولاد بھی تھی، جنھیں اپنے مکی بھائی سے بے پناہ محبت ہوگئی تھی۔
کبھی کبھی پیارے نبی ﷺ مدینے میں گزرے بچپن کے ان پر بہار دنوں کو یاد کیا کرتے اور صحابہ کرام یہ باتیں سن کر بہت خوشی اور راحت محسوس کرتے۔
ایک دن آپ ﷺ مدینہ طیبہ میں اپنے گھر سے نکلے، صحابہ کرام ؓ بھی آپ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ ﷺ ایک مکان کے پاس پہنچے تو فرمایا: ”اس جگہ میری امی مجھے لے کر (سواری سے) اُتری تھیں اور میں نے یہیں بنی عدی بن نجار کے پانی میں تیرنا سیکھا۔ مجھے وہ باتیں خوب یاد ہیں۔“
مدینے میں بنو عدی بن النجار کا ایک تالاب تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے بنو عدی بن النجار کے تالاب میں بہت جلد تیرنا سیکھ لیا تھا۔
اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ:
٭…… آپ ﷺ اپنے بچپن میں بچوں کے ساتھ کھیلا بھی کرتے تھے۔
٭…… آپ ﷺ تیرنا بھی جانتے تھے۔
٭……سواری کے واقعات بھی ملتے ہیں، بلوغت کے بعد اور پہلے بنو سعد، شام اور یمن کے اسفار اونٹ پر فرمائے۔
جناب عبدالمطلب نے ایک دن (جب کہ آپ ﷺ اونٹ کی تلاش میں بھیجے گئے اور جلد واپس نہ آسکے تو) کچھ اشعار پڑھے تھے، ان میں وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں:

”اے اللہ! میرے شہہ سوار کو واپس لوٹا دے۔“

پیارے نبی ﷺ کی اونٹ کی سواری

آٹھ سال کی عمر سے پہلے آپ ﷺ اونٹ پر کسی کی مدد کے بغیر سواری کرلیتے تھے۔ اس لئے اونٹ لینے کی خاطر آپ ﷺ کو اکیلے ہی بھیجا گیا تھا اور جب آپ ﷺ (اپنے چچا) جناب زبیر بن عبدالمطلب کے ساتھ یمن تشریف لے گئے تو اس وقت بھی آپ ﷺ اپنے علیحدہ اونٹ پر سوار تھے۔
ایک روایت ہے کہ حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ فرماتی ہیں:
”پیارے نبی کریم ﷺ جب ایک سال کے قریب ہوئے، ان دنوں بچے جب تیر اندازی کرتے تو ننھے حضور ﷺ ان کی طرف جاتے اور ان کے ساتھ تیروں کو حرکت دینا شروع کرتے تھے۔“

پیارے نبی کی سیرت

پیارے نبی ﷺ بچپن سے ہی خوددار

پیارے نبی ﷺ کی فطری عادت یہ رہی کہ اپنے کام خود کرتے، کسی پر بوجھ نہ بنتے تھے۔
آپ ﷺ ابوطالب کی کفالت میں آئے تو بھیڑ بکریاں چرانے کے لئے راتوں کو پہاڑوں پر ان کے باڑوں میں رہ کر دیکھ بھال کا فریضہ ادا کیا۔
پیارے نبی کریم ﷺ ابھی پانچ سال کے تھے کہ اپنی رضاعی والدہ سے فرمایا: (مفہوم) ”امی جان! میں بھی بکریاں چرانے کے لئے وہاں جاؤں گا، جہاں میرے دوسرے بھائی جاتے ہیں۔“
ذرا اور عمر پائی تو اہل مکہ کی اور اپنی بکریاں پالیں، پھر تجارت کے لئے اپنے چچا کے ساتھ جانا پسند کیا۔ یہ سب کچھ خودانحصاری، محنت پر یقین اور معاشی و معاشرتی ترقی کا زینہ ہے۔
حدیث میں ہے، حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں: ”میں نے اپنے گھر والوں کی بکریاں بھی پالیں۔“
یمن کے سفر کے دوران میں پیارے نبی ﷺ وادی سے آگے روانہ ہوئے تو ایک ندی راستے میں آگئی۔ وہ پانی سے بھری ہوئی تھی اور پانی پورے زوروشور سے بہہ رہا تھا۔ اس پانی کی وجہ سے لوگ رکے ہوئے تھے، یہ دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا:
”میرے پیچھے آؤ۔“
یہ کہہ کر آپ ﷺ اس ندی میں داخل ہوگئے۔
ندی میں آپ ﷺ کے قدم مبارک رکھتے ہی، پانی خشک ہوگیا اور لوگوں نے آسانی سے ندی پار کرلی۔
مکہ واپس پہنچ کر لوگوں نے یہ واقعہ حیرت زدہ انداز میں بیان کیا۔ آپ ﷺ کو درخت سلام کرتے اور درختوں کی شاخیں آپ ﷺ کی طرف جھک جاتیں۔ بکریوں کو پانی پلانے کے لئے بکریاں کنویں کے قریب لاتے تو کنویں کا پانی ابل کر کنویں کے منہ تک آجاتا۔
تین دفعہ پیارے نبی ﷺ کی دعاؤں اور موجودگی کی وجہ سے بارش کا نزول ہوا۔

پیارے نبی ﷺ اور بچپن کے سفر

پیارے بچو! ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بچپن میں جن مقامات کے سفر کئے وہ یہ ہیں:
1۔ مکہ سے بنو سعد کی طرف بچپن کا پہلا مبارک سفر
2۔ واقعہ شق صدر کے بعد بنو سعد سے مکہ واپسی کا سفر
3۔ یثرب (مدینے کا سفر)
4۔ ابواء کی جانب سفر (واپسی میں والدہ کا انتقال ہوجانا)
5۔ شہر ابواء کا متعدد بار سفر
6۔ عکاظ اور سوق ذوالمجاز کا سفر
7۔ شام کے شہر بصریٰ کا تجارتی سفر
8۔ چچا زبیر بن عبدالمطلب کے ساتھ یمن کا سفر

ٹیگ:
پیارے نبی کا پیارا بچپن
پیارے نبی کا بچپن
پیارے نبی کی سیرت
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن
آپ کا بچپن
پیارے نبی کے واقعات
pyare nabi ka pyara bachpan
hamare nabi ka bachpan
apne nabi ka bachpan
nabi ke bachpan ka byan
childhood of prophet muhammad
childhood of prophet muhammad for kids
childhood of prophet muhammad in urdu
childhood of prophet muhammad pdf
early childhood of prophet muhammad
childhood of prophet muhammad saw

اپنا تبصرہ لکھیں