قیام پاکستان کی کہانی - ذیشان انصاری

قیام پاکستان کی کہانی – ذیشان انصاری

دنیا میں ہر نئی آبادی یا علاقہ قائم کرنے کیلئے سالوں سال پالیسیاں بنائی جاتی ہے۔ آبادی کو پیش آنے والے مسائل کو دن رات بحث میں شامل کیا جاتا ہے۔اور انتظامیہ کوشش کرتی ہے کہ ان کی بنائی ہوئی سوسائٹی۔۔محلہ۔۔شہر۔۔ضلع۔۔صوبہ یا ملک دنیا میں اپنی الگ پہچان رکھئے اور پوری دنیا اس کے ڈویلپر کو خراج تحسین پیش کرئے۔ یہی جذبہ 14اگست1947 سے قبل مسلم لیگ کے قائدین میں نظر آتا تھا، جو قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں منزل کی طرف گامزن تھے۔ مسلم لیگ دنیا میں پہلا مذہبی۔۔نظریاتی ملک بنانا چاہتے تھے جہاں پرمسلمان ایک اسلامی ریاست قائم کرسکئے اور اسلامی قوانین کے مطابق قانون سازی و انصاف ہو۔اس سے قبل دنیا میں کوئی ملک مذہب کی بنیاد پر نہیں بنا تھا۔

موجودہ دور کے ماڈرن دماغ کے حامل مفکر۔۔فلاسفر۔۔لکھاری پاکستان کے قیام کو دوقومی نظریہ کی بنیاد کی بجائے حادثاتی قرار دیتے ہیں، اور سرے سے دوقومی نظریہ کے مخالف نظر آتے ہیں۔ جبکہ ان میں سے بیشتر پاکستان میں رہنے کی بجائے امریکہ۔۔سوئزلینڈ۔۔برطانیہ ویورپ میں قیام کو ترجیح دیتے ہے۔متعدد میڈیا گروپ بھی بھارت و پاکستان کو دوبارہ ایک ملک بنانے کے ایجنڈے پر کام کرتے نظر آتے ہیں، اسی لیے تو اسلامی تقریبات کوکوریج دینے کی بجائے بھارت کی شوبز دنیا۔۔کھیل۔۔پروگراموں کو کوریج دی جاتی ہے؟ عید پر بھی بھارتی فلموں کو نشر کیا جاتا ہے۔

واقعی پاکستان حادثاتی تخلیق تھا یادو قومی نظریہ کی پیداوار؟ یہ ایک سوال آجکل کے نوجوان نسل کے ذہینوں میں گردش کرتا نظر آتا ہے۔کیونکہ اکثر سرکاری و بیشتر پرائیویٹ سکولوں میں مطالعہ پاکستان کے مضمون کواہمیت نہیں دی جاتی، بیشتر اوقات تو مطالعہ پاکستان کا پیریڈبھی سائنس مضمون کے حوالے کردیا جاتا ہے۔اور طالب علموں کو اساتذہ سائنس وٹیکنالوجی کی تاریخ، حال اور مستقبل سے آگاہ کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے بیشترقوم کے معمار 14 اگست1947 کی مکمل معلومات اور مسلم لیگ کے لیڈران کی محنت اور کوششوں سے بھی واقف نہیں۔

دوقومی نظریہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہیں:”ہم نے حکم دیا کہ تم سب جنت سے نیچے اترجاؤ اور پھر جب تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو تم میں سے جو اس کی پیروی کریں گے، ان کیلئے نہ کوئی خوف ہوگااور نہ کوئی غم اور جو لوگ کفرکریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹلائیں گے سو وہ دوزخی ہیں اور وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔“ (البقرہ)

مزید اللہ تعالیٰ سورت ”التوبہ” میں ارشاد فرماتے ہیں ” اے ایمان والو، اپنے باپوں اور بھائیوں کو بھی دوست مت بناؤ اگر وہ لوگ ایمان پر کفر کوترجیح دیں اور تم میں سے جو کوئی انہیں دوست رکھے گا سو وہی ظالم ہے۔”
بقول اقبالؒ:
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے8مارچ1944 کومسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے دوقومی نظریہ(پاکستان) کی تاریخ یہ بیان کی” جس دن پہلا غیر مسلم مشرف بہ اسلام ہوا تھا اسی دن برصغیر میں نئی قوم وجود میں آگئی تھی۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب یہاں مسلمانوں کی حکومت بھی قائم نہیں ہوئی تھی۔مسلمانوں کی بنیاد کلمہ توحید ہے وطن یا نسل نہیں“۔

اس سے قبل 22مارچ1940 کو مسلم لیگ کے 27ویں سالانہ اجلاس میں فرمایا: ” اسلام اور ہندومت دو مذاہب نہیں بلکہ حقیقت میں یہ دو معاشرتی نظام ہیں، اس لیے اس خواہش کو خواب وخیال ہی تصور کرنا چاہیے کہ ہندواور مسلمان مل کر ایک مشترکہ قومیت تشکیل دے سکیں گے۔۔ یہ لوگ آپس میں شادی بیاہ نہیں کرتے۔نہ ایک دسترخوان پر کھانا کھاتے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ان کا تعلق دو مختلف تہذیبوں سے ہے، جوبنیادی طور پر متصادم خیالات اور تصورات پر مبنی ہیں۔ ان کا تصور حیات ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ان کی رزمیہ داستانیں، ہیرو، قصے اور تاریخ الگ الگ ہے۔ اکثر ایک قوم کا ہیرو دوسری قوم کا دشمن ہے۔
بیسویں صدی کے عظیم شاعر، فلاسفر اور سیاست دان علامہ محمد اقبال شروع میں مسلم ہندؤ اتحاد و بھائی چارے کے داعی تھے، اور خیال کرتے تھے کہ یہ دونوں مذہب اکھٹے زندگی بسر کرسکتے ہیں، اور اپنی سابقہ تاریخ اور لڑائی کو بھول جائے گئے۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستان ہمارا
٭٭٭
اے ہمالہ اے فصل کشور ہندوستان
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
مگرجلد ہی اقبال ہندؤوں کے سازشی ذہن کو سمجھ گیااور دوقومی نظریہ کا پرچار شروع کردیا۔
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ہاشمی
٭٭٭
مارچ 1909میں منرو لاج کے جلسے میں مہمان خصوصی کے خطاب میں فرمایا” میں خود اس خیال کا حامی رہ چکا ہوں کی امتیازمذہب اس ملک سے اٹھ جانا چاہیے، مگراب میرا خیال ہے کہ قومی تشخص کو محفوظ رکھنا ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کیلئے مفید ہے۔ ہندوستان میں ایک متحدہ قومیت کا خیال اگرچہ نہایت خوبصورت اور شعریت سے معمور ہے تاہم موجودہ حالت میں یہ ناقابل عمل ہے۔”

بالا آخر مسلمانوں کی محنت رنگ لائی اور 14 اگست1947 کو دنیا مین پہلاملک اسلام اور مذہب کی بنیاد پر قائم ہوا۔ جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا۔
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحر بیکراں کیلئے

اپنا تبصرہ لکھیں