اصول تجارت - عاطف فاروق

اصول تجارت – عاطف فاروق

چھٹی کے بعد سکول سے نکلتے ہی میرے قدم بابا صدیق کی کریانہ شاپ کی طرف بڑھنے لگے۔ صبح گھر سے نکلتے وقت امی نے سودا سلف کی ایک لمبی لسٹ مجھے تھما دی تھی کہ سکول سے واپسی پر بابا صدیق کی دکان جو کہ راستے میں پڑتی تھی سے مطلوبہ اشیائے ضروریہ لیتے آنا۔ بابا صدیق کی دکان پورے محلے میں مشہور تھی اور ہر وقت وہاں گاہکوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ گاہکوں کے اعتماد کی بڑی وجہ بابا صدیق کی اپنی شخصیت تھی۔ بابا صدیق بہت ہی ملنسار اور نمازی پرہیزی انسان تھے اور گاہکوں کے ساتھ ان کا رویہ نہایت ہی ہمدردانہ ہوتا تھا۔ ہم بھی عرصہ دراز سے تمام خریداری بابا صدیق کی دکان سے کررہے تھے۔ بابا صدیق کا چھوٹا بیٹا طلال میرا کلاس فیلو بھی تھا اس وجہ سے بابا صدیق مجھے بہت پیار کرتے تھے اور میں بھی انھیں بابا جی کہہ کر بلاتا تھا۔
دکان پر پہنچا تو حسب معمول گاہکوں کا ہجوم تھا لیکن جونہی با با جی نے مجھے دیکھا تو پیار سے مسکرائے اور میرے سر پر ہاتھ پھیرا کر پوچھا: ”حذیفہ بیٹے کیسے آنا ہوا؟“۔ میں نے جواب میں فقط مسکراتے ہوئے سودا سلف کی لمبی لسٹ انھیں تھما دی۔ انہوں نے ایک نظر لسٹ پر ڈالی اور مسکرا کر کاؤنٹر پر رکھ لی جس کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ سامان زیادہ ہے اس لئے کچھ دیر بیٹھ جاؤ۔ میں نے اثبات میں سر ہلا دیا اور دکان کے اندر ایک طرف رکھے لکڑی کے بنچ پر بیٹھ گیا اور بابا جی کی کسٹمر ڈیلنگ کا مشاہدہ کرنے لگا۔ با با جی گاہکوں کو مطمئن کرنے کے لئے اپنی دکان کی اشیاء کی تعریفوں کے پل باندھے جارہے تھے اور ان کے خواص میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔ اگر کسی چیز میں گاہک کوئی عیب نکال بھی دیتا تو اس کو باتوں سے ایسے مطمئن کرتے کہ گویا کوئی عیب ہے ہی نہیں۔ اور تو اور دوسرے دکانداروں کی برائیاں بھی کرتے رہے، ایک گاہک نے یہ عذر بیان کیا کہ آپ کی دکان پر اشیاء کی قیمت دیگر دکانوں سے زیادہ ہوتی ہے تو اس کے جواب میں بابا جی نے یہ کہہ کر عذر رد کردیا کہ ان سب دکانداروں کے پاس اشیاء درجہ دوئم جبکہ میرے پاس درجہ اول ہوتی ہیں۔ میں یہ بھی نوٹ کرتا جارہا تھا کہ بابا جی ناپ تول کا معیار بھی درست نہیں رکھ رہے تھے۔ ابھی سامان کا وزن پورا بھی نہیں ہوتا تھا کہ بابا جی شاپر کنڈے سے اتار کر گاہک کے ہاتھ میں تھما دیتے تھے۔ کنڈا بھی ایسی جگہ پر رکھا ہوا تھا کہ گاہک کی نظروں سے اوجھل ہی رہتا تھا اس لئے بیشتر گاہکوں کو پتہ ہی نہ چلتا تھا اور اگر کسی کو ذرا سا شک گزرتا تو وہ بھی بابا جی کی بزرگی کی وجہ سے نظر انداز کردیتا۔ با با جی کا یہ عمل میرے لئے نیا مشاہدہ نہیں تھا بلکہ ناپ تول میں کمی، اشیاء کی بے جا تعریف، اشیاء کی فروخت کے لئے جھوٹی قسمیں کھانا اور دوسروں کے سامان کی برائی کرنا بابا جی کی عادات میں شامل ہوچکا تھا۔ مجھے بابا جی کا یہ عمل بالکل پسند نہیں تھا اور میں یہ چاہتا تھا کہ کسی بھی طریقے سے بابا جی کی ان عادات کو ختم کرکے انھیں اس برائی سے بچایا جائے۔
میں ابھی اسی بارے میں سوچ رہا تھا کہ بابا جی کا چھوٹا بیٹا طلال دکان پر آگیا اور میرے پاس آکر بیٹھ گیا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد میں نے بابا جی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”کیا اسلام اس چیز کی اجازت دیتا ہے؟“، میرا اشارہ بابا جی کی طرف تھا جو اس وقت بھی ایک گاہک کے آگے اشیاء کی تعریفوں کے پل باندھے جارہے تھے اور جھوٹی قسمیں کھائے جارہے تھے۔
”بالکل نہیں! اسلام ایسے افعال کی بھرپور مذمت کرتا ہے، لیکن حذیفہ میں تمھیں کیا بتاؤں، مجھے خود ابا جان کے یہ افعال انتہائی ناگوار گزرتے ہیں لیکن میں اس ضمن میں کیا کرسکتا ہوں، اگر ابا جان سے براہ راست اس موضوع پر بات کروں گا تو ابا جان یقیناً برا محسوس کریں گے اور مجھے شدید غصہ بھی ہوں گے، اس لئے مجھے تو ہمت نہیں پڑتی اس موضوع پر ابا جان سے بات کرنے کی“، اس نے بے چارگی سے جواب دیا۔
”بھٹکے ہوئے کی اصلاح کرنا ہمارا فرض ہے، اگر ہم اس ضمن میں کچھ نہیں کرینگے تو ہم بھی اس برائی میں برابر کے شریک ہیں“، میں نے کہا۔
”بے شک… اس طرح نہ صرف عاقبت خراب ہوگی بلکہ جب گاہکوں کو ابا جان کی ان عادات کا علم ہوگا تو ان کے اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچے گی اور اس طرح سے تو دکانداری بھی بری طرح سے متاثر ہوگی“، طلال نے کہا اس کے لہجے سے معلوم ہورہا تھا کہ وہ بھی اس معاملہ میں بہت سنجیدہ ہے۔
”میرے پاس اس کا ایک حل ہے لیکن اس میں مجھے تمھاری مدد درکار ہے“، میں نے پیش کش کی تو طلال نے اثبات میں سر ہلادیا جس کے بعد میں نے اسے اپنا پورا پلان بتایا جسے سن کر اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی اور اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دے کر رضا مندی ظاہر کردی۔
”حذیفہ بیٹے! آپ کا سامان تیار ہے“، اسی اثناء میں کاؤنٹر سے بابا جی کی آواز بلند ہوئی اور میں سامان لینے کے لئے کاؤنٹر کی طرف بڑھ گیا۔ سامان لینے کے بعد میں نے بابا جی کو سلام کیا اور پیچھے بیٹھے طلال کو ذرا اونچی آواز میں مخاطب کیا:
”طلال کیا تم نے اسلامیات والے سر کا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے؟“
”ارے نہیں تو! انہوں نے تو ایماندار تاجر کے عنوان پر مضمون لکھ کر لانے کو کہا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ یہ مضمون تو کتاب میں بھی نہیں ہے“، طلال نے جواب دیا۔
”مجھے بھی یہ مضمون کسی کتاب میں نہیں ملا، لگتا ہے یہ مضمون خود ہی لکھنا پڑے گا“، میں نے کہا۔
”حذیفہ بھائی آپ ایسا کیجئے شام کو بعد از نماز مغرب دکان پر ہی آجائیے، یہاں بیٹھ کر اس موضوع کو ڈسکس کرلیں گے“، طلال نے مشورہ دیا۔
”میرے خیال میں یہ ٹھیک رہے گا، انشاء اللہ میں پہنچ جاؤں گا اور بابا جی سے بھی مضمون کی تیاری میں مدد لے لیں گے“، میں نے بابا جی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”کیوں نہیں بچو!“ بابا جی نے بھی رضامندی ظاہر کردی اس کے بعد میں وہاں سے سیدھا گھر آپہنچا۔
٭٭٭٭٭٭
شام کو مغرب کی نماز ادا کرکے میں بابا جی کی دکان پر جاپہنچا جہاں طلال پہلے ہی میرا منتظر تھا۔ دکان پر رش نہیں تھا اس لئے بابا جی بھی ہمارے ساتھ آکر بیٹھ گئے۔ میں نے وقت ضائع کئے بغیر پہلا سوال بابا جی سے پوچھا: ”بابا جی! ایماندار تاجر سے کیا مراد ہے؟“۔ اور ساتھ ہی جواب نوٹ کرنے کے لئے نوٹ بک اور پنسل بھی تیار کرلی۔
”ایماندار تاجر سے مراد ایسا تاجر ہے جو اپنے کاروبار کو اسلامی اصولوں کے مطابق سرانجام دے اور حلال روزی کمائے“، بابا جی نے مختصراً جواب دیا۔
”لیکن ابا جان! یہ آج کل جو تاجر ذخیرہ اندوزی کررہے ہیں کیا ان کی کمائی حلال روزی کے زمرے میں آتی ہے؟“، اس بار طلال نے سوال پوچھا۔
”بالکل نہیں میرے بچو! آپ ﷺ نے ان تاجروں پر لعنت فرمائی ہے جن کو اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے اور وہ قیمت بڑھ جانے کے خیال سے غلہ اور سامان روک لیتے یا بند کرلیتے ہیں“، بابا جی نے اسلامی نقطہ نظر کی روشنی میں جواب دیا۔
”بالکل ٹھیک فرمایا آپ نے…!“، میں نے بابا جی کی تائید کی۔
”اچھا حذیفہ! کیا تم جانتے ہو کہ ایماندار تاجر کی کیا خصوصیات ہیں؟“ طلال نے مجھ سے سوال کیا۔
”بالکل… میں نے آج صبح ہی ایک اسلامک چینل پر اس موضوع کے متعلق ایک حدیث سنی ہے جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سچا اور امانت دار تاجر انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا، آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ تاجروں میں جب یہ عادتیں ہوں تو ان کی کمائی عمدہ اور حلال ہوگی (۱) جب وہ کسی سے کوئی چیز خریدے تو اس کی برائی نہ کرے، (۲) جب وہ کسی کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کرے تو اس کی بے جا تعریف نہ کرے، (۳) خریدار سے اپنے مال کا عیب نہ چھپائے بلکہ بتادے (۴) اور اس معاملہ کے درمیان جھوٹی قسم نہ کھائے“، میں نے حدیث بیان اور بابا جی کے چہرے کے تاثرات جانچنے لگا۔ حدیث مبارکہ سن کر وہ گہری سوچ میں ڈوب چکے تھے۔ ہمیں محسوس ہوا کہ حدیث مبارکہ بابا جی کے دل میں اثر کرگئی ہے اور وہ اپنا محاسبہ کررہے ہیں۔
”مجھے بھی اسی طرح کی ایک اور حدیث یاد آرہی ہے… ابا جان سناؤں؟“، طلال نے بابا جی کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا۔
”سناؤ بیٹے!“، بابا جی سوچوں کے بھنور سے باہر آکر کہا، ان کے چہرے سے شرمندگی و ندامت کے تاثرات صاف عیاں ہورہے تھے، شاید انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوچکا تھا۔
”نبی کریم حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمھارے ہاتھ میں دو کام ایسے ہیں جن کی وجہ سے پہلی قومیں ہلاک ہوئیں یعنی کم تولنے اور کم ناپنے کی وجہ سے، پس تم ایسا نہ کرنا“، طلال نے حدیث مبارک بیان کی تو اس کے بعد کچھ دیر دکان میں خاموشی چھائی رہی۔ ہم دونوں دوست بابا جی کو حیران کن نظروں سے دیکھ رہے تھے جو گہری سوچ میں گم تھے لیکن ان کی آنکھیں اشکبار ہوچکی تھیں۔ بالآخر انہوں نے جھکا ہوا سر اوپر اٹھایا اور کپڑے سے آنسو صاف کرتے ہوئے بولے: ”میرے بچو! میں تمھارا اشارہ سمجھ گیا ہوں… لیکن میں بہت شرمندہ ہوں… بہت شرمندہ ہوں میں!“
”ابھی دیر نہیں ہوئی ابا جان… غلطی کا احساس ہوجانا بھی بڑی بات ہے اور غلطیاں معاف کرنے والی اللہ رب العزت کی ذات بہت غفور الرحیم ہے“، طلال نے انھیں دلاسا دیا اور بابا جی نے ہم دونوں کو گلے سے لگالیا۔ اتنے میں نماز عشاء کی آذان کی آواز فضا میں گونجنے لگی اور ہم تینوں نماز کی تیاری کرنے میں مصروف ہوگئے۔
٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ لکھیں