https://bachonkiweb.com بچوں کی ویب

یتیم خانہ اور بابا نذیر – مجید احمد جائی ، ملتان

صحن کے درمیان میں ٹاہلی کے درخت کے نیچے وہ چارپائی پر پڑا کھانس رہا تھا ۔ٹاہلی کے درخت کی شاخوں پر چڑیاں ،دوپہر کے وقت سستانے کے لئے اپنے اپنے گھونسلوں میں آبیٹھی تھیں۔یہ گرمیوں کے دن تھے اور گرمی زوروں پر تھی۔وہ ان چڑیوں کو بغور دیکھ رہا تھا۔اچانک اُس کی نظرایک چڑیا کے بچے پر پڑی جو چند د ن پہلے ہی پرواز کرنے لگا تھا۔اپنے ہمسائیوں کے ساتھ پُھر کرکے اُڑ جاتا اور کھیتوںمیں رزق کی تلاش میں نکل پڑتا۔
اُس کی آنکھوں میں یہ منظر کو دیکھ کر آنسو تیرنے لگے جب چڑیا کا بچہ اپنی بوڑھی ماں کے لئے دانہ دنکا لے کر آیا تھا اور اب اپنی ماں کو کھلا رہا تھا ۔جس طرح بچپن میں اُس کی ماں نے اُسے چوغیں دی تھیں ،ٹھیک اُسی طرح وہ اپنی ماں کو چوغیں دے رہا تھا ۔وہ یہ منظر دیکھ کر تڑپ اُٹھا اور آنسو اُس کی آنکھوں سے بہنے لگے ۔،بوڑھی چڑیا دو دن سے زخمی تھی ،اُس کے پر زخمی تھے اور اب وہ پرواز کے قابل نہیں رہی تھی ۔اس لئے وہ کھونسلے میں بیٹھی رہتی اور اس کا بچہ اُس کے لئے خوراک کے طور پر دانہ لے کر آتا تھا۔
نذیر بابا ،ٹاہلی کے درخت کے ساتھ ساتھ ان چڑیوں کا بھی رفیق تھا ۔چڑیاں اُس سے محبت کرتی تھیں ،محبت کیوں نہ کرتی جب تک نذیر بابا کے ہاتھ پائوں چلتے تھے وہ ان کے لئے دانے پانی کا انتظام کردیا کرتا تھا ۔مگر اب وہ خود بھی بھوکا پڑا رہتا تھا۔اُن کو کیا کھلاتا۔اب تویہ حال تھا کہ اس کا بیٹا اور بہو اندر کمرے میں مزے سے سوتے تھے اور یہ ٹاہلی کے درخت کے نیچے پڑا کھانستا رہتا تھا۔
بابا نذیر وقت کے ہاتھوں مجبور تھا ۔اُس کی رفیق حیات کب کی اُس کا ساتھ چھوڑ کر اِس جہان سے جا چکی تھی ۔اُس کو فوت ہوئے کئی سال بیت گئے تھے اور اب وہ اپنے بیٹے کے سہارے اِس دُنیا میں زندگی کے بقیہ ایام گزارنے پر مجبور تھا۔
بیٹا دن بھر آفس نکل جاتا ،شام کو گھر لوٹتا تو اُس کی بیوی آسمان سر پر اُٹھا لیتی۔میں تو تنگ آ گئی ہوں ۔تیرابابا !سارا دن ناک میں دَم کیے رکھتا ہے ۔میری زندگی میں تو سکون نہیں ہے ۔بابا کھانستا رہتا ہے اور ہر طرف گندگی پھیلاتا ہے ۔اب تو مجھے بھی کھانسی ہونے لگی ہے ۔
علی !میری بات سُن لو ،میں نے فیصلہ کر لیا ہے اب اس گھر میں میں رہوں گی یا تیرابابا۔ہم دونوں میں کسی ایک کو یہاں رہنا ہے ۔اب تم پر منحصر ہے کس کو رکھتے ہو۔علی کی بیوی نے رُعب دار لہجے میں اپنے شوہر سے کہا۔
بیٹا مجبور تھا ۔بیوی پہ مرتا تھا ۔اُسے کیسے چھوڑ سکتا تھا ۔اسی طرح روز روز کے جھگڑے سے اُس نے جان چھڑوا لی ۔
٭٭٭
بابا نذیرچڑیا کے بچے کو دیکھ کر رو پڑا تھا ۔آنسواس کے دامن کو بھگو رہے تھے ۔وہ یہ منظر دیکھ کر کر ب سے چیخ اُٹھا تھا کہ ایک پرندے کا بچہ کتنا احساس محبت میں چور ہے اور ایک میں ہوں کہ دن بھر پانی کے ایک گلاس کو ترستا رہتا ہوں۔میری خبر تک کوئی نہیں لیتا ۔ایک بہو ہے ،اُس کے لئے میرا وجود کسی عذاب سے کم نہیں ۔پچھلی شام کے منظر اس کی آنکھوں میں گھوم رہے تھے اور اُس کی سماعتوں میں بہو کے جملے زہر گھول رہے تھے ۔وہ کل سے کچھ زیادہ ہی بے چین ہو گیا تھا ۔
بابا نذیر سوچوں میں گم تھا ۔وہ بیٹا جس کو میں نے 25سال پالا پوساہے ۔اُس کی ہر ضرورت پوری کرتا آیا ہوں ۔اُسے پڑھایا لکھایا ۔پھر وہ دن بھی آن پہنچا جب اُس کے سر پر سہرا سجایا ۔اُس کی شادی کر دی ۔اگر اُس کی ماں زندہ ہوتی تو شاید یہ نوبت نہ آتی ۔میری بھی یہ حالت نہ ہوتی۔آخر وہ میری شریک حیات تھی ۔میرے دُکھ سُکھ کا ساتھ ۔
آج وہ زندہ ہوتی تو میری خدمت میںلگی ہوتی ۔اُولاد بھلا کب ماں باپ کا بوجھ اُٹھاتی ہے ۔اُس نے ٹھنڈی آہ لی ۔آج پہلی بار وہ مایوس ہو ا تھا ۔اُس کے حوصلے پست ہوتے جا رہے تھے۔شام کو اُس کے کانوں نے اُن کی سرگوشی سُنی ۔دونوں میاں بیوی کہہ رہے تھے ۔کل صبح ہوتے ہی اُسے یتیم خانے میں داخل کروادیا جائے گا۔جہاں بوڑھے لوگوں کا بھی ایک کیمپس ہے ۔اُس کی بوڑھی آنکھوں میں آنسو خشک ہو گئے تھے ۔اس خبر کے بعد وہ ساری رات کرب سے گزرتا رہا ۔ماں باپ کے ساتھ ایساسلوک بھی ہوتا ہے ۔و ہ بھی ایک اسلامی ملک میں ۔جس ملک کا دین ماں ،باپ کے ساتھ حسن سلوک کی تربیت دیتا ہے ۔جو کہتا ہے تمھارے ماں باپ بوڑھے ہو جائیں تو اُنھیں اُف تک نہ کہو۔میری ہی تربیت میں کہیں کمی رہ گئی ہے ۔
بابا نذیر خود سے باتیں کرتے کرتے ایک دَم پُر سکون ہو گیا ۔ایک خوشی اُس کے من سے پھوٹ رہی تھی ۔وہ مسکرااُٹھا تھا۔صبح سویرے بہو ،بیٹے نے خوب ناشتہ کیا ۔بہو نے اُسے بھی کچھ دیا تھا لیکن وہ کیا کھاتا ۔اُس کا من زخمی زخمی تھا ۔بھوک نہ ہونے کا بہانہ کرکے چارپائی پر خاموش پڑا رہا ۔بیٹا جب آفس جانے لگا تو باپ کو بھی گاڑی میں ڈال کر یتیم خانے چھوڑنے چلا گیا۔
اُس کی بیوی بہت خوش تھی ۔آج نذیر بابا سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھٹکارہ مل رہا تھا ۔شہر کا یتیم خانہ زیادہ دُور نہیں تھا ۔تھوڑی ہی دیر میں وہ دونوں پہنچ گئے تھے ۔علی اپنے باپ کو یتیم خانے کے انچارج کے پاس چھوڑ کر دوسرے آفس میں فارم پُر کرنے لگا تھا ۔فارم پُر کرکے یونہی وہ واپس آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا ۔اُس کا باپ اُس شخص کے ساتھ بڑے خوشگوار موڈ میں گفتگو کر رہا ہے ۔ایسے لگتا تھا جیسے یہ برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں۔وہ دونوں مسکرا بھی رہے تھے اور باتیں بھی کر رہے تھے ۔
جب وہ ان دونوں کے پاس پہنچا تو وہ شخص کہنے لگے ۔
شکریہ بیٹے ۔تو نے میرے دوست کو ملا دیا ۔آج سے ٹھیک 25سال پہلے یہ یہاں سے ایک بچہ گود لے کر گیا تھا ۔اُس خوشی میں اپنے اس دوست کو بھول گیا ۔آج قسمت اسے یہاں لے آئی ہے ۔تم نے مجھ پر احسان کیا ہے ۔میرے دوست سے ملا دیا ہے ۔
علی کو یہ سن کر شاک لگا۔اُس کا خون جیسے جم گیا ہو۔ایک بچہ یتیم خانے سے مگر بابا کا کوئی اور بیٹا تو ہے نہیں ۔کیا میں اس کا بیٹا نہیں ۔؟اس نے مجھے ہی یہاں سے گود لیا تھ۔احساس شرمندگی میں اس نے سر جھکا لیا۔ ۔اب اُسے رشتوں کی پہچان ہو ئی تھی ۔وہ باپ کے قدموں سے لپٹ کر رو رو کر معافی مانگ رہا تھا ۔مجھے معاف کر دو،مجھے معاف کردو۔ایک بے نام کو تو نے کہاں سے کہاں تک پہنچایابابا اور ایک میں ہوں کہ ۔۔۔؟وہ رو رہا تھا ۔۔۔تب نذیر بابا نے اُس کا جھکا سر اوپر کو اُٹھایا اور اُس کا ماتھا چومنے لگا۔

اپنا تبصرہ لکھیں