https://bachonkiweb.com بچوں کی ویب

کلرڈ ڈے – رخسانہ نگار عدنان

’’امی ! بجلی کا بل آیا ہے۔‘‘ کاشف باہر سے آتے ہوئے دروازے پر پڑا بل اٹھالایا تھا۔
’’ اوہ میرے خدایا ! پورے اٹھائیس سو روپے۔‘‘ بل دیکھتے ہی میرے ہوش اڑ گئے تفصیل پر نظر ڈالی تو یاد آیا پچھلے مہینے بل جمع ہونے سے رہ گیا تھا۔ اجمل کو تنخواہ دیر سے ملی تھی ۔
’’ مگر پھر بھی اتنا بل !‘‘ میں بڑبڑائی ۔
’’ امی !یہ دیکھیں ۔‘‘ ننھی سدرہ نے اپنے سکول بیگ سے ڈائری نکال کر کھولی اور مطلوبہ صفحہ دیکھنے لگی۔
’’ بیٹا ! آپ کو نہیں پتا چلے گا ۔ لائو میں دیکھتی ہوں۔ ٹیچر نے کیا لکھ بھیجا ہے۔‘‘ میں نے اسے پیار کرتے ہوئے ڈائری اس کے ہاتھ سے لے لی۔
’’ امی ! روٹی ۔‘‘ یاسر باہر سے ہی کہتا ہوا اندر آیا ۔
’’ دس بار سمجھایا ۔ روٹی نہیں کہتے، کھانا کہتے ہیں ۔‘‘ میں نے فوراً سے پہلے اسے ٹوکا ۔
’’ اور یہ کیا ؟‘‘ اس کے اسکول یونیفارم کی گھسی ہوئی شلوار گھٹنے سے یوں پھٹی ہوئی تھی جیسے کسی نے باقاعدہ قینچی سے کاٹ ڈالی ہو۔’’ پھر لڑے ہو کسی سے ؟‘‘ میں نے اسے گھورا۔
’’ میں وہ تو اس نومی کے بچے کو اپنے مسلز کا بڑا غرور ہے، آج طبیعت صاف کرآیا ہوں۔‘‘ اس نے رگڑ کھا کر چھلے ہوئے گھٹنے کا ذرا سا سہلا کر کہا ۔
’’ میرے خدا! تم کب انسان بنو گے، اس لئے اسکول جاتے ہو ؟‘‘ میں نے سر پکڑ لیا اس کی قمیص کے اوپری دونوں بٹن بھی غائب تھے۔
’’ امی ! جانے دیں ، اسکول یونہی آپ کو خوش کرنے کو جاتا ہے ورنہ آج بھی جب میں بریک ٹائم میں باہر نکلا تو یہ پچھلے گرائونڈ میں پتنگیں اڑا رہا تھا، اسی نومی کے ساتھ ۔‘‘ کاشف منہ ہاتھ دھو کر آتے ہوئے بولا ۔
’’ اسی لئے سمجھاتا ہوں ۔ دفع کروا اس اسکول ، پڑھائی وڑھائی کو۔ خط پڑھنے یا حساب کتاب کے لئے لکھنا پڑھنا آنا چاہیے نا رو پیٹ کر وہ تو سیکھ ہی گیا ہے، کل بھی استاد کہہ رہا تھا اتنی مہنگائی ہے اتنی سی تنخواہ میں کیسے گزارہ کرتے ہو۔ بالکے کو ساتھ لے آئو۔ چند مہینوں میں کام سیکھ جائے گا تو ’ماسٹر‘ بن جائے گا اور پتر ہوتے کس لئے ہیں ، اسی لئے تو ۔‘‘ اجمل کی آمد بھی اسی وقت ہوئی تھی ۔ میں نے ایک نظر اس کے گریس سے میلے کچیلے کپڑے اور دھلے ہونے کے باوجود سیاسہ لکیروں والے ہاتھوں کو دیکھا اور یاسر کو گھورنے لگی۔
’’ تم نے انسان بننا ہے کہ نہیں ؟‘‘
’’ لو حد ہوگئی ۔ ابو! بتائو امی کو اور انسان کیسے ہوئے ہیں دو ہاتھ ، دو پائوں ، آنکھیں اور ایسی پیاری شکل پھر … ‘‘ وہ باپ کی شہہ پاکر اکڑتے ہوئے بولا۔
’’ ناحق شاہدہ بی بی! اپنی اور میری جان جلانے کا سامان کرتی ہو، اس کو اسکول بھیج کر ، یہ نہ پڑھے گا نہ سدھرے گا۔ الٹا آوارہ لڑکوں کے ساتھ پھر پھر کر کوئی نشہ وشہ لگابیٹھے گا ۔ میرے ساتھ گیرج میں جائے گا ، ہنر بھی سیکھے گا ، کل کو چار پیسے کمانے جو گا بھی ہوگا اور میری نظروں کے سامنے…‘‘ اجمل ہر بار کا دیا ہوا مشورہ دے کر کپڑے بدلنے چلاگیا ۔
’’ چار پیسے ہونہہ…‘‘ میں جلستی کلستی اٹھ گئی۔ ’’ جیسے چار پیسے تم کما کر لاتے ہو ۔‘‘ میں برآمدے میں رکھے چولہے کے پاس آکر کھانا گرم کرنے لگی۔
’’ شکر کر ناشکری عورت! باہر جو بے روزگاری اور ماراماری ہے ، کم از کم بھوکے تو نہیں مرتے۔ یہ کمانے لگے گا تو کچھ آسانی ہوجائے گی ۔ باقی تینوں چھوٹوں کو تو اپنی مرضی سے پی ایچ ڈی کرالینا۔‘‘ اجمل ذرا سی دیر میں کپڑے بدل بھی آیا تھا ۔
’’ پی ایچ ڈی … ہیں ابو ! یعنی پھرا ہوا دماغ۔‘‘ یاسر کھی کھی کرتے ہوئے باپ کے برابر آ بیٹھا۔
’’ آج اتنی جلدی کیسے آگئے ؟‘‘ اس یاسر کے بچے سے تو میں بعد میں نبٹوں گی ، دل میں سوچتے ہوئے میں نے اجمل سے پوچھا ۔
کاشف ، آصف اور سدرہ بھی آکر بیٹھ گئے ۔ سدرہ کے ہاتھ میں اسکول ڈائری تھی۔
’’ آج استاد کا موڈ بڑا اچھا تھا، دو تاریخ کو ہی تنخواہ دے دی اور سو روپے انعام میں بھی ۔‘‘
’’ انعام کس چیز کا ابو ! تم کیا گاڑیوں کی ریس جیت کر آئے تھے۔‘‘ یاسر نے حسبِ عادت فوراً لقمہ دیا۔
’’ بدتمیز! تمہیں تمیز نہیں باپ کو ’’ تم ‘‘ کہہ کر بلاتے ہو۔‘‘ میں نے غصے میں اس کے سر پر چپت لگائی ۔
’’ او میری ماسٹرنی بیوی! جتنا مرضی ان کے ساتھ سر کھپالے پہلے سر پیٹ پیٹ کر ’’ابا‘‘ سے ’’ابو‘‘ کہلوایا، اب تمیز سکھاتی ہے نہ مجھے پتا تو خود کون سا ایم اے، بی اے ہے۔ چل ایف اے میٹرک ہی سہی کون سی ڈگری ہے تیرے پاس۔‘‘ اجمل نے دال کے ساتھ چپاتی کو بڑے بڑے لقمے توڑتے ہوئے طنز سے کہا ۔
’’ یہی تو رونا ہے یاسر کے ابا! کیسا دل تھا میرا پڑھنے میں ، پر ہمارے خاندانوں میں پیدا ہوتے ہی صرف ’’روٹی روٹی‘‘ کی دہائی پڑجاتی ہے اور کسی طرف دھیان ہی نہیں جاتا ۔ اماں ابا نے رودھو کر پانچویں تک پڑھایا اور چھٹی کی نوبت ہی نہیں آئی ۔ اماں نے اپنے ساتھ سلائی پہ لگالیا ۔ بس یہی سوچا تھا ، پڑھائی کے سارے ارمان اپنے بچوں پر پورے کروں گی ۔ چاہے مجھے فاقے کیوں نہ کرنا پڑیں ۔‘‘ میں نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا تو اجمل نے بڑا سا لقمہ پانی کے گھونٹ کے ساتھ اتارا اور ایک بڑی سی ڈکار لی۔
یاسر بٖغیر ہاتھ منہ دھوئے باپ کے انداز میں بڑے بڑے نوالے توڑتا منہ میں ڈالے جارہا تھا۔
میں سدرہ کی گود میں پڑی ڈائری اٹھا کر پڑھنے لگی۔
’’اوہ اگلے ہفتے اس اسکول میں کلر ڈڈے ہے۔ اورنج کپڑے، اورنج جوتے ، دو عدد اورنج ۔ ایک اورنج جوس اور اپنی گڑیا کو اورنج کپڑے پہنا کر اسکول لائیں۔‘‘
میں پڑھ رہی تھی۔ یاسر اور اجمل زور زور سے ہنسنے لگے۔ کاشف بھی ان دونوں کو دیکھ کر ہنس پڑا۔
’’ وہ کیا کہتے ہیں سیانے۔ گھر میں اونٹ رکھو تو دروازے اونچے رکھنے پڑتے ہیں اور داخل کرائو اپنی لاڈو کو انگلش میڈیم اسکول میں۔ ان تینوں کی پڑھائی کا خرچ ایک طرف اور تیری اس لاڈلی کی پڑھائی ایک طرف۔‘‘ اجمل کو پھر جتانے کا موقع مل گیا ۔
’’امی ! ٹیچر کہہ رہی تھیں اچھے سے اورنج کپڑے پہن کر آنا۔‘‘ سدرہ نے لاڈ سے ٹھنک کر کہا ۔
’’ نہ تیری ٹیچر کیا رشیا (روس) میں رہتی ہے جسے مئی کے مہینے میں اورنج سوجھ رہے ہیں … یہ ہے نتیجہ پڑھائیوں کا، بندے کو موسم کی تمیز بھی نہیں رہتی۔ چھٹی کرائو اگلے ہفتے اس کی ۔‘‘ وہ اٹھ کر صحن میں لگے نلکے پر ہاتھ دھوکر زور زور سے کلیاں کرتے ہوئے بولا ۔
’’ ہائے نہیں اجمل ! چھٹی تو نہیں کرائوں گی۔‘‘ میں نے سدرہ کی آس بھری صورت دیکھ کر کہا ۔
’’ تو پھر اس کی ٹیچر کو کہو ۔ سردیوں کا انتظار کرلے۔ لو مفت کا خرچ۔ دفع کرو کہاں سے کسیری جوڑا لائوگی اس کے لئے ۔‘‘ وہ تولیے سے ہاتھ رگڑتے ہوئے بولا۔
’’ تمہیں تنخواہ مل گئی ہے نا آج۔ دیکھو بچی کی خواہش ہے کلر ڈے تو بچوں کو پرجوش کرتے ہیں ۔ اب ہمارے زمانے والے اسکول تھوڑی ہیں صرف قاعدے ، تختی سے گزارا ہوجاتا تھا۔‘‘ میں فوراً اٹھ کر اس کے پیچھے کمرے میں آئی ۔
’’ میں نے گھنٹے تک گیرج جانا ہے ۔ یہ تنخواہ پکڑ۔ اس میں گھر کا کرایہ ، راشن بھی سب پورے کرنے ہیں یا پھر صرف کلرڈ ڈے کا اہتمام۔ آگے تیری مرضی ، میں تو مہینے میں ایک بار ہی تنخواہ لاسکتا ہوں۔‘‘ اس نے نوٹ گنے بغیر مجھے پکڑا دیے اور میں گنتے ہوئے ذہن میں جوڑ توڑ کرنے لگی۔
’’ امی ! مجھے لے کر دیں گی نا، اورنج سوٹ اور گڑیا کے کپڑے اور میری تو گڑیا بھی بالکل ٹوٹی پھوٹی ہے۔ ایک ٹانگ نہیں اس کی اور … ‘‘ سدرہ میرے ساتھ آکر لیٹ گئی تھی ۔
اس کی آنکھوں میں کیسی امید بھری شمعیں جل رہی تھیں کہ میری مامتا نے بس لمحہ بھر میں ہی فیصلہ کرلیا کہ میں اپنی بچی کو یہ معصوم خوشیاں ضرور دوں گی جو بھی ہو اس میں اسے بھی سے زندگی کی حقیقتوں کا مکروہ چہرہ نہیں دکھائوں گی۔
٭…٭…٭
’’امی ! میں اچھی لگ رہی ہوں نا!‘‘ اسکول جانے کے لئے تیار اورنج شرٹ اور لانگ اورنج نیکر میں اورنج پنیں ، میچنگ اورنج جوتے پہنے میرے سامنے کھڑی اتنی معصوم لگ رہی تھی کہ میں نے اسے ڈھیر سارا پیار کرڈالا۔
’’میری گڑیا تو سب سے پیاری لگ رہی ہے، بالکل اورنج شہزادی۔ اپنی گڑیا لے لی ہے ساتھ … ‘‘ میں نے اس کا بیگ چیک کرتے ہوئے کہا ۔
اس کے اس ایک کلرڈڈے پر میرا پورا چودہ سو روپیہ اٹھ گیا تھا اگرچہ میں نے اس کے کپڑے، جوتے ، گڑیا سستے بازار سے لی تھی مگر مجھے ملال نہیں تھا۔ مجھے خوشی تو سدرہ کے کھلے ہوئے چہرے کو دیکھ کر ہورہی تھی ۔
اس کے جانے کے بعد بھی میں بہت دیر تک خوش رہی ۔
’’نہیں ۔ مجھے اپنے بچوں کو پڑھانا ہے، ان کو چھوٹی چھوٹی معصوم خوشیوں کے لئے نہیں ترسانا جیسے ہمارا بچپن ترستے گزرگیا ۔‘‘
گھر کے کام سے فارغ ہوکر میں سلائی مشین پر بیٹھ گئی ۔ اگرچہ میری سلائی بہت اچھی نہیں تھی اور بہت کپڑے بھی سلنے کے لئے نہیں آتے تھے پھر بھی مہینے میں چھ آٹھ سوٹ سی کر میں ہزار بارہ سو تک کماہی لیتی تھی مگر اس کے باوجود بچت تھی نہ کوئی آسائش۔
ایک یاسر پـڑھنے سے بھاگتا ہے ۔ باقی تینوں کو تو خوب شوق ہے۔ یہ کسی طرح یاسر ماڈل کرلے تو خوب پڑھائوں گی۔‘‘ خود سے باتیں کرتے کام کرتے کب بارہ بجے مجھے پتا بھی نہیں چلا ۔
اجمل کھانا کھانے اکثر دوپہر کو آجایا کرتا تھا اور آج تو استاد کی بائیک لے کر آیا تھا۔
’’ آئو ، سدرہ کو لے آتے ہیں۔‘‘ اس نے باہر ہی سے کہا تو میں جلدی سے بالوں میں کنگھی چلاتی چپل بدل کر باہر آگئی ۔
’’ استاد نے ذرا دیر سے گھر جانا تھا، میںنے کہا پھر میں گھر ہو آتا ہوں۔‘‘ وہ راستے میں بتارہا تھا۔
سدرہ کا اسکول ہمارے پس ماندہ علاقے سے ذرا ہٹ کر ایک بہتر علاقے میں تھا۔ اسکول سے باہر رکشوں سے زیادہ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا رش تھا۔
سب ہی بچوں نے ایک سے ایک بڑھ کر اورنج کلر کے کباس پہن رکھے تھے مگر مجھے اپنی سدرہ دور ہی سے نظر آگئی ۔
پسینے میں بھیگی وہ بمشکل بیگ سنبھالتی آرہی تھی ۔
’’ اجمل ٹھیک ہی کہتا ہے۔ اتنی گرمی میں اورنج ڈے سیلیبریٹ کررہے ہیں۔‘‘ سدرہ کو دیکھ کر میں نے اعتراف کیا۔
یاسر اور کاشف بھی آچکے تھے ۔
’’ کیسا گزرا میری بیٹی کا دن ۔ مزہ آیا نا!‘‘ گھر لاکر اسے پانی پلاتے ہوئے میں نے پرجوش ہوکر پوچھا۔
نہیں … نہیں مزہ آیا۔‘‘ اس کے بولنے پر میں نے اس کی اتری صورت دیکھی ۔
’’ کیوں … کیوں نہیں مزہ آیا ؟‘‘ اجمل بھی منہ ہاتھ دھو کر آگیا ۔
’’ سب بچوں نے اتنے اچھے کپڑے پہن رکھے تھے اور ان کی گڑیا اتنی خوبصورت تھیں کہ انہوں نے مجھے ہاتھ بھی نہیں لگانے دیا اور میری پلاسٹک کی گڑیا کو دیکھ کر سب ہنسنے لگے۔ مذاق اڑانے لگے اور ٹیچر نے بھی مجھے ذرا پیار نہیں کیا، نہ میرے کپڑوں کی تعریف کی، نہ جوتوں اور پنوں کی باقی سارے بچوں کو اتنا پیار کیا اور ان کے کپڑوں کی اتنی تعریف… امی ! انھیں میرے کپڑے اچھے نہیں لگے تھے یا میں اچھی نہیں لگ رہی تھی ۔‘‘
وہ رندھی ہوئی آواز کے ساتھ بڑی بڑی آنکھوں میں چھلکتے آنسو لئے پوچھ رہی تھی ۔ اور میں اسے خالی نظروں کے ساتھ دیکھتی رہ گئی ۔
’’ کہتے ہیں جتنی چادر ہو، اتنے پیر پھیلائو، اب بھلا کوے، کبوتر مور کے نقلی پر لگانے سے مور تو نہیں بن جاتے ۔ دیکھا تھا وہاں بچوں نے ایک سے ایک بڑھ کر قیمتی امپورٹڈ لباس پہن رکھا تھا اور تمہارے یہ سستے ٹھیلوں سے خریدے سستے کپڑے خود منہ سے اعلان کررہے تھے ہماری قیمت کیا ہے ۔‘‘ سدرہ اندر جاکر رونے لگی تھی اور اجمل کو بولنے کا موقع مل گیا تھا۔
’’ اوئے پنکھا چلا… نظر نہیں آتا اتنی گرمی میں آئے ہیں ۔‘‘ اس نے غصے میں کاشف سے کہا ۔
’’ وہ … ابو ! ابھی وہ بجلی والے آئے تھے وہ باہر سے تار کاٹ گئے ہیں ۔‘‘ وہ ڈرتے ڈرتے کہہ رہا تھا اور مجھے ایک دم سے یاد آیا اس دن بل ، کلرڈ ڈے کی شاپنگ میں بالکل بھول ہی گیا تھا اور بل کے پیسے … وہ تو سارے سدرہ کی تیاری میں خرچ ہوگئے تھے اور اب …
’’ چلو بجلی رہے یا کٹے … تمہاری ماں نے تو کلرڈ ڈے منالیا ۔ وہ تو خوش ہوگئی ۔‘‘ اجمل غصے میں چیزوں کو ٹھوکریں مارتا باہر نکل گیا ۔
اور میری خالی آنکھوں سے دو آنسو بہہ نکلے ۔
مجھے دکھ بجلی کٹ جانے کا نہیں تھا ۔ میرا دل تو اس لئے رورہا تھا کہ میں جو اپنی بیٹی کو زندگی کی تلخ حقیقتوں کا مکروہ چہرہ ابھی نہیں دکھانا چاہ رہی تھی ۔ اسے اس کلرڈڈے نے دکھادیا تھا اور اسے جس ننھی سی خوشی کو دینے کے لئے میں سب کچھ بھول گئی حتیٰ کہ بجلی کا بل بھی ۔ وہ اسے پھر بھی نہ مل سکی ۔

اپنا تبصرہ لکھیں