https://bachonkiweb.com bachon ki web بچوں کی ویب

سفید خون – تصور عباس سہو

یہ سردیوں کی ایک شام تھی۔ سورج غروب ہو رہا تھا۔ یخ بستہ ہوائیں چل رہی تھی۔ ایسے میں وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا گلی میں جا رہا تھا ۔ پریشانی اور دکھ کے ملے جلے تاثرات اس کے چہرے سے عیاں تھے۔ اس کے ایک ہاتھ میں شاپر تھا جس میں اس کے کپڑے تھے۔ وہ بہت عجلت میں دکھائی دیتا تھا۔چلتے چلتے اس نے گھڑی پر نظر ڈالی ۔ گھڑی شام کے پانچ بجا رہی تھی۔
’’ اف ! بہت دیر ہو گئی ۔‘‘ اس نے سوچا اور مزید تیز چلنا شروع کر دیا۔ جیسے ہی وہ اگلی گلی میں مڑا دس بارہ لوگوں نے اسے گھیر لیا۔
’’ پکڑو ۔۔۔۔۔ پکڑو۔۔۔۔ جانے مت دو۔‘‘ اسے دیکھتے ہی وہ سب چلائے اورتیزی سے اس کی طرف بڑھے۔اتنے آدمیوں کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کروہ گھبرا گیا۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھ پاتاایک موٹے آدمی نے آگے بڑھ کر اسے پکڑ لیا ۔
’’ بس یہی چور ہے ۔۔۔ پکڑلو اسے اور لے چلو حویلی۔‘‘ ایک اور آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔ اس نے بولنے کی بہت کوشش کی لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔ دو آدمیوں نے اسے پکڑ کرموٹر سائیکل پر بٹھایا اور موٹر سائیکل دوڑا دی۔
٭۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔٭
’’ اسد!‘‘ حامد نے اپنے دوست کو پکارا۔
’’ ہوں!‘‘ اسد غائب دماغی سے بولا۔
’’ میں سوچ رہا ہوں اس مرتبہ چھٹیوں میں تمہارے پاس چکر لگا ہی لوں ۔بہت عرصہ ہو گیا کہتے کہتے۔‘‘
’’ہوں! اگر میں کہیں نہ گیا تو ۔‘‘ اسد نے جواب دیا۔
’’ ٹھیک ہے ۔…اور ہاں مجھے یاد آیا…‘‘ حامد کہتے کہتے رک گیا۔
’’ کیا؟‘‘ اسد نے حیرانی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ میں تمہارے لیے مکھن، مکئی کی روٹیاں اور ساگ بھی بنوا کر لے آئوں گا… میری امی بہت مزے کا ساگ بناتی ہیں اور … اور پھر مکھن کے ساتھ تو ساگ کا مزہ ہی دوبالا ہو جاتا ہے۔‘‘ حامد نے چٹخارے لیتے ہوئے کہا۔
’’اچھا !‘‘
’’ ہاں۔‘‘
’’ ٹھیک ہے لیکن پہلے رابطہ کر لینا… میں اب چلتا ہوں مجھے احمر سے کچھ نوٹس لینے ہیں۔‘‘ اس نے کہا اور پھر اس کا جواب سنے بغیر چل دیا۔
اسد اور حامد کلاس فیلو ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے دوست بھی تھے اور وہ دونوں کالج کے ہاسٹل میں رہتے تھے۔ اسد کا تعلق ایک اونچے خاندان سے تھااور وہ شہر کا رہنے والا تھا۔ جبکہ حامد ایک متوسط درجے کے گھرانے کا چشم و چراغ تھا۔ اسد کافی حد تک ماڈرن تھا ۔ تاہم وہ پڑھائی میں واجبی سا تھا۔ اس کے برعکس حامد ایک سادہ لوح مگر ذہین لڑکا تھا ۔ وہ پڑھائی میں بہت آگے تھا۔ کلاس میں اس کی پہلی پوزیشن تھی ۔ اس نے میٹرک میں بھی اپنے سکول میں ٹاپ کیا تھا اور اب شہر میں کالج میں داخلہ لیا تھا ۔ کالج میں پہلے دن اسد اور حامد کلاس میںسب سے پہلے آئے تھے یہی وجہ تھی کہ ان کی دوستی ہو گئی۔ حامد کالج میں بھی ہر ٹیسٹ میں اول آتا تھا اس وجہ سے وہ تمام اساتذہ کی آنکھ کا تارا تھا ۔ اس نے اپنی ذہانت اور مقبولیت کی وجہ سے اسدکے دل میں بھی کافی حد تک جگہ بنا لی تھی اور وہ اس کا دوست بن گیا تھا۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت اسد کے ساتھ گزارتا جو بعض اوقات اسد کو ناگوار بھی گزرتا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ حامد کو اپنا کوئی خاص دوست نہیں سمجھتا تھا جبکہ وہ حامد کے لیے بہت خاص تھا۔ وہ لاشعوری طور پر اس سے بہت متاثر تھالیکن بہت سادہ مزاج اور شریف ہونے کی وجہ سے حامد اس تضادکو کبھی نہ سمجھ پایا۔ حامدکی یہ دیرینہ خواہش تھی کہ وہ اسد کے شہر جائے اور اس کا گھر بھی دیکھے۔ چنانچہ اس بار اس نے اسد سے اپنی اس معصوم خواہش کا اظہار کیا جو کہ حقیقت میں اسد کو ناگوار گزری لیکن اس نے رسمی طور پر حامدکو کہہ دیا کہ وہ آجائے ۔
٭۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔٭
’’ امی جان ! اس اتوار کو آپ نے مجھے مکئی کی روٹیاں اور ساگ بنا کر دینا ہے ۔ میں نے اپنے دوست اسد کے پاس جانا ہے اور میں اس کے لیے مکھن ،ساگ اور مکئی کی روٹیاں لے کر جانا چاہتا ہوں۔میں نے اس سے کہا تھا کہ جب بھی آیا تمہارے لئے یہ سب چیزیں لے کر آئوں گا۔‘‘ حامدنے اپنی ماں سے کہا۔
’’ جی بیٹا ضرور بنا دوں گی لیکن تم اسد کے شہر جائو گے کس کے ساتھ۔۔۔؟‘‘۔ انہوں نے حامد کو سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’کس کے ساتھ جانا ہے امی… اکیلا ہی جائوں گا بس میں بیٹھ کر اور وہاں پہنچ کراسد کو کال کردوں گا وہ مجھے اڈے سے لے جائے گا…آپ فکر نہ کریں اور ہاں میرا نیا سوٹ بھی استری کر دیجیئے گا میں رات کو وہیں رہوں گا اور اسد کے ساتھ خوب سیر و تفریح بھی کروں گا ۔‘‘
’’ ٹھیک ہے بیٹا! میں سب کچھ تیار کر دوں گی۔‘‘ اس کی ماں نے کہا اور گھر کے کاموں میں مشغول ہو گئی۔
٭۔۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔٭
آج اتوار تھا۔حامد بہت خوش تھا کیونکہ آج اس نے اپنے دوست اسد کے پاس جانا تھا۔ اسد کا شہر ان کے شہرسے چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا ۔ وہ اب کالج کا سٹوڈنٹ تھا لہذا اسے اکیلے جانے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ اس کی امی نے مکئی کی روٹیاں ،مکھن اور مزے دار قسم کا ساگ بنا کر بڑے ٹفن میں ڈال دیا۔ اس نے اپنے گھر والا موبائل فون بھی اٹھا لیا تاکہ وہاں پہنچ کر اسد کو اپنے آنے کی اطلاع کر سکے اور روانہ ہو گیا۔
ٹھیک سوا گھنٹے کے سفر کے بعد وہ شام کوٹ پہنچ گیا ۔اڈے پر اترنے کے بعد اس نے اسد کو اپنی آمد کی اطلاع دی۔ تھوڑی ہی دیر میں اسد وہاں اپنی نئی موٹر بائیک پر پہنچ گیا۔ حامد اسد کو مل کر بہت خوش ہوا اور پھر اسداسے اپنے گھر لے آیا۔گھر کیا تھا بس ایک محل تھا۔ تین منزلہ یہ بنگلہ واقعی کسی محل کی تصویر پیش کر رہا تھا۔ ڈرائنگ روم مختلف قسم کے فرنیچر اور انواع و اقسام کے خوبصورت اور بیش قیمت گلدانوں سے سجاہوا تھا۔حامد اپنے دوست کا اتنابڑا اور پیارا گھر دیکھ کر بہت خوش ہوا۔اسد نے چائے او ر بسکٹ سے اس کی تواضع کی اور پھر وہ دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔تھوڑی دیر میں ملازمہ نے کھانا لگنے کی اطلاع دی۔ وہ کھانے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ کھانے کے دوران حامدنے اسد کو بتایا کہ آج رات وہ وہیں رہے گا اوروہ شام کے بعد اکٹھے گھومنے پھرنے نکلیں گے۔ یہ بات سن کر اسد کے چہرے پہ ناگواری کے تاثرات ابھر آئے اوروہ سرد مہری سے بولا: ’’ سوری !میں تمہیں زیادہ وقت نہیں دے سکتا۔ کیونکہ میری خالہ اور ان کے بچے آئے ہوئے ہیں میں نے ان کے ساتھ باہر جانا ہے اور شام کا کھانا ان کے ساتھ باہر ہی کھانا ہے۔ لہذا تم گھر چلے جائو ہم پھر کبھی ہاسٹل سے چھٹی لے کے وہیں اکھٹے گھوم پھر لیں گے۔‘‘ اسد کے یہ الفاظ حامدکی سماعتوں پر ہتھوڑے کی طرح برسے۔ اسے بہت توہین محسوس ہوئی اور اسد پر بہت غصہ آیا۔لیکن وہ خاموش رہا۔کھانا کھانے کے بعد اس نے اسد سے کہا کہ وہ اسے بڑی سڑک پر چھوڑ دے تاکہ وہ گھر جانے کے لئے بس پکڑ سکے۔ اسد نے گھر سے نکل کر اسے سڑک تک جانے کا راستہ بتا دیا اور ہاتھ ملا کر اندر آگیا۔ حامد نے ایک نظر اس محل نما گھر پر ڈالی اور چل دیا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔٭
’’ سو سوری آنٹی۔۔۔۔۔ ایک پینڈو شخص کی وجہ سے ہمارا پروگرام لیٹ ہو گیا۔۔۔۔ اس نے مفت میں دو تین گھنٹے ضائع کر دیئے۔۔۔ ابھی تو وہ رات کو بھی یہیں رہنا چاہتا تھا لیکن میں نے سوری کر لی۔‘‘ اسد نے اپنی خالہ سے کہا اور پھر وہ سب باہر جانے کی تیاریوں میںلگ گئے۔
ادھر حامدتیز تیز قدم اٹھاتا چلا جا رہا تھا۔شام ہو رہی تھی اور اجنبی شہر…اسے ڈر بھی لگ رہا تھا۔وہ جلد از جلد اڈے پر پہنچ جانا چاہتا تھا کہ اچانک اسے کچھ آدمیوں نے گھیر کر پکڑ لیا۔ وہ سب اسے چور بھی کہہ رہے تھے۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ یہ سب کیا تھا۔ اسے پکڑنے والے آد می در اصل قریبی ٹائون کے ایک کروڑ پتی سیٹھ اکرم کے آدمی تھے ۔ کچھ دیر پہلے ہی سیٹھ اکرم کا چھوٹا بیٹا ذیشان گلی میں کھڑا اپنے موبائل پر گیم کھیل رہا تھا ۔ اچانک ایک لڑکے نے اس کے ہاتھ سے موبائل کھینچا اور بھاگ نکلا۔ اب سیٹھ اکرم کے ملازمین جگہ جگہ اس لڑکے کو تلاش کر رہے تھے۔ جب انہوں نے حامدکو بھاگنے والے انداز میں تیز تیز قدم اٹھاتے دیکھا تو انہوں نے اسے چور سمجھ کر پکڑ لیا۔ حامد نے انہیں حقیقت بتانے کی بہت کوشش کی مگر انہوں نے اس کی ایک نہ سنی اور اسے زبردستی بائیک پر بٹھا کر سیٹھ اکرم کی کوٹھی پر لے آئے۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔۔٭
سیٹھ اکرم کے منشی نے حامدکی اچھی طرح تلاشی لی۔ جب ایک پرانے ماڈل کے موبائل اور پانچ سو روپوں کے علاوہ کچھ نہ نکلا تو اس نے اسد کو گریبان سے پکڑ ا اور کڑک کر بولا: ’’ موبائل کہاں ہے؟۔۔۔۔۔ کہیں پھینک دیا ہے یا پھر بیچ دیا۔۔۔۔۔؟‘‘
ــ ’’ ک۔۔۔ک۔۔۔کک۔۔۔ کو ن سا موبائل۔۔۔۔۔۔؟ اسد نے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا۔
’’ اچھا ۔۔۔ تو یہ بھی ہم تجھے بتائیں کہ کون سا موبائل۔۔۔یہاں کوئی چالاکی نہیں چلے گی سمجھے…اس سے پہلے کہ ہم تمہیں پولیس کے حوالے کریں تم خود ہی بتا دو کہ وہ موبائل کہاں چھپایا ہے؟‘‘ دوسرے نے اسے خونخوار نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ حامد کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا ۔ وہ بہت ڈر گیا تھا۔اس نے کانپتی ہوئی آواز میں انہیں بتایا کہ وہ تو یہاں پردیسی ہے اوراپنے دوست سے ملنے آیا تھا۔اسے تو کسی موبائل کا پتہ تک نہیں۔ سیٹھ اکرم پاس ہی بیٹھایہ سب سن اور دیکھ رہا تھا۔ اسے حامد کے بیان میں سچائی محسوس ہوئی۔ اس نے اپنے چھوٹے بیٹے کو بلوایا اور اس سے پوچھا کہ کیا اسی لڑکے نے تم سے موبائل چھینا تھا ۔ اس نے نفی میں سر ہلایا اور بتایا کہ یہ وہ لڑکا نہیں… وہ کافی بڑا لڑکا تھاا ور اس نے پینٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ یہ سن کر سیٹھ اکرم سمیت تمام لوگ پریشان ہو گئے ۔ اب توسیٹھ اکرم کو اس پر بہت ترس آیا اور اپنے ملازمین پر غصہ بھی کہ وہ اصلی چور کو پکڑنے کی بجائے اس معصوم لڑکے کو پکڑکر لائے۔ چنانچہ انہوں نے اس سے معافی مانگی اور اس سے اس شہر میں آنے اور پھر اتنا لیٹ ہونے کی وجہ پوچھی ۔اس پر حامد نے انہیںساری کہانی سنا ڈالی۔
سیٹھ اکرم اس معاملے میں بہت اچھے انسان تھے۔ انہوں نے اس کے لیے کھانا تیار کروایا اوراس کی خوب خدمت کی ۔ اسے اپنی بیوی اور بچوں سے بھی ملوایا اور اسے رات کو وہیں ٹھہرنے کوکہا کیوں کہ اب کافی دیر ہو چکی تھی۔ اتنی ہمدردی اور پیار دیکھ کر وہ اپنا غم وقتی طور پہ بھول گیا ۔ صبح ناشتہ کرنے کے بعد سیٹھ اکرم اسے اپنی گاڑی میں بٹھا کر بس اسٹاپ پر لے آئے اور اسے بس میں بٹھا کر واپس گئے۔ اس کی آنکھوں میں بے اختیارآنسو آ گئے ۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ آنسو اس کے دوست کی بے رخی پہ نکل رہے تھے یا سیٹھ اکرم کی ہمدردی پہ۔۔۔

اپنا تبصرہ لکھیں