https://bachonkiweb.com bachon ki web بچوں کی ویب

بندر کا جال

تحریر: عاطف فاروق

’’چچا جان! کل ہم کیا کرنے والے ہیں ؟‘‘
’’عمار بیٹا! کل ہم بندر پکڑیں گے ۔‘‘چچا جان نے جواب دیا ۔
’’بندر …؟؟؟‘‘ میں نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بندر۔‘‘ چچا جان بولے ۔‘‘اور ہاں اگر ہم بندر پکڑنے میں کامیاب ہوگئے تو وہ بندر تم رکھ سکتے ہو اپنے پاس۔‘‘
’’بندر …اور…پالتو جانور ؟ کیا یہ خطرناک نہیں ہوتے چچا جان ؟‘‘
’’عمار بیٹا! یہاں جو بندر پائے جاتے ہیں یہ بہت چھوٹے اور خوبصورت ہیں ، انہیں ایک بار تربیت دے دی جائے تو یہ بہت وفادار پالتو جانور بن سکتے ہیں ۔‘‘ چچا جان نے کہا ۔
اگلی صبح سویرے سویرے میں اور چچا جان دریا کے کنارے پہنچ گئے۔ یہاں چچا جان کا ایک معاون موٹر بوٹ کے ساتھ ہمارا پہلے سے منتظر تھا۔ ہم دونوں بھی موٹر بوٹ میں سوار ہوگئے اور کچھ ہی دیر بعد موٹر بوٹ نے دریا کی لہروں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھنا شروع کردیا ۔ چچا جان نے بتایا کہ ہماری منزل یہاں سے آدھے گھنٹے کی مسافت پر واقع ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جہاں یہ چھوٹے بندر بکثرت پائے جاتے ہیں ۔ صبح سویرے موٹر بوٹ کا سفر انہتائی خوشگوار لگ رہا تھا ۔ دریا کے پانی کے قطرے جونہی چہرے پر پڑتے، تازگی کا احساس بڑھ جاتا۔
تھوڑی دیر بعد سامنے چھوٹے چھوٹے پہاڑ نظر آنے لگے ۔ شاید یہی وہ جزیرہ تھا جہاں ہم جارہے تھے ۔ جیسے جیسے موٹر بوٹ آگے بڑھتی جارہی تھی ، پہاڑ بھی بڑے ہوتے جارہے تھے ۔
’’عمار بیٹا ! اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایک شکنجہ تیار کریں ۔‘‘ چچا جان نے میرے کندھے پر تھپکی لگاتے ہوئے کہا ۔
’’کیسا شکنجہ چچا جان ؟‘‘ میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا ۔
’’بندر کو پکڑنے کا شکنجہ۔‘‘ چچا جان بولے ۔ ’’کرم دین تمھیں اس بارے میں بتاتا ہے اور تم کوشش کرکے اس کو سیکھ لو۔‘‘
کرم دین ‘چچا جان کا پُرانامعاون تھا وہ میری طرف متوجہ ہوا اورساتھ ہی اس نے موٹر بوٹ کے اگلے حصے میں پڑے ہوئے بیگ میں سے ایک ناریل بھی نکال لیا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک نوکدار چاقو بھی تھاجس کی مدد سے اس نے ناریل میں ایک چھوٹا سا سوراخ کردیا اور ناریل کو انڈیل کر اس کے مزے دار پانی سے لطف اندوز ہونے لگا ۔ ناریل کا پانی ختم کرنے کے بعد اس نے ناریل ایک طرف رکھ دیا اور بیگ سے مزید ایک ناریل نکال کر چاقو سمیت مجھے پکڑا دیا ۔ اس بات کا مطلب یہ تھا کہ اب مجھے بھی ویسے ہی ناریل میں سوراخ کرنا تھا جیسے کرم دین نے کیا تھا ۔ میں نے ناریل کو مضبوطی سے پکڑا اور چاقو کی نوک سے اس میں سورخ کرنے میں جُت گیا ۔ چچا جان اور کرم دین کی نظریں مجھ پر مرکوز تھیں اور وہ دونوں میرے کام کا بغور مشاہدہ کررہے تھے ۔ چند منٹوں کی محنت کے بعد میں بھی ناریل میں کریم دین کی طرح سوراخ کرنے میں کامیاب ہوگیا اور ناریل کے مزے دار اور صحت بخش پانی کے مزے اڑانے لگا۔
’’شاباش !‘‘ چچا جان نے میری کمر پر تھپکی دیتے ہوئے شاباشی دی۔
’’بہت خوب! تم نے بہت جلد سیکھ لیا۔‘‘ کرم دین نے بھی داد دی ۔
’’چچا جان! ہم اس ناریل کی مدد سے بندر کیسے پکڑیں گے ؟‘‘ میں نے حیران ہوتے ہوئے ایک اور سوال پوچھا۔
’’بیٹا! تم دیکھتے جائو بس !‘‘ چچا جان نے مسکرا کر جواب دیا اور موٹر بوٹ سے اترنے کی تیاری کرنے لگے ۔
موٹر بوٹ اب کنارے پر پہنچ چکی تھی ۔ کرم دین نے اس کا لنگر ایک مضبوط پتھر کے ساتھ باندھ دیا اور ضروری سامان کا بیگ اپنے کندھے پر ڈال لیا ۔ میں اور چچا جان بھی کشتی سے اتر گئے اور جزیرے کی طرف بڑھنے لگے ۔ میں پہلی بار کسی جزیرے پر آیا تھا اس لئے یہ تجربہ میرے لئے حیرانی کا باعث بھی تھا ۔ جزیرہ ایک گھنے جنگل کی مانند تھا ، ہر طرف لمبے لمبے درخت اور جھاڑیاں ڈرائونا منظر پیش کررہی تھیں۔ چچا جان نے بتایا کہ یہ جزیرہ صرف جانوروں کی ا ٓماجگاہ ہے ، یہاں انسان آباد نہیں ہیں ۔ تھوڑا آگے پہنچنے پر ہمیں بندروں کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔ تب چچا جان نے بیگ میں سے ناریل نکالا اور اس میں اُبلے ہوئے چاول اور گُڑ بھرنے لگے ۔ گرم چاولوں اور گُڑ کی مسحور کُن خوشبو چاروں طرف پھیلنے لگی ، تب مجھے سمجھ آیا کہ بندر کو پکڑنے کا شکنجہ کسے کہتے ہیں۔ یہ دیکھ کر میں مسکرانے لگا ۔ مجھے مسکراتا دیکھ کر چچا جان بھی مسکرااٹھے ۔
ناریل کو گُڑ اور اُبلے ہوئے چاولوں سے بھرنے کے بعد چچا جان اس کو سامنے واقع ایک چھوٹے سے میدان میں رکھ آئے اور اس کے بعد ہم تینوں ایک گھنی جھاڑی کی اوٹ چھپ گئے ۔ گڑ اور چاولوں کی خوشبو کئی بندروں کو اس طرف لے آئی ۔ بندر اونچے اونچے درختوں پر لٹک کر ناریل کو دیکھے جارہے تھے ۔ انھیں ہماری موجودگی کا احساس بھی نہیں تھا ۔ اتنے میں ایک چھوٹے سے بندر نے درخت سے چھلانگ لگائی اور ناریل کے پاس آکر اسے ٹٹولنے لگا ۔ پھر اچانک ہی اس نے زوردار انداز میں چیخنا شروع کردیا ۔ دراصل ہوا یوں تھا کہ اس نے چاول نکالنے کے لئے جونہی ہاتھ ناریل میں ڈالا ، سوراخ تنگ ہونے کی وجہ سے ہاتھ ناریل کے اندر ہی پھنس گیا۔ بندر کی آہ و بکا سن کر باقی تمام بندر وہاں سے بھاگ گئے ۔ کرم دین بھی جھٹ سے لپکا اور اس نے ایک ترپال نما موٹا کپڑا بندر کے اوپر ڈال دیا ۔ چند ہی منٹوں کے اندر ہم ایک خوبصورت بندر کو پکڑنے میں کامیاب ہوچکے تھے ۔ میرے لئے یہ اپنی نوعیت کا پہلا شکار تھا اس لئے میں دل ہی دل میں اس کامیابی پر بہت خوش ہورہا تھا ۔ میں سوچ رہا تھا کہ جب سکول کے دوستوں کو اس بارے میں بتائوں گا تو وہ کس قدر حیران ہوں گے ۔ یہ شکار میرے لئے واقعی ایک یادگار سے کم نہیں تھا ۔ بندر پکڑنے کے بعد ہم دوبارہ کنارے پر آگئے اور کنارے پر موجود ٹھنڈی ٹھنڈی ریت کے اوپر بیٹھ گئے ۔
’’عمار ! کیا تم بتائو گے کہ بندرشکنجے میں کیوں آیا ؟ ‘‘ چچا جان نے مجھے مخاطب کیا ۔
’’بالکل چچا جان! بندر لالچ کی وجہ سے شکنجے میں پھنسا ہے ۔‘‘ میں نے جواب دیا ۔
’’بالکل درست! چاولوں کی لالچ نے بندر کو ہمیشہ کے لئے غلام بنادیا ہے لیکن بندر کو یہ معلوم نہیں کہ آزادی ان چاولوں سے کہیں زیادہ اہم ہے ۔‘‘ چچا جان نے کہا اور پھر آگے بڑھ کر ترپال نما بیگ جس میں بندر قید تھا کو کھول دیا۔ پلک جھپکتے ہی بندر چھلانگیں لگاتا ہوا بھاگ نکال ۔ اس کا ایک ہاتھ ابھی تک ناریل میں پھنسا ہوا تھا اور مجھے بندر کا ناریل کے ساتھ چھلانگیں لگانے کا منظر انتہائی مضحکہ خیز لگ رہا تھا ۔ بندر کی چھلانگیں اور رفتار دیکھ کر ہم سب ہنسنے لگے۔
’’بندر کی قید میں ہمارے لئے ایک سبق بھی پنہاں ہے۔‘‘ چچا جان نے دوبارہ بولنا شروع کیا ۔’’ اسی لئے میں تمھیں یہاں لایا ہوں تاکہ تم یہ سب دیکھ سکو ۔‘‘
میں نے سوالیہ نظروں کے ساتھ چچا جان کی طرف دیکھا تو ان کے چہرے پر مسکراہٹ رقص کررہی تھی۔ چچا جان کا نام بہادر خان تھا اور آج مجھے وہ اپنے نام کے مصداق سے ایک بہادر انسان دکھ رہے تھے ۔ چچا جان اس پورے ضلع کے فاریسٹ آفیسر تھے ۔
چچا جان کو ہمارے خاندان میں ایک منفرد اور امتیازی حیثیت حاصل تھی کیونکہ وہ سب سے منفرد ذہن کے مالک تھے ۔ جہاں میرے اباجان اور ان کے دیگر بھائی بڑے بڑے شہروں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے اور کافی روپیہ پیسہ کمارہے تھے وہاں چچا جان نے محکمہ جنگلات کی اس منفرد ملازمت کو ترجیح دی تھی ۔ مجھے ابو جان کی بتائی ہوئی بات بھی یاد آرہی تھی کہ چچا جان ہمارے خاندان میں سب سے ذہین اور باصلاحیت شخص ہیں ۔ مجھے اس بات پر بھی حیرانی ہورہی تھی کہ چچا جان ایک کامیاب انجینئر ، ڈاکٹر ، بزنس ایگزیکٹو یا بیوروکریٹ بھی تو بن سکتے تھے لیکن انہوں نے فاریسٹ آفیسر کی ملازمت کا ہی کیوں انتخاب کیا ؟
’’ تو عمار بیٹا ! آپ کو یہاں آکر کیسا لگا ؟‘‘ چچا جان کی آواز نے مجھے خیالات کے بھنور سے باہر نکالا ۔
’’ بہت اچھا چچا جان!‘‘ میں نے جواب میں کہا ۔ ’’آج کا دن میری زندگی کا ایک یادگار دن ہے ، میں اسے کبھی فراموش نہیں کرپائوں گا ۔ اور آپ کو سچ بتائوں تو لاہور میں‘ میں بالکل اکیلا پڑگیا تھا ، وہاں کسی کے پاس کسی دوسرے کے لئے وقت نہیں ہے ۔‘‘
’’کیوں ؟؟؟‘‘ انہوں نے شفقت بھرے انداز میں پوچھا۔
’’امی جان اور ابو جان دونوں ہی اپنے اپنے دفتری امور میں مصروف رہتے ہیں اور رات کو واپس لوٹتے ہیں ، اس کے بعد مختلف تقریبات ، بزنس ڈنرز اور سیمینارز پر بھی جانا ہوتا ہے ، ایک اتوار کا ہی دن بچتا ہے جو وہ سوکرگزاردیتے ہیں یا اس دن بھی کوئی دفتری میٹنگ آجکڑتی ہے۔‘‘ میں نے غمگین لہجے میں جواب دیا ۔
’’ہاہاہا…ہاہاہا!‘‘ میری بات سن کر چچا جان زور دار قہقہے لگانے لگے۔’’ اسے کہتے ہیں بندر کا شکنجہ… یہ سب اسی شکنجے میں جکڑے ہیں…پیسہ کمانے کی کالچ نے انھیں اثیر کررکھا ہے…یہ سب چوہوں کی دوڑ میں شریک ہیں ۔‘‘
بظاہرچچا جان یہ سب مذاق کے موڈ میں کہہ رہے تھے لیکن مجھے ان کی باتیں بالکل صحیح لگ رہی تھیں ۔ وہ کچھ دیر یونہی ہنستے رہے اور پھر مجھ سے پوچھا ۔
’’عمار بیٹا! مجھے بتائو ، تم زندگی میں کیا کرنا چاہتے ہو؟‘‘
’’ابھی تک کچھ معلوم نہیں !‘‘ میں نے سادہ سا جواب دیا۔
’’ اوہ ….. ہو ….. عمار بیٹا ! تم پندرہ سال کے ہوگئے ہو ، اب وقت آگیا ہے کہ تم اپنے مستقبل کے متعلق فیصلہ کرو۔‘‘ چچا جان بُرا سا منہ بناتے ہوئے بولے ۔ ’’ویسے مستقبل کی زندگی کے لئے تمہارامنصوبہ کیا ہے؟‘‘
’’چچا جان! اس کا دارومدار تو میرے امتحانات کے نتائج پر ہے ۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ مجھے یقین ہے تم اچھے نمبروں سے پاس ہوجائو گے ، فرض کرو تم 90 فیصد نمبروں کے ساتھ پاس ہوجاتے ہو ، پھر تمہارا فیصلہ کیا ہوگا ؟‘‘
’’اگر ایسا ہی ہوا تو میں سافٹ وئیر انجینئر بننا چاہوں گا ۔‘‘
’’سافٹ وئیر انجینئر ؟‘‘ میرا جواب سن کر چچا جان چونک پڑے ۔ شاید انھیں مجھ سے کسی اور شعبے کی توقع تھی۔ ’’سافٹ وئیر انجینئر ہی کیوں ؟کوئی اس سے بھی دلچسپ شعبہ کیوں نہیں ؟ جیسے آرٹس ، لٹریچر ، فلسفہ ، تاریخ اور انسانیت وغیرہ ۔‘‘
’’چچا جان! اس وقت جاب مارکیٹ میں سافٹ وئیر انجینئر کی بہت مانگ ہے ، اس لئے !‘‘میں نے وضاحت پیس کرتے ہوئے کہا ۔
’’اچھا اچھا …!‘‘ وہ سر ہلاتے ہوئے بولے ۔’’پھر اس کے بعد ؟‘‘
’’پھر شاید مزید تعلیم کے لئے بیرون ملک چلا جائوں۔‘‘
’’لیکن عمار بیٹا ! تم اتنی زیادہ تعلیم کس لئے حاصل کرنا چاہتے ہو ؟‘‘
’’ظاہری بات ہے چچا جان! سب سے اچھی جاب پانے کے لئے !‘‘
’’ اور ڈھیر سارے پیسے کمانے کے لئے بھی !‘‘ اس بار چچا جان نے اضافہ کیا۔
’’یقیناً۔‘‘ میں نے اثبات میں سرہلاتے ہوئے کہا ۔ ’’تاکہ میں اپنی زندگی سے لطف اندوز ہوسکوں ۔‘‘
’’ ہاہاہا…‘‘میری بات سن کر چچا جان نے ایک بار پھر زوردار قہقہہ لگایا ۔’’ میرے پیارے بھتیجے! کیا تم اس لمحے زندگی سے لطف اندوز نہیں ہورہے ہو ؟ کیا میں زندگی سے لطف اندوز نہیں ہورہا ؟ یادرکھو اگر تم زندگی کی ان خوشیوں کی قدر نہیں کرو گے جو اس لمحے تمہارے پاس ہیں تو ساری زندگی خوشیاں تلاش کرتے ہی رہ جائو گے ۔‘‘
میں نے چچا جان کی بات سن کر اثبات میں سرہلادیا۔
’’ ایک دانش ور نے کہا تھا کہ اگرتم اپنے کام میں خوشی تلاش کرکے اسے انجام دو گے تو وہی کام تمہارے لئے خوشی کا باعث ہوگا اور اگر تم اپنے کام کو محض ڈیوٹی سمجھ کر کرو گے تو یہ ہی کام تمہارے لئے غلامی کا احساس پیدا کرتا رہے گا۔‘‘
’’غلامی …مطلب بندر کا شکنجہ ؟‘‘ میں نے چچا جان کی بات کو سمجھتے ہوئے کہا ۔
’’ شاباش ! تم اس نقطے پر پہنچ گئے ہو جو میں تمھیں سمجھانا چاہ رہا ہوں ۔عمار بیٹا ! میں نے تمہاری سوچ کو ایک درست سمت دے دی ہے، اب درست فیصلہ کرنا تمہارا کام ہے ۔‘‘ چچا جان نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
ادھر چچا جان کی باتوں نے مجھے حقیقت سے آشکار کردیا تھا اور میں یہ فیصلہ کرچکا تھا کہ میں بندر کے شکنجے میں پھنسنے کی بجائے ایسے کیرئیر کا انتخاب کروں گا جو مجھے ساری زندگی حقیقی خوشیاں اور راحت کا سامان باہم پہنچاتا رہے ۔

٭٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ لکھیں