تحریر: ڈاکٹر رضوان ثاقب
امجد صاحب پرائمری سکول میں پڑھاتے تھے۔ گائوں کے سارے چھوٹے بڑے انہیں ’’ ماسٹر جی‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ان کی بیگم راحیلہ لکھی پڑھی خاتون نہ تھیں۔ قرآن مجید ناظرہ پڑھا ہوا تھا اور اسلام کی بنیادی تعلیمات سے واقف تھیں۔ شادی کے ایک سال بعد ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں چاند سا بیٹا دے دیا ۔ راحیلہ بہت خوش تھیں۔ اب تو وہ دن رات اس بارے میں گفتگو کرتے رہتے تھے کہ اپنے بیٹے کو لکھا پڑھا کر ڈاکٹر بنائیں گے ۔ راحیلہ کبھی کہتی کہ ڈاکٹر بن کر یہ امریکہ یا برطانیہ جائے گا اور خوب پیسے کمائے گا تو امجد صاحب ٹوک دیتے ’’ دیکھو راحیلہ ! رزق تو وہی ملتا ہے جو انسان کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے ۔ ہم اپنے بیٹے طاہر کو کبھی بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیں گے۔‘‘ راحیلہ اثبات میں سر ہلادیتی اور امجد صاحب بھی خوش ہوجاتے۔ وقت پر لگاکر گزرنے لگا ۔ طاہر ابھی تین سال کا ہی ہوا تھا کہ قدرت کا کرنا ایسا ہوا کہ راحیلہ کو ہیضہ کا عارضہ ہوگیا ۔ گائوں کے ڈاکٹر سے دوا لی مگر افاقہ نہ ہوا ۔ امجد صاحب نے طاہر کو اپنی ہمسائی کے سپرد کیا اور راحیلہ کو شہر لے گئے ۔
شہر میں ڈاکٹر نے راحیلہ کو چیک کیا اور جلدی سے ایک ٹیکہ لگادیا ۔ ٹیکہ لگانے کی دیر تھی کہ راحیلہ کا رنگ پیلا ہونا شروع ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی سانسوں کی ڈوری ٹوٹ گئی اور وہ اس دنیا کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ گئی ۔ امجد صاحب کو راحیلہ کی وفات کا بہت دکھ ہوا ۔ وہ انتہائی ایماندار استاد تھے ۔ اپنی ڈیوٹی انتہائی دیانت داری سے انجام دیتے تھے ۔ انہوں نے جب راحیلہ کی وفات کے بارے میں سوچنا شروع کیا تو انہیں اس کی وفات کی وجہ معاشرے کی بے ایمانی اور بددیانتی نظر آئی ۔ یہ راحیلہ کی وفات سے ایک دن پہلے کی بات ہے کہ امجد صاحب قریبی قصبے میں اپنی تنخواہ لینے گئے ہوئے تھے ۔ واپسی پر انہوں نے سوچا کہ راحیلہ کیلئے کچھ کھانے پینے والی چیزیں ہی لے لیں ۔ قصبے کے چوک میںمچھلی والے کی دکان تھی ۔ وہاں سے تلی ہوئی مچھلی خریدی اور گھر آگئے ۔ راحیلہ تلی ہوئی مچھلی دیکھ کر خوشی ہوئی ، مگر جب کھانے لگی تو بولی : ’’ مجھے یہ مچھلی تازہ نہیں لگتی۔‘‘
’’ سب سے مشہور دکان سے لایا ہوں اور مہنگی بھی بہت ملی ہے۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ باسی ہو۔‘‘ امجد صاحب بولے اور ساتھ ہی ایک لقمہ مچھلی کا چھکا۔ اور پھر راحیلہ پورے اعتماد سے ساری مچھلی کھاگئی ۔ مگر مچھلی کھانے کے تھوڑی ہی دیر بعد راحیلہ کا جی متلانا شروع ہوگیا ۔ اور پھر اسے ہیضے کا عارضہ ہوگیا ۔ امجد صاحب سوچ رہے تھے کہ اگر وہ دکاندار ایمانداری سے کام لیتا اور باسی مچھلی فروخت نہ کرتا تو یقینا راحیلہ بیمار نہ ہوتی ۔ وہ بار بار سوچتے کہ مچھلی فروش کیسا مسلمان ہے کہ اسے علم ہی نہیں کہ ہمارے پیارے رسول کریم ﷺ نے عیب والی چیز فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے ۔ ایک بار سول خدا ﷺ کا گزر اناج کے ایک ڈھیر پر ہوا ۔ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ اس میں ڈالا تو آپ ﷺ کی انگلیوں کو تری محسوس ہوئی ( کیونکہ اناج اندر سے گیلا تھا) آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے اناج والے یہ تونے کیا کیا ۔ (یہ تو اندر سے گیلا ہے) اس نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ اس پر بارش ہوگئی تھی ۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ پھر اس گیلے حصے کو اناج کے اوپر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیتے( اور آپ ﷺ نے فرمایا) ’’جس نے دھوکہ دیا وہ مجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔‘‘ (مسلم شریف )
پھر امجد صاحب سوچتے کہ اللہ کو یہی منظور تھا ، مگر دوسرے ہی لمحے ان کے ذہن میں خیال آتا کہ ڈاکٹر کے ٹیکہ لگاتے ہی راحیلہ کا رنگ نیلا پیلا ہوگیا تھا ۔ یقینا وہ دوائی جو ٹیکے میں موجود تھی وہ جعلی تھی۔ ورنہ ایسا نہ ہوتا ۔ دوائیوں میں ملاوٹ کرنا کتنی بڑی بددیانتی ہے۔ دوائیوں میں ملاوٹ کرنے والے کے بارے میں تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ مال و دولت کی حرص نے اسے اندھا کردیا ہے۔ وہ اتنا بے ضمیر ہوگیا ہے کہ اسے اس بات کا بھی خیال نہ رہا کہ کتنے بے گناہ مریضوں کا خون وہ اپنے سرلیتا چلا جارہا ہے ۔ امجد صاحب پھر سوچتے کہ راحیلہ کی زندگی ہی اتنی تھی۔ ورنہ یہ سب کچھ نہ ہوتا، مگر دوسرے ہی لمحے انہیں خیال آتا کہ مچھلی فروش بددیانت تھا ۔ اس کی سزا اسے تو جو ملے گی سو ملے گی، مگر مجھے راحیلہ اور طاہر کو بھی تو اس کی سزا ملے گی ۔ دوا ساز بددیانت تھا۔ اس کی سزا اسے جو ملے گی سو ملے گی، مگر اس کی سزا مجھے ، راحیلہ اور طاہر کو بھی ملی ہے ۔ پھر اچانک ان کے ذہن میں خیال آیا کہ ڈاکٹر جو حکومت سے تنخواہ لیتے ہیں یا عوام سے بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں تاکہ لوگوں کی بیماری کی صحیح تشخیص کرکے ان کا درست علاج کریں ۔ اگر وہ یہ کام پوری امانت داری اور دیانت داری سے نہ کرے تو وہ یقینا بددیانت ہے۔ اگر دوائی جعلی تھی تو راحیلہ کو اس کا انجکشن لگانے سے پہلے ڈاکٹر کو تحقیق کرلینی چاہیے تھی ۔ امجد صاحب یہ سوچ کر بہت رنجیدہ اور افسردہ ہوگئے ، مگر اچانک ان کے چہرے پر مسکراہٹ لوٹ آئی۔ دیکھنے والے کہنے لگے کہ ماسٹر جی شاید بیگم کے غم میں حواس کھوبیٹھے ہیں ۔ کبھی افسردہ ہوجاتے ہیں اور کبھی ان کا چہرہ پھیکی مسکراہٹ سے کھل اٹھتا ہے۔ مگر امجد صاحب حواس نہیں کھوبیٹھے تھے، بلکہ ان کے حواس تو اب قائم ہوئے تھے ، کیونکہ بیگم کی وفات کے بعد انہیں ایک انمول خزانہ مل گیا تھا۔ ان کے ذہن نے دنیا اور آخرت کی خوشی اور سکون کا راز پالیا تھا۔ وہ اپنے ذہن پر زور دینے لگے ۔
’’ بددیانت مچھلی فروش کی سزا معاشرے کو ملی ۔‘‘
’’ بددیانت دوا ساز کی سزا معاشرے کو ملی ۔‘‘
’’ بددیانت ڈاکٹر کی سزا معاشرے کو ملی ۔‘‘
’’ اگر معاشرے کو پرسکون اور خوش باش رکھنا ہے تو ہمیں ہر فرد کو امانت دار اور دیانت دار بنانا ہوگا ۔ اسی میں دنیا اور آخرت کی خوشی اور سکون پہناں ہے۔ طاہر انجینئر بنے یا ڈاکٹر ، یہ اس کی مرضی ہوگی ، مگر میں اس کو امانت اور دیانت کا پیکر ضرور بنائوں گا، تاکہ کل کو کوئی بچہ طاہر کی وجہ سے اپنی ماں سے محروم نہ ہو اور ہاں میں تو معلم ہوں۔ حکومت سے تنخواہ لے کر بچوں کو زیور علم سے آراستہ کرتا ہوں۔ سب سے پہلے تو مجھے اپنے شعبہ میں پوری ایمانداری اور دیانت داری دکھانا ہوگی ۔ میں بچوں کو پوری توجہ سے تعلیم دوں گا اور انھیں امانت اور دیانت کا پیکر بنائوں گا۔‘‘
اگلے دن صبح جب امجد صاحب سکول کے لئے روانہ ہوئے تو طاہر بھی ان کے ساتھ تھا ۔ اسمبلی کے بعد بچے جب اپنی اپنی کلاس میں جانے کے لئے مڑنے لگے تو امجد صاحب نے کہا کہ سب بچے اپنی اپنی جگہ بیٹھ جائیں۔ بچے جب اپنی جگہ بیٹھ گئے تو امجد صاحب یوں گویا ہوئے :
’’ پیارے بچو ! میرے پاس ایک انمول خزانہ ہے، جسے میں نے بھاری قیمت ادا کرکے حاصل کیا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ یہ انمول خزانہ میں آپ کو بغیر کسی قیمت کے دے دوں ۔‘‘
بچے یہ بات سن کر پوری طرح متوجہ ہوگئے تو ماسٹر صاحب کہنے لگے۔
’’ پیارے بچو ! بددیانت اور بے ایمان شخص نہ صرف خود دنیا اپنی دنیا اور آخرت تباہ کرتا ہے بلکہ اس کی بددیانتی سے معاشرے کے دوسرے افراد بھی افسردہ ، غمگین اور پریشان ہوتے ہیں۔ بے ایمان اور بددیانت شخص کسی کو تو ایک بار دھوکہ دے لیتا ہے ، مگر ایک بار کے دھوکہ سے وقتی فائدہ حاصل کرنے کے بعد اس پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اس طرح اس کا کاروبار ٹھپ ہوجاتا ہے ۔ جس شخص کو وہ ایک بار دھوکہ دیتا ہے اسے بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جس سے وہ افسردہ و غمگین ہوجاتا ہے ۔ یوں اس شخص کی پریشانی کا گناہ بھی اس شخص کو ہوتا ہے ۔ اس لئے ہمیں اپنی اور دوسروں کی خوشی اور ابدی سکون کے لئے امانت اور دیانت پر مضبوطی سے عمل کرنا چاہیے ۔‘‘
’’ ابا جان ! یہ امانت اور دیانت کیا ہوتی ہے؟‘‘ طاہر نے امجد صاحب سے قدرے توتلی زبان میں پوچھا ۔
’’ ہاں میرے بچو ! مجھے یہ تو سب سے پہلے بتانا چاہیے تھا ۔ کسی چیز کا اصل مالک جب اپنی چیز کسی اور کی حفاظت میں رکھواتا ہے تو اس چیز کو امانت کہتے ہیں اور دوسرے شخص نے اس چیز کو حفاظت سے رکھا ساری شے یا کچھ حصے کو غصب کرنے کی کوشش نہ کی ، نہ اس میں کوئی خرابی پیدا کی اور مطالبہ پر جوں کا توں اس پہلے شخص کو واپس لوٹا دیا تو یہ دیانت ہے۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد امجد صاحب تھوڑی دیر کے لئے خاموش ہوئے اور پھر بولے :
’’ پیارے بچو! اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو جو صلاحیتیں اور اختیارات دئیے ہیں وہ اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں۔ اگر وہ ان امانتوں کو پوری دنیانتداری سے استعمال کرتا ہے ان کے ذریعے حلال رزق کماتا ہے ۔ دھوکہ دہی ، ملاوٹ، فرائض سے غفلت، سے کام نہیں لیتا تو وہ دیانت دار کہلائے گا ۔‘‘
ماسٹر صاحب کی بات ختم ہوئی تو سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے بچوں کو کھڑے ہونے کے لئے کہا۔ جب بچے اپنی اپنی قطار میں کھڑے ہوگئے تو ہیڈ ماسٹر صاحب بولے :
’’ پیارے بچو ! آپ کو اپنی اپنی کلاس میں جانے سے پہلے میں صرف اتنا کہوں گا کہ زندگی میں ہمیشہ ہر معاملہ میں امانت و دیانت کو پیش نظر رکھنا۔ کیونکہ خیانت یا بددیانتی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے نزدیک اتنی ناپسندیدہ شے ہے کہ اگر کوئی دوسرا انسان خیانت کرے تو جواباً بھی اس کے ساتھ خیانت کرنے کی اجازت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس نے تیرے پاس امانت رکھی ہو ، اس کی امانت ادا کر اور جس نے تیرے ساتھ خیانت کی ہو ، تو اس کے ساتھ خیانت نہ کر ۔‘‘ (ترمذی)
اس کے بعد بچوں کو اپنی اپنی کلاس میں جانے کے لئے کہا گیا ۔ بچے آج خوشی خوشی اپنے کمروں کی طرف بڑھ رہے تھے ۔ وہ خوش کیوں نہ ہوتے، امجد صاحب کو اپنی بیگم راحیلہ کی قربانی دے کر جو انمول خزانہ ملا تھا بچوں کو آج وہ بالکل مفت مل گیا تھا ۔
Tags:- بچوں کی کہانیاں بچوں کی کہانیاں اردو میں pdf انمول خزانہ - ڈاکٹر رضوان ثاقب Anmool Khazana by Dr. Rizwan Saqib moral urdu stories moral stories for kids in urdu