کالے نقطوں سے مثبت سوچ کی طرف – ایک سبق آموز کہانی
تحریر: عاطف فاروق
تربیتی سیشن کا آغاز
بریک ختم ہونے کی گھنٹی بجتے ہی طلبہ اپنے اپنے کمرہ ء جماعت میں جانے کی بجائے سکول کے مین ہال میں جمع ہوگئے۔ ہال کو بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ اسٹیج کے سامنے کی کرسیاں اساتذہ کرام کیلئے مختص کی گئی تھیں جبکہ ان کے پیچھے طلبہ کے لئے بیٹھنے کا انتظام تھا۔ اسٹیج پر سکول کے رئیسِ ادارہ اور دیگر اعلیٰ انتظامی عہدیداران کیلئے صدارتی کرسیاں سجائی گئی تھیں جبکہ ڈائس، ساؤنڈ سسٹم اور ملٹی میڈیا پروجیکٹر بھی نصب کئے گئے تھے۔ یہ ساری تیاریاں اختر عباس صاحب کے تربیتی سیشن کے لئے ترتیب دی گئیں تھیں۔ اختر عباس صاحب کا شمار ملک کے نامور تربیت کاروں میں ہوتا تھا۔ وہ ایک کہنہ مشق تربیت کار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک معروف سکالر، ادیب اور افسانہ نگار بھی تھے۔ ملک کے بڑے بڑے تعلیمی و کاروباری ادارے ان کے تربیتی سیشن منعقد کروانا قابلِ فخر سمجھتے تھے۔ گو کہ یہ سکول اتنا بڑا نہیں تھا اس کے باوجود سکول انتظامیہ نے طلبہ کے لئے اختر عباس صاحب کی خدمات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور آج کا یہ پروگرام اور ساری تیاریاں اسی تربیتی سیشن کے لئے کی گئی تھیں۔
کچھ ہی دیر بعد اختر عباس صاحب سکول انتظامیہ کے ہمراہ ہال میں داخل ہوئے تو طلبہ نے تالیاں بجاکر ان کا پُر تپاک استقبال کیا۔ تلاوتِ کلام پاک، حمد اور نعت کے بعد رئیسِ ادارہ نے طلبہ کو اختر عباس صاحب کا مختصر تعارف کروایا اور تربیتی سیشن کا باقاعدہ آغاز کرنے کے لئے اختر عباس صاحب کو ڈائس پر آنے کی دعوت دی۔ ان کے ڈائس پر پہنچتے ہی ملٹی میڈیا پروجیکٹر بھی آن کردیا گیا جبکہ ہال کی غیر ضروری بتیاں بھی بجھا دی گئیں تاکہ حاضرین کو پروجیکٹر پر سلائیڈز واضح نظر آسکیں۔
”دوستو! آج کا تربیتی سیشن شروع کرنے سے پہلے میں آپ کا ایک سرپرائز ٹیسٹ لینا چاہوں گا۔“ اختر عباس صاحب نے مسکراتے ہوئے اپنی بات کا آغاز کیا۔
سرپرائز ٹیسٹ کا سن کر طلبہ ایک دوسرے کی طرف حیرانی سے دیکھنے لگے۔ اساتذہ اپنے تئیں الگ پریشان تھے کہ کہیں اختر عباس صاحب ان سے کوئی ایسا سوال ہی نہ پوچھ لیں جس کا جواب انھیں نہ آتا ہو۔ تربیتی سیشن کے آغاز سے پہلے اساتذہ اور طلبہ یہی سوچ کر بیٹھے تھے کہ اختر عباس صاحب آدھا پونا گھنٹہ اپنی مفکرانہ اور دانشورانہ باتوں کا جادو چلائیں گے اور پھر سیشن اختتام پذیر ہوجائے گا۔ کسی سرپرائز ٹیسٹ سے متعلق انھیں قطعاً کوئی توقع نہیں تھی۔
”تو دوستو! کیا آپ تیار ہیں؟“ اختر عباس صاحب نے قدرے بلند آواز سے پوچھا اور نتیجے میں حاضرین کی طرف سے مِلا جُلا ردعمل پاکر ہاتھ کے اشارے سے سب کی توجہ ملٹی میڈیا پروجیکٹر کی طرف مبذول کروائی۔
سرپرائز ٹیسٹ کا انوکھا سبق
سلائیڈ میں ایک لیٹر سائز کا سفید صفحہ دکھائی دے رہا تھا جس کے عین وسط میں ایک چھوٹا سا کالا نقطہ واضح نظر آرہا تھا۔ ہال میں بیٹھے حاضرین کی نظریں اسی کالے نقطے پر جم چکی تھیں۔ کچھ طلبہ تو آپس میں سرگوشیاں کررہے تھے کہ یہ کالا نقطہ ضرور ”ہیپناٹزم“ والا ہی ہے جس کو مسلسل دیکھتے رہیں تو یہ مختلف رنگ بدلتا نظر آتا ہے جبکہ کچھ اساتذہ کا خیال یہ تھا کہ اگلی سلائیڈ سے کالے نقطے کی حقیقت کا مکمل ادراک ہوجائے گا اس لئے وہ اگلی سلائیڈ کے انتظار میں تھے۔
”میرے دوست! ذرا کھڑے ہوجائیے!“ اختر عباس صاحب نے تیسری لائن میں بیٹھے ایک طالب علم کو ہاتھ کے اشارے سے متوجہ کیا۔ ”کیا آپ بتائیں گے کہ سلائیڈ پر آپ کو کیا نظر آرہا ہے؟“
طالبِ علم ہچکچاتے ہوئے اٹھا اور بولا:
”سر! یہ تو محض ایک کالا نقطہ ہے۔“
”کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ سلائیڈ میں کیا نظر آرہا ہے؟“ انہوں نے درمیانی لائن میں بیٹھے ایک اور طالب علم کی طرف اشارہ کرکے پوچھا۔
”جی سر! یہ ایک کالا نقطہ ہے جو کاغذ کے وسط میں ہے۔“ طالب علم نے اعتماد سے جواب دیا اور اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔
”اور آپ بھی بتادیں!“ اب کی بار انہوں نے آخری لائن سے طالب علم کا انتخاب کیا۔
”سر! مجھے بھی یہ کالا نقطہ ہی نظر آرہا ہے۔“ طالبِ علم نے جواب دیا اور وہ بھی اپنی نشست پر بیٹھ گیا۔
اگلے پانچ منٹ یہی سلسلہ جاری رہا اور ہال میں بیٹھے بیس سے زائد حاضرین جن میں اساتذہ کرام بھی شامل تھے‘ سب سے یہی سوال پوچھا گیا اور سب نے اس کا جواب بھی ”کالا نقطہ“ ہی بتایا۔ سلائیڈ سے متعلق حاضرین کی مجموعی رائے جاننے کے بعد اختر عباس صاحب نے دوبارہ بولنا شروع کیا۔
زندگی کا گہرا سبق
”دیکھئے! اس سرپرائز ٹیسٹ کا مقصد آپ کو نمبرز یا گریڈ دینا نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے میں آپ کو ایک سوچ دینا چاہتا ہوں۔ ہال میں موجود تقریباً سبھی حاضرین کا ماننا ہے کہ یہ محض ایک ’کالا نقطہ‘ ہے لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ جس سفید کاغذ کے وسط میں یہ نقطہ موجود ہے اس کے بارے میں کسی نے نہیں بتایا۔ سب کی مرکزِ نگاہ ’کالا نقطہ‘ ہی کیوں ہے؟ اور سفید کاغذ جو کہ اس نقطے سے کئی گُنا بڑا ہے، اس کے متعلق کسی نے کیوں نہیں بتایا؟“
اتنا بولنے کے بعد وہ سوالیہ نظروں سے حاضرین کی طرف دیکھنے لگے۔ ہال میں بیٹھے سب حاضرین گہری سوچ میں گم ہوچکے تھے لیکن ان کی نگاہیں اختر عباس صاحب پر مرکوز تھیں۔ چند لمحے توقف کے بعد انہوں نے دوبارہ اپنی بات شروع کی۔
”میرے دوستو! یہاں ہم نے سفید کاغذ کو یکسر نظر انداز کردیا اور ہماری مرکزِ نگاہ صرف ’کالا نقطہ‘ ہی رہا۔ آپ سب کو سمجھانے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ہماری حقیقی زندگی میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے جہاں ہمارے پاس زندگی سے لُطف اندوز ہونے کے لئے بہت بڑا سفید کاغذ موجود ہے لیکن اس کے باوجود ہم لوگ ان چھوٹے چھوٹے کالے نقطوں کو اپنی نگاہوں کا مرکزومحور بنالیتے ہیں۔ یہ زندگی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیا ہوا ایک انعام اور سب سے بیش قیمت تحفہ ہے اور اس میں جابجا خوشیاں اور نعمتیں ہیں لیکن ہم ان خوشیوں سے لُطف اندوز ہونے اور ربِ ذوالجلال کی بے پایاں نعمتوں سے استفادہ کرنے کی بجائے انہی کالے نقطوں میں مگن ہوئے بیٹھے ہیں۔ دولت کی ہوس، اقتدار کا نشہ، اخلاقی قدروں کی پامالی، ظلم و جبر، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی بھاگم بھاگ اور دوسروں کو نیچا دکھانے کی جستجو جیسی منفی سرگرمیاں اور سوچ و بچار یہ سب ’کالے نقطے‘ ہی تو ہیں۔“
اختر عباس صاحب اتنا کہنے کے بعد ایک بار پھر خاموش ہوگئے۔ ہال میں بیٹھے تمام حاضرین پر تو جیسے سکتہ طاری تھا۔ وہ سب ہمہ تن گوش ہوکر ان کی باتیں سن رہے تھے۔
”آج کے اس تربیتی سیشن کا موضوع بھی یہی ہے۔ کالے نقطے کی مثال دے کر جو بات میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ انسانی شخصیت میں مثبت و منفی سوچ اور رویوں کا کردار ہے۔ ایک منفی سوچ کا حامل شخص منفی عمل کو جنم دیتا ہے جبکہ مثبت فکر کا حامل تعمیری فعل انجام دیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص دوسروں کو بُرا سمجھتا ہے اور ان کے خلاف بدگُمانی اور نفرت رکھتا ہے۔ ممکن ہے کہ وہ ان مخالفین کے خلاف موقع ملتے ہی انتقامی کاروائی کربیٹھے۔ اگر نہیں تو وہ خود کو انتقام کی آگ میں جلا کر اذیت دیتا رہے۔ دوسری جانب مثبت سوچ کی مثال ہے جو مثبت عمل کو جنم دیتی ہے۔ فرض کریں کہ ایک شخص کو یقین ہے کہ وہ مقابلہ جیتے گا۔ چنانچہ وہ محنت کرتا ہے اور نتیجے کے طور پر کامیابی اس کے قدموں تلے ہوتی ہے۔ مثبت طرزِ فکروعمل کا انجام کامیابی اور منفی کا انجام ناکامی ہے خواہ اس کا تعلق دنیا سے ہو یا آخرت سے ہو۔ ہمارے معاشرے میں لوگوں کی اکثریت منفی رویوں کے محدود خول میں بند رہ کر زندگی گزارتی ہے۔ ایسے لوگ بند پنجروں سے باہر جھانکنے اور نکلنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کرتے۔ وہ مثبت رویوں کی نشاط انگیز اور فرحت بخش قوت سے لطف اندوز ہونے سے زندگی بھر محروم رہتے ہیں۔ جو لوگ ہمیشہ مثبت ردِعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ ہردلعزیز شخصیت کے مالک ہوتے ہیں جبکہ منفی ذہنیت کے پیچھے جسمانی، جذباتی اور عقلی اعتبار سے ایک کمزور شخصیت ہوتی ہے۔ اب یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کیا ہر شخص منفی سوچ اور رویوں کے محدود خول سے نکل کر مثبت سوچ اور رویوں کی فرحت بخش قوت سے لطف اندوز ہوسکتا ہے؟ اور اس کا جواب ہے ’ہاں‘۔ یادرکھیئے! مثبت سوچ اور رویے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کو بطورِ تحفہ اس کی جبلت میں ودیعت کردئیے گئے ہیں اور منفی سوچ اور رویے انسان خود اپنی شخصیت میں پروان چڑھاتا ہے۔ ایک چھوٹا بچہ صرف مثبت رویوں کا حامل ہوتا ہے۔ منفی رویوں سے وہ آشنا تک نہیں ہوتا۔ حالات اور غلط تعلیم و تربیت کی وجہ سے منفی سوچ اور رویے اس کی شخصیت کا حصہ بنتے جاتے ہیں اور مثبت رویے غیر متحرک یعنی Inactive ہوتے جاتے ہیں۔ ان کو متحرک یعنی Active کیا جاسکتا ہے لیکن اس کے لئے آپ کو آپ کو ایک عمل کرنا پڑے گا۔ دائیں ہاتھ کی مُٹھی پوری قوت سے بند کرتے ہوئے ہاتھ کو جھٹکا دیں اور یہ جملے باری باری دُہراتے جائیں۔“
مثبت سوچ کی طاقت
اتنا کہنے کے بعد انہوں نے ایک بار پھر ملٹی میڈیا پروجیکٹر کی طرف اشارہ کیا جس پر ایک نئی سلائیڈ نمودار ہوچکی تھی جس پر کچھ جملے جلی الفاظ میں تحریر تھے۔
1……اللہ تعالیٰ نے میرے اندر محبت کی قوت رکھی ہے، میں کیوں کسی سے نفرت کروں۔
2……اللہ تعالیٰ نے میرے اندر اُمید کی قوت رکھی ہے، میں نااُمید کیوں ہوں۔
3……اللہ تعالیٰ نے میرے اندر صبر کی قوت رکھی ہے، میں بے صبرا کیوں ہوں۔
4……اللہ تعالیٰ نے میرے اندر دوسروں کی تعریف کرنے کی صلاحیت رکھی ہے، میں کسی کی بُرائی کیوں بیان کروں۔
5……اللہ تعالیٰ نے میرے اندر رشک کرنے کی صلاحیت رکھی ہے، میں کسی سے حَسد کیوں کروں۔
6……اللہ تعالیٰ نے میرے اندر خوش رہنے کی صلاحیت رکھی ہے، میں افسُردہ یا غمزدہ کیوں ہوں۔
7……اللہ تعالیٰ نے مجھے سیدھی راہ پر چلنے کی قوت سے نوازا ہے، میں بُرے کام کیوں کروں۔
8……اللہ تعالیٰ نے مجھے حالات کا سامنا کرنے کی صلاحیت دی ہے، میں خوفزدہ کیوں ہوں۔
9……اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف کرنے کی صلاحیت دی ہے، میں کسی سے انتقام کیوں لوں۔
10……اللہ تعالیٰ نے مجھے جوش و جذبہ سے نوازا ہے، میں پژمرُدہ کیوں ہوں۔
11……اللہ تعالیٰ نے مجھے مسلسل کام کرنے کی صلاحیت دی ہے، میں سُستی و غفلت کا مظاہرہ کیوں کروں۔
12……اللہ تعالیٰ نے میرے اندر جرأت کی قوت رکھی ہے، میں بُزدل کیوں ہوں۔
13……اللہ تعالیٰ نے میرے اندر دوستی کرنے کی صلاحیت رکھی ہے، میں کسی سے دشمنی کیوں رکھوں۔
14……اللہ تعالیٰ نے مجھے اطمینان کی قُوَت سے نوازا ہے میں بے چین کیوں ہوں۔
”ایسا کرنے سے انسان کے ارادہ کو تقویت ملتی ہے اور اعصاب بھی مثبت رویوں کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ عمل کم از کم تین ماہ تک جاری رکھیں۔ روزانہ کسی بھی مناسب وقت میں ایک بار دُہرایا کریں۔ اس دوران یا بعد میں اگر کسی منفی رویے کا سامنا ہو تو متعلقہ جُملہ اسی طرح تین چار بار دُہرائیں۔ اس سے مثبت رویہ متحرک ہوجائے گا اور منفی رویہ دب جائے گا۔“
ہال میں بیٹھے حاضرین میں سے کئی طلبہ ان جُملوں کو اپنی نوٹ بکس میں درج کررہے تھے جبکہ بعض طلبہ موبائل کیمروں پر اس سلائیڈ کی تصاویر بھی بنارہے تھے۔
”تو میرے دوستو! یہ ’کالے نقطے‘ جو بظاہر بہت چھوٹے ہیں لیکن ہماری زندگیوں میں ان کے اثرات بہت وسیع ہیں۔ ان ہی ’کالے نقطوں‘ نے ہمارے ذہنوں کو جکڑ رکھا ہے، لہذا آگے بڑھو اور ان ’کالے نقطوں‘ کو پسِ پُشت ڈالتے ہوئے زندگی کی ہر نعمت اور ہر لمحے سے لُطف اندوز ہوتے جاؤ۔ مثبت رہو، مثبت سوچو اور مثبت عمل کرتے ہوئے خوشیاں اور آسانیاں بانٹتے جاؤ۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔“
تربیتی سیشن کا اختتام
تربیتی سیشن ختم ہوچکا تھا لیکن سب حاضرین ابھی تک چپ سادھے بیٹھے تھے۔ ’کالے نقطوں‘ کی جو حقیقت اختر عباس صاحب نے اُنھیں بتادی تھی، اس نے سب کو ”بہت کچھ“ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔
”مثبت سوچو، مثبت رہو اور زندگی کے ہر لمحے سے لطف اٹھاؤ۔“
ٹیگ (Tags) کالے نقطے کی کہانی مثبت سوچ کی تربیت بچوں کی اسلامی کہانیاں سبق آموز واقعات تربیتی کہانیاں Black Dot Story for Kids Positive Thinking Moral Story Islamic Stories for Children Motivational Story in Urdu Kids Inspirational Stories