بچے ملک و قوم کا مستقبل ہوا کرتے ہیں۔ اس لیے آج کا کوئی بھی بچہ نہ صرف کل کا شہری ہے بلکہ اس پر ہی کسی بھی ملک، قوم اور خاندان کے روشن مستقبل کا انحصار بھی ہے۔ آج اس کی نشو و نما اور پرورش و پر داخت جس سماج اور ماحول و معاشرت میں ہوگی اس کی شخصیت بھی انھیں خطوط پر تعمیر و تشکیل پائے گی۔ گویا جو بچہ ہمارا مستقبل ہے خود اس کے مسقبل کا انحصار اس کی صحیح تعلیم وتربیت پرہے۔اس لحاظ سے بچے نہ صرف ’’قومی امانت ـ ‘‘ہیں بلکہ ان کا تحفظ بھی ہرفردمعاشرہ کی ذمہ داری ہے اور یہ ذمہ داری ہم سےاس بات کاتقاضاکرتی ہےکہ ہم ان کی جسمانی نشوونمااور پرورش وپرداخت کےساتھ ساتھ ان کی صحیح دیکھ ریکھ اورعمدہ ذہنی تربیت بھی کریں تاکہ ان کی شخصیت کی مکمل تعمیر و تشکیل ہو سکے اور وہ ملک وقوم کے لیے ایک مفید اور کار آمد خادم بن سکیں۔
چنانچہ اس مقصد کے حصول کے لیے جہاں تعلیمی نفسیات کے بہت سے اصول اور طریق کار رائج ہیں وہیں ادب بھی ہمیشہ سے ایک اہم ذریعہ اور مؤثر وسیلہ ثابت ہوا ہے۔ بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت اور ان کی کردار سازی میں ادب یعنی ادب اطفال نہ صرف ایک وسیلے کا کام کرتا ہے بلکہ یہ ان کے فطری رجحان اور تفریحِ طبع کا سامان بھی فراہم کرتا ہے۔محمد حسن فاروقی کتاب ’اردو میں ادب اطفال: ایک جائزہ‘ کے پیش لفظ میں رقمطراز ہیں:
’’بچوں کے لیے جسمانی نشو و نما کی جتنی اہمیت ہے اتنی ہی ضرورت ذہنی اور جذباتی اٹھان کی بھی ہے۔بچوں کی ذہنی ترقی اور مکمل اُٹھان کے لیے نصابی تعلیم کے ساتھ جو چیز سب سے زیادہ اثر انگیز ہوتی ہے وہ ان کی مادری زبان میں اچھے ادب کی فراہمی ہے۔ یہ ادب محض بچوں کودرس و تدریس کے لیے نہیں ہوتا بلکہ ان کی تفریح طبع اور ان کے فطری رجحان کی نشو و نما کے لیے بھی ہوتا ہے۔‘‘
چونکہ ایک بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ نہ صرف ایک گوشت کے لوتھڑے کی شکل میں ہوتا ہے بلکہ اس کی شخصیت اور زندگی بھی ایک کورے کاغذ کے مانند ہوتی ہے اور اس میں رنگ بھرنے کا عمل سماج ،ماحول و معاشرہ اور تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اس کا اپنا مطالعہ و مشاہدہ بھی کرتا ہے ۔ یہاں تک کہ جب بچہ اپنی کم عمری ہوتا ہے تو اس وقت بھی اس کے مطالعے میں رہنے والی کتابیں اور کہانیوں کے کردار اس کے ساتھ ہواکرتے ہیں۔نفسیات اور بچوں کی نفسیات پر لکھنے والے ماہر اور معروف قلم کار ڈاکٹر سلیم اختر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں :
’’ بچہ اپنی عمر اور جسم کی بنا پر توکمزور اور ناتواں ہوتا ہے لیکن دوسرے کا سلوک اس میں عدم تحفظ کے جن شدید احساسات کی آبیاری کرتا ہے وہ اس میں مزید ناتوانی کا احساس پیدا کرتے ہیں یوں کہ وہ خود کو بالکل ہی بے بس، بے کار اور بے معنی سمجھنے لگتاہے ۔ ایسے میں کتاب اس کی ہمت بندھاتی ہے ، چنانچہ وہ( بچہ )کہانیوں کے کرداروں کے ساتھ اپنی نفسی تطبیق کر لیتا ہے جس کے نتیجے میں وہ محض قاری سے بڑھ کر ہیرو بن جاتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر سلیم اختر کے اس اقتباس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ادب سے بچوں کی زندگی اور ان کی تعلیم و تربیت کس طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ اس لیے ضروری خیال کیا جاتا ہے کہ بچوں کو ابتد سے ہی ایسا ماحول ومعاشرہ اور سماج و ادب فراہم کیا جائے جس سے ان کی صحیح تعلم و تربیت کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت کی بھی تعمیر و تشکیل ہوسکے۔بلکہ موجودہ عہدمیں تو جب کہ دنیا ترقی کی طرف گامزن ہے اور بڑے بوڑھوں سے لے کر چھوٹے تک ہر کوئی سائنسی آلات و ایجادات اور ٹکنالوجی و انکشافات کی طرف مائل ہے ا ور بڑوں کی طرح بچے بھی ہر پل نئے کی تلاش میںرہتے ہیں یہ ذمہ داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ بچوں کو ان سے دور رکھ کر انھیں ایسے ا دب کی طرف مائل کیے جائیں جن سے ان کی خاطر خواہ تعلیم و تربیت ہوسکے۔
کیونکہ ہرزمانے میں ادب بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کا بھی ایک اہم ذریعہ رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ہر وہ زبان جس کا اپنا ادب ہے اس میں ادب اطفال بھی ضروری طور پر ہی موجود ہوتاہے۔ اردو زبان کی بھی یہ خوش بختی ہے کہ اس کے دامن میں نظم و نثرکی شکل میں وہ رنگا رنگ کائنات موجودہے جس میں قومی تہذیب و تمدن اور ادب و ثقافت کی وسیع دنیا ئیں آباد ہیں جن سے نہ صرف ہم نے اورہمارے اکابرین نے تربیت پائی تھی بلکہ وہ ہمارے بچوں کے لیے بھی زاد راہ ہیں۔ امیر خسرو سے لے کر موجود ہ عہد تک جو بھی ادب پارے لکھے گئے یا لکھے جارہے ہیں وہ تمام ہمارے بچوں کی نہ صرف ذہنی و جذباتی ارتقا اور ان کی علمی و ادبی استعدا بڑھانے کا کام کرتے ہیں بلکہ ان کی مکمل تربیت میں بھی اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر بانو سرتاج لکھتی ہیں:
’’ یہ درست ہے کہ آج بظاہر تعلیم کی ہر طرح کی سہولت ان کو مل رہی ہے اور یہ مسلسل ترقی کی راہ پر قدم بڑھارہے ہیں، لیکن وہ علم و ذوق جوان کو آزاد، ذمہ دار ، مفید اور کار آمد شہری بناتا ہے کیا یہ علم ان کو ملا ہے؟ اقدار سے وابستگی ، دین و مذہب، تہذیب وثقافت سے واقفیت کے لیے ان بچوں کے لیے بہترین اور مؤثر ذریعہ ادب ہی ہے۔بچوں کا ادب۔‘‘
بلاشبہ جتنے بھی علوم و فنون ہیں ان میں ادب ہی ایک ایسا فن ہے جس سے کہ نہ صرف بچوں کی ہمہ جہت تربیت ہوتی ہے بلکہ بڑوں کو بھی اس سے روشنی ملتی اور وہ اس میں اپنے لیے سکون اور تفریح طبع کا سامان حاصل کرتے ہیں۔ ہمار ا بچوں کاادبی سرما یہ کس قدر ثروت مند ہے؟آزادی سے پہلے اور بعد میں کس نوع کے ادب اطفال منظر عام پر آئے؟ یا پھر موجودہ عہد میں ادب اطفال کی کیا سمت و رفتار ہے ؟ وہ معیاری ہیں یا غیر معیاری؟ان کے لکھنے والے اس ترقی یافتہ دور سے خود کو ریلیٹ کر پارہے ہیں یا نہیں ؟ ان میں بچوں کی دلچسپی یا تفریح طبع کا سامان فراہم ہو رہا ہے یا نہیں؟ یہ اور اس طرح کے جو بھی سوالات یا مسائل و موضوعات ہیں ان سے قطع نظر آج بھی اگر بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کسی سے ممکن ہے تو وہ ادب ہی ہے ۔
اس لیے ضروری ہے کہ بچوں کو ان کی عمر اور ذہنی صلاحیت کے اعتبار سے وہ ادب ، وہ کتابیں اور رسائل و جرائد فراہم کیے جائیں جن سے ان کا دل بہلے،ان کی معلومات میں اضافہ ہواور اچھی اور نیک باتیں سیکھنے میںانھیںمدد مل سکے۔ گویا ان بچوں کو وہ ادب فراہم کیے جائیں جن سے ان کی شخصیت کی مکمل تعمیر وتشکیل ہو سکے۔لیکن ادب کی اس فراہمی میں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ بچوں کو ان کتابوں ، رسائل و جرائد یا ادب پاروں سے دور رکھا جائے جن سے ان کی تعلیم و تربیت کے بجائے ان کے ذہنوں پرغلط اثرات مرتب ہوتے ہیں۔بھاری بھرکم الفاظ میں لکھی ہوئی کہانیاں اور بازاروں میں بکنے والے سستے و سطحی کامکس بچوں کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں مددگار بنے کے بجائے ان کے ذہنوں پرنہ صرف خراب اثرڈالتے ہیں بلکہ انھیں بگاڑ کی طرف بھی لے جاتے ہیں۔
غرض یہ کہ بچے ہمارا مستقبل ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت ہماری ذمہ داری ہے اور ان کی صحیح و مناسب تعلیم و تربیت ادب سے ہی ممکن ہے۔اس لیے معاشرے کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کے لیے ایسا ادب فراہم کرے جس سے بچوںکی مکمل تعلیم و تربیت ہو سکے۔کل بھی بچوں کی تربیت میں ادب نے اہم رول ادا کیا تھا اور آج بھی خواہ زمانہ کتنا ہی کیوں نہ بدل گیا ہو، اہم کر دار ادا کررہا ہے۔