بچوں کی اہمیت:
بچے کسی بھی معاشرے کا سب سے اہم رکن ہوتے ہیں کیوں کہ انھوں نے ہی مستقبل میں معمار قوم بننا ہوتا ہے۔ ملک و قوم کی باگ ڈور سنبھالنا ہوتی ہے۔ میں اسے شومئی قسمت کہوں، بے حسی و بد بختی کہ ہمارے ہاں بچوں کی اہمیت کا احساس بہت کم ہے۔ بچوں کی ایک غالب اکثریت سے بے اعتنائی کی روش اختیار کی جاتی ہے۔ والدین کی اکثریت بچوں کو دنیا میں لانے کا سبب بننے کے بعد ساری ذمہ داری معاشرہ اور اساتذہ پر چھوڑ کر خود بری الذمہ ہو جاتی ہے جس سے ان کی ذہنی، جسمانی اور معاشرتی تربیت پر ناخوش گوار دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں جو کسی بھی معاشرے کے لیے ایک سم قاتل سے کم نہیں ہوتے۔
شاید اسی بنیادی وجہ سے ہمارے ہاں معاشرتی اور اخلاقی اقدار کی گراوٹ تیزی سے ہو رہی ہے، پھر صف ماتم بچھی ہے اور ہر طرف سے قوم کے بگڑنے کے نوحے زبان زد عام ہیں۔ ایسا صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم نے بچوں کی معاشرتی، تہذیبی اور اخلاقی تربیت کرنے اور انھیں اچھا شہری بنانے کی سعی، جو کہ ہم پر فرض عین ہے، اسے ترک کر دیا ہے۔ ہم اس کی اہمیت جانے بغیر تعلیم کی طرف سارا زور لگا رہے ہیں جب کہ تربیت کا وسیع فقدان نظر آتا ہے. اس پر مستزاد یہ کہ تربیت کی کمی کے اثرات کو جاننے کی زحمت ہی کبھی گوارا نہیں کی گئی۔ ہم نے معاشرے کے اس کثیر شاخی شجر سایہ دار کی جڑوں، بنیادوں (بچوں) کو اہمیت دینا کم کر دی ہے۔ ہم اس شجر گہر بار کے اوپری حصے (بڑوں) کی مشاطگی میں تو مست نظر آتے ہیں لیکن جڑوں کی جانب ہماری نظر پوری طرح نہیں پڑتی۔ اس سے بڑی بے حسی کیا ہوگی کہ ہم جڑوں کی آبیاری کی بجائے شاخوں، پتوں اور پھلوں پر للچائی نظریں ڈالے پھر رہے ہیں۔ اگر جڑیں کمزور ہوںگی تو وہ درخت تناورکیسے بنے گا، ہم اس کی گھنی چھائوں تلے مستقبل کے سہانے خواب کیسے دیکھ اور ان کو شرمندہ تعبیر کر سکیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ’’بچے کا دل و دماغ پاکیزہ ہوتا ہے۔ وہ سادہ جوہر ہے جو ہر قسم کے نقش و نگار سے خالی ہوتا ہے اس پر کچھ بھی نقش کیا جا سکتا ہے اس لیے ہم اسے جس طرف مائل کریں گے وہ اسی طرف ہو جائے گا۔ اس لیے اس کی اخلاقی، تہذیبی، لسانی اور معاشرتی ومعاشی تعلیم و تربیت کے ساتھ ایک اچھا انسان بننے کی تربیت بھی کی جانی چاہیے‘‘۔
جیسا کہ اول الذکر سطور میں ہے، اسی چیز کا ہمارے ہاں فقدان نظر آتا ہے۔ آپ کو ہمارے ملک میں اعلیٰ پائے کے ڈاکٹر، انجینیر، وکیل، قاضی، سیاستدان، حکمران، جرنیل، تاجر، استاد کثیر تعداد میں نظر آئیں گے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان میں اعلیٰ پائے کے انسان بہت کم ہوں گے۔ ہمارے ہاں موجودہ دورکے بڑے بڑے ناموروں کے بارے میں عوامی رائے بطور انسان منفی نظر آتی ہے کیوں کہ جب انسان کا واسطہ بطور انسان دوسروں سے پڑا تو ان میں پیشہ ورانہ صلاحیت تو بدرجہ اتم موجود تھی لیکن انسانیت کے حوالے سے اسفل السافلین نظر آئے۔ ایسا کیوں؟
کیو ں کہ ہم نے ان کو بطور پیشہ ور تو ماہرترین بنا دیا لیکن جو سب سے ضروری جزو تھا احساس، انسانیت کا درد، دل جوئی، ہمدردی اور رواداری کا، وہ پیدا کرنے میں کمی کوتاہی کر جاتے ہیں تبھی تو ہمیں نت نئے انسانیت سوز واقعات دیکھنے سننے کو ملتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ادب اپنا کردار خوب اچھی طرح نبھا سکتا ہے کیوں کہ اس کے انسان کے اخلاق، کردارپر گہرے اثرات ہوتے ہیں اس لیے اسے انسان میں اعلیٰ پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اعلیٰ انسان بنانے کا عزم لے کر چلنا ہو گا۔
اگر دیکھا جائے تو ایک عام آدمی سے لے کر اعلیٰ تعلیم یافتہ حتیٰ کہ ملک کے صدر، وزیراعظم اور وزرا تک اپنے بچپن میں کسی نہ کسی حد تک بچوں کے ادب (کتب و رسائل) سے گزرے ہوتے ہیں، انھیں پڑھا ہوتا ہے اور اس کے اثرات ان کے ذہن و دل پر کسی نہ کسی حد تک منقش ہوتے ہیں اور اسی کے زیر اثر اپنے نظریات و خیالات رکھتے ہیں۔
ادب ہر اس شخص پر اپنے اثرات چھوڑتا ہے جو اسے پڑھتا ہے اس طرح سے ادب کسی بھی معاشرے کے افراد کی تعلیم اور تربیت دونوں پر اثرانداز ہوتا ہے اس لیے اس میں ایک انسان کو قرار واقعی ایک اچھا انسان بنانے کے تمام عوامل پائے جانے چاہییں۔
بچوں کا ادب کیسا ہو:
جیسا کہ گذشتہ سطور میں معاشرتی بگاڑ کا احوال بیان ہوا اس کی بہت سی وجوہات کا ذکر بھی ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں تعلیم اور ادب دو ایسے ادارے ہیں جو اپنا مثالی کردار ادا کر کے ہمیں کافی حد تک اس پریشانی سے نکال سکتے ہیں تعلیم اور ادب ہر دو ادارے کی اپنی اہمیت ہے لیکن یہاں ہم ادب کی بات کریں گے۔
موجودہ دور میں ادب کے ذریعے بچوں کو کہانیوں، ڈراموں، ناولوں اور نظموں سے بہت سی اخلاقی اقدار سکھانے کے ساتھ علم بھی فراہم کیا جاتا ہے لیکن اس میں ان کی اپنی زندگی سے براہ راست بہت کم مواد ہوتا ہے۔ انھیں جنوں، بھوتوں، جانوروں، پرندوں، طلسماتی اور مافوق الفطرت کرداروں کے ذریعے مختلف اقدار سکھانے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے بچے کسی قدر اثر بھی لیتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بچے انسان کے بچے ہیں تو انھیں انسانی زندگی جو کہ بچوں کی اپنی ہی زندگی ہے پر مشتمل کرداروں سے اقدار سکھانے کی سعی کی جانی چاہیے کیوں کہ انسان سے انسان زیادہ آسانی سے سیکھ اور سمجھ لیتا ہے۔
آئیے جانتے ہیں بچوں کا ادب کیا ہوتا ہے؟
1۔ بچوں کے ادب سے مراد نظم و نثر کا وہ ذخیرہ ہے جسے بچوں کی عمر، نفسیات ،جذبات و تقاضوں کو مد نظر رکھ کر تخلیق کیا گیا ہو۔
2۔ ادب اطفال سے مراد ایسا ادب ہے جو بچوں کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو پیش نظر رکھ کر لکھا جائے۔
3۔ وہ ادب جو بچوں کی ذہنی و جسمانی تعلیم و تربیت اور صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لیے صاف سادہ اور عام فہم زبان میں قلم بند کیا جائے۔
4۔ بچوں کا ادب اسے کہیں گے جسے بچے پسند کرتے ہیں یا جسے بچے اپنا ادب سمجھتے ہیں۔
درج بالا سطور میں بچوں کے ادب کی مختلف انداز میں تعریف لکھی گئی ہے اور ان سطور کا لب لباب یہی بنتا ہے کہ بچوں کا ادب بچوں کے لیے بچہ بن کر لکھنا چاہیے یعنی بچپن کی اس سطح پہ آکے جب آپ خود بچے تھے اور کیا کیا پسند تھا۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں بچوں کا شعور پختہ ہے، پہلے جیسا نہیں وہ اب جنوں، بھوتوں، پریوں، دیومالائی یا محیرالعقول کہانیوں سے متاثر نہیں ہوتے۔ وہ اب ہر چیز کو اصل اور حقیقی رنگ میں دیکھنے کے خواہاں ہیں۔ آج کا بچہ چاند ستاروں، مریخ کے بارے سوچتا، سمندر میں غوطہ زن ہونا چاہتا اورکمپیوٹر کے ذریعے پوری دنیا کی سیر کرنا چاہتا ہے۔
آج کی جدید نسل کو گذشتہ پچیس تیس سالہ ادب اب پرانا (آؤٹ ڈیٹڈ) لگتا ہے۔ دنیا بدلی، ماحول بدلا تو اقدار و روایات بھی بدل گئیں۔ زمانہ قدیم میں بچوں کے پاس مصروفیت اور شغل کے لیے کھلونے اور ہم جولی ہوتے تھے مگر آج ٹی وی، وڈیو، کمپیوٹر، موبائل اور دیگر برقی آلات ان کی توجہ کو کشش کرتے ہیں اس لیے ادب کی جانب بچوں کی توجہ مبذول رکھنے کے لیے اس میں ان آلات سے زیادہ کشش ہونی چاہیے۔
صاف ظاہر ہے کہ بچے کے لیے دلچسپیوں کے اس قدر وافر سامان کے سامنے آپ اسے ان اشیا سے زیادہ دلچسپ اور پر کشش کچھ پیش کریں گے تو وہ ادھر متوجہ ہوگا۔
بچوں کا ادب کیسا ہو، کے سلسلہ میں ایک ادنیٰ سی رائے یہ بھی ہے کہ بچوں کے لیے ایسا ادب تخلیق کیا جائے جو ان کو مذہبی، معاشرتی، تہذیبی، اخلاقی، انسانی اقدار سکھانے کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضوں کے مطابق جدید اور ایک اچھا انسان بننا بھی سکھائے۔ بچوں کو جدید سائنسی علوم و فنون سے نظم، کہانی، ڈرامہ وغیرہ کے ذریعے آگاہ کیا جائے اس کے علاوہ بچوں کو ان کے اسلاف کی کہانیاں جو انسانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز رہے سنائی، دکھائی جائیں، تاریخ کے مثالی لوگوں سے آگاہ کیا جائے جو انسانیت کے اعلیٰ درجے پر فائز زندگی گزار گئے، انھیں ان کے شاندار ماضی سے روشناس کرایا اور بتایا جائے کہ وہ کیسے اعلیٰ پائے کے نہ صرف حکمران، ڈاکٹر، انجینیئر، تاجر غرض ہر شعبہ زندگی کے مثالی لوگ تھے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انسانیت کے اعلیٰ درجے پر بھی فائز تھے، اسی طرح کے تم بھی بن سکتے ہو، اپنی دنیا سنوارنے کے ساتھ ساتھ اچھے انسان بن کر آخرت بھی سنوار سکتے ہو۔ آج وقت کا تقاضا ہے کہ بچوں کا ادب دین و دنیا دونوں کا حسین امتزاج ہو۔
بچوں کے ادب میں نظم اور کہا نی ایسی اصناف ہیں جن پر سب سے زیادہ لکھا گیا ہے۔ چھوٹے بچوں کو ایسی نظموں کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے جو انھیں کھیل کھیل میں سکھا سکیں اور ارد گرد کے ماحول سے سمجھ سکیں۔ بچپن میں پڑھی گئی نظموں کا بچوں کی زندگی پر بہت اثر پڑتا ہے۔ اس لیے ایسی نظموں کی تخلیق کی ضرورت ہے جو بچوں کو اچھا انسان بنانے کے ساتھ جدید ترقی یافتہ دور کی دوڑ کے قابل بھی بنائیں۔
آج کے دور میں بچوں کا ادب ایک جانب تہذیب اور روایت سے آشنا ہو تو دوسری جانب جدید نظریات کا حامل بھی ہونا چاہیے بلکہ جدید و قدیم کا حسین امتزاج ہو تو سب سے بہترین ہوگا۔
بچوں کے ادب کے مسائل:
ہمارے معاشرے میں بچوں سے بے اعتنائی برتنے کے ساتھ ساتھ ان کے ادب کے ساتھ بھی ہمارا رویہ کچھ اسی طرح کا ہے۔ ہماری بے حسی کی یہ روش بچوں کے ادب پر بری طرح اثر انداز ہورہی ہے۔ اس جدید اور ترقی یافتہ دور میں بھی بچوں کے لیے لکھنے کوکار فضول اور کار زیاں سمجھا جاتا ہے جس وجہ سے بچوں کے ادب کا مستقبل وثوق سے درخشندہ اور تابناک نہیں کہا جا سکتا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جو ایسا کہنے کی طرف راغب کرتی ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اسے حکمرانوں کی جانب سے کوئی سرپرستی حاصل نہیں برائے نام چند ایک اداروں کے سوا کوئی قابل ذکر ادارہ نہیں اگر ہے تو وہ خود مالی اور دیگر مسائل کا شکار ہے وہ اپنے اصل کام کی طرف توجہ کیسے دے سکتا ہے؟
دوسری بات یہ کہ بچوں کے لیے لکھنے والوں کی قدر نا ہونے کے برابر ہے. اگر کی بھی جاتی ہے تو بھی محض بہلانے کے لیے جب بچوں کے لیے لکھنے والوں کی قدر نہیں ہو گی تو اچھا ادب کہاں سے تخلیق ہو گا۔ اس سلسلہ میں اہم بات تو یہ ہے کہ اول تو بچوں کے ادیبوں کو ادیب تسلیم ہی نہیں کیا جاتا اگر کر بھی لیا جائے تو بھی پھر سال ہا سال سے انھیں کوئی خاص ایوارڈ یا اعزاز نہیں دیا جارہا ہے۔
بچوں کے ادب کے مسائل میں ایک اور بات جو آج کل خاص طور پر موضوع گفتگو ہے، وہ جدید ٹیکنالوجی (الیکٹرانک میڈیا) سے ذرائع ابلاغ کی سہولتوں کا عام ہونا ہے، بالخصوص اس میں موبائل اور انٹر نیٹ کا کردار سب سے زیادہ اثر انداز ہے جو کتب و رسائل پڑھنے، مطالعہ کرنے کی جگہ (ہماری عدم توجہ کی وجہ سے) لے رہا ہے۔
مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ عذر نا معقول ہے کیوں کہ مغرب میں یہ سہولیات ہم سے کہیں زیادہ اور جدید ہیں وہاں پر تو مطالعہ کی عادت پر کوئی خاص اور قابل ذکر منفی اثر نہیں پڑا۔ مغرب میں ہر طرح کی جدید سہولیات اور ایجادات کے باوجود کتاب کی اہمیت برقرار ہے. وہاں کتابوں کی طباعت لاکھوں میں ہوتی ہے جب کہ ہمارے ہاں مشہور ترین ادیب کی کتاب بھی ایک ہزار سے زیادہ نہیں چھپتی۔
دراصل ہم من حیث القوم ہر چیز، کام کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑ جاتے ہیں یا کچھ زیادہ ہی غلو میں چلے جاتے ہیں. مثلاً اقوام عالم میں کھیل صرف تفریح اور ورزش کے لیے کھیلے جاتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں کھیل زندگی اور موت کا سوال بن جاتا ہے. خصوصاً حریف ملک کے ساتھ کھیل کے وقت تو پوری قوم حالت جنگ میں نظر آتی ہے۔ اسی طرح سے ہم نے موبائل اور انٹر نیٹ کو بھی ضرورت سے زیادہ استعمال کر کے اسے ایک سہولت کی بجائے مصیبت بنا لیا ہے۔
بچوں کے لیے لکھنے والے ادبا کو اول تو ناشر ادارے کچھ دیتے نہیں، اگر دیتے ہیں تو وہ بھی اونٹ کے منھ میں زیرہ یعنی برائے نام۔ یوں انھیں ان کی تخلیقات کا مناسب معاوضہ نہیں ملتا۔ اکثر کو اپنے بال بچوں کا پیٹ کاٹ کر، بھوک پیاس اور تنگی ترشی برداشت کر کے اپنی جیب سے تخلیقات شائع کرانا پڑتی ہیں. پھر کتاب کی فروخت کے مسائل بھی حائل ہوتے ہیں جس سے ادبا میں یاسیت کا عنصر پیدا ہوتا ہے اور وہ قنوطیت و یاسیت کے اس ماحول میں اچھا ادب تخلیق نہیں کر پاتے۔
آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے جو جملہ انسانی سرگرمیوں میں رگ جاں کی طرح شامل نظر آتا ہے۔ اس نے انسانی زندگی کو یکسر بدل دیا ہے۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ انسانی زندگی میں سب سے زیادہ بدلاؤ انٹر نیٹ کی وجہ سے آ رہا ہے اور یہ اب انسانی ہاتھوں سے کتابی ادب کو بھی چھینتا نظر آرہا ہے کیوں کہ اس کی بدولت بے تحاشا برقی ادب وجود پاچکا ہے جس کے مثبت و منفی ہر دو طرح کے اثرات ہیں۔
سب سے پہلا منفی اثر تو یہ ہے کہ اس سے مطالعہ کی عادت کی شرح خوفناک حد تک کم ہو رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں بیس فیصد سے بھی کم لوگ مطالعہ کا شوق رکھتے ہیں (اس میں طلبہ کی تعداد بھی شامل ہے. اگر وہ نکال دی جائے تو باقی نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے)۔ اس میں سب سے ہولناک اور مستقبل مخدوش کرنے والی بات نئی نسل (بچوں) کا ادب سے دور ہو جانا ہے۔ ان کی انگلیاں کتاب کے اوراق پر محو رقصاں نظر آنے کی بجائے انٹر نیٹ کے خوفناک اور پر فریب سمندر میں سے تحقیق کے نام پہ اپنے لیے سکون، عیش، موج مستی اور لطف کی آلودگی کے ساتھ علم کے نئے خزانے تلاش کرتی نظر آتی ہیں جس سے ہمارے نا پختہ اذہان علم میں غوطہ زن ہونے کی بجائے تعیش کی گھاٹیوں میں ڈبکیاں کھا کر بھی، گمراہی کی رہ پر چل کر بھی خود کو محفوظ اور محظوظ سمجھ رہے ہوتے ہیں۔
پھر یہی لوگ انھی مضر اثرات کی بنا پرمعاشرے میں تمام اخلاقی، مذہبی، معاشرتی اقدار اور انسانیت کو پس پشت ڈال کر، ’’میری زندگی، میری مرضی‘‘ کے نا معقول اصول پر اتر کر امن و سکون کی بجائے بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہماری نئی نسل کمپیوٹر کے قریب نہ پھٹکے، بلکہ میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کمپیوٹر میں کچھ ایسا انتظام و انصرام ہو جائے کہ مخرب الاخلاق اور ضرر رساں مواد (سمعی و بصری اور تحریری)، ہر قسم پر اس طرح کی تکنیکی قدغن ہو کہ وہ بچوں اور نوجوانوں کی پہنچ اور رسائی سے دور ہو، وہ صرف جدید علمی، اخلاقی اور انسانی قدروں والے مواد تک رسائی حاصل کر پائیں۔ اس کے لیے نادرا (نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی) یا پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) کی مدد لی جاسکتی ہے کہ چالیس سال سے کم عمر افراد کی انٹر نیٹ کے ان گوشوں تک رسائی نہ ہو سکے۔
ہمارے ہاں اُردو ادب کا ہر شاعر، ادیب حسن و عشق کی داستانیں رقم کرنے، طلسماتی دنیا کی سیر کرنے، عیش و نشاط کی محفلوں کا ذکر کرنے، بزرگوں کے مرثیے کہنے پر آزاد خیالی اور جدیدیت کا سبق دینے کو فخر محسوس کرتا ہے لیکن آسمان کے ستاروں، جنت کے پھولوں اور گھر کے بے تاج بادشہوں (بچوں) کا گھر بار سجانے میں شعرا، ادبا، محققین اور مورخین نے بھی غفلت اور بخل سے کام لیا ہے۔
ان افراد کی غفلت کے ساتھ والدین کا کردار بھی اس معاملے میں کافی کمزور اور منفی نظر آتا ہے کہ وہ بچوں کی کھانے پینے کی اشیا ( قلفی، آئس کریم، پیزا، بر گر) اور کھلونوں پہ سیکڑوں بلکہ ہزاروں روپے خرچ کر دیتے ہیں لیکن ان کو کتاب کی جانب راغب کرنے کے لیے کچھ نہیں کرتے. وہ بچوں کو سمجھانے کے بجائے اس کام (مطالعہ) کو فضول تصور کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ یہاں کتاب بطور تحفہ دینے کا رواج تشکیل نہیں پا رہا کیوں کہ ہم ادب کی اہمیت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ والدین اور بچے خود بھی ہزاروں روپے کھلونوں اور موبائل پر خرچ کر دیتے ہیں۔ ستر ہزار روپے سے زائد کا قیمتی موبائل خریدنا انھیں سستا لگتا ہے جب کہ ایک سو روپے کی کتاب مہنگی لگتی ہے۔ یہی منفی سوچ ہمیں ادب سے دور کرتی نظر آتی ہے۔
اسی وجہ سے بچوں کا وقت کتابیں پڑھنے کی بجائے کارٹونز، کمپیوٹر گیمز، فیس بک، وٹس ایپ، ٹویٹر ایسی دیگر موبائل ایپ کی نذر ہو جاتا ہے جس وجہ سے نہ صرف اخلاقی اقدار کا زوال ہو رہا ہے بلکہ زبان و بیان کا معیار بھی گر رہا ہے۔
اِسی سوچ سے ہمارے ہاں لائبریریاں ویران پڑی ہیں۔ ان میں موجود کتابوں پر پڑی گرد کی تہہ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ مجھے ان پر سے ہٹاؤ ورنہ تمھارے مستقبل پر خاک کی تہہ ایسی دبیز ہوتی جائے گی کہ اسے پہچاننا مشکل ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں سکولوں، کالجوں میں لائبریری سے کتابیں جاری کرانے والے طلبہ کی تعداد ناقابل بیان حد تک کم ہے جب کہ طلبہ میں سے سب سے مفلوک الحال طالب علم کے ہاتھ میں بھی موبائل اور کمپیوٹر ہوتا ہے. ہر وقت انھی کو وقت دینا آج کے طلبہ کی ترجیحات میں شامل ہے. کتاب سے رشتہ نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے. تبھی تو صرف سندی، عددی اور سینوی علم رہ گیا ہے (طلبا کے پاس صرف اسناد اور حاصل کردہ نمبر ہیں یا رٹا رٹایا علم) علم کی اصل روح تخلیق، سوچ، فکر، ہنر نہیں جن سے معاشرے میں انقلاب، تبدیلی اور ترقی آتی ہے۔
آج کے دور میں ادب کے لیے ایک بڑا چیلنج پرنٹ میڈیا کا تیزی سے ڈیجیٹل میں تبدیل ہونا بھی ہے. اس لیے کتابی مواد کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل مواد بھی تیار کرنا ضروری ہے اور اس جانب ہمارے ادبا، شعرا اور دیگر ذمہ داران کی کوئی توجہ نظر نہیں آتی. اس طرح سے ہم دیگر شعبوں کی طرح سے اس میں بھی اقوام عالم سے پیچھے رہ جائیں گے۔
ہمارے ہاں اکثر والدین بچوں کو اتنا ہی پڑھاتے ہیں جتنا وہ کما سکنے کے قابل ہو سکیں لیکن تعلیم کا مقصد صرف پیسہ کمانا نہیں بلکہ تعلیم و تربیت بھی ہو ناچاہیے. ایسے افراد پیدا کرنا ہونا چاہیے جن میں انسانیت کے احساس کے ساتھ تخلیقی قوت بھی ہو جب کہ ہمارے ہاں ادب سے دوری کی بنا پر طالب علم اعلیٰ ترین ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی تخلیقی قوت سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ چند سطریں تک خود سے نہیں لکھ سکتے، اپنا ما فی ضمیر بیان نہیں کر سکتے، خود کچھ تخلیق نہیں کر سکتے، خود کچھ کام، ہنر کرکے کما نہیں سکتے، بیس بیس سال تعلیمی اداروں میں گزارنے کے بعد بھی وہ خود روزگار کے قابل نہیں ہوتے، ان کے پاس اپنا کوئی ہنر نہیں ہوتا، وہ نوکریوں کے لیے حکومتی و غیر حکومتی ایوانوں کی نظر کرم کے بے تابی سے متلاشی ہوتے ہیں۔ ہمارا ملک جملہ شعبہ جات زندگی میں ماہرین کے حوالہ سے دوسروں کا دست نگر ہے اس کی وجہ تخلیقی قوت والوں کی شرح انتہائی کم ہے۔ ہمارے ہاں اعلیٰ اسناد یافتہ طوطے بنائے جاتے ہیں جب کہ تعلیم، تخلیق اور تربیت کے لیے تعلیمی اور ادبی مواد کے ساتھ عملی کام بھی ہونا چاہیے۔
ہماری نئی نسل کا بچہ انٹر نیٹ کے زیر اثر ہونے کی وجہ سے موٹو پتلو، بھیم، ٹام اینڈ جیری، ننجا بوائے، ہنو مان، ہیری پوٹر اور اس طرح کی بے تحاشا فلموں، ڈراموں اور وڈیو گیمز میں مشغول نظر آتا ہے، جس وجہ سے وہ نہ صرف اپنے عظیم تاریخی ورثے سے ناواقف ہو رہا ہے بلکہ احساس انسانیت کا فقدان بڑھ رہا ہے۔
اس برقی ادب کی دوڑ میں شامل ہو کر ہمیں اپنے بچوں کے لیے اپنے جغرافیائی، معاشرتی، اخلاقی، مذہبی حالات کے مطابق زیادہ پر کشش سامان تفریح و دلچسپی پیش کرنا ہوگا ورنہ مستقبل ایسا بھیانک اور خوفناک بنتا نظر آتا ہے کہ شاید ہماری نسل کے نام تو ہم سے ملتے ہوں گے لیکن کام ہرگز نہ ملتے ہوں گے. وہ اپنے دیس میں رہنے کے باوجود دوسرے دیس کے باسی لگیں گے۔
اس چیز کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں بچوں کے ادب کے لیے انٹر نیٹ پر بھی اپنا الگ محاذ کھولنا ہو گا تا کہ ہمارے بچے غیروں کی باتیں سننے، دیکھنے کے بجائے اپنی تہذیب، تاریخ اور روایات کو دیکھیں، ان سے آگاہ ہوں۔ اس سلسلہ میں متحرک فلمیں (Animated Movies) بہت اہم کام سر انجام دے سکتی ہیں اس سلسلہ میں ابھی کام ابتدائی مراحل میں ہے. اسلامی ممالک میں سے البتہ ایران میں اس بارے بہت کام ہوا ہے۔ امریکہ کی بعض مسلم تنظیموں نے بھی کام کیا ہے. ملائشیا میں بھی اس بارے کافی کام ہوا ہے لیکن پاکستان میں اس شعبہ میں ابھی کوئی نمایا ں کام تو کیا اس طرف کسی کارجحان تک نظر نہیں آتا۔
تاریخ اُردو ادب اطفال:
ازمنہ قدیم سے بچوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری ہے اور ہر زبان و ادب میں بچوں کے ادب پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اُردو ادب (شاعری اور نثر) میں بھی ابتدا سے ہی ایسی کاوشیں نظر آتی ہیں مگر ان کو کوئی خاص شہرت نہ مل سکی کیوں کہ ہمارے سماج میں بڑوں کے جذبات، شاعری اور نثر کو ہی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔
ذیل میں اُردو ادب میں بچوں کے ادب کی تاریخ مختصراً بیان کی جا رہی ہے۔
امیر خسرو کو بچوں کا پہلا شاعر مانا جا تا ہے اور ان کی تصنیف ’’خالق باری‘‘ بچوں کے ادب کی پہلی کتاب کہی جاتی ہے۔ اسی طرح امیر خسرو کی پہیلیاں اور دو سخنے بھی بچوں کے ادب کی مثالیں ہیں۔ امیر خسرو کی ’’خالق باری‘‘ کے تتبع میں بہت سے لوگوں نے باری سلسلہ کو آگے بڑھایا جس سے ’’رازق کی باری، حامد باری، ایزد باری، واحد باری، حمد باری ،بالک باری‘‘ وغیرہ لکھی گئیں۔
بچوں کے دوسرے شاعر محمد قلی قطب شاہ کے دیوان میں بچوں کے لیے نظمیں ان کو بچوں کا شاعر گنواتی ہیں۔ اس کے بعد تاریخ بچوں کے ادب کے حوالے سے چند صدیوں تک خاموش اور خالی نظر آتی ہے۔ ابتدائی عمر کے بچوں کے لیے لکھنے کا آغاز ادارہ کے طور پر کسی حد تک جامعہ ملیہ دہلی سے ہوتا ہے بچوں کے لیے نظمیں تو لکھی جاتی رہیں لیکن نثر کا میدان خالی رہا۔
انگریزی عروج کے دور میں بچوں کے لیے فورٹ ولیم کالج کے تحت مولوی محمد باقر، میر امن، ضیاء الدین، حیدر بخش حیدری، منشی پیارے لال اور ماسٹر رام چند کے نام ملتے ہیں جنھوں نے انگریزی ضروریات کے تحت بڑوں کے لیے لکھنے کے ساتھ ساتھ بچوں کا ادب بھی تخلیق کیا۔
اسی دور میں میرؔ، سوداؔ، نظیر اکبر آبادی اور اکبر الٰہ آبادی کانام آتا ہے۔
نظیر اکبر آبادی کی نظموں میں ’’ریچھ کا بچہ، گلہری کا بچہ، بلبلوں کی لڑائی، ہنس، طفیلی نامہ، پتنگ بازی، کبوتر بازی، بلدیو جی کا میلہ‘‘ وغیرہ ملتی ہیں اسی طرح ان کا ایک مجموعہ شاعری ’’تل کے لڈو‘‘ نظامی پریس بدیوں سے چھپاجس میں بچوں کے لیے نظمیں ہیں۔
اکبر الٰہ آبادی کی شاعری اگرچہ طنزیہ مزاحیہ ہے لیکن اس میں کافی ساری رباعیات، قطعات اور نظمیں ایسی ہیں جو بچوں کے لیے لکھی گئیں۔ میر تقی میر کی نظمیں ’’موہنی بلی، بکری اور کتے، مرغوں کی لڑائی، مچھر اور کھٹمل‘‘ وغیرہ ہیں۔ ان میں سے ان کی نظم ’’موہنی بلی‘‘ کو بچوں کی پہلی باقاعدہ نظم بھی کہا جاتا ہے. اسی وجہ سے جانوروں پر بچوں کے لیے سب سے پہلی نظمیں لکھنے کا اعزاز بھی میر تقی میر کو ملتا ہے۔
کلیات سودا میں ’’عصا، شکایت موسم گرما سرما، مریل ٹٹو، بخیل دولت مند بنیا، اور باز‘‘ نامی نظمیں بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں اس کے علاوہ ان کی پہیلیاں بھی ہیں مثلاً:
اک نار بھنورا سی کالی
کان نہیں وہ پہنے بالی
ناک نہیں وہ سونگھے پھول
جتنا عرض ہے اتنا طول
اسی طرح غالب کا اپنے منھ بولے پوتوں (عارف کے بچوں باقر علی اور حسنین علی خان) کے لیے لکھا گیا اُردو قاعدہ ’’قادر نامہ‘‘ بھی بچوں کے ادب کا حصہ مانا جاتا ہے۔
انگریزی قبضے کے بعد سر سید، نذیر احمد، حالی اور محمد حسین آزاد کے نام آتے ہیں۔
حالی کی نظم ’’ساری دنیا کے مالک‘‘:
اے ساری دنیا کے مالک
راجا اور پرجا کے مالک
بے آسوں کی آس تو ہے
جاگتے سوتے پاس تو ہی ہے
اس کے علاوہ ان کی نظمیں برسات، امید، رحم، انصاف، حب وطن وغیرہ بچوں کے ادب کا ایک بڑا سرمایہ ہیں. حالی کی نظم وطن کا نشان، برکھا رت، وغیرہ بھی اہم ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی شہرہ آفاق کتاب ’’مسدسِ حالی‘‘ کے کئی اشعار مختلف عنوانات کے تحت بچوں کی درسی کتب (چھٹی سے دہم تک) میں شامل کیے گئے ہیں۔
سر سید احمد نے بچوں کے لیے نثر کے میدان میں گراں قدر اضافہ کیا۔ ان کے زیر انتظام شائع ہونے والے رسالہ ’’تہذیب الاخلاق ‘‘ میں بچوں کے لیے متعدد مضامین لکھے گئے جن میں ان کی اصلاح اور شعور بیدار کرنے کی بھر پور کوشش کی گئی مثلاً خوشامد، اپنی مدد آپ، کاہلی وغیرہ۔
محمد حسین آزاد کی نظمیں شب قدر، حب وطن، ابر کرم اور صبح امید اگرچہ مشاعروں میں پڑھی گئیں لیکن یہ لکھی بچوں کے لیے ہی لکھی گئی تھیں۔
ڈپٹی نذیر احمد نے بچوں کے لیے بیش قیمت نثر لکھ کر ان کے ادب کو چار چاند لگائے انھوں نے بچوں اور بچیوں کی معاشرتی و اخلاقی اصلاح کے ساتھ ساتھ ان میں دین اور تعلیم کا جذبہ پیدا کرنے کے لیے بہت سے ناول لکھے جن میں ’’مراۃ العروس، توبۃ النصوح، بنات النعش، ابن الوقت، رویائے صادقہ، فسانہ مبتلا، ایامی‘‘ وغیرہ اہم ہیں۔
اس دور میں انگریزی نصابی ضروریات کے تحت مشاعروں میں مظاہرِ فطرت پر نظمیں کہنے والے شعرا کی نظمیں بھی بچوں کے ادب کا حصہ ہیں اور ان میں بڑے بڑے نام آتے ہیں جن میں عدیل کنستوری، احمد علی شوق، تلوک چند محروم، واسطی، ہادی، ظفر علی خان، علامہ اقبالؒ، حالی، آزاد اور اسماعیل میرٹھی کی نظمیں انگریز سامراج کے دور میں نصاب کا حصہ رہیں۔
علامہ اقبالؒ کو اکثر لوگ صرف بڑوں کا شاعر کے طور پر جانتے ہیں لیکن میرے خیال میں انھیں شاعرِ اطفال کہنا بے جا نہ ہوگا کیوں کہ انھوں نے بچوں کے لیے بہت کچھ لکھا۔ ان کی نظم ’’بچے کی دعا‘‘ نسل در نسل یاد کروائی جاتی ہے۔ ابتدائی عمر میں اوصاف حمیدہ اختیار کرنے کی جتنی پر تاثیر تلقین اس نظم میں ہے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے علاوہ ’’پہاڑ اور گلہری، گائے اور بکری، پرندے کی فریاد، جگنو، ہمدردی‘‘ وغیرہ بہت سی نظمیں لکھیں جن میں بچوں کی کایا پلٹنے اور ان کی بہترین تربیت کی کوشش کی گئی ہے۔ علامہ اقبالؒ بچوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت کے بھی قائل تھے انھوں نے ایک مقالہ ’’بچوں کی تعلیم و تربیت‘‘ بھی لکھا جو مخزن نے جنوری 1902ء کو شائع کیا۔
اصغر سودائی کی نظم ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘ کو خاصی شہرت ملی. اسی طرح میاں بشیر احمد جو کہ قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے بڑے عقیدت مند تھے، انھوں نے قائدؒ کے لیے نظم لکھی جسے خاصی پذیرائی ملی اور آج بھی بچے یوم قائدؒ پر پڑھتے ہیں ’’ملت کا پاسباں ہے، محمد علی جناحؒ، ملت ہے جسم، جاں ہے محمد علی جناحؒ‘‘
اس دور میں بچوں کے نثری ادب میں پریم چند کی کہانیوں میں ’’عبرت، عید گاہ، معصوم بچہ، گُلی ڈانڈا، طلوع محبت، کشمیری، سیب، سچائی کا انعام‘‘ اہم ہیں. ڈپٹی نذیر احمد، حسن نظامی، احمد قاسمی، نہرو، ڈاکٹر ذاکر، حامد حسن قادری، امتیاز علی تاج، اشرف صبوحی، حجاب امتیاز علی، ہاجرہ مسرور، رام لال اور کمال رضوی نے بھی گراں قدر اضافہ کیا۔
اشرف صبوحی نے بچوں کے لیے دو درجن کے قریب کتب لکھیں جن میں سے اکثر انگریزی ادب سے ترجمہ کی گئیں. ان میں سے ’’بن باس، دیوی، بغداد کے جوہری، دھوپ چھاؤں، ننگی دھرتی، موصل کے سوداگر‘‘ اہم ہیں۔
امتیاز علی تاج اور ان کی بیگم حجاب نے بچوں کے لیے بہت کام کیا. امتیاز کے ڈرامہ ”انار کلی‘‘ کو عالمی شہرت ملی. چچا چھکن ان کاایک ایسا کردار ہے جو آج بھی بچوں کے لیے اہم ہے، اس کے علاوہ بچوں کے لیے جاسوسی سلسلہ ’’ انسپکٹر اشتیاق‘‘ کے نام سے شروع کیا۔
شاعروں میں صوفی تبسم کی خدمات ادب اطفال کے بارے کافی زیادہ ہیں۔ ان کی نظم:
منے کی امی نے انڈا ابالا
ہنڈیا میں ڈالا
دومنٹ گزرے
ڈھکنا اٹھایا
انڈا نظر نہ آیا
چمچہ تھا ٹیڑھا
اوندھی تھی تھالی
ہنڈیا تھی خالی
قسمت تھی کھوٹی
روکھی تھی روٹی
اسی طرح ’’میرا خدا‘‘ میں صوفی تبسم کہتے ہیں:
جس نے بنائی دنیا
جس نے بسائی دنیا
ہاں وہ میرا خدا ہے
صوفی کی نعت:
دل آرا محمدﷺ
ہمارا محمدﷺ
ہم سب کی آنکھوں کا تارا محمدﷺ
وہ حق کی باتیں بتانے والے
وہ سیدھا رستہ دکھانے والے
اس کے علاوہ صوفی کی نظمیں ’’ہمارا دیس، قائداعظمؒ، ٹوٹ بٹوٹ کی آپا، مدرسہ، بادل، آیا بسنت میلہ، ریچھ والا وغیرہ بھی ہیں۔
بچوں کے ادب کے لیے اسماعیل میرٹھی کی خدمات کی بنا پر ان کو بابائے ادبِ اطفال کہنا بے جا نہ ہوگا. انھوں نے اپنی ساری زندگی بچوں کے ادب کے لیے لگا دی. بچوں کی سب سے پہلی باقاعدہ درسی کتب لکھنے کا اعزاز بھی انھی کو حاصل ہے۔ ان کی نظم ’’ہماری گائے‘‘:
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
اس کے مالک کو کیوں نہ پکاریں
جس نے پلائیں دودھ کی دھاریں
اسی طرح ’’حمد‘‘:
تعریف اس خدا کی، جس نے جہاں بنایا
کیسی زمین بنائی کیسا آسمان بنایا
ان کے علاوہ اسماعیل میرٹھی کی نظمیں ’’پن چکی، تھوڑا تھوڑا مل کر بہت ہوتا ہے، بارش کا پہلا قطرہ، ایک وقت ایک کام، کوشش کیے جاؤ مرے دوستو، شب براۃ، برسات، بادل اور چاند، ٹھنڈی ہوا، چھوٹی چیونٹی‘‘ وغیرہ ہیں۔
حفیظ جالندھری کی دو کتابیں ’’بہار پھول، اور پھول مالا‘‘ بچوں کے لیے لکھی گئی ہیں۔
حامد اللہ افسر کی نظم ’’درد جس دل میں ہو اس کی دوا بن جاؤں، کوئی بیمار اگر ہو تو اس کی شفا بن جاؤں‘‘ میں بچوں کے لیے بڑا سبق ہے. دیگر نظمیں ’’نندیا پور، چاند‘‘ وغیرہ ہیں.
قتیل شفائی کی نظم:
اے میرے خدا
تو مجھ کو سیدھی راہ دکھا
اس کے علاوہ ان کی نظمیں ’’ہر عمر سیکھنے کی عمر، آپس میں مت لڑو، گالی مت دو، روزہ، سویرا، مکھی وغیرہ، ہیں. شان الحق حقی کی نظمیں ’’سال گرہ، شہد کی مکھی‘‘ وغیرہ اہم ہیں۔
صائمہ کامران کی نظم:
کہتا ہے آسمان
کہتی ہے زمین
ایاک نعبد، ایاک نستعین
ان کی نعت:
صبا جھومی کلی چٹکی غنچے مسکرائے ہیں
محمد مصطفیﷺ دنیا میں تشریف لائے ہیں
اس کے علاوہ ان کی نظمیں’’اچھا شہری، عید کی نرالی ابجد، سکول کی کتابیں‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
مہر وجدانی کی نظم ’’اللہ اللہ ہر دم اللہ، ہم ہیں بندے وہ مولا‘‘
اس کے علاوہ ان کی نظم ”بھیا‘‘ بھی مشہور ہے۔ مسرور انور کی ’’سوہنی دھرتی‘‘، جمیل الدین عالی کا نغمہ ’’جیوے جیوے پاکستان، اے وطن کے سجیلے جوانو! میرے نغمے تمھارے لیے ہیں، ہم تا ابد سعی و تغیر کے ولی ہیں ہم مصطفوی ہیں ہم مصطفوی ہیں، میرا پیغام پاکستان، اتنے بڑے جیون ساگر میں‘‘ وغیرہ نے بہت شہرت حاصل کی اور یہ نغمات آج بھی بچوں کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔
احمد فراز کا نغمہ آج بھی بچے گاتے پھرتے ہیں: ’’ہم سچے پاکستانی ہیں‘‘
خالد بزمی کی ’’پاکستان کا پرچم ، قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ، میری امی، اُردو، علم کتاب، سنہری باتیں، درخت، دریا، مور، مچھر‘‘ وغیرہ نظمیں بچوں کے لیے ہیں۔
وطن سے محبت کے حوالے سے نظموں میں صہبا اختر کی نظم ’’میں بھی پاکستان ہوں، تو بھی پاکستان ہے‘‘ بہت مشہور ہے۔
اسی طرح کلیم عثمانی کی نظم ’’یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسباں اس کے‘‘ بھی شہرت کی حامل ہے۔
اسحٰق جلال پوری کی نظمیں ’’میری گڑیا بھولی بھولی، نیلی نیلی آنکھوں والی‘‘، ”کٹ کٹ کرتی آئی مرغی‘‘ بچوں کو آج بھی یاد ہیں۔
چراغ حسن حسرت کی اس نظم کو دیکھیے، وہ کس خوب صورت انداز میں بچوں کو آسمان کی سیر کرنے، خلا کی تسخیر کرنے کا سبق دے رہے ہیں، کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ مصنوعی روشنیوں کے اس دور میں بچوں کا تعلق رات کے آسمان کے ساتھ کچھ کمزور سا ہو گیا وہ اسے پھر سے جوڑنا چاہتے ہیں، وہ کہتے ہیں
آؤ ہم بن جائیں تارے
ننھے منے پیارے پیارے
دھرتی سے آکاش پہ جائیں
چمکیں دمکیں ناچیں گائیں
بادل آئے دھوم مچاتے
لے کے کالے چھاتے
آؤ ہم بھی دھوم مچائیں
ان کے پروں میں چھُپ جائیں
چندا ماموں بچوں کے ادب میں بہت اہمیت رکھتے ہیں، ان کا ذکر بے شمار نظموں میں پایا جاتا ہے.
آغا شید کاشمیری کی نظم ’’بلاوا‘‘:
چندا ماموں ہنس ہنس کر
اپنے پاس بلاتے ہیں
لیکن ہم کب جاتے ہیں
اتنی دور بھلا کوئی
تنہا اور کیسے جائے
پھر واپس کیوں کر آئے
احمد کلیم فیض پوری کی نظم:
چندا ماموں دُور کے
دیکھیں ہم کو گھُور کے
اسی طرح:
چنداماموں آؤ نا
ساتھ ہمارے کھاؤ نا
بدلی میں چھپ بیٹھے ہو
اپنا روپ دکھاؤ نا
قیوم نظر کی نظمیں ’’مؤذن، دعا، خاک وطن، ملو ملاؤ، سچ بولو، چوزے مرغی کے، کوئل، جگنو، کوا بولا، چڑیا کے بچے، طوطے کا بچہ، جنگلی کبوتر‘‘ وغیرہ ہیں. ان کی سب سے مشہور نظم ’’بلبل کا بچہ‘‘ ہے جسے بچے آج بھی پسند کی نگاہ سے دیکھتے اور شوق سے پڑھتے ہیں:
بلبل کا بچہ
کھاتا تھا کھچڑی
پیتا تھا پانی
ایک دن اکیلا
بیٹھا ہوا تھا
میں نے اُڑایا
واپس نہ آیا
مولانا ظفر علی خاں نے بھی بچوں کے لیے نظمیں لکھیں، ان میں سے ان کی نظم ’’ماں باپ کا ادب‘‘ کو بہت سراہا گیا۔
بچوں کے نثر نگاروں میں کرشن چندر، عصمت چغتائی، احمد عباس، شوکت تھانوی، قراۃ العین حیدر (ان کا ناول جن، حسن عبدالرحمٰن مشہور ہیں)، مائل خیر آبادی، یوسف ناظم، ڈاکٹرمظفر حئی، شفیقہ فرحت، عطیہ پروین، کرنہ شبنم، وغیرہ اہم ہیں۔
بچوں کے لیے لکھنے والوں میں ایک معتبر نام جنا ب مسعود احمد برکاتی کا بھی آتا ہے جنہوں نے ہمدرد فاؤنڈیشن کے تحت بچوں کے لیے تقریباً تین عشرے اپنی خدمات سر انجام دے کر بہت کام کیا۔ ان کی کتب میں بچوں کا پہلا سفر نامہ ’’دو مسافر، دو ملک‘‘ شائع ہوا. اس کے علاوہ’’ پیاری سی پہاڑی لڑکی، چور پکڑو، تین بندوقچی‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
مسعود احمد برکاتی کے علاوہ اختر عباس بھیا نے بھی بچوں کے لیے ایک سفر نامہ لکھا. وہ ماہنامہ ’’پھول‘‘ کے ایڈیٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی خدمات بچوں کے ادب کے حوالہ سے گراں قدر ہیں۔ شوکت پردیسی نے غزل کو مزاحیہ انداز میں پیش کرکے بچوں کے بعض جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے، بچوں کے لیے لکھا ہے:
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی چھٹی نظر آتی
حلوہ ملتا ہے پر نہیں ملتا
چائے آتی ہے پر نہیں آتی
امتحان کیا قریب ہے یارو
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
بس ریاضی کو دیکھ کر چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
فیض احمد فیضؔ کی نظم ’’سالگرہ‘‘ بھی بچوں کے ادب کے لیے اچھا اضافہ ہے۔
پاکستان میں بچوں کے لیے ڈرامے اور پروگرام لکھنے والوں میں عملی کام کی وجہ سے سب سے زیادہ شہرت ’’فاروق قیصر عرف انکل سرگم‘‘ کو ملی۔ ان کا پروگرام ’’کلیاں‘‘ کافی عرصہ تک بچوں کا سب سے پسندیدہ رہا۔ انھوں نے پُتلیوں کے ذریعے بچوں کے بے شمار پروگرام اور ڈرامے لکھے۔ ان کے بعض کردار آج بھی بچوں کو یاد ہیں مثلاً انکل سرگم، رولا، ماسی مصیبتے۔ اسی طرح بچوں کے پروگراموں اور ڈرامہ کے لیے فاطمہ ثریا بجیا کا نام بھی آتا ہے۔
ڈرامہ نگاروں میں امتیاز علی تاج، نورالہٰی محمد، ہر چند اختر، ڈاکٹر عابد، مرزا ادیب، عبدالغفار مدھول، اظہر افسر وغیرہ شامل ہیں. اس کے علاوہ بچوں کے ڈرامے ’’بہادر علی‘‘ اور ’’عینک والا جن‘‘ نے کمال شہرت پائی۔
بچوں کے لیے ناول لکھنے والوں میں راشد الخیری، سراج انور، کرشن چندر، انور عنایت اللہ، عزیز اثری، نظر زیدی، لطیف فاروقی وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ ان میں سے راشد الخیری نے خصوصاً بچوں اور بچیوں کے مسائل اور دکھوں کی عکاسی کرکے ’’مصورِغم‘‘ کا لقب پایا۔ ان کی کتب میں ”سمرنا کا چاند، صبح زندگی، شام زندگی، شب زندگی، نوحہ زندگی، حیات صالحہ، آمنہ کا لعل، بنت الوقت، سیدہ کا لعل، نانی عشو‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
بچوں کے لیے لکھنے والوں میں ایک نام امتیاز علی کا شامل کیے بغیر بچوں کے ادب کی تاریخ شاید نا مکمل رہ جائے. انھوں نے بچوں کے لیے سو سے زائد کتب تخلیق اور مرتب کیں اور خود اپنے ادارے سے انھیں شائع کر کے بچوں کے ادب میں ایک گراں قدر اضافہ کیا۔
بچوں کے لیے اکیسویں صدی میں لکھنے والوں اور نام کمانے والوں میں ابصار عبدالعلی، افق دہلوی، علی عمران ممتاز (دو بارصدارتی ایوارڈ یافتہ ہیں اور تقریباً ایک عشرے سے زائد عرصہ سے بچوں کے لیے ماہ نامہ ’’کرن کرن روشنی‘‘ شائع کر رہے ہیں ان کی کتابوں میں ’’روشن روشن میرا دیس اور نور کامل صدارتی ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں جب کہ ان کی کتاب ’’پیارے اللہ جی‘‘ کو خاصی پذیرائی مل چکی ہے)، امان اللہ نیر شوکت (ان صاحب نے تو اپنی زندگی ہی بچوں کے ادب کے لیے وقف کر رکھی ہے یہ پچھلے چار پانچ عشروں سے زائد عرصہ سے بچوں کے لیے شاعری اور نثر لکھ رہے ہیں. ان کی متعدد کتب شائع ہو چکی ہیں، اس کے علاوہ ماہ نامہ ”بچوں کا پرستان‘‘ بھی شائع کر رہے ہیں)، محبوب الٰہی مخمور (محبوب صاحب کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ ماہ نامہ ”انوکھی کہانیاں‘‘ کے مدیرِاعلی ٰ ہیں. ان کی تقریباً ایک درجن کے قریب کتب مختلف اداروں سے ایوارڈ حاصل کر چکی ہیں. اس کے علاوہ ان کا ادارہ ’’الہٰی پبلیکیشنز‘‘ دیگر کتب کی اشاعت کے علاوہ بچوں کے ادب کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دے رہا ہے جو اب تک مختلف ادبا کی بچوں کے لیے سو سے زائد کتب شائع کر چکا ہے) وغیرہ شامل ہیں.
میں ’’دعوۃ اکیڈمی، شعبہ بچوں کا ادب‘‘ کے سربراہ جناب ڈاکٹر افتخار کھوکھر کو بابائے ادب اطفال کہنے میں ذرا بھی عارمحسوس نہیں کرتا کیوں کہ ان کی بچوں کے ادب کے حوالے سے بیش بہا خدمات ہیں. ان کی ایک کتاب ’’روشنی کا سفر‘‘ شائع ہوئی جو بچوں کے ادب کے لیے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے کیوں کہ اس میں بچوں کے ادب کے حوالہ سے بے شمار رسائل، تنظیموں اور کتب کا تذکرہ ملتا ہے جس سے بچوں کے ادب کی تاریخ لکھنے اور اسے محفوظ کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے. نہ صرف یہ بلکہ یہ کتاب بچوں کے ادیبوں کے لیے ایک راہنما سے کم نہیں. اسی طرح دیگر لکھنے والوں میں الطاف پاریکھ، فداشاہین، نوشاد عادل، مظہر صدیقی، ساجد کمبوہ، ناصر محمود، ڈاکٹر فضیلت بانو، شبانہ رشید، حسن اختر، احفاظ الرحمٰن، طارق ریاض، عائشہ عمران، نذیر انبالوی، حاجی لطیف کھوکھر، صالحہ صدیقی، رضوان شہزاد، عمران مشتاق، ساحل ابڑو، سلمان یوسف، روحان دانش اور عبدالرحیم عزمؔ ( بندہ نا چیز پر تقصیر راقم الحروف) وغیرہ بے شمار نام ہیں۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں بھی بچوں کے لیے بہت لکھا جا رہا ہے بچوں کے ادب کے واحد ایوارڈ یافتہ سپوت ’’جاوید نور‘‘ کی کتاب ’’نرالی دنیا‘‘ دعوۃاکیڈمی کی طرف سے انعام وصول کر چکی ہے. ان کی کہانیوں میں ’’جہنم لائن، ننھا تارا، سفید گھوڑا، خونی شیر‘‘ شامل ہیں. اسی طرح کوئٹہ سے پاکستان ینگ رائٹر فورم بھی کام کر رہا ہے۔
بلوچستان سے ہی بچوں کے ادب کے لیے شیخ فرید اللہ کا نام بھی جانا پہچانا ہے. ان کی کتابیں ’’پھول چراغ اور ہم شکل‘‘ بچوں کے لیے شائع ہو چکی ہیں۔
بچوں کے ادب کی ترقی میں بچوں کے رسائل کا کردار سب سے جدا اور بہترین ہے۔ اُردو میں بچوں کا سب سے پہلا رسالہ 1900ء میں منشی محبوب عالم نے نکالا۔ بچوں کے رسائل میں انوکھی کہانیاں، کرن کرن روشنی، پھول، خزانہ، تعلیم و تربیت، بچوں کا پرستان، کرنیں، بچوں کی دنیا، گل بوٹے(انڈیا)، نونہا ل، بچوں کا گلستان، ننھے فرشتے، پیغام، ذوق و شوق، ساتھی، اذان سحر، جوان ادب، سعادت، مکبر، بابل، بچے من کے سچے وغیرہ اہم ہیں.
’’غنچہ‘‘ بجنور سے، ’’سعید‘‘ کانپور سے، ’’پیام تعلیم‘‘ دہلی سے، ’’ہدایت‘‘ لاہور سے، ’’بچوں کا آج‘‘ دہلی سے، ’’کھلونا ‘‘دہلی سے، ’’سیارہ‘‘ کراچی، ’’میرا رسالہ‘‘ کراچی سے، ’’پھلواری‘‘ لاہور سے، ’’بچوں کا مشرق‘‘ کوئٹہ سے، ’’بچوں کا اخبار‘‘ کوئٹہ، ’’سم سم‘‘ کراچی سے، ’’جگمگ موتی‘‘ بچوں کا واحد ہفت روزہ ہے، ’’ شاہین پشاور سے، ’’روضۃ الاطفال‘‘ لاہور سے، ’’مسلمان بچے، بچوں کی دنیا، روشن‘‘ راولپنڈی سے، ’’بزم قرآن‘‘ مظفر آباد سے، ’’ گلونہ‘‘ پشاور سے، ’’جنگل منگل‘‘ کراچی سے، ’’جگمگ تارے‘‘ کراچی سے، ’’سکول ٹائمز‘‘ خانیوال سے، ’’مجاہد ‘‘ پشاورسے، ’’چندا‘‘ کراچی سے، ’’کھلتی کلیاں‘‘ کراچی سے، ’’نٹ کھٹ ‘‘ حیدرآبادسے، ’’نور‘‘ لاہور سے، ’’بچوں کا گلستان‘‘ خانیوال سے، ’’بچوں کا باغ‘‘ لاہورسے، ’’کوثر‘‘ لاہور سے (قرآن سوسائٹی کی طرف سے)، ’’بچوں کا اشتیاق‘‘ جھنگ سے، ’’بزم قرآن‘‘ پشاور سے، ’’ادب اطفال‘‘ لیہ سے، ’’بزم تعلیم‘‘ کرم ایجنسی سے، ’’ بزم منزل‘‘ کراچی سے، ان اور دیگر رسائل کی مدد سے بچوں کے ادب کی بہتری و ترقی کے لیے بہت کام ہو رہا ہے۔
ہمارے ہمسائے ملک بھارت میں بھی بچوں کے ادب کے لیے بہت عمدہ کام ہو رہا ہے. انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کو اس حوالے سے خاصی شہرت حاصل ہے۔ بھارت سے ڈاکٹر اسرارالحق سبیلی ’’بچوں کی باتیں، بچوں کے ادب کی تاریخ 2016ء، بچوں کا ادب اور اخلاق، 2015ء‘‘ لکھ چکے ہیں. انڈیا سے ہی بچوں کے ادیب اور شاعر ’’حافظ کرناٹکی‘‘ کو خاص شہرت حاصل ہے۔ انڈیا سے بچوں کی خاتون ادیب ’’بانو سرتاج‘‘ نے بچوں کے لیے بہت کچھ لکھا. ان کی کتابیں ’’انوکھی بی بی کی سرائے، یک بابی ڈرامے، لوک کہانیاں، جن میں ’’ایک کی گیارہ، دو کی بارہ، تین کی تیرہ، چار کی چودہ، پانچ کی پندرہ بہت مشہور ہیں۔
ادب اطفال کا مستقبل:
ادب اطفال کے حوالہ سے بہت سے مسائل اور مشکلات کے باوجود ایک خوش آئند بات یہ ہے کہ اب چند ادارے ایسے وجود میں آ چکے ہیں جن کا ادب اطفال کے لیے کردار مثالی ہے. جس بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بہت سی مشکلات اور مسائل کے باوجود ادب اطفال کا مستقبل روشن و تاباں ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں. اس لیے اب اسے مخدوش نہیں کہا جا سکتا۔ ان اداروں میں اکادمی ادبیات اطفال پاکستان، نیشنل بک فاؤنڈیشن پاکستان، دعوۃ اکیڈمی شعبہ بچوں کا ادب، وزارت مذہبی امور شعبہ ادب اطفال، اقبالؒ اکادمی، اُردو سائنس بورڈ وغیرہ سرکاری طور پر ادب اطفال کی ترقی اور بہتری کے لیے کوشاں ہیں۔
غیر سرکاری اداروں میں بچوں کا ادب ویلفیئر فاؤنڈیشن کراچی (اس تنظیم کی بچوں کے ادب کے لیے کارکردگی قا بل ذکر شہرت حاصل نہیں کر پائی ہے)، الٰہی پبلیکیشنز کراچی، امید روشنی فورم ملتان، ہمدرد اکیڈمی کراچی، بزم پھول، پاکستان رائٹرز کونسل، وفائے پاکستان ادبی فورم لاہور، ارتقاء آرگنائزیشن، پاکستان ینگ رائٹرز فورم کوئٹہ، پاکستان رائٹرز ونگ (بچوں کے ادبا کی ترقی اور فلاح کے لیے اس تنظیم کا کام مثالی شمار کیا جاتا ہے یہ انھیں ملک بھر میں متعارف کروانے ان کی کتب کی پذیرائی و رونمائی میں مدد دے رہی ہے)، یہ ادارے اپنی اپنی بساط میں ادب اطفال کی ترقی و اشاعت کے لیے مختلف اقدامات کر رہے ہیں بچوں کے ادبا کو اعزازات رائلٹی وغیرہ دیتے ہیں. ان کی کتب کی اشاعت و طباعت میں ان سے معاونت کرتے ہیں جس سے بچوں کے لیے پُر اثر اور اچھا ادب تخلیق ہورہا ہے۔ بچوں کے ادب کی بہتری و ترقی کے لیے بہت کام ہو رہا ہے۔ جگنو انٹرنیشنل، الفانوس انٹرنیشنل اگرچہ بڑوں کے لیے لکھنے والے شعرا و ادبا کی تنظیمیں ہیں لیکن بعض دفعہ یہ بچوں کے ادبا کی بھی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔
اب بچوں کے ادب میں روایتی جنوں، بھوتوں کی، طلسماتی اور دیومالائی کہانیوں سے ہٹ کر جدید موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے بچوں کی اخلاقی معاشرتی اور ذہنی تربیت کے نئے انداز میں ان کو اچھا اور پر اثر ادب فراہم ہو رہا ہے۔
’’بچوں کی دنیا‘‘ دہلی انڈیا سے اور ’’پھول‘‘ لاہور پاکستان سے بچوں کے عالمی شہرت یافتہ رسالے ہیں.
ایک خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ گذشتہ ایک دہائی سے بچوں کے لیے کافی کام ہوا ہے، جس میں رسائل و جرائد، سرکاری و غیر سرکاری ادارے، ٹرسٹ وغیرہ بچوں کے ادب کی اہمیت کو سمجھنے لگ گئے ہیں۔ اب ادب اطفال پر تحقیقی کام بھی شروع ہو گیا جس میں انڈیا سے ڈاکٹر خوشحال زیدی، ڈاکٹر اظہر حیات، ڈاکٹر اسرارالحق سبیلی وغیرہ نے اپنی تحقیقات میں بچوں کے ادب کو موضوع بنایا ہے.
مہاراشٹر انڈیا کی واحد ریاست ہے جہاں ادب اطفال پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے. بچوں کے رسائل و جرائد سب سے زیادہ یہیں سے شائع ہوتے ہیں۔
اسی طرح سے پاکستان میں بھی ڈاکٹر افضل حمید (جی سی یونیورسٹی فیصل آباد) وغیرہ نے بچوں کے ادب پر لکھا اور بہت سے دیگر سکالرز کو اس جانب راغب کر رہے ہیں جس سے ادب اطفال میں نئی جان آنا شروع ہو گئی ہے۔
ادب اطفال کی بڑھوتری میں ٹیکنالوجی کا بھی کردار ہے کیوں کہ اس جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے گذشتہ ادوار کی نسبت طباعت اب کافی آسان ہو گئی ہے. اس کے علاوہ اِسے با تصویر کر کے بچوں کے اور جاذب اور پر کشش بنایا جا سکتا ہے.
خصوصی استدعا: چوں کہ، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ بچوں کے ادب کی تاریخ مختصر انداز میں لکھنے کی جسارت کی گئی ہے اور بعض ادبا کے نام طوالت کی وجہ سے شامل نہیں ہو پائے یا اس میں بچوں کے کسی ادیب کانام ذکر میں آنے سے رہ گیا ہو اور انھیں اس بات کا دکھ ، افسوس ہوا تو ان سے دلی معذرت۔ وہ راقم الحروف سے رابطہ کر لے. آئندہ طباعت میں اس کے اختصار کو ختم کر کے زیادہ تفصیل سے لکھنے کی بھر پور کوشش کی جائے گی۔