بیٹا بوڑھے باپ کو ڈِنر کیلئے عالیشان ہوٹل میں لے گیا ۔ باپ ادھیڑ عمر اور کمزور تھا۔ کھانے کے دوران سالن اور چٹنی وغیرہ کپڑوں پر گرتی رہی اور بوڑھا باپ بار بار منہ بھی ٹِشوپیپر کی بجائے قمیض سے صاف کرتا رہا۔ ہوٹل میں بیٹھے دیگر افراد یہ دیکھ کر ناگواری محسوس کررہے تھے اور بعض طنزیہ انداز میں ہنس رہے تھے لیکن بیٹے کے چہرے پر اطمینان اور سکون کے تاثرات جوں کے توں تھے جیسے ڈِنر شروع ہونے سے قبل تھے۔ کھانا ختم کرنے کے بعد وہ بوڑھے باپ کو واش روم لے گیا اور رومال سے اسکا منہ اور کپڑے صاف کئے ،منہ دھونے اور کنگھی درست کرنے کے بعد وہ بوڑھے باپ کو ساتھ لئے واپس ہال میں آگیا ۔ اب سبھی لوگ اسے دیکھ رہے تھے ۔ اس نے بل ادا کیا اور ہوٹل سے باہر نکلنے لگا ۔ اسی لمحے ہوٹل میں بیٹھے ایک اور بوڑھے شخص نے اسے مخاطب کیا ۔
’’ آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کوئی چیز ہوٹل میں چھوڑ کرجارہے ہیں؟‘‘
’’ مجھے ایسا نہیں لگتا !‘‘ اس نے جواب دیا۔
بوڑھا شخص بولا : ’’ آپ بالکل چھوڑ کرجارہے ہیں … لیکن کوئی چیز نہیں …بلکہ ایک سبق، ہر بیٹے کیلئے … اور ایک امید ، ہر باپ کیلئے !‘‘
پورا ہوٹل خاموش تھا ۔