کلاسیکل ادب سے انتخاب … علی اکمل تصور کا انداز بیان
تحریر: علی اکمل تصور
کسی دریا کے کنارے پر ایک گائوں آباد تھا ۔ اس گائوں میں ایک دیہاتی رہتا تھا ۔ اس دیہاتی کی بیوی بہت ضدی عورت تھی ۔ ایک بار جس بات کی ضد کرلی پھر وہ نفع نقصان کے متعلق نہیں سوچتی تھی ۔ ایک دن اس نے ایک عجیب ضد کی۔
’’ مجھے دریا کے اس پار موجود جنگل کے پھل چاہئیں۔‘‘
وہ دیہاتی گھبرا گیا اور بولا:
’’ کیا تمھیں معلوم نہیں کہ دریا کے اس پار جنگل پر ایک ظالم جادوگرنی کا قبضہ ہے۔‘‘
’’ میں کچھ نہیں جانتی … مجھے تو بس اُسی جنگل کے پھل چاہئیں، ورنہ میں کھانا نہیں کھائوں گی۔‘‘دیہاتی کی بیوی ضد کی پکی تھی۔ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا۔ کمزوری کی وجہ سے بیماری نے حملہ کردیا یہاں تک کہ اس کی جان پر بن آئی ۔ بالآخر مجبور ہوکر وہ دیہاتی دریا کے اس پار جنگل کی طرف روانہ ہوا ۔ یہ ایک گھنا اور ویران جنگل تھا ۔ اس دیہاتی کو ڈر لگ رہا تھا مگر وہ اپنی بیوی کی ضد کے آگے مجبور تھا ۔ جنگل میں بہت سے پھل دار درخت موجود تھے ۔ وہ دیہاتی ابھی پھل توڑ ہی رہا تھا کہ ایک کرخت آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی :
’’ ہوں … ہوں … ہوں … کون ہو تم ؟… اور تمہیں یہاں سے پھل توڑنے کی جرأت کیسے ہوئی؟‘‘ یہ آواز اس ظالم جادوگرنی کی تھی جس کا اس جنگل پر قبضہ تھا ۔ وہ دیہاتی تو پہلے ہی ڈرا ہوا تھا اب سہم کر بولا :
’’ مجھے معاف کردیں … میری بیوی بیمار ہے … اس کے علاج کے لئے مجھے ان پھلوں کی ضرورت ہے۔‘‘
جادوگرنی کچھ سوچ کر بولی :
’’ ٹھیک ہے … تم پھل لے سکتے ہو ، مگر ان پھلوں کے بدلے میں تم مجھے کیا دو گے ؟‘‘
’’ جو آپ کا دل چاہے !‘‘ دیہاتی فوراً ہی آمادہ ہوگیا ۔
’’ ابھی تو مجھے کچھ نہیں چاہیے … مگر تمہاری پہلی اولاد پر میرا حق ہوگا … بولو منظور ہے ؟… ورنہ سخت سزا کے لئے تیار ہوجائو۔‘‘ اس جادوگرنی نے دھمکی دی۔
’’ مجھے منظور ہے۔‘‘ دیہاتی نے شرط مان لی۔
وہ اس ظالم جادوگرنی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے قابل نہیں تھا ۔
’’ ٹھیک ہے … اب تم جب چاہو یہاں سے پھل لے جاسکتے ہو ۔‘‘ جادوگرنی نے اسے پھل توڑنے کی اجازت دے دی تھی ۔
وہ دیہاتی آدمی جنگلی پھل لے کر گھر پہنچا تو اس کی بیوی بہت خوش ہوئی ۔ پھر تو یہ معمول بن گیا اب وہ آدمی روزانہ جنگل سے پھل توڑ لاتا اور اس کی بیوی خوش ہوکر کھاتی۔ چند ہی دنوں میں وہ صحت یاب ہوگئی ۔
تھوڑا ہی عرصہ گزرا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک پیاری سی بیٹی سے نوازا۔ ان کی بیٹی گڑیا جیسی تھی ۔ کالی آنکھیں اور لمبے سنہری بال… ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ایک دن وہ ظالم جادوگرنی ان کے گھر پر چلی آئی ۔ جادوگرنی کو دیکھ کر اس دیہاتی آدمی کو اپنا وعدہ یاد آگیا ۔ اب تو اس آدمی کی ضدی بیوی بھی بہت پچھتائی ۔ وہ بہت روئی مگر اس ظالم جادوگرنی کو ترس نہ آیا ۔ وہ بچی کو اٹھائے گھر سے باہر نکل آئی ۔ اس آدمی کی بیوی کو اپنی ضد کی سزا مل چکی تھی ۔
جادوگرنی اس بچی کو لے کر جنگل میں چلی آئی ۔ سنہرے بالوں کی وجہ سے اس نے اس بچی کا نام ’’سونیا‘‘ رکھا ۔ سونیا کے رہنے کے لئے اس نے ایک جھونپڑی بنائی اور پوری احتیاط اور توجہ سے سونیا کی پرورش کی ۔
سونیا جب بارہ برس کی ہوئی تو جادوگرنی کو ایک فکر ستانے لگی کہ کہیں سونیا اسے چھوڑ کر چلی نہ جائے ۔ اب اس ظالم جادوگرنی نے سونیا کو قید کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ پھر اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی ۔ اس نے جادو کے زور پر جنگل میں ایک بلند مینار بنادیا ۔ اس مینار کا کوئی دروازہ نہیں تھا اور نہ ہی آنے جانے کے لئے کوئی سیڑھیاں موجود تھیں ۔ اب اس جادوگرنی نے مینار کی چوٹی پر سونیا کو قید کردیا ۔
سونیا کے ریشمی سنہری بال بہت لمبے تھے اور یہی سونیا تک پہنچنے کا راستہ تھا ۔ وہ یوں کہ جادوگرنی مینار کے نیچے کھڑے ہوکر آواز لگاتی:
’’ سونیا … اپنے بال نیچے لٹکائو۔‘‘ سونیا مینار کی کھڑکی میں سے اپنے بال نیچے لٹکا دیتی ۔ جادوگرنی ان بالوں کو رسی کی طرح استعمال کرتی اور اوپر چڑھ جاتی ۔ واپسی پر بھی وہ ان بالوں کی مدد سے نیچے اترتی ۔ دن بھر اس جادوگرنی کا سونیا کے پاس آنا جانا لگا رہتا ۔ مگر جانے کیوں سونیا اب اداس رہتی تھی ۔ وہ زمین پر تھی تو چل پھر لیتی تھی ، مگر اب تو وہ بلندی پر قید ہوگئی تھی ۔ یہاں پر وہ ارد گرد کے مناظر دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتی تھی یا پھر پرندے اس کے پاس آبیٹھتے تھے اور وہ ان سے باتیں کرتی تھی ۔ اب وہ اداسی بھرے نغمے بھی گنگناتی تھی ۔
میں اکیلی ہوں …
قید میں ہوں …
کوئی تو آئے …
مجھے آزاد کرائے …
ایک دن قریبی ملک کا شہزادہ شکار کی تلاش میں ادھر آ نکلا ۔ اس نے سونیا کا یہ نغمہ سنا تو بے چین ہوگیا ۔ اسے آواز تو سنائی دے رہی تھی مگر نغمہ گنگنانے والی نظر نہیں آرہی تھی۔ وہ شکار بھول کر آواز کی تلاش میں نکلا تو اسے ایک مینار نظر آیا ۔ آواز مینار کی چوٹی سے آرہی تھی ۔ اس نے گھوم پھر کر دیکھا۔ حیرت والی بات یہ تھی کہ مینار کے اندر جانے کے لئے کوئی دروازہ نظر نہیں آرہا تھا ۔ شہزادہ ابھی سوچ بچار کر ہی رہا تھا کہ اچانک اس نے ایک بدصورت عورت کو ادھر آتے دیکھا ۔ وہ فوراً ایک درخت کے پیچھے چھپ گیا۔ یہ عورت غالم جادوگرنی تھی ۔ وہ مینار کے پاس آکر رکی اور اس نے سونیا کو آواز دی۔
’’ سونیا … سونیا … اپنے بال نیچے لٹکائو ۔‘‘
سونیا نے بال نیچے لٹکا دئیے ۔ جادوگرنی ان بالوں کے سہارے اوپر چڑھ گئی ۔ یہ منظر شہزادے کے لئے بہت حیرت والا تھا۔ تھوڑی دیر بعد جادوگرنی چلی گئی ۔ اب شہزادہ آگے بڑھا۔
’’ سونیا … سونیا … اپنے بال نیچے لٹکائو۔‘‘
اس نے جادوگرنی کے لہجے کی نقل اتاری۔
سونیا جادوگرنی کی دوبارہ آمد پر حیران ہوئی مگر اس نے اپنے بال نیچے لٹکا دئیے۔ شہزادہ بالوں کی مدد سے اوپر پہنچا تو سونیا ایک اجنبی آدمی کو دیکھ کر پریشان ہوگئی ۔
’’ گھبرائو نہیں … میں تمہارا اداس نغمہ سن کر آیا ہوں۔ میں تمہاری مدد کیلئے آیا ہوں ۔‘‘ شہزادہ نرمی سے بولا ۔
یہ بات سن کر سونیا کا خوف دور ہوگیا ۔ اس سونیا نے شہزادے کو بتایا کہ وہ ایک لمبے عرصے سے اس ظالم جادوگرنی کی قید میں ہے۔ وہ اپنے بالوں کی مدد سے کسی آنے والے کو مینار پر چڑھنے میں مدد دے سکتی ہے۔ مگر خود اپنے بالوں سے مدد نہیں لے سکتی۔ اب شہزادہ سوچنے لگا ۔ پھر اسے ایک ترکیب سوجھ گئی ۔
’’ تم فکر مت کرو … میں روزانہ تم سے ملنے آئوں گا اور روزانہ اون کا ایک گولہ اپنے ساتھ لایا کروں گا۔ تم فرصت کے وقت میں اون کی مدد سے ایک رسی تیار کرنا ۔ جب رسی اتنی لمبی ہوجائے گی کہ تم مینار سے اتر سکو، تو میں تمہیں اس قید سے رہاکرواکر اپنے ساتھ لے جائوں گا۔‘‘
سونیا رضا مند ہوگئی ۔ اب شہزادہ روزانہ سونیا کے پاس آتا ۔ اسے اون کا گولہ دیتا ۔ اسے جنگل کے باہر کی دنیا کی کہانیاں سناتا اور واپس چلا جاتا ۔ سونیا فرصت کے وقت میں رسی بنتی رہتی ۔ آخر کار وہ دن بھی آگیا جب رسی تیار ہوچکی تھی ۔ اب سونیا کو شہزادے کا انتظار تھا کہ اس نے جادوگرنی کی آواز سنی۔ سونیا نے اپنے بال نیچے لٹکا دئیے ، جادوگرنی اوپر آئی اور پھر بدقسمتی اس نے رسی دیکھ لی ۔ وہ تو چیخنے لگی چلانے لگی ۔
’’ میری غیر موجودگی میں کون یہاں آتا ہے اور یہ رسی کس لئے بنائی ہے ۔‘‘
’’ وہ ایک شہزادہ ہے … وہ مجھے اس قید سے رہائی دلائے گا ۔‘‘ سونیا غم سے بولی ۔
’’ میں نے اتنے ناز نخرے سے تیری پرورش کی … اور … اور… تونے مجھے یہ صلہ دیا … اس کی سزا ملے گی ۔‘‘ اب اس جادوگرنی نے قینچی اٹھائی اور سونیا کے لمبے سنہری بال کاٹ دئیے۔ سونیا تو غم سے بے ہوش ہوگئی ۔ اس ظالم جادوگرنی نے اپنے جادو کے ذریعے سونیا کو گھنے ویران جنگل میں پھینک دیا ۔ اتنے میں شہزادہ آ پہنچا ۔ اس نے سونیا کو آواز دی ۔ مگر مینار کی چوٹی پر جادوگرنی موجود تھی ۔ اس نے سونیا کے بال نیچے لٹکا دئیے ۔ شہزادہ اوپر پہنچا تو جادوگرنی کو دیکھ کر پریشان ہوگیا ۔
’’ سونیا کہاں ہے ؟ ‘‘ شہزادے نے پوچھا ۔
’’ اب تم اسے کبھی دیکھ نہیں پائو گے۔‘‘ جادوگرنی نے ایسا جادو کیا کہ شہزادے کی بینائی ختم ہوگئی ۔ جادوگرنی نے اسے بھی جنگل میں پھینک دیا ۔
اب شہزادہ جنگل میں بھٹکتا رہتا اور سونیا کو تلاش کرتا رہتا ۔ مگر اسے کچھ نظر نہیں آتا تھا ۔ ایک دن اس کے کانوں سے ایک آواز ٹکرائی ۔
میں اکیلی ہوں …
قید میں ہوں …
کوئی تو آئے …
مجھے آزاد کرائے …
یہ سونیا کی آواز تھی وہ اداسی بھرا نغمہ گنگنا رہی تھی۔ اندھا شہزادہ اس آواز کی سمت میں چل پڑا ۔ ایسے میں سونیا نے شہزادے کو دیکھ لیا ۔ وہ دوڑ کر شہزادے کے پاس آئی ۔ شہزادے کو اس حال میں دیکھ کر وہ رونے لگی ۔
’’ اے میرے اللہ ! اپنا فضل کردے۔‘‘ اس کی دعا میں ایسا اثر تھا کہ جادوگرنی کے جادو کا اثر ختم ہوگیا ۔ شہزادے کی بینائی واپس لوٹ آئی ۔ اب وہ سونیا کو دیکھ سکتا تھا ۔
’’ یااللہ … تیرا شکر ہے۔‘‘ شہزادہ بولا۔
وہ دونوں بہت خوش تھے ۔ پھر شہزادہ ، سونیا کو لے کر اپنے ملک روانہ ہوگیا ۔ وہ ظالم جادوگرنی آج بھی اس جنگل میں بھٹکتی رہتی ہے ۔
Tags:- stories with morals for kids moral stories for kids in urdu kids stories with morals مینار کے قیدی - علی اکمل تصور بچوں کی ویب - bachon ki web