https://bachonkiweb.com bachon ki web بچوں کی ویب

میں نے معاف کیا ! – سمیرا انور

چنٹی،منٹی خراماں خراماں اپنی نانی اماں کے پیچھے چل رہی تھیں ۔وہ دو شرارتی بلیاں تھیں ہر وقت انھیں کوئی نہ کوئی شرارت سوجھتی رہتی تھی۔وہ کھانے کی بہت شوقین تھیں، کھانے حاصل کرنے کی خاطر وہ کچھ بھی کر سکتی تھیں۔
آج تو وہ بہت خوش تھیں کیونکہ اُن کی نانی اماں اُنھیں اپنے شہر والے گھر لے جارہی تھیں ۔بڑی سی کو ٹھی میں،مزے مزے کی چیزیں ہوں گی … آہا! وہ عیش کریں گی … لیکن نانی اماں کی دھمکی…
’’ تم نے ذرا سا مجھے ستایا تو تمہیں واپس تمہاری ماں کے پاس بھیج دوں گی ۔‘‘
اُن کی اس بات نے سارا مزا کر کرا کر دیا تھا۔
’’ چنٹی ،منٹی! دونوں کان کھول کر سن لو ،یہ تمہاراگائوں نہیں ہے کہ تم اچھلتی کودتی، اِدھر اُدھر پھرتی رہو، ایسا کروگی تو اپنی جان سے جائو گی کیونکہ ’عینی بی بی ‘نے ایک خطرناک سا ’ٹونی ‘پال رکھاہے ۔وہ تمہیں ہڑپ کر جائے گا ۔‘‘نانی نے بڑے سے محل نما گھر کی دیوار پھلانگتے ہوئے انہیں خبردار کیامگر وہ کہاں سمجھنے والی تھیں ۔وہ کھے،کھے ،کر نے لگی ۔
’’ارے نانی!آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں،ہم اس ٹونی کو دو دن میں ایسا سبق سکھائیں گی کہ وہ یاد رکھے گا ،کیوں منٹی ؟‘‘
چنٹی نے اپنے پیچھے آتی منٹی سے تائید چاہی ۔
’’ہاں نانی ! ہم اُسے اُس کی نانی یاد کر ا دیں گئے…ہاہاہا۔‘‘ منٹی نے گلا پھاڑ کر ہنستے ہوئے کہا۔
’’ارے نامرادو… چپ کر جائو ،تمہاری آوازیں سن کر کوئی آجائے گا۔ میںپہلے ہی ڈرتے ڈرتے یہاں رہتی ہوں۔‘‘ نانی اماں نے اُکتا کر کہا۔
’’جگہ تو بہت اچھی ہے نانی، کیوں نہ ہم یہاں مستقل ہی رہ جائیں۔‘‘ منٹی نے نانی کی تقلید میں، اُن کے ڈربے نماگھر میں پائوں پسارتے ہوئے کہا۔
’’ عینی بی بی بہت نرم دل ہیں، انھوں نے مجھے یہ پرانا گدا دے دیا تھا تاکہ میری بوڑھی ہڈیوں کو ٹھنڈا نہ لگ جائے اور تم کم بخت ماریوں نے سارا گدا ہی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔‘‘ نانی اماں کی تھکان سے آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھیں۔وہ پھر وہ سو گئیں۔
چنٹی نے شریر آنکھوں سے منٹی کی طرف دیکھا اور سر گوشی کرتے ہوئے کہا:
’’ نانی جلد نہیں اُٹھیں گی۔ آئو اس شاندار محل کی سیر کر آئیں۔‘‘ منٹی تو جیسے تیا ر ہی بیٹھی تھی ۔ دونوں آگے پیچھے چلنے لگیں :
’’کیا خوبصورت کوٹھی ہے۔‘‘ منٹی نے حیرانی سے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’منٹی! وہ دیکھو ، ٹونی ہمیں کیسے گھور رہا ہے !‘‘چنٹی نے کچھ فاصلے پر بندھے، ٹونی کی لٹکتی زبان دیکھ کر کہا۔
’’ہم اسے اتنا ستائیں گی کہ ہمیشہ یاد رکھے گا۔‘‘
’’بالکل …‘‘
پھروہ واپس نانی کے پاس چلی آئیں۔ وہ ابھی تک سو رہی تھیں۔
O
صبح کے اُجالے نے اُنہیں بھوک کا احساس دلایا مگر نانی تو وہاں موجو د ہی نہ تھیں جو اُن کے کھانے پینے کا انتظام کرتیں۔ وہ ان کی تلاش میں چپکے سے محل کے اندورنی حصے کی طرف جانے لگیں۔
وہ وہاں کا منظر دیکھ کر خوشی سے جھوم اُٹھیں۔ نانی ایک پیاری سی لڑکی کے پاس رکھے پیالے سے دودھ نوش کر رہی تھیں۔ وہ بھاگتی ہوئی ان کے پاس آگئیں۔
عینی نے ،سفید اوربھوری مانو دیکھیں تو تیزی سے ان کے قریب آئی۔ وہ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور پیار کرنے لگی۔ پھر جلدی سے ان کے لیے گرما گرم دودھ لے آئی جو وہ ایک ہی سانس میں غٹاغٹ پی گئیں۔
ٹونی ان کی طرف دیکھ کر ناک بھوں چڑھانے لگا، جیسے اُسے ان کا آنا اچھا نہ لگا ہو۔
عینی بی بی نے اپنے امی ،ابوسے ضد کر کے انہیں اپنے کمرے کے ساتھ والا سٹور دلادیا ۔ وہاں اُس نے اچھا سا کارپٹ بھی بچھا دیا تھا۔ ان کی تو موج ہی ہوگئی۔
’’ٹونی بے چارا منھ دیکھتا رہ گیا ۔‘‘منٹی نے اتراتے ہوئے کہا۔
’’ہمارے آنے سے پہلے اس نے یہاں بہت مزے کیے ہوں گے، اب ہماری باری ہے۔‘‘ چنٹی نے کہا۔
وہ آئے دن کسی نہ کسی طریقے سے ،ٹونی کو تنگ کرتیں۔وہ کچھ گوشت بچا کر رکھ لیتاتھا کہ کچھ دیر بعد کھائوں گا، تھوڑا سا سستا لوں ۔جب اس کی آنکھ کھلتی… چنٹی ،منٹی میں سے کوئی اس کو نگل چکی ہوتی۔
ایک دن ٹونی ،عینی کے ابو کے ساتھ باہر گھومنے گیا تو جاتے ہوئے انھوں نے اُس کی رسی اُتار کر وہی رکھ دی تاکہ اُسے چلنے میں مسئلہ نہ ہو ۔
چنٹی ، منٹی کو شرارت سوجھی ۔ وہ تیزی سے جا کر رسی کو منہ میں دباکر پچھلے صحن میں پھینک آئیں۔کچھ دیر بعد ٹونی بھی آگیا۔ عینی کے ابو نے رسی کو غائب پایاتو پریشان ہوگئے۔ انہوں نے بہت تلاش کیا مگررسی مل کر نہ دی۔عینی کی امی نے ایک نئی رسی ڈھونڈ کر دی۔اُنھوں نے اسے باندھ دیا۔ٹونی کو پورا یقین تھا کہ یہ چنٹی، منٹی کا کیا دھرا ہے۔وہ مناسب وقت کا انتظا ر کرنے لگا، جب وہ انہیں اچھی سزا دلوا سکے۔
ایک دن عینی اپنے سکول ٹرپ کے ساتھ چلی گئی۔ اس نے جاتے ہوئے امی ،ابو سے درخواست کی کہ وہ چنٹی،منٹی کو کچھ نہیں کہیں گئے اور ان کا خاص خیال رکھیں گئے۔
O
چنٹی ،منٹی کو بھوک بہت زیادہ لگتی تھی۔ عینی آج گھر میں موجود نہیں تھی۔وہ انہیں وقتاًفوقتاً چاکلیٹ اور بسکٹ کھانے کو دیتی رہتی تھی۔وہ کھانا تلاش کرنے لگیں۔
ادھر ٹونی کو علم ہو گیا کہ وہ کھانے کی تلاش میں ادھر ادھر گھوم رہی ہیں۔اُس نے چپکے سے اپنی رسی کھولی ۔ عینی کی امی ،ابو گھر پر نہیں تھے۔ انہیں ایمرجنسی میں ایک دعوت پر جانا پڑ گیا تھا۔ چوکیدار فون پر مصروف تھا۔ وہ جلدی سے باورچی خانے کی طرف اس انداز سے دوڑا کہ جیسے وہاں کوئی مزے کی چیز موجودہو۔ اس کے ذہن میں شاندار ترکیب تھی۔چنٹی ،منٹی نے جب اُسے یوں بھاگتے دیکھا تو خود بھی تیزی سے دوڑیں کہ پتا نہیں وہ کیوں دوڑا ہے۔وہ جب باورچی خانے کے دروازے پر پہنچیں تو دیکھا کہ ٹونی ایک کھلی الماری کے اندر منہ لے جا رہا ہے۔ وہ تیزی سے اُس کی طرف لپکیں اور جلدی سے الماری میں گھس گئیں۔ لالچ انسانوں میں ہو یا جانوروں میں، نقصان کا باعث ہوتا ہے۔
ان کے اند ر جانے کی دیر تھی… ٹونی نے آہستہ سے الماری کا دروازہ بند کر دیا۔
چنٹی ،منٹی جوش میں الماری کے اندر گھس گئی تھیںلیکن وہاں گھی کے خالی ڈبوں اور کاٹھ کباڑ کے سوا کچھ نہ تھا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھردیکھا، جب کچھ نہ ملا تو باہر کی طرف آنے لگیں مگر اب دیر ہو چکی تھی۔

الماری کادروازہ بند تھا۔
’’ارے! دروازہ تو بند ہے، ہم باہر کیسے جائیں گی۔‘‘ وہ گھبرا گئیں۔ پھر انھوں نے چلا نا شروع کر دیا ۔گھر میں کوئی ہوتا تو ان کی مدد کو آتا ۔ بہت سا وقت بیت گیاتھا۔ وہ ابھی تک بھوکی پیاسی الماری میں بند تھیں۔
وہ جان گئی تھیں کہ دروازہ ٹونی نے بند کیا تھا ۔انہیں ٹونی پر بے حد غصہ آ رہا تھا۔
’’چنٹی! اب کیا کریں… ہم یہاں سے کیسے باہر نکلیں گی ؟‘‘ منٹی نے روتے ہوئے کہا۔
’’جانے کوئی اس الماری کو کھولے گا بھی یا نہیں۔ اللہ کرے، کوئی یہاں آجائے۔‘‘ چنٹی نے سسکتے ہوئے کہا۔
مشکل اور پریشانی میں اللہ سب کی مدد کرتا ہے۔ پس وہ اللہ سے التجا کرنے لگیںکہ اب وہ کبھی کسی کو تنگ نہیں کریں گی۔ ٹونی کو تو بالکل بھی پریشان نہیں کریں گی۔ وہ اللہ سے وعدہ کر رہی تھیں۔پھر انہوں نے رونا شروع کر دیا۔اللہ سے جو مدد مانگتے ہیں، اللہ اُن کی مدد ضرور کرتا ہے۔ کچھ وقت اور گزرا تو گیٹ سے گاڑی اند ر داخل ہوئی ۔عینی کے امی ،ابو آگئے تھے۔ وہ گاڑی سے اُترے تو ٹونی تیزی سے ان کی طرف آیا اور باورچی خانے کی طرف دیکھ کر بھونکنے لگا۔ جیسے وہ انہیں کچھ بتانا چاہ رہا ہو۔ انھوں نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔پھر نہ چاہتے ہوئے بھی باورچی خانے میں چلے گئے۔ ٹونی الماری کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا اور دائیاںپائوںدروازے پر مارنے لگا۔ دونوں آگے بڑھے تو حیرت سے اُچھل پڑے۔ الماری کے اندر سے چنٹی، منٹی کے سسکنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔عینی کی امی نے الماری کا آٹومیٹک لاک کھول کر، دروازہ کھولا… پھر وہ یک دم پیچھے ہٹ گیں۔ خوف زدہ چنٹی، منٹی الماری سے نکل کر ایک طرف جا کر بیٹھ گئیں۔ دونوں ساری کہانی سمجھ گئے اور مسکرانے لگے۔پھر عینی کے ابو نے چنٹی ، منٹی کو دودھ پلایا تو ان کی جان میں جان آئی۔ دروازے کے قریب ہی ٹونی کھڑا تھا ۔ چنٹی ، منٹی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی اُس کے پاس جا کھڑی ہوئیں۔
’’میائوں، میائوں… میائوں میائوں…‘‘ وہ ٹونی سے اپنی شرارتوں کے لیے معافی مانگ رہی تھیں۔ ٹونی نے جب ان کی میائوں میائوں سنی تو وہ بھی بھوں بھوں کرنے لگا، جیسے کہہ رہا ہو…
’’جائو میں نے تمہیں معاف کیا…جائو میں نے تمہیں معاف کیا!!!‘‘
نٹ کھٹ چنٹی، منٹی معافی ملتے ہی باورچی خانے سے نکلیں اور اپنی نانی کی طرف بھاگنے لگیں۔ انہوں نے اُن سے بھی تو معافی مانگنا تھی۔

OOO

اپنا تبصرہ لکھیں