پُرانے وقتوں کی بات ہے کسی گاؤں میں سیب کا ایک بہت بڑا درخت ہوتا تھا۔ اسی گاؤں میں ایک چھوٹا سا لڑکا ثاقب بھی رہتا تھا۔ ثاقب کو سیب کے درخت سے اتنا لگاؤ تھا کہ وہ کئی کئی گھنٹے اسی درخت کے ساتھ کھیلتا رہتا۔ کبھی بندر کی طرح اس کی شاخوں پر چڑھ جاتا اور سیب اتارکر کھانے لگتا تو کبھی اس کے تنے کے ساتھ چپک کر بیٹھا رہتا اور جب کبھی تھک ہار جاتا تو اس کی گھنی چھاؤں میں لمبی تان کر سو جاتا۔
جس طرح ثاقب کو درخت سے پیار تھا اسی طرح سیب کا درخت بھی ثاقب کو اپنے ساتھ کھیلتا دیکھ کر بہت خوشی محسوس کرتا تھا۔ اگر کسی دن ثاقب نہ آتا تو سیب کا درخت سارا دن اُداس رہتا۔ دن اسی طرح گزرتے گئے اور ثاقب بڑا ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ ثاقب نے سیب کے درخت کے ساتھ روزانہ کھیلنا بھی چھوڑ دیا۔
ایک دن ثاقب، سیب کے درخت کے پاس آیا تو کچھ پریشان دکھائی دے رہا تھا۔
”ثاقب! میرے پاس آؤ اور مجھ سے کھیلو!“ یہ سیب کے درخت کی آواز تھی۔
”نہیں! اب میں بچہ نہیں رہا، اب میں درختوں سے مزید نہیں کھیل سکتا۔“ ثاقب پریشان زدہ لہجے میں بولا۔ ”مجھے کھیلنے کے لئے کھلونے خریدنے ہیں، جن کے لئے مجھے پیسے درکار ہیں۔“
”میں معذرت چاہتا ہوں دوست! میرے پاس تو پیسے نہیں ہیں۔“ ثاقب کی بات سن کر سیب کا درخت کچھ دیر سوچنے کے بعد بولا۔ ”ہاں! ایک راستہ ہے، تم میرے تمام سیب اتار کر فروخت کردو تو تمھیں کھلونے خریدنے کے لئے اچھی خاصی رقم مل جائے گی۔“
سیب کے درخت کی بات سن کرثاقب کے چہرے پر خوشی رقص کرنے لگی۔ اس نے فوراً سیب اتار کر ٹوکری میں جمع کرنا شروع کردئیے۔ تھوڑی ہی دیر میں درخت کے تمام سیب ٹوکری میں پہنچ گئے۔ ثاقب نے ٹوکری اٹھائی اور درخت کا شکریہ ادا کئے بغیر ہی بازار کی طرف چل پڑا۔ سیب کا درخت اپنے دوست کو یوں جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ ثاقب کا رویہ دیکھ کر سیب کا درخت بہت غمگین ہوا۔
کافی عرصہ گزرگیا اور سیب کا درخت ثاقب کی راہ دیکھتا رہا۔ پھر ایک دن ثاقب واپس آیا تو اسے دیکھتے ہی سیب کا درخت خوشی سے چہک اٹھا۔ ثاقب اب ایک جوان لڑکے کی صورت اختیار کرچکا تھا۔
”ثاقب! میرے پاس آؤ اور مجھ سے کھیلو میرے دوست!“ سیب کے درخت نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
”دیکھو! میرے پاس کھیلنے کا وقت نہیں ہے۔ میں بہت پریشان ہوں۔ مجھے اپنے گھر والوں کی فکر لاحق ہے۔ مجھے رہنے کے لئے ایک گھر درکار ہے۔ کیا تم میری مدد کرسکتے ہو ؟“
ثاقب کے چہرے پر چھائی اداسی دیکھ کر سیب کا درخت بھی پریشان ہوگیا۔
”میں معذرت چاہتا ہوں دوست! میرے پاس کوئی گھر تو نہیں ہے، لیکن اگر تم چاہو تو میری شاخیں کاٹ کر ان سے اپنا گھر بناسکتے ہو۔“
سیب کے درخت کی بات سن کر ثاقب کا افسردہ چہرہ خوشی سے دمک اٹھا اور اس نے کلہاڑا لے کر سیب کے درخت کی شاخیں کاٹنا شروع کردیں۔ کچھ ہی گھنٹوں میں درخت کی تمام شاخیں کٹ گئیں اور صرف تنے کا وجود باقی رہ گیا۔ ثاقب کو خوش دیکھ کر سیب کا درخت بھی خوشی سے سرشار تھا گو کہ وہ اپنی تمام شاخوں سے محروم ہوچکا تھا اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اب دوبارہ کبھی وہ ایسی ہری بھری شاخیں حاصل نہیں کرسکے گا۔
ثاقب نے شاخوں کو گدھا گاڑی پر لادا اور وہاں سے رخصت ہوگیا۔ اب کی بار بھی اس نے سیب کے درخت کا شکریہ ادا نہ کیا۔ ثاقب کے جانے کے بعد سیب کا درخت ایک بار پھر سے اکیلا پڑگیا۔
کئی سال یوں ہی گزرگئے۔ ایک روز شدید گرمی میں ثاقب پھر سیب کے درخت کے پاس لوٹا۔ گزرتے وقت نے اسے بوڑھا کردیا تھا۔ ان دنوں گرمی زوروں پر تھی۔ گرمی کی شدت کی وجہ سے وہ نڈھال لگ رہا تھا۔
”ثاقب! کیا تم میرے ساتھ کھیلنا پسند کرو گے؟“ پُرانے دوست کو سامنے پاکر سیب کے درخت نے اسے بچپن کی یادیں تازہ کرنے کی دعوت دی۔
”میں بوڑھا ہوچکا ہوں، اب کھیلنے کودنے کے دن گئے۔“ ثاقب لاچارگی کے ساتھ بولا۔ ”کیا تم مجھے ایک کشتی دے سکتے ہو؟ میں دریا کی سیر کرکے سکون حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ کیا تم میری مدد کرو گے؟“
”دوست! میں تمھیں کشتی دینے سے تو قاصر ہوں البتہ تم میرے تنے کو کاٹ کر کشتی بناسکتے ہو۔“
سیب کے درخت کا اتنا کہنا تھا کہ ثاقب فوراً ہی بڑھئی کو بُلا لایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تنے کی کٹائی شروع ہوگئی اور کچھ ہی گھنٹوں بعد بڑھئی نے اپنی کمال مہارت اور کاریگری سے سیب کے درخت کے تنے کو ایک خوبصورت کشتی میں بدل دیا۔
ثاقب نے کشتی کو سواری پر لادا اور دریا کے کنارے کی طرف چل دیا۔ سیب کے درخت کا شکریہ ادا کرنا شاید اس نے اس بار بھی ضروری نہ سمجھا۔
کئی سال گزرجانے کے بعد ثاقب ایک بار پھر درخت کے پاس آپہنچا۔ حالات نے اس کو ایک ادھیڑ عمر اور کمزور شخص میں تبدیل کردیا تھا۔ ثاقب کو دیکھتے ہی سیب کا درخت جو صرف ایک جڑ کی صورت میں باقی تھا، بول اٹھا:
”میرے دوست! میں انتہائی معذرت خواہ ہوں، میرے پاس تمھیں دینے کے لئے اب کچھ بھی نہیں بچا۔ اب تو میں تمھیں سیب دینے سے بھی قاصر ہوں۔“
”کوئی بات نہیں! اب تو میرے دانت بھی نہیں رہے کہ سیب کھاسکوں۔“ ثاقب نے جواب دیا۔
”اب تو میری شاخیں اور تنا بھی نہیں رہا کہ جس سے تم کھیل سکو۔ افسوس! اب میں اس جڑ کے علاوہ تمھیں کچھ نہیں دے سکتا۔“ سیب کے درخت نے آنسو بہاتے ہوئے کہا۔
”مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، زندگی کی بھاگم بھاگ نے مجھے تھکا دیا ہے۔ اب میں آرام کرنا چاہتا ہوں۔ کیا میں تمھارے ساتھ بیٹھ کر آرام کرسکتا ہوں؟“ ثاقب کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں اور وہ سیب کے درخت کی جڑ کے پاس بیٹھ گیا۔
سیب کا درخت اپنے پرانے دوست کی واپسی پر بہت خوش تھا اور اس کی آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری تھے۔
پیارے بچو! ثاقب اور سیب کے درخت کی یہ کہانی ہم سب کے لئے ہے۔ ہمارے والدین، سیب کے درخت کی مانند ہیں۔ بچپن کے دنوں میں ہم نہ صرف ان سے کھیلتے کودتے ہیں بلکہ ان کے ذریعے اپنی غذائی و دیگر ضروریات بھی پورا کرتے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے ہم ان سے دور ہوتے جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک دن ان کو چھوڑ دیتے ہیں اور پھر صرف اسی صورت میں واپس پلٹتے ہیں جب ہمیں کسی کی ضرورت ہوتی ہے یا ہم کسی بڑی مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔ حالات جیسے بھی ہوں، یہ والدین ہی ہوتے ہیں جو ہمیں سب کچھ دیتے ہیں اور ہماری خوشیوں کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس لئے ہمارا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اپنے والدین کا خیال رکھیں اور ان سے پیار کریں۔
ماشااللہ ، بہت اچھی کہانی ہے ۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ ۔
کہانی پسند کرنے اور اس پر اپنی رائے پیش کرنے کا بہت شکریہ