تحریر: عاطف فاروق
بلیک بورڈ پر سوال مکمل کرنے کے بعد مِس ریورنڈ ابھی کرسی پر بیٹھی ہی تھیں کہ بڑے سے سر والے اس طالب علم نے یکے بعد دیگرے تین سوالات داغ دئیے جسے کلاس میں سب ’’ایڈی‘‘ کہتے تھے ۔ ضرورت سے زیادہ سوالات کرنا ایڈی کی پرانی عادت تھی اور اس کی یہی عادت مِس ریورنڈ کا ناگوار گزرتی تھی ۔ انہوں نے کئی بار ایڈی کو ڈانٹا ڈپٹا ، ڈیسک پر کھڑا کیا ، کلاس سے باہر نکالا حتیٰ کہ سزا بھی دی لیکن ایڈی کی یہ عادت تھی کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتی تھی ۔ شروع میں تو مِس ریورنڈ ، ایڈی کی اس عادت کو نظر انداز کرتی رہیں لیکن کچھ ہی عرصے بعد ان کی قوتِ برداشت جواب دے گئی اور وہ ایڈی سے چِڑھنے لگیں اور بیچارا ایڈی بلاوجہ ان کے عتاب کا نشانہ بننے لگا ۔
ایڈی ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ۔ اس کے والدین اس قابل نہیں تھے کہ اسے کسی اچھے تعلیمی ادارے سے تعلیم دلواسکتے ۔ ایڈی پڑھائی میں اچھا تھا اور اس کے من میں علم حاصل کرنے کی لگن بھی تھی لیکن ایک سرکاری سکول کی روایتی ٹیچر کے نامناسب اور تضحیک آمیز رویے نے اسے بہت مایوس کررکھا تھا ۔ گو کہ اسے سماعت کے مسائل کا بھی سامنا تھا اور وہ اونچی آواز میں بات کرتا تھا ، لیکن اس میں اس کا کوئی قصور بھی تو نہیں تھا کیونکہ یہ مسئلہ تو اس کو پیدائشی تھا ۔ مِس ریورنڈ کے ناموزوں رویے کی وجہ سے وہ اکثر دلبرداشتہ ہوجاتا اور سہم کر بیٹھ جاتا حالانکہ وہ جانتا تھا کہ سوال کرنا اس کا حق ہے ۔ اس سکول میں داخل ہوئے اسے ابھی دو مہینے بھی نہیں ہوئے تھے اس لئے وہ یہ بات بھی مناسب نہیں سمجھتا تھا کہ مِس ریورنڈ کے منفی رویہ کی شکایت سکول کے پرنسپل سے کرے ۔ وہ یہ مسئلہ خود حل کرنے پر یقین رکھتا تھا اور اس کے لئے وہ مناسب وقت کے انتظار میں تھا ۔
بالآخر ایک دن ایسا آیا جب مِس ریورنڈ بہت خوش دکھائی دے رہیں تھیں ۔ خوش بھی کیوں نہ ہوتیں ، ان کی بطور وائس پرنسپل ترقی جو ہوگئی تھی ۔ ایڈی نے اسی موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنا مدعہ بیان کرنے کا فیصلہ کیا ۔
’’ ٹیچر ! کیا میں آپ سے کچھ کہہ سکتا ہوں ؟ ‘‘ سبق پڑھانے کے بعد جب مِس ریورنڈ فارغ ہوئیں تو ایڈی نے اپنی نشست پر کھڑے ہوکر مودبانہ طریقے سے انھیں مخاطب کیا۔
’’ جلدی بولو ….. کیا بات ہے ؟ ‘‘ ایڈی کا مخاطب کرنا شاید انھیں پھر ناگوار گزرا اور وہ چڑچڑے لہجے میں بولیں ۔
’’ آپ میرے باربار سوال کرنے پر خائف رہتی ہیں ۔ اگر میں سوال نہیں پوچھوں گا تو سیکھوں گا کیسے ؟ ‘‘
ایڈی کا سوال ایک بار پھر نشتر ثابت ہوا اور مِس ریورنڈ کے چہرے پر غصے کے آثار مزید نمایاں ہوگئے ۔ آج کا دن ان کے لئے خوشی کا دن تھا اس لئے انہوں نے فوراً ہی گرگٹ کی طرح رنگ بدلا اور چہرے پر مصنوعی مسکراہٹ بکھیرتے ہوئے ایڈی کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا اور ساتھ ہی ڈرافٹنگ پیڈ سے ایک کاغذ نکال کر اس پر کچھ لکھنے میں مصروف ہوگئیں ۔
ایڈی اپنی نشست سے اٹھ کر مِس ریورنڈ کے پاس آگیا ۔ اس کے پہنچنے سے پہلے ہی مِس ریورنڈ تحریر مکمل کرکے اسے ایک لفافے میں بندکرچکیں تھیں ۔
’’ ایڈی ! یہ میری طرف سے آپ کو ایک تحفہ ہے جو ہمیشہ آپ کے لئے یادگار ثابت ہوگا ۔‘‘ مِس ریورنڈ بند لفافہ ایڈی کو پکڑاتے ہوئے بولیں ۔ ’’ لیکن اس میں جو خط ہے وہ آپ نہیں پڑھو گے ، بلکہ یہ لفافہ آپ کو گھر جاکر اپنی امی کو دینا ہوگا ۔‘‘
مِس ریورنڈ کی طرف سے پہلی بار نرمی کا برتائو دیکھ کر ایڈی بہت خوش ہوا ۔ اس نے مِس ریورنڈ کا شکریہ ادا کیا اور لفافہ پتلون کی جیب میں ڈالتا ہوا واپس اپنی نشست پر آکر بیٹھ گیا ۔ اسے یقین ہوگیا کہ مِس ریورنڈ کا رویہ یکسر بدل گیا ہے اور آئندہ وہ اس سے ہتک آمیز رویہ روا نہیں رکھیں گی ۔
گھر پہنچتے ہی اس نے وہ لفافہ امی جان کو دے دیا اور ساری بات بھی انھیں بتادی ۔ ایڈی کی امی جان بھی سکول ٹیچر رہ چکی تھیں ۔ اپنے لال کی معاملہ فہمی کے بارے میں سن کر وہ بہت خوش ہوئیں اور لفافہ کھول کر مِس ریورنڈ کا بھیجا ہوا خط پڑھنے لگیں ۔ ایڈی کی نگاہیں اس دوران اپنی امی جان کے چہرے پر مرکوز تھیں اور وہ دیکھ رہا تھا کہ جیسے جیسے امی جان خط پڑھ رہی ہیں ، ان کے چہرے پر خوشی کے آثار بڑھتے جارہے ہیں ۔ خط مکمل ہوتے ہی انہوں نے ایڈی کو گلے سے لگالیا اور پیار سے اس کا ماتھا چوم لیا ۔
’’ امی جان ! مجھے بھی بتائیں نا ! مِس ریورنڈ نے کیا لکھا ہے میرے متعلق ؟‘‘ وہ ضد کرنے لگا ۔
’’ میرے چاند سے بیٹے ! آپ کی مِس نے لکھا ہے کہ آپ کا بیٹا بلا کا ذہین اور جینئس (Genius) ہے ۔ اس کی تعلیم کے لئے یہ سکول بہت چھوٹا ہے جبکہ تربیت کے لئے اس سکول کے اساتذہ اس قابل نہیں ۔ ایڈی قدرتی طور پر تعلیم یافتہ معلوم ہوتا ہے اسے سکول کی تعلیم کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔‘‘
مِس ریورنڈ کی طرف سے دئیے جانے والے ریمارکس سن کر ایڈی کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔ اسے یقین نہیں ہورہا تھا کہ اس سے ہر وقت نفرت کرنے والی مِس ریورنڈ اس کے بارے میں اتنے اچھے خیالات رکھتی ہے ۔ اس کے دل سے مِس ریورنڈ کے لئے دعائیں نکلنے لگیں ۔
’’ تو امی جان ! کیا اب واقعی مجھے سکول جانے کی ضرورت نہیں ہے ؟ ‘‘ اس نے معصومیت سے پوچھا ۔
’’ بالکل میرے بچے ! تمہاری ٹیچر کی باتیں بالکل درست ہیں ۔ تمہاری ذہانت اور قابلیت سکول کی تعلیم سے کئی زیادہ ہے ، لیکن تم فکر نہ کرو ، میں تمھیں سکول سے کئی گنا اچھی تعلیم دوں گی ۔‘‘ امی جان نے اس کے بالوں میںپیار سے انگلیاں پھیرتے ہوئے جواب دیا ۔
وقت گزرتا گیا اور ایڈی بڑا ہوتا گیا ۔ اس کی ذہانت، قابلیت اور والدین کی حوصلہ افزائی نے اسے ایک بڑا موجد بنادیا ۔ اپنی ماں کی وفات کے کئی سال بعد ایک دن وہ اپنی خاندانی اشیاء کو دیکھ رہا تھا تو اس کے ہاتھ ایک بوسیدہ سا کاغذ لگ گیا ۔ اس نے جب کاغذ کو کھول کر پڑھنا شروع کیا تو اس پر کچھ یوں لکھا تھا :
’’ آپ کا بیٹا دماغی طور پر بیمار ہے ، ہم اس کو مزید تعلیم نہیں دے سکتے اس لئے آپ آئندہ اسے سکول نہ بھیجئے گا ۔‘‘
خط پڑھتے ہی ایڈی کی آنکھیں چھلک پڑیں اور وہ کافی دیر روتا رہا ۔ یہ وہی خط تھا جو بچپن میں مِس ریورنڈ نے اسے دیا تھا ، لیکن اس کی ماں نے اسے اصل بات بتانے کی بجائے ذہین اور قابل کہہ کر اس کی حوصلہ افزائی کردی تھی ۔ وہ سوچنے لگا کہ اگر اس وقت اس کی ماں اسے سچ بتادیتی تو شاید اس کا حوصلہ ٹوٹ جاتا اور وہ اس مقام پر کبھی نہ پہنچ پاتا جس پر اب پہنچ چکا تھا ۔
پیارے بچو ! کیا آپ جانتے ہیں کہ وہ ’’ایڈی‘‘ کوئی نہیں بلکہ اس صدی کا سب سے بڑا موجد ’’ تھامس ایڈیسن‘‘ تھا ۔ تھامس ایڈیسن امریکی ریاست اوہائیو کے ایک دیہی علاقے میلان میں 11 فروری 1847 ء کو پیدا ہوا۔ اپنے بہن بھائیوں میں اس کا ساتواں نمبر تھا ۔ تھامس ایڈیسن کا بچپن مسائل کی کشمکش میں گزرا۔ وہ اونچا سنتا تھا اور نتیجے میں اونچا ہی بولتا تھا جبکہ بچپن میں ہی اسے نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا رہا ۔ اونچا بولنے اور سننے کے علاوہ بار بار سوال پوچھنے کی وجہ سے اسے محض تین ماہ بعد سکول سے نکال دیا گیا ۔ سکول سے نکالے جانے کے بعد اس کی ماں نانسی میتھیوز (Nancy Mathews) نے اس کے تعلیمی سفر کو رکنے نہ دیا اور گھر پر تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ۔ صدی کا عظیم موجد قرار پائے جانے کے بعد ایک موقع پر تھامس ایڈیسن نے اپنی کامیابی کی سب سے بڑی وجہ اپنی ماں کو ہی قرار دیا ۔ تھامسن ایڈیسن کے والد سیموئیل اوگڈن ایڈیسن (Samuel Ogden Edison) ایک غریب آدمی تھے لیکن اس کے باوجود وہ ہر کتاب مکمل پڑھنے پر تھامس ایڈیسن کو دس سینٹ انعام دیا کرتے تھے ۔ اسی لالچ نے تھامس ایڈیسن کو مطالعے کا شوقین بنادیا اور اس نے اوائل عمری میں ہی ڈھیروں کتابیں پڑھ لیں ۔ لڑکپن میں اپنے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے تھامس ایڈیسن ریل گاڑی میں اخبار ، سبزیاں اور ٹافیاں بھی بیچتا رہا ۔ محض انیس سال کی عمر میں اس نے ٹیلی گرافک آپریٹر کی ملازمت اختیار کرلی ۔ ملازمت کے دوران ہی وہ نت نئے تجربات کرتا رہا اور بعد میں اس نے ایک جدید قسم کی ٹیلی گرافک مشین ایجاد کی جس کے ذریعے ایک وقت میں ایک کی بجائے چار ٹیلی گراف بھیجے جاسکتے تھے ۔ اس کے بعد ایجادات کا سلسلہ جاری ہوگیا اور اس نے سٹاک ٹِکر (Stock Ticker) اور الیکٹرک ووٹ ریکارڈر (Electric Vote Recorder) بھی ایجاد کئے ۔ ان ایجادات سے جو رقم حاصل ہوئی اس سے تھامس ایڈیسن نے نیویارک میں ایک فیکٹری خرید لی اور بعد ازاں اس نے اس فیکٹری میں اسی ماہرین برقیات ، ریاضیات اور کیمسٹری بھرتی کئے جو اس کے معاون کے طور پر کام کرتے تھے ۔ اس کے بعد اس نے ٹرانسمیٹر ، ریسیور ، آٹو میٹک پرنٹر اور ٹیپ ایجاد کیں ۔ اس نے فادر آف ٹائپ رائٹر کرسٹوفر فرشولز کے ساتھ بھی کام کیا اور 12 جدید ٹائپ رائٹرز تیار کئے ۔ 1877 ء میں اس نے ایک اور فیکٹری مینلو پارک ، نیو جرسی میں قائم کی اور فونو گراف(Phonograph) اور بعد ازاں ایڈی فون (Ediphone) ایجاد کئے ۔ تھامس ایڈیسن نے 1878 ء میں ایڈیسن الیکٹرک لائٹ کمپنی قائم کی جو بعد میں جنرل الیکٹرک کمپنی میں تبدیل ہوگئی اور 1879 ء میں پہلا بجلی کا بلب ایجاد کیا جو اس کی سب سے بڑی ایجاد اور وجہ ء شہرت ہے ۔ تھامس ایڈیسن نے 1887 ء میں ویسٹ اورنج ، نیو جرسی میں جدید ترین ماڈرن ریسرچ لیبارٹری قائم کی جو 1931 ء تک دنیا کی سب سے جدید اور مکمل ریسرچ لیبارٹری رہی ۔ تھامس ایڈیسن نے عالمی جنگ اول میں حکومت کے لئے بھی کارہائے نمایاں سرانجام دئیے ۔ وہ 18 اکتوبر 1931 ء کو وفات پاگیا۔ وہ ایک سخت جان اور جفاکش انسان تھا ۔ وہ کہتا تھا کہ انسان کو آرام کے لئے صرف چار گھنٹے کی نیند کافی ہے ، باقی وقت میں انسان کو کام کرنا چاہیے ۔ وہ خود لگاتار 50 ، 50 گھنٹے کام کرتا رہتا اور اکثر کام کرتے کرتے لیبارٹری کے فرش پر ہی بغیر بستر چادر کے سو جاتا ۔ تھامسن ایڈیسن اپنی زندگی میں ہی 20 سے زائد کمپنیوں کا مالک تھا جن میں جنرل الیکٹرک کمپنی سرفہرست ہے جس کا شمار امریکہ کی صف اول کی کمپنیوں میں ہوتا تھا ۔ تھامس ایڈیسن کو اس کے کارہائے نمایاں اور ایجادات پر بے شمار ایوارڈز اور اعزازات سے نوازا گیا جن میں ’’لیجئن آف آنر ‘‘ ، ’’چوولیئر ‘‘ ، ’’کمانڈر‘‘ ، ’’دی گریٹیسٹ امریکن‘‘ ، ’’ نیو جرسی ہال آف فیم‘‘ اور ’’گریٹ فلوریڈین‘‘ سرفہرست ہیں ۔ امریکہ میں متعدد کالجوں ، تعلیمی اداروں، جھیلوں ، پارکوں ، پُلوں اور ہوٹلوں کا نام تھامس ایڈیسن کے نام پر رکھا گیا ہے اس کے علاوہ مختلف شہروں میں اس کے نام پر میوزیم بھی قائم کئے گئے ہیں ۔ امریکی شہر پورٹ ہورون (Port Huron) میں اس کا یادگاری مجسمہ بھی نصب کیا گیا ہے ۔
٭٭٭٭٭