تحریر: عاطر شاہین
رات کا کھانا کھانے کے بعد فیروز اور ان کی بیگم تو ٹی وی لائونج میں چلے گئے جبکہ اقراء ، شہیر اور زائرہ دادا جان کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئے۔اقراء کی عمر تیرہ سال، شہیر گیارہ سال اور زائرہ نو سال کی بچی تھی۔ باتوں باتوں میں ہی دادا جان نے ان تینوں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’بچو! کل چھ ستمبر ہے۔ کیا تم سب کو سکول سے چھٹی ہے؟‘‘
’’جی دادا جان۔‘‘ اقراء نے جواب دیا۔
’’کیا تم جانتے ہو کہ چھ ستمبر کو کیا ہوا تھا؟‘‘ دادا جان نے پھر پوچھا۔
’’جی دادا جان! چھ ستمبر1965ء کو پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ ہوئی تھی جس میں ہندوستان کو منہ کی کھانی پڑی تھی۔‘‘ اقراء نے جواب دیتے ہوئے کہا تو دادا جان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’چھ ستمبر کے بارے میں اور کیا جانتے ہو؟‘‘ دادا جان نے پھر پوچھا تو وہ سب خاموش رہے۔
’’یہی کہ چھ ستمبر ہماری قومی تاریخ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس یاد گار دن کو ’’یوم دفاع‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور یہ قومی دن کے طور پر ان شہیدوں کی یاد میں منایا جاتا ہے جو انڈیا اور پاکستان کی جنگ میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے تھے۔‘‘ شہیر نے کہا تودادا جان کے چہرے پر مسکراہٹ ابھر آئی۔
’’دادا جان۔ آپ ہمیں چھ ستمبر 1965ء کی جنگ کے بارے میں کچھ بتائیں۔‘‘ زائرہ نے اپنی توتلی زبان میں کہا تو دادا جان نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’چھ ستمبر 1965ء کی صبح ساڑھے گیارہ بجے کا وقت تھا۔ ریڈیو پاکستان کی دوسری مجلس سے کچھ ریکارڈ بجے تھے کہ اچانک انائونسر نے اعلان کیا ’’اب ایک اہم اعلان ہو گا۔‘‘ تھوڑے سے وقفے کے بعد اس نے کہا۔ ’’خواتین و حضرات! صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان۔‘‘ یہ کہہ کر انائونسر چپ ہو گیا۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد قومی ترانے کا ساز بجنے لگا۔ فوراً احساس ہوا کہ ضرور کوئی اہم بات ہے۔ بہرحال ترانے کا ساز ختم ہوا تو ایک لمحے کے وقفے کے بعد صدر مملکت نے اپنی پرعزم، باوقار اور گونجدار آواز میں بسم اللہ پڑھی۔ اپنے عزیز ہم وطنوں کو السلام علیکم سے خطاب کا آغاز کیا ۔
’’دس کروڑ پاکستانی عوام کی آزمائش کا وقت آ گیا ہے۔‘‘ واقعی ہماری آزمائش کا وقت آ گیا تھا کیونکہ جس وقت یہ اعلان ہوا اس وقت پاکستان کے بہت کم علاقوں اور بہت کم لوگوں کو معلوم تھا کہ اس وقت ہمارے وطن عزیز کی سرحدوں پر کیا ہو رہا ہے۔ بھارت کی دو لاکھ کے قریب سپاہ لاہور اور قصور کے پورے محاذ پر اچانک صبح ساڑھے تین بجے دوڑی تھی۔ ان کی توپیں آگ اگل رہی تھیں۔ ان کے ٹینک پاکستانی سرحدوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان کے بمبار طیارے ہماری سرحدوں پر بموں اور راکٹوں کی بارش برسا رہے تھے اور ان کے لیڈر دہلی میں بیٹھے ہر دم ایک خوشخبری سننے کے لیے بے چین ہو رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ فتح لاہور کی خبر بس پون گھنٹے میں آیا ہی چاہتی ہے جس کے بعد وہ ایک بہت بڑا جشن منائیں گے اور دنیا پر ہندو قوم کی جنگی فراست اور بہادری کی دھاک بیٹھ جائے گی۔
لاہور کی عوام کو ساڑھے دس بجے سے پیشتر ہی معلوم ہو گیا تھا کہ ان کا شہر اس وقت دشمن کا ہدف بنا ہوا ہے۔ پورے شہر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی تھی کہ انڈیا نے اعلان جنگ کے بغیر پاکستان کی سرحدوں پر دھاوا بول دیا ہے اور لاہور کو انہوں نے سب سے پہلے نشانہ بنایا ہے تاکہ بھارتی کمانڈر انچیف اپنے جرنیلوں کے ساتھ لاہو کے جم خانہ میں جام شراب نوش کر سکے۔
جب بھارتی طیارے فضا میں نمودار ہوئے اور لاہوریوں نے مسلم مجاہدوں سے بھرے فوجی ٹرکوں کو سرحد کی طرف تیزی سے بڑھتے دیکھا تو انہیں معلوم ہو گیا کہ جنگ پوری شدت سے آ پہنچی ہے۔ وہ جب شالا مار باغ تک پہنچے تو بھارتی توپوں کی گھن گرج صاف سنائی دے رہی تھی۔ ‘‘ اتنا کہہ کر دادا جان خاموش ہو گئے۔ تینوں بے بڑی دلچسپی سے ان کی گفتگو سن رہے تھے۔
’’پھر کیا ہوا تھا دادا جان؟‘‘ اقراء نے پوچھا۔
دادا جان بولے۔ ’’اگلی صبح نو بجے معلوم ہوا کہ بھارتی فوج سرحدی دیہات پر قابض ہو چکی ہے اور پاکستانی دیہاتی سرحد علاقے خالی کر کے لاہور کی طرف بھاگ رہے ہیں۔ توپیں اور ٹینک آگ برسا رہے تھے۔ ہر طرف گردو غبار تھا۔ دس بجے کے قریب لائوڈ سپیکر سے اعلان کیا گیا کہ بھارتی فوجیں لاہور شہر میں داخل ہو چکی ہیں۔ دوسری طرف امر تسر میں لوگ ٹولیوں کی صورت میں اکٹھے ہو کر جے بھارت اور جے ہند کے نعرے لگا رہے تھے۔ دوپہر تک معلوم ہوا کہ بھارتی فوجوں نے لاہور پر قبضہ کر لیا ہے۔ لاہور میں ایک ڈبل ڈیکر بس پر بھارتی سینانے قبضہ کر لیا تھا۔ اب اسے امر تسر شہر میں پھرایا جا رہا تھا۔ لوگ بس پر چڑھ گئے اور ہندو اور سکھ ٹولیاں بنائے بس کے آگے پیچھے فتح کی خوشی میں ناچتے کودتے بھنگڑاڈال رہے تھے۔ اس منظر کو فوٹو کے ذریعے لندن بھجوایا گیا جہاں سے اسے ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا۔
بھارتی حکومت لاہور پر قبضے کے بارے میں اتنی پر امید تھی کہ اس نے لاہور شہر میں امن و امان برقرار رکھنے اور شہر کا سول نظم و نسق چلانے کے لیے بھارتی سروس کے ایک اعلیٰ افسر شوانی کمار کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا تھا جس کے لیے پانچ سو سپاہیوں پر مشتمل پولیس فورس بھی فراہم کر دی گئی تھی۔ ہر طرف چہ میگوئیاں ہو رہی تھیں کہ شام تک لاہور پر قبضے کی خبر پہنچ جائے گی اور اس کے بعد بھارتی فوجیں پاکستان کے دارالحکومت راولپنڈی کی طرف کوچ کر جائیں گی۔ رات کوہر ہندو پورے لاہور پر قبضے کی خبر کا منتظر تھا لیکن انڈیا کے ریڈیو یا کسی اور ذریعے سے کچھ پتہ نہیں چلتا تھا۔ یہاں تک کہ سات ستمبر کو لوگوں کو انتظار رہا کہ وہ لاہور پر قبضے کی خبر سنیں لیکن اس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا تھا کہ یہ مشہور ہو گیا کہ بھارتی فوجوں نے سیالکوٹ پر حملہ کر دیا ہے لیکن تین روز گزرنے کے بعد جب بھارتیوں نے خبریں سنیں کہ ریڈیو پاکستان کی نشریات کے مطابق بھارتی فوجوں کی پٹائی ہو رہی ہے تو وہ بھنا اٹھے۔دوپہر سے شام تک پاک فضائیہ کے جانبازوں نے واہگہ اور امرتسر کے درمیان بھارتی فوجوں پر کئی تابڑ توڑ حملے کئے اور بھارتی فوج کی پیش قدمی روک دی۔ بھارتیوں کی حالت بہت عجیب ہو رہی تھی۔ انہیں خبریں مل گئی تھیں کہ ان کی فوجیں پاکستان کی فوجوں کے سامنے ناکام ہو گئی ہیں تو وہ خوفزدہ ہو گئے تھے۔ جب بھارتیوں کو یہ معلوم ہوا کہ پاکستان کے کچھ چھاتہ بردار فوجی بھارت میں اترے ہیں توبھارتیوں کی حالت عجیب تھی۔ بہت سے لوگ اپنے اپنے کاروبار سمیٹ کر محفوظ مقامات کی طرف چلے گئے۔ بہرحال 17روز کی جنگ کے بعد بھارت کو ذلت آمیز شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔‘‘
’’دادا جان! بھارت کے کتنے طیارے تباہ ہوئے تھے؟‘‘ شہیر نے پوچھا۔
’’بھارت کے آٹھ روسی ساختہ مگ طیاروں کو نقصان پہنچا تھا۔ بھارتی فضائیہ اتنی گھبرائی کہ اس نے بعد میں کوئی مگ طیارہ پاکستان پر حملہ کرنے کے لیے نہ بھیجا ۔‘‘ دادا جان نے جواب دیا۔
’’دادا جان! بھارت کے کتنے ٹینک تباہ ہوئے تھے؟‘‘ زائرہ نے کہا۔
’’بچو! ہماری فوج نے بھارت کے پانچ سے زائد ٹینک تباہ کیے تھے، 18پر قبضہ کر لیا گیا،10 طیاروں کو مار گرایا تھا اور 19 کو نقصان پہنچایا۔‘‘ دادا جان نے بتایا۔
’’دادا جان! پاک فوج کے جوان اور بھارت کے کتنے فوجی زخمی ہوئے تھے؟‘‘ اقراء نے سوال کیا۔
’’پاک فوج کے دو ہزار مجاہد زخمی ہوئے تھے جبکہ بھارت کے گیارہ ہزار فوجی زخمی ہوئے تھے۔ میں یہ بھی بتا دوں کہ دشمن کے دس ہزار سپاہی مارے گئے اور ایک ہزار قیدی بنائے گئے۔‘‘ دادا جان نے اس کی معلومات میں اضافہ کیا۔
’’دادا جان! پاکستان کے کتنے ٹینک اور طیارے تباہ ہوئے تھے؟‘‘ زائرہ نے پوچھا۔
’’پاکستان کے 165 ٹینک ، 16طیارے تباہ ہوئے تھے اور 1033سپاہی شہید ہوئے تھے۔‘‘ دادا جان نے بتایا ۔
’’دادا جان! چھ ستمبر کو دن کون سا تھا؟‘‘ شہیر نے پوچھا۔
’’پیر کا دن تھا۔‘‘ دادا جان نے جواب دیا۔
’’بری فوج، فضائیہ اور بحریہ کی کمان کن کے پاس تھی؟‘‘ زائرہ نے سوال کیا۔
’’بری فوج کی کمان کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ کے پاس تھی جبکہ فضائیہ کے سربراہ نور خان تھے اور بحریہ کی کمان وائس ائیر مرل اے آر خان(افضال الرحمن) کے ہاتھ میں تھی۔‘‘ دادا جان نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ بچوں کے یوں سوالات کرنے سے انہیں بہت خوشی ہو رہی تھی۔
’’دادا جان! پاکستان نے بھارت کے کس ریلوے اسٹیشن پر کب قبضہ کیا تھا؟‘‘ اقراء نے نیا سوال کیا۔
’’14ستمبر 1965ء کو پاکستان نے بھارت کے ریلوے اسٹیشن مونا بائو پر قبضہ کیاتھا۔‘‘ دادا جان نے جواب دیا تو اقراء نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’’پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کب ہواتھا؟‘‘ شہیر نے دلچسپی سے پوچھا۔
’’20 ستمبر 1965ء کو سلامتی کونسل نے جنگ بندی کی قرار داد منظور کی اور 23 ستمبر کو پاکستان اور بھارت نے جنگ بندی کا اعلان کر دیا تھا۔‘‘ دادا جان نے بتایا۔
’’دادا جان! جنگ میں اسکواڈرن لیڈر ایم ایم عالم نے کتنے فائر میں بھارت کے طیارے مار گرائے تھے۔‘‘ اقراء نے پوچھا۔
سوال و جواب کا یہ سلسلہ کافی دیر سے جاری تھا اور دادا جان خوش تھے کہ بچے ان سے یوم دفاع کے متعلق سوالات کر رہے ہیں۔
’’ایم ایم عالم نے ایک ہی فائر میں بھارت کے گیارہ طیارے مار گرائے تھے۔‘‘ دادا جان نے جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’دادا جان! میجر عزیز بھٹی اسی جنگ میں شہید ہوئے تھے؟‘‘ شہیر نے کہا۔
’’ہاں، میجر عزیز بھٹی شہید 12ستمبر1965ء کو ہی شہید ہوئے تھے۔‘‘ دادا جان نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’دادا جان! 1965ء کی جنگ میں ستارہ جرأت کس پائلٹ کو دیا گیا تھا؟‘‘ اقراء نے پوچھا۔
’’ایم ایم عالم کو۔‘‘
’’اور پہلا نشان حیدر کس کو دیا گیا تھا؟‘‘ یہ سوال زائرہ نے کیا تھا۔
’’کیپٹن سرور شہید کو۔‘‘
’’دادا جان۔ پاک فوج کے پہلے شہید ہونے والے جوان کا نام کیا ہے؟‘‘ شہیر نے پوچھا۔
’’نائیک محمد شریف۔ اور پہلی شہید ہونے والی خاتون عابدہ طوسی تھیں۔‘‘ دادا جان نے کہا۔
’’آخری شہید ہونے والے فوجی کون تھے۔‘‘ اقراء نے پوچھا۔
’’کیپٹن جرجیس ناگی شہید ۔‘‘ دادا جان نے سوچ کر جواب دیا۔
’’دادا جان۔ کن ممالک نے پاکستان کی حمایت کی تھی؟‘‘ اقراء نے پوچھا۔
’’بیرون ملک پاکستان کی حمایت میں سب سے زیادہ مظاہرے انڈونیشیا میں ہوئے، انڈونیشیا کے صدر سوئیکارنی نے پاکستان کی کھل کر مدد کی اور پاکستانی وفد سے کہا کہ انڈونیشیا سے آپ جتنا جنگی سامان لے جانا چاہتے ہیں لے جائیں، اس جنگ میں چین بھی عظیم وفادار دوست ثابت ہوا۔ سعود ی عرب، ایران ، ترکی اور دوسرے مسلم ممالک نے بھی پاکستان کی کھل کر حمایت کی تھی۔‘‘ دادا جان نے ایک طویل سانس لیتے ہوئے کہا۔
’’دادا جان۔ ہمیں چھ ستمبر 1965ء کی جنگ کے بارے میں کافی معلومات مل گئی ہیں۔ چھ ستمبر کادن ہمارے فخر کرنے کا دن ہے کہ ہماری پاک فوج کے جوانوں نے دشمن کو ناکوں چنے چبوائے تھے۔‘‘ اقراء نے فخریہ لہجے میں کہا تو دادا جان کا سر بھی فخر سے بلند ہو گیا۔
’’اچھا بچو! میں اب آرام کرنے جا رہا ہوں۔ تم بھی آرام کر لو۔‘‘ دادا جان نے اٹھتے ہوئے کہا اور پھر وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے جبکہ تینوں بچے آپس میں گفتگو کرنے میں مصروف ہو گئے۔
ۚ ۚTags:- 6 september youm e difa youm e difa essay in urdu youm e difa pakistan youm e difa story for kids یوم دفاع کہانی بچوں کیلئے یوم دفاع کہانی فخر کا دن - عاطر شاہین بچوں کی ویب - Bachon ki Web