گردش حالات ۔ صداقت حسین ساجد

گردشِ حالات ۔ صداقت حسین ساجد

” ٹھک …. ٹھک ….ٹھک ….”
دروازے پر دستک ہو رہی تھی . نسیم نے سر پر دوپٹا درست کیا اور چارپائی سے اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھی . دروازہ کھولا ، تو دیکھ کر حیران رہ گئی . سامنے پرنسپل صاحبہ کھڑی تھیں . ان کا نام کشور تھا . جس اسکول کی وہ پرنسپل تھیں ،اس میں نسیم کی بیٹیاں پڑھتی تھیں .
” آئیے ….آئیے ! ” نسیم نے دروازے سے ایک طرف ہٹ کر انھیں راستہ دیتے ہوئے کہا .
” شکریہ ! ”
پرنسپل صاحبہ اندر داخل ہوئیں . نسیم نے انھیں چارپائی پر بٹھایا .
” چائے پیئیں گی یا ٹھنڈا ؟”
” شکریہ ! اس کی ضرورت نہیں ہے …..”
” اب ایسا بھی نہیں ہے ….میں چائے بناتی ہوں . ”
” مجھے جلدی ہے ….میں نے کہیں جانا ہے ….ادھر سے گزر رہی تھی ،تو آپ کا خیال آ گیا ….سوچا ! آپ سے ملتی جائوں …..”
” بڑی مہربانی ….”
” آج مس کوثر مجھے بتا رہی تھیں کہ صائقہ ، صائمہ اور عاصمہ اسکول نہیں آ رہیں …..میں نے پوچھا …..کب سے ……تو ان کا جواب سن کر میں حیران رہ گئی …..”
” مس کوثر نے آپ کو یہی بتایا ہوگا کہ ایک ہفتہ ہو گیا ہے …..”
” اس کا مطلب ہے کہ آپ کے علم میں ہے یہ بات …..”
” جی ہاں !”
” چلیں ! یہ تو اطمینان ہوا کہ آپ کے علم میں یہ بات ہے ….”
” اور میں نے انھیں خود اسکول جانے سے منع کر دیا ہے ….”
یہ سن کر میڈم کشور حیران رہ گئیں .
” وہ کس لیے ؟”
” بس اب ہم مزید نہیں پڑھا سکتے ….. ہمارے حالات اس قابل نہیں ہیں کہ ہم ان کی تعلیم کا خرچ اٹھا سکیں ….”
” یہ کیا بات ہوئی …..آپ پہلے بھی تو پڑھاتی رہی ہیں ….تب بھی تو اخراجات پورے ہو رہے تھے …..”
” تب حالات اور تھے …..”
” اور اب ؟”
” اب حالات بدل گئے ہیں بالکل ….”
” ہوا کیا ہے ؟”
” آپ بھی سن کر کیا کریں گی …..ویسے بھی آپ کو دیر ہو رہی ہے …..”
یہ سن کر میڈم کشور سمجھ گئیں کہ وہ بتانا نہیں چاہتی . انھیں دیر ہو رہی تھی ،اس لیے انھوں نے کوئی اصرار نہ کیا اور باہر نکل گئیں .
ان کے جاتے ہی نسیم کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے . وہ اپنے حالات کو کوس رہی تھی کہ یہ وقت بھی دیکھنا تھا کہ اسے اپنی بچیوں کو اسکول سے اٹھا لے .
کچھ دیر کے بعد اس نے اپنے آنسو پونچھے ، ایک طرف رکھا ٹفن اٹھایا . اس ٹفن میں کھانا تھا . باہر نکل کر اس نے دروازے کو تالا لگایا اور ایک رکشے میں بیٹھ گئی . اسے سرکاری ہسپتال چلنے کو کہا . بیس منٹ بعد وہ ہسپتال کے گیٹ پر پہنچ چکی تھی . اس نے رکشے والے کو کرایا دیا اور اندر داخل ہوگئی .
جنرل وارڈ کے ایک کمرے میں بجھے دل کے ساتھ داخل ہوئی ،تو بیڈ پر پڑے ایک آدمی نے کہا .
” نسیم ! آج تو دیر کر دی …..”
” رکشہ نہیں ملا تھا …..” اس نے آنکھیں چراتے ہوئے کہا .
” خیر …..کوئی بات نہیں …..”
نسیم نے لقمے توڑ توڑ کر اسے کھلانے شروع کر دیا . اچانک وہ بولا .
” تم نے کھانا کھایا ….”
” ہاں ! کھا لیا تھا …..”
” تمھیں تو جھوٹ بولنا بھی نہیں آتا …..چلو ! کھائو ….”
اب نسیم مجبور ہوگئی تھی . وہ نا چاہتے ہوئے بھی کھانا کھانے لگی ،لیکن ہر لقمہ اس کے گلے میں پھنس رہا تھا .
یہ آدمی نسیم کا شوہر خاور تھا . خاور ایک نجی ادارے میں ملازم تھا . اچھی خاصی تنخواہ تھی اور ان کی زندگی زبردست گزر رہی تھی . ان کی تینوں بیٹیاں بہترین اسکول میں پڑھ رہی تھیں . اللہ تعالی نے انھیں بیٹا سے محروم رکھا تھا ،لیکن وہ صابر تھے اور انھوں نے بیٹیوں کو بیٹوں کی طرح پالا تھا . اسکول میں تعلیم کا معیار بہت اچھا تھا اور اسی لحاظ سے فیس بھی زیادہ تھی . عام لوگ تو اس اسکول میں اپنے بچوں کو پڑھانے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے .
زندگی بڑے سکون سے گزر رہی تھی کہ جانے کس کی نظر لگ گئی . دو ہفتے پہلے خاور چھٹی کے وقت دفتر سے نکلا اور موٹر سائیکل پر گھر جانے لگا . اسے کیا پتا تھا کہ آج وہ کہیں اور پہنچنا والا ہے .
وہ اپنے خیالات میں مگن جا رہا تھا . اسے تو اس وقت پتا چلا ،جب ایک تیز رفتار ٹرک نے اسے ٹکر ماری اور وہ موٹر سائیکل سمیت اڑتا ہوا دور جا گرا .ٹرک والے نے رک کر یہ دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کی کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں . وہ تیزی سے موقع سے فرار ہوگیا . اس کی ایک ٹانگ موٹر سائیکل کے نیچے آگئی اور اوپر موٹر سائیکل گھومتا رہا . اسے بہت چوٹیں آئی تھیں . تکلیف اس سے برداشت نہ ہوئی اور وہ اپنے حواس کھوبیٹھا .
جب اسے ہوش آیا ، تو وہ سرکاری ہسپتال میں تھا . اس وقت اس کے پاس اس کی بیوی اور تینوں بیٹیاں موجود تھیں . وہ بہت تکلیف میں تھا .
جب وہ ہسپتال پہنچا ،تو اس وقت وہاں اس کے محلے کا ایک آدمی موجود تھا . اس نے خاور کو پہچان لیا اور اس کے گھر میں اطلاع دے دی .
اس کے مختلف ٹیسٹ ہوئے . دائیں ٹانگ کے ایکسرے ہوئے . رپورٹ بہت ہول ناک تھی . ٹانگ میں تین فریکچرز تھے . فریکچرز بہت خطرناک تھے اور خاور کو اپنے قدموں پر اٹھنے کے لیے طویل وقت درکار تھا . اس دوران میں اس کے مختلف آپریشن بھی ہونے تھے . تب جا کر وہ ٹھیک ہوتا .
علاج تو سرکاری ہو رہا تھا . جس ادارے میں خاور کام کرتا تھا ،ان کی طرف سے ایک روپیہ بھی نہیں ملا تھا. بس ہمدردی کا اظہار کر کے ٹرخا دیا تھا. بھلا ہمدردی کے ایک دو سے کیا علاج ہوتا . نسیم مجبور ہوگئی اور اس نے نا چاہتے ہوئے بھی اپنی بیٹیوں کو اسکول سے ہٹا لیا .اس کے علاوہ کر ہی کیا سکتی تھی .
دو تین وہ سوچتی رہی کہ کیا کرے . آخر اس نے فیصلہ کیا کہ اپنی بچیوں کو کسی کام پر لگا دے . چلو ! یوں کچھ پیسے تو آئیں گے . اس نے پڑوسن سے بات کی . وہ درزن تھی . نسیم کی بات سن کر اس نے کہا .
” بہن ! مجھے تمھارے حالات کا پتا ہے ، اس لیے تینوں کا پانچ ہزار دیا کروں گی …..یہ بھی صرف تمھارے حالات کی وجہ سے …..ورنہ ! تمھیں پتا ہی ہے کہ جب تک کاری گر نہ ہو جائے …..ایک روپیا بھی نہیں ملتا ….”
” میں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گی …..”
نسیم اس کا شکریہ ادا کرتے کرتے نہیں تھک رہی تھی .
######
دوسرا ماہ شروع تھا . پانچ ہزار سے کچھ آسرا مل گیا تھا . تینوں بہنیں محنت سے کام سیکھ رہی تھیں . ان کی استاد ان کے کام سے خوش تھی . وہ بڑی توجہ سے انھیں کام دکھا رہی تھی .
آج پھر میڈم کشور ان کے گھر میں موجود تھی .
” مجھے بہت افسوس ہے کہ آپ کو ان حالات کا سامنا کرنا پڑا . ”
” اللہ تعالی کی مرضی …..وہ جس حال میں رکھے . ”
” کم سے کم ایک بار تو مجھے بتا دیتیں ……مجھے تو کل ایک طالبہ کی امی نے سب کچھ بتایا …..باتوں ہی باتوں میں آپ کا ذکر آیا ،تو اس نے آپ کے حالات سے آگاہی دی …..”
” مجھے اچھا نہیں لگتا کہ ہر کسی کے سامنے اپنے دکھڑے سناتی رہوں …..”
” یہ بھی اچھی بات ہے …..اللہ تعالی آسانیاں پیدا فرمائے …..میں آج آپ کے پاس اس لیے آئی ہوں کہ آپ بچیوں کو اسکول بھیجیں …..”
” آپ کو پتا ہے کہ خاور اس قابل نہیں کہ اپنا خیال رکھ سکیں …..مجھے ان کے پاس رہنا پڑتا ہے ….. ہمارا ذریعہ آمدنی تو کوئی نہیں ،اس لیے میری بیٹیوں نے ہمیں بیٹے بن دکھایا ہے …..اب اگر انھیں اسکول بھیجوں ،تو کھائیں کہاں سے …..؟”
میڈم کشور لاجواب ہو گئیں . ان کی آمدنی بھی اتنی نہیں تھی کہ وہ کچھ تعاون کرتیں . دوسرا وہ سمجھ گئی تھیں کہ نسیم خود دار ہے ، وہ کسی کا احسان نہیں لے گی اور نہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے گی .
وہ خاموشی سے اٹھیں اور اپنے گھر کی راہ لی . وہ مسلسل اس سوچ میں تھیں کہ ایسا کیا کیا جائے کہ نسیم کی بچیوں کا بھلا ہو جائے . ساری رات وہ سو نہ سکیں . ان سے ان کے حالات برداشت نہیں ہو رہے تھے . وہ ان کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھیں . صبح نماز پڑھ کر انھوں نے دعا مانگی ، تو ایک دم ان کے ذہن میں جھماکا سا ہوا . وہ بے اختیار بول اٹھیں .
” ہاں ! یہ زبردست رہے گا . ”
انھوں نے اسی دن سے اس پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا . اب وہ مطمئن تھیں .
اسکول سے واپسی پر وہ کھانا کھا کر جلدی سے باہر نکلیں . ان کا رخ صائقہ ،صائمہ اور عاصمہ کی استاد کے گھر کی طرف تھا . جلد ہی وہ دروازے پر دستک دے رہی تھیں . درزن نے دروازہ کھولا ، وہ میڈم کشور کو دیکھ کر خوش ہوگئی . وہ سہیلیاں تھیں . وہ انھیں گھر میں لے گئی ، تینوں بچیاں اپنی میڈم کو دیکھ کر خوش ہوگئیں . وہ بڑے اچھے طریقے سے ان سے ملیں . میڈم کشور نے اپنی سہیلی کو اپنے منصوبے سے آگاہ کیا ،تو وہ بھی ان کا ساتھ دینے کو تیار ہوگئی . میڈم کشور نے ان تینوں کو اپنے پاس بلایا .
” بچیو ! یہ بتائو ….تم پڑھنا چاہتی ہو ؟”
” میڈم !یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے ،لیکن ہمارے حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے ….ہم کام نہیں کریں گی ،تو امی کو کرنا پڑے گا اور جس طرح ابو کو دیکھ بھال کی ضرورت ہے ،وہ ہم پوری نہیں کر سکتیں ، اس لیے مجبوری ہے …..” صائمہ نے جواب دیا .
” اگر کچھ ایسا ہو جائے کہ تم یہ کام بھی کرتی رہو اور ساتھ پڑھتی رہو ،تو پھر کیا خیال ہے ؟”
میڈم کشور کی بات سن کر وہ تینوں بے اختیار بول اٹھیں .
” یہ ….یہ ….یہ کیسے ممکن ہے ؟”
” یہ اس طرح ممکن ہے کہ میں اسکول سے واپس ادھر آیا کروں گی ….ایک گھنٹا تمھیں پڑھایا کروں گی ….ایک گھنٹی تمھاری استاد تم پر لگائے گی ….یوں تمھارے کام کا حرج بھی نہیں ہوگا اور تم پڑھنے کا شوق پورا کرتی رہو گی …… امتحانات کا جب وقت آئے گا،تو تم اسکول میں دوسری بچیوں کے ساتھ امتحان دیا کروگی ….”
یہ سن کر وہ خوشی سے اچھل پڑیں اور بے اختیار میڈم کشور کا شکریہ ادا کرنے لگیں . انھیں خوش دیکھ کر میڈم کشورکو دلی سکون مل گیا .
دوسرے دن وہ اپنی کتابیں ساتھ لائی تھیں . ان کی امی کو جب پتا چلا تھا ،تو وہ بھی بہت خوش ہوئی تھی اور وہ بے اختیار میڈم کشور کو دعائیں دینے لگیں .
خوشی بانٹنے سے بڑھتی ہے۔غم بانٹنے سے کم ہوتا ہے۔میڈم کشور نے ان کا غم بانٹ لیا تھا۔

ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
رات بھر تاروں بھری رات پہ رونا آیا
سیف یہ دن تو قیامت کی طرح گزرا ہے
جانے کیا بات تھی ہر بات پہ رونا آیا

اپنا تبصرہ لکھیں