جیب کترا - عاطف فاروق

جیب کترا – عاطف فاروق

جونہی بس سٹاپ پر آکر رُکی، عامر وقت ضائع کئے بغیر اس میں سوار ہوگیا۔ بے حد ہجوم اور شدید گرمی کی وجہ سے مسافروں کی حالت ناقابل بیان تھی۔ بس کی کھڑکیاں کھلی ہونے کے باوجود حبس ختم ہونے کا نام نہ لیتی تھی۔ بس میں جب تل دھرنے کی جگہ بھی نہ بچی تو کنڈکٹر نے چلنے کا اشارہ کیا۔ سڑک بھی شکستہ حال تھی جس کی وجہ سے بس مسلسل ہچکولے کھارہی تھی اور لوگ ایک دوسرے پر گررہے تھے۔ خُدا خُدا کرکے دوسرا سٹاپ آیا، لیکن یہاں بھی لوگوں کا خاصا ہجوم بس کے انتظار میں کھڑا تھا۔ عامر نے اسی سٹاپ پر اترنا تھا۔ اس سے پہلے کہ دھکم پیل شروع ہوتی عامر بس سے اُتر گیا۔
بس سے اُتر کر عامر کے قدم قریبی پارک کی طرف بڑھنے لگے۔ پارک میں پہنچ کر وہ سب سے الگ کونے والے کنکریٹ بینچ پر بیٹھ گیا۔ اس نے مشکوک نگاہوں سے چاروں اطراف دیکھا لیکن کوئی ذی روح اس کے آس پاس نہیں تھا۔ تب مطمئن ہوکر اس نے کُرتے کی سائیڈ والی جیب سے ایک نفیس سا بٹوا نکالا۔ اس کا دل تیز تیز دھڑک رہا تھا۔ اُس نے سَرسَری نگاہوں سے ایک بار پھر اِدھر اُدھر دیکھا اور پھر بٹوا کھول ڈالا۔ بٹوا سو سو روپے کے نوٹوں سے بھرا ہوا تھا۔ اتنے زیادہ روپے دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں اور چہرے پر مسکراہٹ رقص کرنے لگی۔
”واہ رے واہ! مُنی کی فیس کا بندوبست تو ہوگیا۔“ وہ اپنے آپ سے بڑبڑایا اور بٹوے میں سے نوٹ نکال کر گننے لگا۔ پانچ ہزار روپے اس نے جیب میں ڈالے اور بٹوا پارک میں ہی پھینک کر گھر کی طرف چل دیا۔
عامر کی عمر مشکل سے 14 برس تھی۔ اس کے ابا جان ایک سال قبل ہی ایک ٹریفک حادثے میں چل بسے تھے۔ باپ کی وفات کے بعد بوڑھی ماں اور ایک بہن کی کفالت کی ذمہ داری اس کے نازُک کندھوں پر آن پڑی تھی۔ اپنے چھوٹے سے خاندان کا اب وہ اکیلا ہی سہارا تھا۔اپنے اور گھر والوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے اس نے کام تلاش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن اسے کہیں بھی ملازمت نہ مل سکی۔ جائز طریقے سے جب وہ پیسے کمانے میں کامیاب نہ ہوا تو اس نے چوریاں کرنا اور جیبیں کاٹنا شروع کردیں۔ گزشتہ ایک سال سے یہی اس کا کاروبار تھا اور یہی ذریعہ معاش۔ اس کی ماں اُسے بارہا ان برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتی تاہم ماں کے بھاشن سے اس کے سر پر جوں تک نہ رینگتی۔ وہ کرتا بھی تو کیا؟ اس کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ جو نہیں تھا۔
گھر پہنچا تو اس کی چھوٹی بہن سکول نہ جانے پر بضد تھی۔ وہ بیچاری بھی کیا کرتی؟ مہینے کی پندرہ تاریخ تھی اور ابھی تک اس نے سکول کی فیس جمع نہیں کروائی تھی جس کی وجہ سے ٹیچر نے اسے کلاس سے نکال دیا تھا۔
عامر کو دیکھتے ہی مُنی اس سے لپٹ گئی۔
”بھیا! میری فیس کا بندوبست ہوا کہ نہیں؟“
”ہاں ری میری ماں! تیری فیس کا بندوبست ہوگیا، چل اب بستہ اُٹھا، میں تُجھے سکول چھوڑ کر آتا ہوں۔“ عامر نے پیار سے مُنی کے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہا۔ مُنی کے چہرے پر پھیلی مُسکراہٹ بھی دیدنی تھی۔ وہ دوڑی گئی اور دوسرے کمرے سے اپنا بستہ اُٹھا لائی۔
٭……٭……٭
ماں کی نصیحتیں اکثر عامر کے ذہن میں کھٹکتی رہتی تھیں۔ وہ اکثر سوچتا تھا کہ خدانخواستہ اگر وہ پکڑا گیا تو اس کی ماں اور ننھی بہن کا سہارا کون بنے گا؟ ان کی دیکھ بھال کون کرے گا؟ لیکن آج کے دور میں کام ملنا بھی تو کوئی آسان کام نہیں تھا۔ وہ جہاں بھی کام کے لئے گیا، مایوسی، ذلت اور رُسوائی کے سوا کچھ ہاتھ نہ لگا۔ پانچ ہزار روپے میں سے مُنی کی فیس ادا کرنے اور کریانے والے کو گھریلو راشن کا ادھار ادا کرنے کے بعد محض تین سو روپے بچے تھے، جو کچھ نہ ہونے کے ہی برابر تھے۔ مستقبل کے اخراجات کی فکر اُسے ریلوئے اسٹیشن لے گئی۔ ٹکٹ گھر لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ عامر بھی قطار میں لگ گیا، حالانکہ وہ کہیں جانے والا نہیں تھا۔ قطارمیں عامر کے سامنے بڑی عمر کے ایک باریش بزرگ کھڑے تھے۔ موقع ملتے ہی عامر نے ان کی جیب کاٹ لی اور اِدھر اُدھر کا جائزہ لیتے ہوئے قطار سے نکل آیا۔ سُنسان جگہ پر پہنچ کر اس نے جیب سے بٹوا نکالا۔ بٹوا بھاری اور قدرے پھولا ہوا تھا۔
”لگتا ہے کوئی بڑی مچھلی ہاتھی آئی ہے۔“ عامر نے خود کلامی کی اور بٹوا ٹٹولنا شروع کردیا۔ ”کھودا پہاڑ نکلا چوہا“ کے مصداق سے بٹوے سے صرف تیس روپے برآمد ہوئے۔ تاہم بٹوا طرح طرح کے کاغذات سے بھرا ہوا تھا۔ تیس روپے دیکھ کر عامر کے چہرے پر پھیلی مسکراہٹ یکدم مایوسی میں بدل گئی۔ اس دوران عامر کی نظر بٹوے میں موجود ایک خفیہ جیب پر پڑگئی۔ خفیہ جیب دیکھتے ہی تجسس بھرے انداز سے اُس نے جیب ٹٹولنا شروع کردی۔ خفیہ جیب سے ایک فارم نُما کاغذ اور پانچ پانچ ہزار روپے کے دو نوٹ برآمد ہوئے۔ دس ہزار روپے دیکھتے ہی عامر کے دل میں لڈو پھوٹنے لگے۔ اس نے پیسے جیب میں ڈالے اور فارم کا مشاہدہ کرنے لگ گیا۔ یہ امتحانات کا داخلہ فارم دکھائی دے رہا تھا۔ عامر کو فارم سے کیا لینا دینا تھا، اس نے فارم کو دوبارہ بٹوے میں ڈالا اور بٹوا پھینکنے کی بجائے جیب میں ہی ڈال لیا۔ بٹوا اویجنل لیدر کا تھا اور بہت خوبصورت تھا، اسی لئے عامر چاہتے ہوئے بھی اس کو پھینک نہ سکا۔ اس کے بعد عامر گھر لوٹ آیا۔ رات کو بستر پر دراز ہوتے ہی وہ سوچ و بچار میں گُم ہوگیا۔ کوئی چھوٹا موٹا کام کرنے کیلئے دس ہزار روپے کافی تھے، وہ اسی بابت سوچ رہا تھا کہ کونسا کام کیا جائے جس سے باعزت طریقے سے روزی روٹی میسر آتی رہے۔ اسی بارے میں سوچتے سوچتے اسے احساس بھی نہ ہوا کہ نیند سے اُسے اپنی آغوش میں لے لیا۔
٭……٭……٭
دوپہر کا وقت تھا۔ عامر کال کوٹھڑی میں رسیوں سے جکڑا ہوا تھا۔ اس کے سامنے تین چار پولیس والے کھڑے تھے جو اسے ہیبت ناک نظروں سے دیکھے جارہے تھے۔ ایک بوڑھا آدمی بھی وہیں کھڑا تھا۔ عامر نے غور سے دیکھا تو دنگ رہ گیا، کیونکہ وہ بوڑھا کوئی اور نہیں بلکہ وہی تھا جس کی جیب اُس نے ریلوئے اسٹیشن پر کاٹی تھی۔
”کیا یہی وہ لڑکا ہے جس نے آپ کی جیب کاٹی تھی؟“ ایک پولیس والے نے اُس بوڑھے آدمی سے دریافت کیا۔
”جی حضور! ٹکٹ گھر میں یہی لڑکا میرے پیچھے کھڑا تھا اور اسی نے میری جیب کاٹی ہے۔ آپ براہ مہربانی اس لڑکے سے میرے پیسے واپس دلوادیجئے، یہ پیسے میری بیٹی کے امتحان کی داخلہ فیس کیلئے ہیں اور کل فیس جمع کروانے کی آخری تاریخ ہے۔ اگر فیس جمع نہ ہوئی تو میری بیٹی امتحان میں نہیں بیٹھ سکے گی اور اس کی پورے سال کی محنت رائیگاں چلی جائے گی۔ مہربانی کیجئے حضور!“ بوڑھا آدمی گڑگڑانے لگا۔
”آپ پریشان مت ہوں۔ ہم نے اس لڑکے سے آپ کا بٹوا برآمد کرلیا ہے۔ یہ لیجئے اور پیسوں کی پڑتال کرلیجئے۔“ پولیس اہلکار نے بٹوا اُس بوڑھے آدمی کو پکڑاتے ہوئے کہا۔ بٹوے میں رقم محفوظ تھی کیونکہ عامر نے ابھی تک اس میں سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا تھا۔
”حوالدار! اس لڑکے کے دونوں ہاتھ کاٹ دو۔“ پولیس افسر حکم دیتے ہی حوالات سے باہر نکل گیا۔
”نہیں نہیں…. میرے ہاتھ مٹ کاٹو….. میں چور نہیں ہوں، مجھے معاف کردو…. تمھیں خدا کا واسطہ ہے۔۔۔“
عامر…..عامر…..
کیا ہوا میرے بچے؟
آنکھیں کھولو میرے بچے، تمہارے ہاتھ کوئی نہیں کاٹ رہا۔
عامر نے آنکھ کھولی تو وہ بستر پر تھا اور اس کی ماں بغل میں بیٹھی تھی جبکہ اس کے شورمچانے سے مُنی بھی جاگ چکی تھی۔ اُس کا جسم پسینے سے شرابور تھا۔ وہ خوف سے بُری طرح کانپ رہا تھا۔ مُنی نے اسے پانی کا گلاس دیا تو پانی پی کر اس کے حواس بحال ہوئے اور اس نے ماں کو سارا خواب سنادیا۔
”میرے بچے! میں نے بارہا تمھیں سمجھایا ہے کہ چوری اور جیب کاٹنے سے باز آجاؤ اور محنت کرکے روزی کماؤ، لیکن تم میری بات مانتے کب ہو؟ آج اللہ تعالیٰ نے اس خواب کے ذریعے تمھیں یہی سمجھایا ہے۔“ ماں اس کے بالوں میں انگلیاں سہلاتے ہوئے بولی۔
”لیکن ماں….. پولیس والے میرے ہاتھ کیوں کاٹنے لگے تھے، پولیس ایسا تو نہیں کرسکتی نا؟“
”میرے بچے! اسلام میں چوری کرنے کی سزا دونوں ہاتھ کاٹنا ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تمھیں اسی سزا کے ذریعے ڈرایا ہے کہ اب بھی ان برائیوں سے باز آجاؤ، اب بھی وقت ہے وگرنہ اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہے۔ اب دیکھو! وہ بوڑھا آدمی تمھاری اس حرکت کی وجہ سے نجانے کتنا پریشان ہوگا؟ ان کی بیٹی کس قدر پشیمان ہوگی جس کی فیس کے پیسے تم چُرا لائے ہو۔ کیا وہ دونوں تمھیں معاف کریں گے؟“
”ماں جی! اللہ تعالیٰ نے اس خواب کے ذریعے مجھے راہِ ہدایت دکھادی ہے۔ میں آج ہی اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کروں گا اور سچے دل سے توبہ کرکے ان تمام برائیوں سے کنارہ کرنے کا تہیہ کروں گا۔“
عامر کا اعتماد سے ظاہر ہورہا تھا کہ وہ بدل چکا ہے۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد عامر نے اپنے تمام گناہوں سے توبہ کی اور آئندہ چوری اور جیب کاٹنے جیسے افعال سے دور رہنے کا تہیہ کیا۔ دن چڑھتے ہی اس نے بٹوے میں سے فارم نکال کر بوڑھے آدمی کا ایڈریس دیکھا اور وہاں پہنچ گیا۔ عامر نے بوڑھے آدمی کو ساری بات بتائی اور ان کا بٹوا واپس کرکے ان سے معافی طلب کی۔ عامر کی مجبوریوں اور حالات کومدنظر رکھتے ہوئے اس بوڑھے آدمی نے نہ صرف عامرکو معاف کردیا بلکہ اسے اپنی کریانے کی دکان پر ملازمت بھی دے دی۔
”اور جو مرد چوری کرے اور جو عورت چوری کرے سو ان دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرتناک سزا ہے اور اللہ تعالیٰ حکمت والا ہے۔“ (سورۃ المائدہ آیت 38)
٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ لکھیں