تحریر: محمد غضنفر علی
مجلس میں بیٹھے ہوئے ہر آدمی کی نگاہیں دروازے پر لگی ہوئی تھیں۔ آنے والا ہر لمحہ ان کی بے قراری بڑھا رہا تھا ۔ نہ جانے وہ خوش نصیب آدمی ہے ؟ ابھی کون آئے گا ، جو بھی آئے گا اس کے بختوں کا کیا کہنا ، بھلا اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہوسکتی ہے، اس آدمی کو دنیا میں ہی ’’جنتی‘‘ کہہ دیا جائے اور پھر بشارت دینے والا بھی کوئی عام انسان نہیں، بلکہ اس دنیا کے سب سے عظیم ترین اور اعلیٰ و ارفع انسان حضرت محمد مصطفیﷺ تھے ۔
مسجد نبوی ﷺ میں محفل جمی ہوئی تھی ، محسن انسانیت جناب حضرت محمد ﷺ کے ارد گرد صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ ﷺ صحابہ کرام کو دین کی اچھی اچھی باتیں بتارہے تھے ۔ اچانک پیارے نبی ﷺ نے فرمایا :
’’ میرے صحابہ ! ابھی تمہارے پاس ایک جنتی آدمی آئے گا۔‘‘
آپ ﷺ نے یہ فرمایا اور خاموش ہوگئے ، چند لمحوں کی خاموشی کے بعد پھر باتیں شروع ہوگئیں ، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہ جاننے کے لئے بے قرار ہوگئے کہ آنے والا آدمی کون ہوگا ؟ اس سے بڑھ کر عظمت کیا کہ خود نبی کریم ﷺ فرمارہے ہوں کہ جنتی آدمی آرہا ہے ، چند لمحوں تک محفل میں یہی کیفیت طاری رہی ۔
ہر شخص یہ جاننے کے لئے بے چین تھا کہ یہ خوش نصیب کون ہے ؟ اس شش و پنج میں ایک انصاری صحابی رضی اللہ عنہ محفل کی طرف آئے ، وہ ابھی ابھی وضو بناکر آرہے تھے۔ ان کا چہرہ تروتازہ تھا اور داڑھی مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے، لب ذکر الٰہی میں مشغول تھے، انہوں نے بائیں ہاتھ میںجوتا پکڑ رکھا تھا۔ وہ شان بے نیازی سے چلتے ہوئے قریب آئے تو انہوں نے بلند آواز میں ’’السلام علیکم ‘‘ کہا ، جواب میں سب صحابہ نے ’’ وعلیکم السلام‘‘ کہا تو وہ بھی محفل کا حصہ بن گئے ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جان گئے تھے کہ جنتی آدمی کون ہے، بے قرار دلوں کو اطمینان آگیا تھا کہ نبی اکرم ﷺ کی زبان سے بشارت پانے والا خوش نصیب کون ہے ۔ پیارے نبی ﷺ کی مجلس اسی شان و شوکت سے جاری رہی اور نبی اکرم ﷺ صحابہ اکرامؓ کے درمیان اسلام اور ایمان کی باتیں کرتے رہے ۔
جب مجلس ختم ہوئی تو وہ جنتی آدمی بھی جیسے چپ چاپ آئے تھے ایسے ہی خاموشی سے گھر کو چل دئیے ، انہیں کچھ خبر نہ تھی کہ نبی اکرم ﷺ نے ان کے متعلق کیا فرمایا ہے اور صحابہ کرامؓ ان کی قسمت اور خوش نصیبی پر کس قدر رشک کررہے ہیں وہ چلے جارہے تھے کہ پیچھے سے انہیں کسی نے پکارا ، انہوں نے مڑ کر دیکھا تو سیدنا عبداللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ تھے ۔
جنتی آدمی نے خوش ہوکر انھیں گلے لگایا پھر اپنے ساتھ ہی گھر لے آئے ۔ دونوں نے مل کر کھانا کھایا جب سیر حاصل گفتگو ہوئی تو عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے کہا :
’’ بھائی ! آج اچانک میری اپنے ابا جان سے کسی بات پر تکرار ہوگئی، بات جھگڑے تک جاپہنچی، میں نے غصے میں آکر قسم اٹھالی کہ میں تین دن تک ان کے پاس نہیں جائوں گا ۔ طیش میں آکر فیصلہ تو کرلیا لیکن اب رات ہوتے ہی پریشان ہوگیا ہوں ، قسم پوری نہ کی تو مجھے کفارہ ادا کرنا پڑے گا اور قسم پوری کرنے کیلئے مجھے والد صاحب کے سامنے نہیں جانا چاہیے۔ اب کیا کروں ؟ یہ سوچ رہا ہوں کیا آپ مجھے اپنے گھر میں تین دن ٹھہرا سکتے ہیں؟‘‘
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضیا للہ عنہ خاموش ہوئے تو انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے خوش ہوکر فرمایا : ’’ عبداللہ بھائی ! یہ گھر آپ کا ہے اور آپ جب تک چاہیں یہاں قیام فرمائیں۔‘‘ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ جو چاہتے تھے وہ پورا ہوگیا تھا ۔
ان کی خواہش یہی تھی کہ انہیں اس خوش نصیب آدمی کے ساتھ چند راتیں گزارنے کا موقع مل جائے۔ دن بھر وہ اس صحابی رسول رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہتے تھے، دن کے اوقات میں وہ اللہ کی عبادت کرتے ہیں، کون کون سے اعمال کرتے ہیں، ان کا ملنا جلنا کن کن لوگوں سے ہے ، وہ ان کے دن کے معمول سے آگاہ تھے ۔
لیکن وہ رات کے لمحوں میں کون سے ایسے کام کرتے ہیں کہ پیارے نبی ﷺ کی زبان مبارک سے ا نہیں دنیا میں ہی جنتی ہونے کی گارنٹی دی جارہی ہے ، ان کی یہ خواہش بھی پوری ہوگئی ۔ اب وہ ان لمھوں کی انتظار میں تھے کہ جان سکیں کہ رات کو وہ کیا اعمال کرتے ہیں ۔ سونے کا وقت ہوا تو انصاری صحابی رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا بستر اپنے ساتھ لگایا اور ذکر اذکار اور سونے کی دعائیں پڑھ کر نیند کی وادیوں میں کھوگئے ۔ دوسرے بستر پر لیٹے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ جاگ رہے تھے، ان کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی جبکہ دل کچھ جاننے کے لئے مچل رہا تھا ۔
انصاری صحابی ؓ جب بھی کروٹ بدلتے اور ذرا سی آنکھ کھلتی تو زبان سے اللہ کا ذکر جاری ہوجاتا اور وہ کروٹ بدل کر پھر سوجاتے، گویا ان کا معمول بن چکا تھا اور عادت ہوگئی تھی کہ کروٹ بدلتے ہی وہ ’’ اللہ اکبر – سبحان اللہ ‘‘ کہنے لگتے ۔ رات ڈھل چکی تو صحابیؓ بستر سے اٹھے اور قضائے حاجب سے فارغ ہوکر وضو یکرکے مصلے پر کھڑے ہوگئے ۔ انہوں نے نماز تہجد ادا کی اور پھر بستر پر آگئے ۔ جب صبح ہوئی تو مسجد نبوی ﷺ سے اذان فجر کی آواز بلند ہوئی ۔
اللہ اکبر …اللہ اکبر … کی آواز کان میں پڑتے ہی ان کی آنکھ کھل گئی ، دونوں صحابیؓ اٹھے اور انہوں نے بیدر ہونے کے اذکار اور دعائیں پڑھیں اور پھر مسجد نبوی ﷺ کی طرف چل دئیے جہاں انہوں نے پیارے نبی ﷺ کی امامت میں نماز فجر ادا کی ۔
پیارے نبی ﷺ کا روز کا معمول تھا کہ آپ ﷺ نماز فجر کی ادائیگی کے بعد دیر تک اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے اور پھر اگر کوئی رات کو خواب دیکھا ہوتا تو صحابہؓ کو بتاتے اور اس کی تعبیر بتاتے یا پھر مسائل پر گفتگو کرنے لگتے ، پھر وہ دونوں صحابیؓ بھی اس مجلس میں بیٹھے رہتے، تین دن گزرگئے اور ان تینوں راتوں میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے انصاری صحابی رضی اللہ عنہ کے ہر عمل پر غور کیا لیکن انہیں کوئی خاص ایسا عمل نظر نہ آیا کہ جس پر گمان کیا جاسکتا ہو کہ اس عمل کی وجہ سے انہیں جنتی کہا گیا ہو اور جب وہ اپنی کوشش میں ناکام ہوگئے تو انہوں نے ان کے گھر جاتے خود ہی بتادیا ۔
’’ اے اللہ کے بندے ! مجھے معاف کیجئے گا، نہ تو میری اپنے باپ سے کسی بات پر تکرار ہوئی ہے اور نہ ہی میں نے کوئی قسم اٹھائی تھی جبکہ سچ تو یہ ہے کہ میں اس روز اس محفل میں بیٹھا ہوا تھا جس میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ابھی اس مجلس میں وہ آدمی آرہا ہے جو جنتی ہے۔ مجھ سمیت سب نے دیکھا کہ پیارے نبی ﷺ کے فرمان کے بعد اس مجلس میں آپؓ آئے تھے ، تب میں نے بیٹھے بیٹھے سوچا کہ یہ تو جانوں آپؓ کونسے اعمال کرتے ہیں تو یہ سب جاننے کیلئے مجھے کوئی اور بہانہ نہ ملا تو میں نے آپؓ سے باپ سے جھگڑے کی بات کی لیکن میں نے دیکھا کہ آپؓ تو کوئی ایسا خاص عمل نہیں کرتے کہ جسے جنت کی بشارت کی وجہ قرار دیا جائے آخر آپ کے حق میں یہ سعادت کیسے اور کن خوبیوں کی بناء پر آئی ہے۔‘‘
انصاری صـحابیؓ عبداللہ بن عمروؓ کی بات پر مسکرانے لگے اور پھر کہا : ’’ میرے بھائی ! میں نے خود کو کبھی بھی نیک پارسا تصور نہیں کیا، ہمیشہ اللہ کے سامنے گناہ گار اور عاجز بندہ ہونے کے ناطے ہاتھ پھیلائے، اگر پیارے نبی ﷺ کی زبان سے بشارت میرے نصیب میں آئی ہے تو وہ ایک ہی عمل کی بدولت ہوسکتی ہے اور وہ عمل یہ ہے کہ میں جب بھی رات کو سونے کیلئے بستر پر جاتا ہوں تو لیٹنے سے پہلے اپنے دل کو صاف کرلیتا ہوں اگر میں نے کسی سے زیادتی یا کوئی ایسا عمل کیا ہوتا ہے جس کی وجہ سے کسی آدمی کی ناراضگی کا خدشہ ہو تو اس سے اور اللہ سے معافی مانگ لیتا ہوں ، اگر مجھ سے کوئی ایسا فعل ہوا ہو جس سے میرے دل میں اس کیلئے کچھ ملال آیا ہو تو میں اسے معاف کردیتا ہوں، جس وقت میں سوتا ہوں تو اپنے دل کو ساری کدورتوں سے صاف کرکے اللہ سے راضی ہوکر سوتا ہوں ۔‘‘
انصاری صحابی رضی اللہ عنہ جب خاموش ہوئے تو عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے خوش ہوکر کہا : ’’ اللہ کے نیک بندے یہی تو تمہارا وہ عمل ہے جس کی بدولت اللہ کے نبی ﷺ نے آپؓ کو جنتی کہا اور یہی وہ عمل ہے جس کی تلاش میں ، میں آپؓ کے پاس تین دن رہا۔‘‘
Tags:- short islamic stories for kids islamic stories for kids pdf islamic stories for kids in urdu short islamic stories for kids pdf short islamic stories for kids in urdu islamic stories for kids in urdu pdf islamic stories for kids in hindi jannati aadmi by Muhammad Ghazanfar Ali جنتی آدمی - محمد غضنفر علی بچوں کی ویب - Bachon Ki Web