21اپریل : یوم وفات حضرت علامہ محمداقبالؒ کے حوالے سے دل موہ لینے والی اقبالؒ کہانی
’’پی۔پی۔پیپ‘‘
عاصم اپنے خیالات کے بھنور میں ڈوبا سڑک پر چلا جارہا تھا کہ گاڑی کے ہارن نے اسے چونکا دیا اور وہ راستہ دینے کے لئے سڑک کے کنارے پر ہوگیا ۔
’’پی۔پی۔پیپ‘‘
لیکن گاڑی کے ہارن کی آواز جاری رہی ۔ اسے گاڑی والے پر غصہ آنے لگا۔ وہ کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ گاڑی والے نے اسے گاڑی کادروازہ کھولتے ہوئے آواز دی۔
’’ارے عاصم !‘‘ اور وہ گاڑی کادروازہ بند کرکے عاصم کی طرف بڑھا۔
’’یاسر تم!‘‘ عاصم بھی اس کی طرف دیکھ کر اٹھا اور وہ دونوں مسکراتے ہوئے چہروں کے ساتھ ایک دوسرے کے بغل گیر ہوگئے۔
’’بھئی کہاں غائب ہوگئے تھے ؟ اتنے عرصے بعد نظر آئے ہو ؟‘‘ عاصم نے یاسر سے پوچھا۔
’’ارے جانا کہاں ہے یار ۔تمھیں تو پتہ ہے کہ نوکری میں ایسا تو ہوتا ہے، میرا ٹرانسفر کراچی ہوگیا تھا، بس وہیں ۔‘‘یاسر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
’’ہاں بھئی۔ نوکر کی ؟ تے نخرہ کی ؟‘‘اور وہ دونوں ہنسنے لگے۔
’’ارسے ساری باتیں یہیں کریں گے کیا ؟ آئو گاڑی میں بیٹھو۔‘‘یاسر نے عاصم کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا اور وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہوگئے ۔
’’اور سنائو بھئی۔ گھر پر سب خیریت ہے ؟‘‘یاسر نے گاڑی کابیک مرر(پیچھے دیکھنے والا آئینہ) ٹھیک کرتے ہوئے عاصم سے پوچھا۔
’’ہاں یار،تمھیں پتا ہی ہے کہ میرے والدین تو ہیں نہیں ، ماموں کی فیملی کے ساتھ رہتا ہوں ۔وہ لوگ ٹھیک ہیں ۔‘‘
’’ تم سنائو خالہ جان کا کیا حال ہے ؟‘‘ عاصم نے جواب کے ساتھ ہی اپنا سوال داغ دیا۔
’’امی جان؟ ان سے تم خود ہی پوچھ لینا۔ ابھی تمھیں گھر ہی تو لے جارہا ہوں۔‘‘یاسر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ۔
تھوڑی دیر بعد یاسر نے ایک کوٹھی کے دروازے کے سامنے گاڑی روک کر ہارن دیا۔
’’پی۔پی۔پیپ‘‘ ’’پی۔پی۔پیپ‘‘
اور ایک ملازم نے کوٹھی کا مین گیٹ کھول دیا اور گاڑی کوٹھی میں داخل ہوگئی ۔
عاصم تو کوٹھی کی خوبصورتی دیکھ کر ششدر رہ گیا ۔
’’ ہاں بھئی گاڑی میں ہی بیٹھے رہو گے یا اندر بھی آئو گے ؟‘‘ یاسر نے اسے آواز دی اور عاصم ،یاسر کے ساتھ برآمدے سے ہوتا ہوا کمرے میں داخل ہوگیا ۔
اندر صوفے پر ایک خاتون سفید لبا س میں ملبوس قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف تھیں۔ عاصم اور یاسر ان کے ساتھ والے صوفے پر جاکر بیٹھ گئے۔ خاتون نے دونوں پر نظرڈالی اور نشانی لگاکر قرآن پاک بند کرکے رکھ دیا۔
فوراً ہی عاصم اٹھا اور سرجھکا کر انہیں سلام کیا۔
’’السلام علیکم خالہ جان۔‘‘
’’وعلیکم السلام۔ ارے عاصم بیٹھا کیسے ہو ؟‘‘خاتون (جوکہ یاسر کی والدہ تھیں) نے عاصم کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔
’’جی خالہ جان۔ بس آپ کی دعائیں ہیں۔‘‘ عاصم نے مودبانہ لہجے میں کہا۔
’’جیتے رہو بیٹا ۔جیتے رہو۔‘‘خالہ جان نے دعادی۔
’’اور تمہارے گھر والے ۔ میرا مطلب ہے تمہارے ماموں ممانی ؟‘‘
’’جی خالہ جان۔ وہ سب بھی خیریت سے ہیں ۔‘‘ عاصم نے ادب سے جواب دیا ۔
’’اچھا بیٹا تم دونوں بیٹھو۔ میں تمہارے لئے چائے بھیجتی ہوں ۔‘‘ خالہ جان نے صوفے سے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’نہیں ،نہیں خالہ جان ابھی نہیں ۔‘‘ عاصم نے منع کرتے ہوئے کہا۔
’’ارے چھوڑ یار۔ کب سے تکلف کرنے لگے۔‘‘ یاسر نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں بیٹا۔ تکلف نہ کرو۔ دو منٹ لگیں گے چائے تیار ہونے میں۔‘‘ خالہ جان نے یاسر کی تائید کی۔
’’نہیں خالہ جان ایسی بات نہیں ۔ مجھے ذرا جلدی ہے۔ آج تو میں صرف آپ کو سلام کرنے کے لئے آیا تھا ۔ پھر کبھی تسلی سے چکر لگائوں گا۔ابھی اجازت دیجئے۔‘‘
’’اؤچھا بیٹا جیسے تمہاری مرضی۔گھر والوںکو میری طرف سے سلام کہنا۔‘‘خالہ جان نے اجازت دیتے ہوئے کہا ۔
یاسر عاصم کو باہر دروازے تک چھوڑنے کے لئے عاصم کے ساتھ چل پڑا۔
’’یار عاصم ! ایسی بھی کیا جلدی ہے ؟ میں تو سوچ رہا تھا کہ اتنے عرصے بعد ملے ہیں ۔ آرام سے دیر تک بیٹھ کر گپ شپ لگائیں گے ۔‘‘برآمدے سے گزرتے ہوئے یاسر نے عاصم سے گلہ کیا ۔
’’حقیقت تو یہ ہے کہ یاسر میرا بھی یہی دل کررہا ہے کہ دیر تک بیٹھ کر تم سے باتیںکروں لیکن کیا کروں یار مجبوری ہے ایک نہایت ضروری کام ہے ۔‘‘ عاصم نے معذرت کے لہجے میں کہا ۔
’’اچھا ٹھیک ہے چلے جائو لیکن ایک شرط پر۔‘‘یاسر نے انگلی کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’وہ کیا ؟ ‘‘ عاصم نے سوال کیا۔
’’ وہ یہ بھئی کہ تم بتاکر جائو کہ پھر کب آئو گے ؟‘‘یاسر نے شرط بتائی۔
’’ارے یہ تو میرے بھائی کا گھر ہے۔ جب دل کرے گا آجائوں گا۔‘‘ عاصم نے یاسر کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا اور دونوں ایک دوسرے سے بغلگیر ہونے کے بعد جد اہوگئے ۔
عاصم نے یاسر سے تو ضروری کام کا بہانہ کیا تھا لیکن وہ یاسر کے گھر سے نکل کر نزدیکی پارک کی طرف چل پڑا ۔ پارک میں الگ تھلگ بینچ پر جاکر عاصم بیٹھ گیا ۔ یوں تو اس کی نگاہیں سامنے موجود ایک درخت پر مرکوز تھیں جیسے وہ اس درخت میں کچھ تلاش کررہا ہو۔
درحقیقت وہ اس دن کو دیکھ رہا تھا جب یاسر اور اس کا انٹرمیڈیٹ کا رزلٹ آیا تھا اور وہ دونوں مزید پڑھنے کی شدید خواہش کے باوجود آگے نہ پڑھ سکے تھے۔ عاصم کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ اس کے والدین جب وہ چھٹی جماعت میں تھا تو ایک دہشت گردی کے واقعے میں اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے اور جب سے ہی اس کے ماموں اس کی پرورش کررہے تھے۔ لیکن انٹرمیڈیٹ کے نتیجے کے بعد وہ بھی عاصم سے کہنے لگے۔
’’ بیٹا ! میں جانتا ہوں کہ تم پڑھائی میں بہت لائق ہو اور یقینا آگے بھی پڑھنا چاہتے ہوگے۔ لیکن بیٹا تم جانتے ہو کہ میری جیب تمہاری پڑھائی کا بوجھ نہیں اٹھاسکتی۔ میرے اپنے بچے بھی اب سکولوں میں جانے لگے ہیں ان کی فیسیں ،یونیفارم۔۔۔‘‘
’’ جی جی ماموں! میں جانتا ہوں۔ آپ نے میرے لئے اتنا کیا ہے ۔آج کل کے دور میں کون کسی کے لئے کرتا ہے۔‘‘ ماموں جان مزید کچھ کہنا چاہتے تھے کہ عاصم خود ہی بول پڑا ۔
’’ لیکن بیٹا ! میں نے اتنا ضرور کیا ہے کہ میں نے اپنے دفتر میں بات کی ہے تمہاری نوکری کے لئے ۔ امید ہے انشاء اللہ کچھ نہ کچھ ہوجائے گا ۔‘‘ ماموں نے بات آگے بڑھائی ۔
آگے پڑھائی نہ کرنے کا سن کر اسے شدید صدمہ پہنچا تھا۔
’’آخر کوماموں بھی خودغرض ہی نکلے ۔اپنے بچوں میں اور مجھ میں فرق کر ہی ڈالا نا۔‘‘ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ ماموں سے کہہ دے کہ ’’ اس مہربانی کی بھی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘ لیکن ماموں کے احترام میں چپ رہا ۔
دوسری طرف یاسر کی تو سگی والدہ تھیں لیکن وہ بے چاری بھی لوگوں کے کپڑے سی سی کر یاسرکو پال رہی تھیں ۔ یاسر نے گھر کے حالات دیکھتے ہوئے خود ہی مزیدپڑھنے کا ارادہ ترک کرکے نوکری کی تلاش شروع کردی ۔ اور کافی تلاش کے بعد یاسر اور عاصم دونوں کو مختلف دفاتر میں کلرک کی نوکریاں مل گئیں ۔
عاصم پارک میں بیٹھا یہ سوچ رہا تھا کہ میں تو آج تک وہی غریب کلرک ہوں اور میرا دوست یاسر اتنے ٹھاٹھ باٹھ سے ہے۔وہ سوچنے لگا کہ کہیں یاسر کے ہاتھ کوئی خزانہ تو نہیں لگ گیا۔ پھر وہ خود ہی اپنی سوچ پر مسکرااٹھا کہ ایسی باتیں قصے کہانیوں میں ہی اچھی لگتی ہیں ۔
’’ پھر یاسر کی کوئی لاٹری کاانعام نکل آیا ہوگا ۔‘‘
’’لیکن وہ تو لاٹری وغیرہ کو برا سمجھتا تھا ۔‘‘ اس کو خود ہی یاد آیا۔
’’ پھر یقینا یاسر کے پاس بلیک منی ہوگی وہ کوئی کالا دھندہ کرتا ہوگا ۔‘‘ کل کو وہ مجھے بھی اس میں شامل کرنا چاہے گا ،کیا مجھے اس کا ساتھ دینا چاہیے ۔ وہ یہ باتیں سوچ رہا تھا کہ چڑیوں کے شور نے اسے اس کے خیالات کی دنیا سے باہر نکال دیا ۔ اس نے دیکھا تو ہر طرف اندھیرا پھیل چکا تھا۔ پرندے اپنے گھونسلوں کی طرف لوٹ رہے تھے ۔ تب اسے خیال آیا کہ وہ نجانے کب سے یہاں بیٹھا ہے ۔ اب مغرب ہوچکی تھی وہ اٹھا اور گھر کی طرف چل پڑا۔ اس کا دماغ ابھی بھی انہی سوچوںمیں گم تھا ۔
’’ہاں ۔ میں بھی اس کے ساتھ مل جائوں گا ،آخر مجھے بھی عیش کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق ہے ۔میرے پاس بھی گاڑی اوربنگلہ ہو۔۔۔‘‘ وہ آپ ہی آپ سوچتا گیا ۔
وہ اپنے اس خود ساختہ مفروضے کوعملی جامہ پہنانے کے لئے اگلے ہی روز یاسر کی طرف چل پڑا ۔
یاسر نے گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا ۔
’’ آئو بھئی عاصم ! آج توتم کو میں رات کے کھانے سے پہلے نہیں جانے دوں گا ۔‘‘ یاسر نے عاصم کا ہتھ کھینچتے ہوئے کہا اور عاصم مسکراتا ہوا یاسر کے ساتھ اندر کمرے کی طرف چل پڑا ۔ اتفاق سے خالہ جان بہن کے گھر گئی ہوئی تھیں ۔
’’ چلو اچھا ہے۔ ان کی غیرموجودگی میں یاسرسے کھل کر بات چیت ہوجائے گی ۔‘‘ عاصم دل میں سوچنے لگا ۔
کافی دیر یاسر ،عاصم سے بچپن کے دوستوں کی باتیں کرتا رہا،لیکن عاصم تو یاسر سے کچھ اور بات کرنا چاہتا تھا ۔ عاصم کا دل تو چاہ رہا تھا کہ یاسر سے سیدھا سیدھا کہہ دے کہ میں بھی تمہارے کالے دھندے میں شامل ہونا چاہتا ہوں ۔ لیکن پھر کچھ سوچ کربولا : ’’ یاسر تمہارے تو بڑے ٹھاٹھ باٹھ ہیں یار ۔ کہیں الہ دین کا چراغ تو نہیں ہاتھ لگ گیا ؟‘‘
’’ ارے نہیں یار ۔ بس یہ سب میرے رب کا کرم ہے ۔‘‘ یاسر نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے تشکرانہ لہجے میں کہا ۔
’’ یار پھر بھی کچھ تو پتہ چلے ۔ کلرک کی تنخواہ تو مجھے بھی ملتی ہے ۔ اس میں تو ان آئسائشات کا خواب ہی دیکھا جاسکتا ہے ، کچھ ہمیں بھی توپتہ چلے تاکہ ہم بھی اس سے فیض اٹھا سکیں ۔‘‘ عاصم نے کریدتے ہوئے کہا ۔
’’ کلرک؟؟؟۔ اوہ نہیں یار ۔ ہاں میں نے تو تمھیں بتایا ہی نہیں ۔۔۔ظاہر ہے تم سے ملا بھی تو سات سالوں کے بعد ہوں ۔ سنو پھر میں تمھیں تفصیل سناتا ہوں۔۔۔
ایف اے کے بعد میں نے جاب کے ساتھ ساتھ شام کے وقت بچوں کوٹیوشن پڑھانا بھی شروع کردیا تھا ۔ اس سے دوسال میں میرے پاس اتنے پیسے جمع ہوگئے کہ دو سال بعدمیں نے بی ۔ کام کرلیا اور مختلف جگہوں پر بھی نوکری کی درخواست دے دیاور اس سے مجھے بہتر نوکری مل گئی اور پھر اس طرح میں نے ایم۔اے کرلیا اور اسی دفتر میں میری ترقی ہوگئی۔ اب میں ایک انیسویں گریڈ کا افسر ہوں یہ گاڑی کوٹھی ،فون اور دیگر سہولیات سب دفتر کی طرف سے ہیں ۔‘‘
’’ تم سنائو ۔ کیا تم وہیں اس کلرک کی نوکری پر بیٹھے ہو ؟‘‘ یاسر نے حیرانی سے پوچھا ۔
’’ہاں یار ۔‘‘ عاصم نے مرجھائے ہوئے چہرے سے جواب دیا ۔
’’ تمھیں اگر کالج کے اردو کے پروفیسر ناصر یاد ہوں تو تمھیں یاد ہوگا کہ ایک دفعہ انہوں نے محنت کی عظمت پر زور دیتے ہوئے اقبال کا ایک شعر سمجھایا تھا۔ بس میری زندگی تو اس ایک شعر نے دل کررکھ دی ہے ۔‘‘
’’کون سا شعر ؟ ‘‘
’’ ارے وہی ؎
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
عاصم ، یاسر کو الوداع کرکے گھر جارہا تھا وہ جس کاروبار کے لئے یاسر کے پاس آیا تھا وہ کاروبار تو نہ کرسکا لیکن اس کا مقصد ضرور پورا ہوچکا تھا۔ وہ خوشحالی کا رازجان چکا تھا ۔ وہ اپنے دل میں ایک عزم کرچکا تھا ۔ اب کی زبان پر بھی اقبالؒ کا یہ شعر رواں تھا ۔
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
٭…٭…٭