فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد دانش دوبارہ سٹڈی ٹیبل پر آبیٹھا۔ ٹیبل پر بے شمار کتابیں اور اخبارات بکھرے پڑے تھے ۔ کتب اور اخبارات کے مختلف صفحات پر لگے ٹیگ پیپر اس بات کی نشاندہی کررہے تھے کہ دانش نے ان کتب کا باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے ۔ دانش ایم فل کا طالب علم تھا اور اسے یونیورسٹی کی طرف سے ’’ کامیاب زندگی گزارنے کے سنہری اصول‘‘ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے کی اسائنمنٹ ملی تھی ۔ دانش گزشتہ ایک ماہ سے مذکورہ موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے کے لئے بے شمار کتب اور رسائل و جرائد سے رہنمائی میں محو تھا ۔ مضمون لکھنے کے لئے اس نے کافی مواد اکٹھا کرلیا تھا ۔ اب وہ مضمون کو تحریر کرنے کے لئے آئوٹ لائن ترتیب دے رہا تھا تاکہ تمام موضوعات کو موزوں ترتیب کے ساتھ ضبط تحریر میں لاسکے ۔ اس نے کاغذ کے اوپری حصے پر جلی حروف میں مضمون کا عنوان تحریر کیا اور اس کے بعد ترتیب وار نقاط تحریر کرنے لگا ۔ اس کے مطابق کامیاب زندگی گزارنے کے لئے جو امور انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ان میں (۱) اہداف کا تقرر (۲) بہترین فیصلہ کرنے کی صلاحیت (۳) مثبت اور تعمیری سوچ (۴) خود اعتمادی (۵) سابقہ تجربات سے مستفید ہوکر پچھلی غلطیوں سے سبق سیکھنا اور ماضی کی غلطیوں کو دوبارہ نہ دہرانا (۶) جیسی بھی صورتحال ہو محنت اور لگن کا دامن نہ چھوڑنا (۷) حصول علم کا دروازہ بند نہ کرنا (۸) متوازن زندگی گزارنا (۹) متحرک رہنا اور متحرک رکھنے والے ذرائع تلاش کرنا (۱۰) مشکلات سے نہ گھبرانا اور مصائب و آلام کا سامنا خندہ پیشانی سے کرنا شامل ہیں۔
’’ ٹرنگ ٹرنگ … ٹرنگ ٹرنگ …!‘‘ وہ ابھی نقاط تحریر کر ہی پایا تھا موبائل فون کی بیل نے اسے اپنی طرف متوجہ کیا ۔
’’ السلام علیکم !‘‘ اس نے سکرین پر نام دیکھتے ہی کال وصول کی ۔ دوسری طرف اس کا گہرا اور دیرینہ دوست سعد تھا ۔
’’ وعلیکم السلام ! ‘‘ سعد نے سلام کا جواب دیا اور بولا : ’’ یار ! ڈاکٹر فاروقی صاحب کی کانفرنس میں آنے کا ارادہ ہے یا نہیں ؟ ‘‘
’’ ارے کیوں نہیں یار !… وہ تو میرے پسندیدہ سکالر ہیں ۔ میں تو ضرور شرکت کروں گا ۔ تم آرہے ہو کیا ؟‘‘
’’ تم آئو اور میں نہ آئوں ؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے ۔‘‘ سعد نے جواب دیا ۔
’’ ٹھیک ہے … تو پھر کانفرنس میں ملاقات ہوتی ہے ۔‘‘ دانش نے کہا ۔
’’ بالکل ‘‘ سعد نے کہا ’’ اور تمھارا مضمون کہاں تک پہنچا ؟‘‘
’’ ہاں یار … اسی پہ کام کررہا ہوں ۔ کافی مواد مل چکا ہے مگر ابھی بھی کچھ کمی سی محسوس ہورہی ہے ۔‘‘ دانش نے کہا ۔
’’ ہاہاہا … تم ہر بار ایسا ہی کہتے ہو اور پھر بھی تمھارا مضمون پوری کلاس میں پہلے نمبر پر آجاتا ہے ۔‘‘ سعد نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا ۔
’’ چلو چھوڑو اس بات کو … باقی باتیں کانفرنس میں کریں گے ۔‘‘ دانش نے موضوع سمیٹتے ہوئے اجازت چاہی ۔
فون کال سننے کے بعد دانش کی توجہ ایک بار پھر مضمون کی طرف مرکوز ہوگئی ۔ وہ کافی دیر مضمون کے نقاط کا جائزہ لیتا رہا ۔ بظاہر اس نے ان تمام ضروری عناصر کا ذکر کردیا تھا جو کامیاب زندگی گزارنے کے لئے ضروری خیال کئے جاتے ہیں لیکن پھر بھی اسے مضمون میں کوئی غیر معمولی قسم کی کمی کا احساس ہورہا تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ اس کا مضمون ہر طرح سے مکمل اور جامع ہو ۔ اسی جنون کی خاطر اس نے ایک بار پھر کتابوں اور رسالوں کا کھنگھالنا شروع کردیا ۔
٭٭٭٭٭
دانش نے موٹر سائیکل آڈیٹوریم کی پارکنگ میں کھڑی کی اور تیز قدموں کے ساتھ آڈیٹوریم کی طرف بڑھنے لگا ۔ بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے وہ پہلے ہی آدھا گھنٹا لیٹ ہوچکا تھا ۔ آڈیٹوریم کے دروازے پر سعد پہلے سے ہی اس کا منتظر کھڑا تھا ۔ رسمی علیک سلیک کے بعد دونوں دوست ہال میں داخل ہوگئے ۔ ممتاز مذہبی سکالر ڈاکٹر عرفان فاروقی اپنا لیکچر شروع کرچکے تھے ۔ دانش من ہی من میں تاخیر سے پہنچنے اور لیکچر کی کئی اہم باتیں نہ سن سکنے پر بہت رنجیدہ تھا ۔ نشست پر بیٹھتے ہی اس نے اپنی تمام تر توجہ ڈاکٹر صاحب کے لیکچر پر مرکوز کردی ۔
’’ حاضرین کرام ! اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے بہت محبت ہے اور ہم بلا مبالغہ ہزاروں مرتبہ یہ بات سن اور پڑھ چکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے ستر مائوں سے زیادہ محبت کرتا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے کبھی اللہ تعالیٰ کی محبت کو سمجھنے کی کوشش کی ؟ کبھی غور کیا کہ ہمارے رب کو ہم سے کتنی محبت ، کس قدر پیار ہے …؟ ‘‘ ڈاکٹر صاحب کی سحر انگیز علمی گفتگو جاری تھی اور پورا ہال ہمہ تن گوش ہوکر ان کی باتیں سن رہا تھا ۔
’’ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بعد میں دنیا میں بھیجا ، پہلے دنیا کو ہمارے لئے تیار کیا ۔ ہمارے استقبال کے لئے سجایا۔ زمین غلے اگل رہی ہے …ہوائیں ٹھنڈی ہوکے چل رہی ہیں … سورج اپنی کرنوں کو بکھیر رہا ہے … چاند اپنی چاندنی لٹا رہا ہے … ستارے آسمان میں جھلملا رہے ہیں … چشمے ابل رہے ہیں … آبشار پہاڑوں سے گر رہے ہیں … دریا بہہ رہے ہیں … سمندر ٹھاٹھیں ماررہے ہیں … پہاڑ ، معدنیات سونا ، چاندگی ، زمرد، یاقوت ، مرجان اور دیگر قیمتی پتھر اگل رہے ہیں … درخت بیل بوٹے ، گھاس سبزہ ، پھول پودے زمین کے سینے پر بچھے ہوئے ہیں … پوری کائنات گردش کررہی ہے… یہ سب چیزیں پکار پکار کے بتارہی ہیں کہ اللہ کو ہم سے کس قدر محبت ہے ۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد ڈاکٹر صاحب چند لمحے خاموش رہے اور کچھ دیر توقف کے بعد دوبارہ گویاں ہوئے : ’’ اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ۔ ہمیں والدین کی نعمت عطا فرمائی اور ہماری پرورش کا انتظام فرمایا ۔ دولت ، جوانی ، قوت ، طاقت ، گویا اس مختصر سے جسم کے اندر کتنے بڑے بڑے کارخانے چلادئیے ۔ دیکھنے ، سننے ، بولنے ، سونگھنے ، محسوس کرنے ، بولنے ، پکڑنے ، کھانے پینے ، سانس لینے ، سوچنے سمجھنے کے نظام سمیت اتنی ساری نعمتیں بن مانگے ہی عطا فردیں ۔ پھر ہماری ہدایت و رہنمائی کے لئے اپنے مقرب بندوں یعنی انبیاء کرام علیہ السلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا۔ کس لئے ؟ آخر یہ سب کس لئے ہوا ؟ اس لئے کہ ہم اپنے رب کو پہچان سکیں ۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی محبت کی کھلی نشانیاں ہی تو ہیں ۔ ہیں کہ نہیں ؟‘‘ حاضرین نے اثبات میں سرہلایا ۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی بات جاری رکھی ۔
’’ کیا کمال کی محبت ہے ہمارے رب کو ہم سے … کس کس طرح ہمارا خیال رکھتا ہے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ … ہمارا خالق و مالک … ہم سے کیا چاہتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا … تقویٰ اختیار کرو … اطاعت و فرمانبرداری کرو … لیکن حاضرین کرام ! کچھ اور بھی ہے جو اس کے بھی سوا ہے … اس سے بھی بڑھ کر ہے … جس کو یہ نعمت مل گئی اس کو ایمان کی حلاوت نصیب ہوگئی ۔ وہ کیا ہے ؟ ایک جگہ پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں … والذین امنو اشد حباً لِلہ … جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ایمان والے اللہ سے بہت شدید محبت کرتے ہیں ۔ جی حاضرین کرام ! جیسے اللہ تعالیٰ ہم سے محبت کرتے ہیں اسی طرح ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے خالق سے محبت کریں … شدید محبت کریں۔ عشق مجازی میں مبتلا ہونے کے بجائے عشق حقیقی میں ڈوب جائیں۔ تب جاکر ہمیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل ہوں گی … یاد رکھیئے ! جس کو اللہ رب العزت سے محبت ہوگی اللہ رب العزت کو اپنے اس بندے سے محبت ہوگی اور جس سے اللہ رب العزت کو محبت ہوگی اس کی دنیا بھی سنور جائیگی اور آخرت بھی … نبی رحمت حضرت محمد مصطفی ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت فرماتا ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیتا ہے کہ زمین وآسمان والوں میں اعلان کردے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت فرماتا ہے لہذا تم بھی اس سے محبت کرو۔ پھر اس کی محبت زمین میں اتاری جاتی ہے۔ وہ پانی میں پڑتی ہے تو اسے نیک و بد سبھی پیتے ہیں تو وہ بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں … تو حاضرین کرام ! آج کی گفتگو کا لب لباب یہ ہے کہ دین و دنیا میں سرخروئی صرف اسی صورت ممکن ہے جب ہمارا شمار ان افراد میں ہوگا جن سے اللہ تعالیٰ محبت کرتے ہیں اور اللہ رب العزت کی محبت پانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے خالق سے بے حد محبت کریں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب کا لیکچر ختم ہوچکا تھا لیکن ان کی باتوں نے دانش کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا ۔ ان کی باتوں کا ایک ایک لفظ دانش کے دل و دماغ میں گھر کرچکا تھا ۔ اس کے تخیل کو وسعت مل چکی تھی اور اس کے سوچنے اور سمجھنے کا انداز بھی بدل چکا تھا ۔ کامیاب زندگی گزارنے کے لئے جو عناصر اس نے اخذ کئے تھے وہ اس حقیقی سچائی کے سامنے ماند پڑرہے تھے ۔ وہ بجا طور پر یہ سمجھ چکا تھا کہ زندگی میں کامیابی قربِ الٰہی کے بغیر ناممکن ہے اور اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لئے ضروری ہے کہ بندہ اپنے اس واحد خالق و مالک سے بے حد محبت کرے۔ اس حقیقت کے ادراک کے ساتھ ساتھ دانش کو اپنے مضمون میں محسوس ہونے والی نمایاں کمی بھی دور ہوتی دکھ رہی تھی ۔
٭٭٭٭٭