https://bachonkiweb.com بچوں کی ویب

نکمہ عقاب – عاطف فاروق

برسات کی آمد آمد تھی ۔ جنگل کا ہر جاندار یہ چاہتا تھا کہ وہ برسات آنے سے قبل اپنے کھانے پینے کیلئے کچھ نہ کچھ جمع کرلے تاکہ بارش کے موسم میں باہر نہ جانا پڑے۔ جنگل کا ہر چرند پرند اپنی طاقت اور ضرورت کے مطابق کھانے پینے کی اشیاء جمع کررہا تھا ماسوائے ایک عقاب کے ، جس کا یہ کہنا تھا کہ میں طاقت ور ہوں ، مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ دوسرے کمزور پرندوں کی طرح کھانے پینے کی چیزیں جمع کرتا پھروں، اگر خدا ہر جاندار کو رزق دیتا ہے تو وہ مجھے میرے گھونسلے میں برسات کے موسم میں بھی رزق دے گا ۔
چیونٹی جب دوپہر کے وقت درخت کے نیچے سے گزری تو اس نے دیکھا کہ عقاب گھوڑے بیچ کر سورہا ہے ۔ اس نے عقاب کو آواز دی ۔
’’ عقاب بھیا! تمھیں برسات کی کوئی فکر نہیں … اُٹھو برسات کیلئے کچھ جمع کرلو۔‘‘
چیونٹی کی بات سُن کر عقاب نے ایک جمائی لی اور بولا :
’’ ایسا کام صرف تم جیسی کمزور اور حقیر مخلوق کو زیب دیتا ہے ، مجھ جیسے طاقت ور اور توانا پرندے کو نہیں ۔ کیا تمہیں خدا پر بھروسہ نہیں، وہ خدا جو تمہیں بہار اور خزاں میں رزق دیتا ہے کیا وہ برسات کے موسم میں نہیں دے گا ۔‘‘
چیونٹی عقاب کی بات سُن کر بولی :
’’عقاب بھیا ! تم بالکل ٹھیک کہتے ہو ، ہر جاندار کو رزق صرف خدا ہی دیتا ہے مگر صرف اُن کو جو رزق حاصل کرنے کے لئے حیلہ وسیلہ کرتے ہیں ، تم جیسے نکمے اور بے کار کو نہیں جو یہ سوچ کر اپنے گھونسلے میں پڑا ہے کہ برسات میں خدا میرے گھونسلے پر کھانے پینے کی چیزیں نازل کرے گا ۔ ہر جاندار کا خدا کی طرف سے رزق مقرر ہے مگر یہ اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب وہ محنت مزدوری کرتا ہے۔‘‘
عقاب ، چیونٹی کی لمبی تقریر سننے کے بعد غصے میں آگیا اور بولا: ’’ تم نے مجھے نکما اور بے کار کہا ہے ، میں اگر چاہوں تو تمہارا کچومر نکال دوں، مگر میں ایسا نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میں ظالم نہیں بننا چاہتا ۔ تمہاری خیر اسی میں ہے کہ تم یہاں سے بھاگ جائو۔‘‘
عقاب کا غصہ دیکھ کر چیونٹی نے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔ تھوڑے ہی دنوں بعد موسمِ برسات شروع ہوا تو ہر روز چار گھنٹے کی بارش ہونے لگی ۔ ایک روز ایسی بارش ہوئی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لیا ۔ جنگل میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آنے لگا ۔ کیڑے مکوڑے اپنی بلوں کو چھوڑ کر درختوں پر بسیرا کرنے پر مجبور ہوگئے ۔ باہر نکلنے والا کوئی حال نہ تھا ۔ تمام جاندار اپنے اپنے محفوظ ٹھکانوں میں پڑے پہلے سے جمع شدہ خوراک سے گزارا کرنے لگے ۔ ادھر عقاب نے برسات کے لئے کوئی خوراک جمع نہ کی تھی اور وہ اس انتظار میں تھا کہ خدا کی طرف سے خوراک آئے گی ، مگر خوراک نہ آئی اور نہ ہی اس نے آنا تھا ۔ عقاب کا بھوک کے مارے بُرا حال ہوگیا مگر اس نے گوارا نہیں کیا کہ کسی کے دروازے پر جاکر کھانے پینے کی کوئی چیز طلب کرے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی بھوک بڑھتی گئی یہاں تک کہ پیٹ کی خاطر اسے اپنی ضد ترک کرنا پڑی اور بی لومڑی کی بل میں جاپہنچا اور کھانے کیلئے درخواست کی ۔ بی لومڑی جو پہلے ہی بہت سیانی تھی ، اس نے فوراً ہی انکار کردیا اور بولی کہ اس کے اپنے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں ہے ۔ لومڑی کے بعد عقاب جنگل کے ہر جانور اور پرندے کے پاس گیا مگر سب نے اس کو کورا جواب دے دیا اور کہا کہ موسمِ گرما میں تم نے خوب عیش کی ، سارا سارا دن گھوڑے بیچ کر سوتے رہے اور کبھی برسات کی فکر نہیں کی، اب جائو جاکر اپنے گھونسلے میں آرام کرو۔
عقاب مایوس ہوکر اپنے گھونسلے میں واپس آگیا ۔ خوراک نہ ملنے کی وجہ سے کچھ ہی دنوں میں اس کا خاتمہ ہوگیا ۔ موسمِ برسات ختم ہونے کے بعد جب جنگل کے تمام جاندار اپنے اپنے ٹھکانوں سے باہر نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ عقاب کی نعش درخت سے لٹک رہی ہے ۔

اپنا تبصرہ لکھیں