قدم قلم اور قسم - عاطف فاروق

قدم،قلم اور قسم – عاطف فاروق

عامر کے قدم تیزی سے گھر کی جانب رواں دواں تھے۔ وہ بہت غصے میں تھا، غصے میں ہوتا بھی کیوں نا، آج پہلی بار اسے اس قدر بے عزتی کا سامنا جو کرنا پڑا تھا۔ وہ ایک ذہین اور قابل طالب علم تھا۔ کلاس میں جب کبھی کسی موضوع پر بحث چھڑتی‘ اس کے دلائل ہمیشہ باوزن ثابت ہوتے اور طلبہ سمیت اساتذہ بھی اس کی تعریف کرتے تھے۔
آج بریک ٹائم کے دوران باتوں باتوں میں شیخ امیر کا ذکر ہوا تو اس پر بحث ہی چھڑگئی۔ شیخ امیر شہر کے نامی گرامی صنعتکار اور بزنس مین تھے۔ کاروباری و سماجی حلقوں سمیت سیاسی حلقوں میں بھی ان کے نام کا سکہ چلتا تھا۔ دولت کی ریل پیل ہونے کے باوجود ان میں رائی کے برابر بھی غرور اور تکبر نہیں تھا۔ شیخ صاحب انتہائی نیک سیرت، بااخلاق اور سخی انسان تھے۔ بچے بڑے سب ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے لیکن عامر کو نجانے کیوں ان سے نفرت تھی۔ جہاں کہیں ان کا نام لیا جاتا عامر فوراً جذباتی ہوجاتا اور اسکا غصہ آسمان سے باتیں کرنے لگتا۔
آج بھی جیسے ہی ان کا ذکر ہوا عامر طیش میں آگیا اور بغیر سوچے سمجھے شیخ امیر کے بارے میں اناپ شناپ بولنے لگا۔ گو کہ وہ کلاس کا مانیٹر تھا لیکن دوسرے طلبہ کو شیخ امیر کے بارے میں اس کے نازیبا الفاظ اچھے نہ لگے اور انہوں نے اسے کھری کھری سنادیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے بحث تو تو، میں میں میں تبدیل ہوگئی اور شیخ امیر کے حمایتی طلبہ نے عامر کی خوب بے عزتی کرڈالی۔ وہ تو اچھا ہوا کہ بریک کا ٹائم ختم ہوگیا اور پیریڈ کی گھنٹی بجتے ہی انھیں اپنی بحث و تکرار ختم کرنا پڑی ورنہ نوبت تو ہاتھا پائی تک پہنچ ہی چکی تھی۔
اسی بارے میں سوچتے سوچتے عامر کو پتا بھی نہ چلا کہ وہ اپنے گھر سے تین گلیاں آگے آچکا ہے۔
”دھت تیرے کی!!!“ اس نے دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوسا اور واپس مڑگیا۔
گھر پہنچ کر عامر نے بیگ ایک طرف رکھا اور کپڑے تبدیل کرکے اپنے کمرے میں بستر پر دراز ہوگیا۔ بریک ٹائم کے دوران ہونے والے واقعے نے اس کے ذہن پر گہرے اثرات مرتب کردئیے تھے اور ابھی تک اسی بارے میں سوچ رہا تھا۔ اس کا ذہن اس کو انتقام کیلئے اُکسا رہا تھا۔
”ٹن ٹن….. ٹن ٹن…..!!!“ ڈور بیل کی آواز نے اُسے خیالوں کے بھنور سے باہر نکالا۔
”اب کون آگیا ہے؟“ اس نے ہم کلامی کی اور بستر سے اٹھ کر گھر کے مرکزی دروازے کی طرف چل پڑا۔
دروازہ کھولا تو سامنے پوسٹ مین کھڑا مسکرا رہا تھا۔
”جی فرمائیے!“
”کیا آپ ہی عامر بشیر ہیں؟“ پوسٹ مین نے استفسار کیا۔
”جی بالکل!“
”آپ کے نام یہ رجسٹرڈ خط آیا ہے‘ یہ وصول کیجئے اور اس پیپر پر دستخط کردیجئے۔“ پوسٹ مین نے ایک پیپر اور خط اس کو پکڑاتے ہوئے کہا۔
اس نے بلا جھجھک پیپر پر دستخط کئے اور خط وصول کرکے اپنے کمرے میں آگیا۔ خط کے اوپر اس کا نام ہی کمپیوٹر سے ٹائپ تھا۔ اپنے نام پر خط دیکھ کر وہ حیران ہوگیا۔ خط کی پچھلی جانب ایک مشہور روزنامہ اخبار کی مہر لگی ہوئی تھی۔ اخبار کا نام پڑھتے ہی عامر کو سب یاد آگیا۔ دراصل کچھ عرصہ قبل عامر نے ایک مضمون لکھ کر اسی روزنامہ اخبار کو ارسال کیا تھا۔ یہ خط اسی اخبار کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔ عامر نے جلدی جلدی خط کھول کر پڑھنا شروع کردیا۔ خط پڑھنے کے بعد اس کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا۔ خط میں لکھا تھا کہ آپ کا مضمون جلد شائع کردیا جائے گا۔ اخبار کے ایڈیٹر نے یہ بھی لکھا تھا کہ آپ ہمیں اور مضامین بھی لکھ کر ارسال کریں۔
٭……٭+٪=÷×٭……٭
دو دن بعد عامر کا پہلا مضمون اخبار میں اس کی تصویر کے ساتھ شائع ہوا۔ پہلا مضمون شائع ہوتے ہی پورے محلے میں عامر مشہور ہوگیا۔ جس کسی نے اس کا مضمون پڑھا اس کو مبارک باد دئیے بغیر نہ رہا۔ محلے کے کئی لوگوں اور دوستوں نے تو اسے ”صحافی“ اور ”رائٹر“ تک کہنا شروع کردیا۔ پہلے ہی مضمون کی اشاعت پر اس قدر حوصلہ افزائی دیکھ کر عامر پھولے نہ سمایا اور اس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ مزید مضامین لکھے گا۔
اتوار کے روز عامر کو سکول سے چھٹی تھی اس لئے اس نے کاغذ قلم سنبھالا اور مضمون لکھنے کے لئے سٹڈی ٹیبل پر بیٹھ گیا۔ وہ کافی دیر سوچتا رہا لیکن اس کے ذہن میں کوئی خیال نہ آیا جس پر وہ طبع آزمائی کرسکے۔ آدھا گھنٹے یونہی سوچتے سوچتے گزر گیا لیکن وہ کوئی فیصلہ نہ کرپایا کہ کس موضوع پر مضمون لکھے۔ مسلسل سوچتے سوچتے اس کا سر درد کرنے لگا اور غصہ بھی آنے لگا۔ اسی دوران اس کے ذہن میں شیخ امیر کا نام آیا اور اس نے سوچے سمجھے بغیر اپنے دل کی نفرت اور بھڑاس صفحہ قرطاس پر بکھیر دی۔ مضمون میں اس نے شیخ امیر کے خلاف جھوٹی، من گھڑت اور بے بنیاد باتیں لکھ دیں اور مضمون اشاعت کے لئے اخبار کے پتے پر ارسال کردیا۔
ایک ہفتے بعد عامر کا دوسرا مضمون بھی شائع ہوگیا۔ لیکن اس بار اس کا ردعمل اس کی توقع کے خلاف ملا اور لوگوں نے بجائے داد دینے کے اسے بُرا بھلا کہنا شروع کردیا۔ شیخ امیر کے چاہنے والوں کو عامرکی جھوٹی، بے بنیاد اور من گھڑت باتیں پسند نہ آئیں اور انہوں نے عامر کو ”بلیک میلر“ کہنا شروع کردیا۔ اسے پہلی بار اندازہ ہوا کہ قلم کی کاٹ تلوار سے بھی تیز ہوتی ہے۔ اس کے ایک غلط اقدام کی وجہ سے خود اس پر اور اس کے خاندان کے افراد پر انگلیاں اٹھائی گئیں اور اس کی وہ بے عزتی کی گئی جس کا کبھی اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔ جذبات میں آکر وہ جو کربیٹھا تھا اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کا ردعمل اس قدر بھیانک ہوگا۔ کچھ صحافیوں نے تو اس کو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اب عدالت کا سامنا کرنے کے لئے بھی تیار رہو۔
مضمون کی اشاعت کے دو روز بعد شیخ امیر ازخود اس کے گھر پہنچ گئے۔ لمبی لمبی چمچماتی ہوئی گاڑیاں اورشیخ صاحب کے آگے پیچھے سیکیورٹی گارڈز دیکھ کر عامر کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ اس کے چہرے کا رنگ فق ہوگیا اور اسے یقین ہوگیا کہ اب حوالات ہی اس کا مقدر ہے۔ اس کے ابو جان نے شیخ امیر کا استقبال کیا اور انھیں ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ انہوں نے عامر کو بُلانے کا کہا تو اس کے ابو جان اسے ڈرائنگ روم میں لے گئے۔ اس کی ٹانگیں تھر تھر کانپ رہی تھیں اور مارے خوف کے بُرا حال ہورہا تھا۔
”بیٹا! آپ مجھ سے ڈرونہیں… میں آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچاؤں گا۔“ شیخ صاحب اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے تو اس کی سانس میں سانس آئی۔
”مجھے معلوم ہوا کہ آپ اخباروں میں لکھتے ہو… اور آپ نے میرے خلاف بھی کچھ لکھا ہے۔ لیکن ڈرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں… آپ کا مضمون میں نے پڑھا ہے اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں کہ کہیں یہ عیب واقعی مجھ میں نہ ہوں جو آپ نے لکھے ہیں… بلاشبہ کسی کو اس کے عیب اصلاح کے مقصد کے تحت بتانا کوئی بُری بات نہیں ہے… لیکن بیٹا! میری ایک بات پلے سے باندھ لواور تین چیزیں ہمیشہ سوچ سمجھ کر اٹھاؤ قدم، قلم اور قسم۔ اور مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ ہمارے علاقے میں ایک اچھا لکھاری موجود ہے، اگر تم اپنی اس صلاحیت کو علاقائی مسائل اجاگر کرنے اور ملکی تعمیروترقی کے لئے استعمال کروتو یقینا اس سے اللہ تعالیٰ بھی خوش ہوگا اور یہ ملک کی ایک خدمت بھی ہوگی۔“
شیخ صاحب کا انتہائی مشفقانہ رویہ دیکھ کر عامر کا سر ندامت سے جُھک گیا اور اسے اپنے کئے پر افسوس ہونے لگا۔
”انکل! میں اپنے کئے پر بہت شرمندہ ہوں اور آپ سے معافی چاہتا ہوں۔ آپ نے جو باتیں بتائی ہیں میں ان پر عمل کروں گا اور آئندہ اپنی اس صلاحیت کا استعمال مثبت طریقے سے کروں گا۔“ عامر نے سرجھکاکر کہا تو شیخ صاحب نے اس کا ماتھا چوم لیا اور ایک ہزار روپے کا نوٹ بطورِ تحفہ زبردستی اس کی جیب میں ٹھونس دیا اوروہاں سے رخصت ہوگئے۔
شیخ امیر کا کردار دیکھ کر جہاں عامر حیران رہ گیا وہیں اس کے دل میں موجود ان کے لئے نفرت محبت میں تبدیل ہوگئی۔ شیخ صاحب نے واقعی اس کا دل جیت لیا تھا۔

٭٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ لکھیں