تحریر: عاطف فاروق
بغداد کا قاضی اپنی ذہانت کی وجہ سے بہت مشہور تھا ۔ اس نے کبھی غلط فیصلہ نہیں کیا تھا ۔ وہ ہمیشہ مظلوم اور بے قصور افراد کی دلجوئی کرتا اور جرائم پیشہ افراد اور ظالموں کی کڑئی سزائیں دیتا۔ اس کی ذہانت اور انصاف پسندی کے قصے دوسرے ممالک میں بھی مشہور تھے ۔
ایک دِن سپاہی گشت پر تھے ۔ اچانک دریا کے کنارے کچھ دیکھ کر رُک گئے ۔ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں دو آدمی موجود تھے اور ایک لاش کنارے پر پڑی تھی ۔ سپاہیوں نے دونوں کو گرفتار کرلیا اور بادشاہ کے حضور پیش کیا ۔ بادشاہ نے دونوں سے پوچھا کہ قتل کس نے کیا ہے ۔ دونوں نے اس کا الزام ایک دوسرے پر لگادیا ۔ جب فیصلہ نہ ہوسکا تو بادشاہ نے دونوں ملزموں کو قاضی کی عدالت میں پیش کیا۔ سپاہیوں نے قاضی کو سارا واقعہ اور بتایا کہ ان دونوں میں سے قتل کرنے والا کوئی ایک ہے جس کا کوئی گواہ نہیں۔
قاضی نے کاروائی شروع کی ، پہلے دونوں سے ان کے نام اور پیشے پوچھے ۔ ایک نے کہا : ’’ میرا نام حارث بن موسیٰ ہے اور میرا پیشہ تجارت ہے۔‘‘
دوسرے نے کہا : ’’ میرا نام زید بن علی ہے اور میں ایک چرواہا ہوں ۔‘‘
قاضی نے دونوں سے بیان دینے کیلئے کہا ۔ تاجر نے کہا: ’’ میں عصر کی نماز پڑھنے جارہا تھا ، میں نے کسی کے چلانے کی آواز سنی، میں دریا کی طرف دوڑا تو یہ شخص مقتول کو قتل کرچکا تھا ۔ میں نے اس سے وجہ پوچھی تو یہ مجھ سے لڑپڑا ‘‘۔
تاجر کا بیان سُن کر چرواہا چیخ پڑا اور بولا : ’’ یہ جھوٹا ہے جناب عالی! قاتل یہی ہے ۔ میں ہر روز اپنے مویشیوں کو دریا کے کنارے لے جایا کرتا تھا ۔ کئی دنوں سے میں نے اس شخص کو دریا کے کنارے پر موجود پایا ۔ آج جب میں دریا پر پہنچا ، تو یہ شخص مقتول کے ساتھ تھا ، یہ دونوں کچھ دیر باتیں کرتے رہے۔ میں دریا کے کنارے بیٹھا ادھر ادھر نظارے کرتا رہا ۔ اچانک اس شخص نے جو دریا پر روزانہ آیا کرتا تھا، دوسرے کو چاقو مارکر ہلاک کردیا ۔ میں یہ منظر دیکھ کر بھاگا، اس کے پاس آیا ، اس نے مجھے پکڑ لیا اور کہا کہ یہ قتل تم نے کیا ہے ، اب میں تمہیں بادشاہ کے پاس لے جائوں گا۔ اتنے میں سپاہی بھی وہیں آگئے اور ہمیں یہاں لے آئے ‘‘۔
قاضی نے تمام واقعہ سُن کر کہا : ’’ دونوں ہی قتل سے انکار کرتے ہیں ، یہ فیصلہ گواہ کے بغیر ناممکن ہے۔ اب لاش کی گواہی لازمی ہے ، لاش یہاں لائی جائے۔‘‘
کچھ دیر بعد لاش عدالت میں لائی گئی ۔ قاضی اپنی جگہ سے اٹھا اور لاش کا جائزہ لینے لگا ۔ پہلے تو قاضی نے لاش کے کپڑے ، جوتے وغیرہ دیکھے ۔ پھر پیٹ میں گھونپا ہوا چاقو دیکھا ۔ اس کی جیبیں ٹٹولیں۔ چند لمحوں بعد سپاہیوں کو حکم دیا کہ تاجر کو پکڑ لو ، اسے سزائے موت کا حکم سنایا جاتا ہے ۔ عدالت میں موجود سب لوگ حیران رہ گئے کہ قاضی نے اچانک یہ فیصلہ کیسے سُنادیا۔
تاجر روکر کہنے لگا یہ انصاف نہیں ۔ دوسروں لوگوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ قصور ثابت ہوئے بغیر فیصلہ کیسے سنادیا گیا ۔ قاضی نے ایک نظر سب پر دوڑائی اور بولا :
’’ یہ نعش ایک تاجر کی ہے کیونکہ اس نے اعلیٰ درجے کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور جوتے بھی مہنگے ہیں ، ممکن ہے اس ملک کے بھی نہ ہوں۔ جو چاقو اس نعش کو مارا گیا ہے ، اس پر ملک شام کی مہر لگی ہوئی ہے۔ کوئی چرواہا تاجر کا دوست نہیں ہوسکتا۔ نہ ہی اس کے پاس شام کا قیمتی چاقو ہوسکتا ہے ۔ اس شخص نے خود کہا کہ وہ تاجر ہے اور تاجر کا دوست تاجر ہی ہوتا ہے‘‘۔
اس طرح قاضی کی عقلمندی سے ایک معصوم بے گناہ چرواہا موت کے منہ سے بچ گیا اور عدالت میں موجود تمام افراد قاضی کی کمال ذہانت پر اس کو داد دینے لگے ۔
٭٭٭٭٭