https://bachonkiweb.com - bachon ki web - بچوں کی ویب

تاریخ اُسی دوراہے پر !

سقوطِ ڈھاکہ کے حوالے سے بچوں کے لئے ایک دلچسپ اور معلوماتی کہانی

تحریر: عاطف فاروق

صبح سویرے کا وقت تھا اور دسمبر کی یخ بستہ ہوائیں سردی کی شدت مزید بڑھانے کا موجب بن رہی تھیں ۔ زبیر فاروقی اپنے سٹڈی روم میں بیٹھے اخبار کے مطالعہ میں مشغول تھے ۔ گرما گرم چائے کا مگ ان کے سامنے پڑا تھا جسے وہ ہر چند لمحوں بعد اٹھاتے اور چائے کا ایک گھونٹ پی کر دوبارہ رکھ دیتے ۔ زبیر فاروقی کا شمار ملک کے ممتاز کالم نگاروں میں ہوتا تھا۔ سیاسی ، سماجی و عوامی سطح پر ان کی آراء کو مستند سمجھا جاتا تھا ۔ کل 16 دسمبر کا دن تھا اس لئے وہ ’’سقوطِ ڈھاکہ‘‘ کے موضوع پر کالم لکھنا چاہتے تھے ۔ اخبار کا مطالعہ کرنے کے بعد انہوں نے اخبار ایک طرف رکھا اور کالم کے اہم نکات کے متعلق سوچ و بچار میں محو ہوگئے ۔
’’ ٹرن ٹرن …ٹرن ٹرن…!!!‘‘
موبائیل فون کی بیل نے انھیں اپنی طرف متوجہ کیا تو انہوں نے کال اٹینڈ کرتے ہوئے فون کانوں سے لگالیا۔ مختصر بات چیت کے بعد کال ختم ہوگئی ۔ یہ اخبار کے ایڈیٹر صاحب کا فون تھا ۔ ایڈیٹر صاحب نے انھیں بلوچستان میں بھارتی دخل اندازی کے متعلق کالم ارسال کرنے کا کہا تھا ۔ وہ سقوطِ ڈھاکہ کے موضوع پر کالم لکھنا چاہ رہے تھے مگر ایڈیٹر صاحب نے انھیں یکسر ہی الگ موضوع پر لکھنے کی خواہش کا اظہار کردیا تھا ۔
زبیر فاروقی سمجھتے تھے کہ اگر حقائق کی روشنی میں دیکھا جائے تو پاکستان کا دولخت ہونا محض ایک اندوہ ناک واقعہ ہی نہیں بلکہ بہت بڑی سازش کا شاخسانہ تھا۔ پاکستان کے دولخت ہونے کی کہانی اندوہ ناک ہی نہیں دلخراش بھی ہے۔ 16 دسمبر 1971 ء پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سیاہ باب کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا تاہم ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت اس واقعے اور تاریخ کو یا توفراموش کرچکے ہیں یا بھولتے جارہے ہیں ۔ سقوطِ ڈھاکہ کے متعلق سوچتے سوچتے وہ اس قومی سانحہ کے پسِ منظر میں جاپہنچے اور اس کے ساتھ ہی ان کے ذہن میں سقوطِ ڈھاکہ کی تاریخ کے دھندلے باب واضح ہونا شروع ہوتے چلے گئے ۔ انھیں یاد آیا کہ قائد اعظم محمدعلی جناحؒ کا خواب تھا کہ سرزمین خدادادِ پاکستان میں تمام قومیتوں، رنگ ، نسل، مذاہب کے لوگ آپس میں مل جل کررہیں لیکن چند ناعاقبت پسند حکمرانوں نے اقتدار کی ہوس میں محبوب قائدؒ کا یہ خواب پورا نہ ہونے دیا۔ پھر انھیں یہ بھی یاد آیا کہ بھارت تو پہلے ہی پاکستان کے وجود سے خار کھائے بیٹھا تھا، اس نے بہت پہلے سے پاکستان کو توڑنے کی منصوبہ بندی کررکھی تھی اور اپنی فوج ’’مکتی باہنی‘‘ کے روپ میں مشرقی پاکستان میں تعینات کی ہوئی تھی ۔ مکتی باہنی اور بھارتی تنظیم ’’را‘‘ نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو مغربی پاکستان کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا تھا اور جو لوگ پاکستان سے محبت کو ختم کرنے پر راضی نہیں تھے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے۔تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں نے ایک ساتھ مل کر مسلمانوں کا قتلِ عام کیا، پاکستانی فوج کا ساتھ دینے والے رضاکاروں جن میں سے اکثریت کا تعلق جماعت اسلامی اور اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا ، انھیں چُن چُن کر قتل کیا گیا ، ان کی گرفتاریوں پر باقاعدہ انعامات رکھے گئے ۔ یہاں انھیں مشرقی پاکستان کے معروف معلم ، سیاسی و سماجی رہنما بزرگ رہنما مولوی فرید کا نام ذہن میں آگیا جنھیں بنگلہ دیش بننے کے بعد مکتی باہنی کے غنڈوں نے بے انتہا تشدد کا نشانہ بنایاگیا، یہی نہیں ان کے شاگردوں کے سر کاٹ کر ان کے ہار بناکر مولوی فرید کے گلے میں ڈالے گئے اور پھر ان کو بھی شہید کردیا گیا ۔ جبکہ کئی رضاکاروں کو شیخ مجیب الرحمٰن کے بیٹے شیخ کمال نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا ۔ دلخراش قومی سانحہ کے تمام واقعات فلم کی طرح ان کے ذہن میں چلتے گئے اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ 16 دسمبر کی تاریخ ہمیں کف افسوس ملنے کیلئے نہیں بلکہ اس چیز کی یاددہانی کراتی ہے کہ ہمیں ان عوامل کا کھوج لگانا ہے کہ جن کی وجہ سے پاکستان دولخت ہوا تاکہ ہم آئندہ ایسے کسی سانحہ سے بچ سکیں ۔
پھر یکدم ان کی سوچ کا محور بلوچستان کی طرف پلٹا اور وہ سوچنے لگے کہ موجودہ دورمیں بھی ہمارا انداز سیاست اور طرز حکومت ویسا ہی جیسا 1971 ء میں تھا۔ پھر بلوچستان میں یکے بعد دیگرے دہشت گردی کے واقعات کا رونما ہونا ، بھارتی وزیر اعظم کا اپنی تقریر میں بلوچستان کا ذکر کرکے پاکستان میں مداخلت کا اعتراف کرنا ان سوالات کو جنم دے رہا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردی کون پھیلا رہا ہے ؟ ان کاروائیوں میں کس کا ہاتھ ہے ؟ پاکستان کے دل کی دھڑکن بلوچستان میں دہشت گردوںکا دوبارہ سرگرم ہونا بھی یہ سوال پیدا کرتا ہے کہ اندر بیٹھے دشمن بلوچستان کو زخمی کررہے ہیں یا باہر بیٹھے دشمنوں نے دہشت گردی کی ڈوریں ہلائی ہیں ؟ نقاب کے پیچھے کس کا چہرہ چھپا ہوا ہے ؟ دہشت گردی کاروائیوں کے تانے بانے کہاں جاکر ملتے ہیں ؟ پھر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کا پکڑا جانا اور بلوچستان میں قائم بھارتی نیٹ ورک کی موجودگی کا اعتراف کرنا …!!! بھارتی سفارتخانے میں سفارت کاروں کے بھیس میں چھپے جاسوس نیٹ ورک کا بے نقاب ہونا ، بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر کا دہشت گردی کا جواب دہشت گردی سے دینے کا متنازعہ بیان… کیا یہ سب بیرونی دخل اندازی کو ثابت کرنے کیلئے ناکافی ہیں ؟
لیکن پھر ان کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ بیرونی دخل اندازی اس وقت تک موثر ثابت نہیں ہوسکتی جب تک اندرونی سہولت کار اپنا کردار ادا نہ کریں ۔ 1971 ء میں اگر اہلِ بنگال کی ہمدردیاں بھارتی فوج کے ساتھ نہ ہوتیں تو شاید یہ سانحہ کبھی پیش نہ آتا ۔ پھر یکایک بلوچستان میں سرگرم ایک تنظیم اور اسی تنظیم کے متنازعہ سربراہ کا نام ان کے ذہن میں آیا اور ساتھ ہی اس کا متنازعہ بیان کہ ہمارے بھارت کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ ہمارے بھارت سے کوئی تعلقات نہیں ہیں اور اب بہت دیگر ہوچکی ، اب ہم پاکستان کا حصہ نہیں رہ سکتے ۔
’’ اے میرے خدایا …!!! ہم کس طرف جارہے ہیں ؟؟؟‘‘ سوچتے ہوئے ان کے منہ سے بے اختیار نکلا ۔ سقوط ڈھاکہ اور بلوچستان میں بھارتی دخل اندازی کے بارے میں سوچتے سوچتے وہ ایک اہم نکتے پر جاپہنچے ۔ چند باتیں جوغور طلب تھیں وہ خود بخود سامنے آچکی تھیں ۔ بلوچستان میں بھارتی خفیہ نیٹ ورک کی موجودگی کا انکشاف ’’مکتی باہنی‘‘ بھی ثابت ہوسکتا ہے اور یہ نیٹ ورک اہل بلوچستان کے دلوںمیں پسماندگی کی وجہ سے نفرت اور اشتعال پیدا کررہا ہے جو کہ بالکل ویسے ہی ہے جیسے بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ نے بنگالیوں کے دلوںکو پاکستان کیخلاف نفرت سے بھردیاتھا اور یہی وہ نفرت تھی جو بڑھتے بڑھتے اس قدر بڑھ گئی کہ مشرقی پاکستان کے مسلمان مغربی پاکستان کے مسلمانوں کے خلاف ہی صف آراء ہوگئے ۔ بلوچستان لبریشن آرمی جیسی تنظیمیں اور براہمداغ بگٹی جیسے رہنما نہ جانے کب سے بلوچستان کے محبِ وطن لوگوں کو پاکستان کے خلاف اکُسا رہے ہوں گے ؟ لیکن ہمارے حکمرانوں کو دھرنوں ، پامانوں اور اقتداروں سے فرصت ملے تو وہ اس کے بارے میں غور کریں ۔
زبیر فاروقی کی آنکھوں میں نمی اتر چکی تھی تاہم 16 دسمبر کیلئے ایک جاندار کالم قرطاس پر بکھرنے کیلئے تیار تھا ۔
حماقتوں سے ہماری پردہ اٹھا رہا ہے سقوطِ ڈھاکہ
نگاہ دنیا سے ہم کو یکسرگرا رہا ہے سقوطِ ڈھاکہ
ہمارے اپنے ہی مل گئے تھے عدوئے اسلام و فتنہ گرسے
یہ کہہ کے ہم کو لہو کے آنسو رُلا رہا ہے سقوطِ ڈھاکہ
دکھا رہا ہے عدوتوآنکھیں دوبارہ ہم کو کہ ہم ہیں غافل
سوخوابِ غفلت سے ہم کو ہر دم جگارہا ہے سقوطِ ڈھاکہ
خیال رکھو مقابلے میں تمہارے یکجا ہے کفر سارا
یہ ہم کودے کرمثالیں باور کرارہا ہے سقوطِ ڈھاکہ
ہماری آنکھیں ہمارے قلب و جگر ہیں ڈوبے ہوئے عصمیؔ
کہ یاد ہم کو عجب طریقے سے آرہا ہے سقوطِ ڈھاکہ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اپنا تبصرہ لکھیں