وہ ایک عظیم حکمران کا عظیم بیٹا تھا جو محض 20 سال کی عمرمیں دنیا کو فتح کرنے نکل پڑا تھا۔ گوکہ یہ مشن اس کا اپنا نہیں تھا بلکہ باپ کی وفات کے بعد اُسے یہ ورثے میں ملاتھا تاہم وہ کسی بھی قیمت پر باپ کا یہ مشن پورا کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا ۔اسی مشن کی تکمیل کیلئے 35 ہزار فوجیوں پرمشتمل ایک بڑا لشکر لے کر وہ 334 قبل مسیح میں اپنی حکمران سلطنت مقدونیہ سے نکلا ۔ اس کے لشکر میں 30 ہزار سوار جبکہ 5 ہزار پیدل فوجی شامل تھے۔ لشکر کی سب سے امتیازی چیز مقدونوی ’’جتھا‘‘ تھا جو 256 فوجیوں کا مربع شکل کا دستہ تھا۔ ’’جتھے‘‘ کی ہر قطار میں 16سپاہی تھے جبکہ قطاروں کی تعداد بھی 16 ہی تھی ۔ فوجیوں کے ہاتھوں میں جو نیزے تھے وہ بھی 16 ، 16 فٹ لمبے تھے۔ یوں چلتے ہوئے جب پہلی پانچ قطاروں کے سپاہی اپنے نیزے آگے کی طرف بڑھاتے تو ان کی نوکیں پہلی قطار سے بھی آگے نکل جاتیں ۔
وہ ایک عظیم حکمران ہونے کے ساتھ ساتھ بہادر جنگجو بھی تھا ۔ اس کا لڑکپن شاہی محل کی عیش و عشرت والی زندگی کی بجائے جنگی امورکی تربیت میں گزرا تھا، یہی وجہ تھی کہ جنگوں کے دوران وہ سب سے آگے نظرآتا اور کمال کی پھرتی سے دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے تک نکل جاتا ۔ اس کے اسی جذبے کو دیکھ کر اس کے فوجیوں کی ہمت اور بھی بندھ جاتی اور وہ بھی اسی جذبے سے میدان عمل میں اترتے جیسے ان کا حکمران اترا کرتا۔
کم عمری میں ہی اس نے یونان کی شہری ریاستوں کے ساتھ ساتھ مصر اور فارس بھی فتح کرلئے ۔ وہ جس بھی میدان میں اترتا قسمت کی دیوی اس پر مہربان ٹھہرتی اور فتح اس کے قدموںمیں آگرتی۔ یہاں تک کہ اس کی حکمرانی یونان سے لے کر ہندوستان کی سرحدوں تک پھیل گئی ۔ محض 30 سال کی عمرمیں اس نے 3000 میل کا علاقہ فتح کرلیا ۔ ہندوستان میں داخل ہوتے ہی اس کی فوج ملتان کی طرف بڑھی۔ اس وقت ملتان میں ’’ملوئی قوم‘‘ آباد تھی جس کی شجاعت اور بہادری دور دور تک مشہور تھی۔ ملتان میں میدان جنگ تیار ہوا تو ملوئی قوم نے اس کی فوجوں کا ڈٹ کرمقابلہ کیا۔ اسی معرکے کے دوران ایک تیر اس کی کمر کی ہڈی میں آلگا اور ریڑھ کی ہڈی کے اندر پیوست ہوگیا۔ حکماء کی کوششوں کے باوجود یہ تیر نہ نکل سکا۔ وہ بہادر جنگجو اس حالت میں بھی جنگ لڑنے پر بضدتھا ۔ اس کی ضد اور جنون کو دیکھتے ہوئے حکماء نے تیر کا بیرونی حصہ کاٹ دیا تاکہ وہ جنگ جاری رکھ سکے ۔ سرزمینِ ملتان پر گھمسان کا رَن پڑا لیکن یہاں بھی فتح کا تاج اسی شہسوار کے سر آن سجا۔ ملتان فتح کرنے کے بعد بھی وہ آگے بڑھنے کا خواہشمند تھا لیکن کئی سالوں سے مسلسل حالتِ جنگ میں رہنے کی وجہ سے اس کے فوجی تھکاوٹ کا شکار ہوچکے تھے اور وطن واپسی کا سوچنے لگے تھے ۔ ایسی صورتحال میں بھی اس نے سمجھ بوجھ سے کام لیا اور اپنی وفادار فوج کے خلاف جانے کی بجائے ان کی خواہش پر رضامندی کا اظہار کردیا اور فوجوں کی واپسی کا فیصلہ کرلیا ۔
وہ اپنی ماں سے ازحد محبت کرتا تھا۔ جب بھی وہ کوئی معرکہ سر کرتا اس کا دل مچلنے لگتا کہ وہ یہ خوشخبری اپنی ماں کو سنائے۔ ملتان سے واپسی کے وقت وہ تقریباً آدھی دنیا کا فاتح بن چکا تھا۔ وہ جلد سے جلد مقدونیہ پہنچ کر اپنی ماں کواپنی کامیابی کی داستان سنانا چاہتا تھا لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ بابل کے مقام پر ایک رات اسے شدید نمونیہ ہوگیا۔ حکماء نے کافی علاج معالجہ کیا لیکن طبیعت میں بہتری نہ آسکی ۔آہستہ آہستہ اسے اندازہ ہونے لگا کہ اس کا وقتِ آخر آن پہنچا ہے ۔ بیماری کے دوران وہ گہری سوچوںمیںڈوبا رہنے لگا۔ایک رات جب اس کی طبیعت کچھ زیادہ ہی ناساز تھی اس نے اپنے تمام جرنیلوںکو اپنے خیمے میں طلب کرلیا ۔ تھوڑی ہی دیر بعد تمام جرنیل اس کے سامنے کھڑے تھے ۔ وہ سب بھی اس کی ناسازی ء طبع پر نہایت افسردہ تھے ۔
’’ میرے بہادر ساتھیو! مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرا دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آگیا ہے۔ میری تین خواہشیں ہیں جو میں چاہتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد ضرور پوری کی جائیں۔‘‘
’’ہمارے ہردلعزیز بادشاہ ! آپ کے ہر حکم پر ہمارا سر تسلیمِ خم ہے۔‘‘اس کی فوج کے سپہ سالار نے آگے بڑھ کر نہایت احترام سے کہا ۔
’’ میری پہلی خواہش یہ ہے کہ مجھے میدان جنگ میں ہی دفن کرنے کی بجائے باقاعدہ جنازے کی شکل میں دفن کیا جائے۔ میری دوسری خواہش یہ ہے کہ میری قبر تک جتنا راستہ درمیان میں آئے اس راستے پر سونا ، چاندی اور قیمتی جواہرات پھینکے جائیں جبکہ میری تیسری خواہش یہ ہے کہ میرے دونوں ہاتھ کفن سے باہر ہی رکھے جائیں۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد اس کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہوگئے ۔ اس کی عجیب و غریب خواہشات کا سن کر سبھی جرنیل حیران و پریشان تھے مگر کسی میں بھی اتنی ہمت نہ تھی کہ ایک لفظ بھی کہہ پاتا ۔
سپہ سالار نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھام لیا اور بولا :’’عظیم بادشاہ !آپ کے حکم کی من و عن تعمیل ہوگی۔‘‘
یہ سُن کر اس نے ایک لمبی آہ بھری اور گویاں ہوا :’’ میں ان خواہشات کے ذریعے دنیا کو کچھ سبق دینا چاہتا ہوں جومیں نے بیماری کے ان ہی ایام میں سیکھے ہیں۔ میں جنازے کے بعد اس لئے دفن ہونے کا خواہش مند ہوں کہ میرے جنازے میں آئے ہر شخص کو یہ حقیقت آشکار ہوجائے کہ کوئی حکیم ، طبیب یا ڈاکٹر زندگی نہیں بچاسکتا ۔ دنیا کی ہر چیزموت کے سامنے بے بس ہے۔ اپنی قبر تک تمام راستے میں سونا ، چاندی اور قیمتی جواہرات پھینکنے کے پیچھے یہ حکمت پوشیدہ ہے کہ لوگوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ میں نے پوری زندگی سونا ، چاندی ، جواہرات اور مال و دولت اکٹھی کرنے میں صرف کردی جبکہ جب میں دنیا سے رخصت ہورہا ہوں تو یہ تمام مال ودولت میرے کسی کام کی نہیں ہے۔ میں نے یہ سبق سیکھا ہے کہ زندگی کو مال و دولت اکٹھی کرنے میں صرف کرنا فضول اور بے فائدہ ہے ۔ میری تیسری خواہش دیکھنے والوںکو یہ درس دے گی کہ جب میں دنیا میں آیا تھا تو اس وقت بھی خالی ہاتھ تھا اور اب جب دنیا سے جارہا ہوں ، اس وقت بھی میرے ہاتھ بالکل خالی ہیں۔‘‘ اتنا کہنے کے بعد اس کی آنکھیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بندہوگئیں۔
پیارے دوستو! کیاآپ جانتے ہیں کہ محض 33 سال کی عمرمیں آدھی دنیا فتح کرنے والا یہ عظیم حکمران کون تھا ؟ …نہیں جانتے !!! چلئے کوئی بات نہیں، ہم ہی آپ کو بتادیتے ہیں، یہ عظیم حکمران سکندر اعظم تھا ۔ سکندر اعظم کے بارے میں ایک معروف تاریخ دان نے لکھا تھا :’’سکندر اعظم نے لگ بھگ آدھی دنیا تو جوانی میں ہی فتح کرلی تھی، اگر وہ تھوڑی مدت اور زندہ رہ لیتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ پوری دنیا کافاتح بن جاتا ۔‘‘