جمعہ المبارک کا دن تھا۔نماز جمعہ کے بعد سبھی لوگ مسجد سے باہر نکل رہے تھے،کچھ ابھی نوافل پڑھ رہے تھے ۔ایک بچہ جس کی عمر دس سے بارہ سال رہی ہو گی بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ دُعا مانگ رہا تھا۔اُس کے آنکھوں سے آنسو نکل کر رُخساروں کو چُھومتے دامن گیر ہو رہے تھے ۔وہ اردگرد کے لوگوں سے بے نیاز دُعا میں مشغول تھا۔اس عمر میں اتنی پختگی ۔۔۔۔یہ عمر تو جنونی ہوتی ہے ۔۔یہ عمر بے پرواہ ہوتی ہے ۔آوارگی بھری ہوتی ہے ۔گرم خون ،اُبھرتے جذبات ہوتے ہیں۔آنکھوں میں سپنے سجے ہوتے ہیں ۔شرارتیں ہوتی ہیں اٹکھلیاں ہوتی ہیں ۔عاجزی ،انکساری نہیں ہوتی۔شوخی پن ہوتا ہے ،مغروریت ہوتی ہے ۔عاجزی اور انکساری کی عمر تو بڑھاپے میں ہوتی ہے۔خشوع و خضوع کے ساتھ عبادات بڑھاپے میں کی جاتیں ہیں جب کوئی فکر نہیں ہوتی۔جب کوئی کام نہیں ہوتا تب یہی کام ہوتا ہے ۔انسان اس عمر میں رب تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے ۔
جب اولادٹکرا دیتی ہے۔جب رشتے دار منہ موڑ جاتے ہیں جب اپنے ،اپنے نہیں رہتے ،بے غانے ہو جاتے ہیں۔لیکن میں اِس بچے کی عاجزی دیکھ کر حیرانگی کے عالم میں شرمندہ بھی تھا۔میرے دِل میں تجسّس سا ہوا۔اس عمر میں اِس کی کیا ضرورتیں ہوں گی جو اپنے رب سے اِس عاجزی سے مانگ رہا ہے ۔میرا دِل چاہا اس بچے سے جا کر پوچھوں کہ وہ کیا مانگ رہا ہے۔
میں اپنی نماز مکمل کر چکا تھا۔اپنی جگہ سے اُٹھ کر بچے کے قریب جا کر بیٹھ گیا۔جو نماز پڑھ چکے وہ گھروں کو جاتے وقت اِس بچے کی طرف غور سے دیکھتے جاتے گردنیں پیچھے موڑ موڑکر دیکھتے جاتے تھے۔بچے کے لب ابھی تک ہل رہے تھے ۔ہاتھ اوپر کو اُٹھے ہوئے تھے۔آنکھیں برسات کی طرح برس رہی تھیں۔اُسے مانگنے کاڈھنگ آتا تھا۔وہ اپنے رب سے اردگرد سے بے نیاز ہو کر محو گفتگو تھا۔۔تھوڑی دیر بعد بچے نے دُعا مکمل کی اور اپنے دونوں ہاتھ چہرے پہ پھیرتے ہوئے اُٹھنے لگا تو میں نے مخاطب کیا۔
بیٹا!رب سے کیا مانگ رہے تھے۔؟
ابوّ کے لئے مغفرت،امی کے لئے صبر،وہ ہر وقت روتی رہتی ہیں ناں ،جب سے اباجان فوت ہوئے ہیں اُنہوں نے رونا معمول بنا لیا ہے ۔بہن کے لئے اچھا نصیب اور بھائی کے لئے کتابیں ،کاپیاں ،اپنے لئے بہت سے پیسے۔۔۔پیسے اِس لئے کہ گھر بھرکا خرچہ کر سکوں ۔۔۔
بچے کا جواب سُن کر میں حیران رہ گیا۔چھوٹا سا بچہ اور اتنی پُر اعتماد باتیں ۔۔
میں نے دوسرا سوال کیا۔
بیٹے اسکول جاتے ہو۔؟
جی انکل !میں سکول جاتا ہوں ۔
کون سی کلاس میں پڑھتے ہو۔؟
اُس کے چہرے پہ ناگواری سے پھیل گئی اور کہنے لگا۔
انکل!میں اسکول ضرور جاتا ہوں لیکن پڑھنے نہیں۔۔۔
پھر۔۔۔میں نے حیران ہوتے پوچھا۔
میری امیّ مجھے چنے اُبال کر بنا دیتی ہے جو میں سکول بیچنا جاتا ہوں۔چھٹی کے وقت تک میرے سارے چنے بِک جاتے ہیں۔شام کو بیکری کی دکان پہ کام کرتا ہوں اور صبح سویرے جب موذن اذانیں دے رہا ہوتا ہے ۔مجھے امی جگادیتی ہے ۔میں نماز پڑھتے ہی اخبار فروشی کے لئے گھر سے نکل جاتا ہوں۔دو گھنٹے بعد گھرا ٓتا ہوں ۔ناشتہ کرتا ہوں اور چنے اُٹھا کر سکول روانہ ہو جاتا ہوں ۔۔۔میرے محلے کے بچوں کے کندھوں پہ سکول بیگ ہوتے ہیں اور میرے سر پہ چنوں سے بھرا تھال۔سکول جاتے بچے مجھے بہت اچھے لگتے ہیں ۔اُچھلتے ،کودتے وہ بہت بھلے لگتے ہیں۔یہی اپنا معمول ہے انکل ۔
چھوٹا بھائی تیسری میں پڑھتا ہے اور بہن پانچویں میں ۔امی سلائی کڑھائی کرتی ہے ۔بوڑھی ہے اب ان کا سہارا میں ہی ہوں ناں۔۔۔
چھوٹی سی عمر میں کتنی سنجیدگی سے باتیں کر رہا تھاجیسے بزرگ باتیں کرتے ہیں ،فیصلے کرتے ہیں ،نصیحتیں کرتے ہیں۔وقت نے اُسے سنجیدہ کر دیا تھا۔اُس نے ہمت نہیں ہاری تھی۔اُس کے حوصلے بلند تھے۔زندگی کو بسر کرنانہیں چاہتا تھا گزارنا چاہتا تھا۔میں سوچوں میں کھو گیا تھا لیکن اُس بچے کے سوال نے مجھے واپس لاکھڑا کیا۔
انکل!اِن لوگوں کو کیا ہو گیا ہے ۔؟
یہ سب تو میرے ابو کے دوست تھے۔ابو اور میں اسی مسجد میں نماز پڑھتے تھے۔میں اُن کے ساتھ ہی آیا کرتا تھا۔یہی لوگ میرے ابو سے خوشی خوشی ملتے تھے ۔مجھے بھی پیار کرتے تھے۔لیکن اب ۔۔۔ابو نہیں رہے تو یہ مجھے دیکھتے تک نہیں ۔۔ان کو کیا ہو گیا ہے انکل۔؟اور ہاں انکل !مائیںکبھی جھوٹ تو نہیں بولتیں ناں۔
ہاں بیٹا ایسا ہی ہے ماں کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔۔۔میںنے شرمندہ ہوتے ہوئے جواب دیا۔۔۔
لیکن انکل !میری ماں روز مجھ سے جھوٹ بولتی ہے ۔
وہ کیسے بیٹا۔؟
جب بھی شام کو کھانے کا وقت ہوتا ہے ۔وہ ہمیں کھانا کھلاتی ہے ۔۔۔۔خود نہیں کھاتی ۔۔۔۔جب میں کہتا ہو ں ۔۔۔ماں !آپ بھی کھائوں ناں۔۔۔تب کہتی ہے ۔۔۔
بیٹا !آپ کھائوں ،میں نے کھانا بناتے وقت کھا لیا تھا۔۔۔لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے ۔وہ ہماری بھوک مٹانے کے لئے خود بھوکی رہتی ہے ۔ماں جھوٹ بولتی ہے ناں ۔۔۔انکل!
میری روح تک تڑپ اُٹھی۔۔ننھے بچے نے میری آنکھیں کھول دی تھیں۔میرے سوئے ضمیر کو جگا دیا تھا۔ ہم اردگرد سے کتنے غافل ہیں ۔ہمارے اردگرد کتنے ایسے بچے بستے ہیں جن کو ہماری ضرورت ہو گی۔جن کے حقوق ہم پہ لاگو ہیں ۔ایسے لوگوں کی مدد کرنی چاہیے۔
انکل!خدا حافظ۔میرا بیکری جانے کا وقت ہو رہا ہے ۔وہ بچہ یہ کہتے ہوئے سلام کرتے مسجد سے باہر چلا گیا اور میں وہی بیٹھا سوچوں کی گرداب میں خود سے شرمندہ ہو رہا تھا۔چھوٹے سے بچے نے میرے منہ پہ طمانچہ مارا تھا۔۔۔کیا ہی اچھا ہو ہم اپنے لئے نہیں دوسروں کے لئے جینا سیکھ لیں۔۔